ہفتہ, نومبر 23, 2013

نعمتوں کی قدر کیجئے



جب کوئی شخص آپ کا کوئی معمولی کام کردیتا ہے تو بے ساختہ آپ کی زبان پر”شکریہ“ کے کلمات  آجاتے ہیں کیوں کہ انسانی طبیعت میں یہ بات داخل ہے کہ محسن کا شکریہ ادا کیا جائے اور اسے عقیدت کی نگاہ سے دیکھا جائے، حالاں کہ دنیا کے احسانات معمولی اور عارضی ہوتے ہیں، توپھر منعم حقیقی کے ساتھ  ہمارا کیسا معاملہ ہونا چاہيے جس کے احسانات تلے ہم سرتاپا ڈوبے ہوئے ہیں ۔
جی ہاں!: قطر ہ آب سے پيدا ہونے والا انسان کبھی کچھ نہيں تھا ، اللہ تعالی نے اسے نو مہينہ تک رحم مادر ميں رکھا ، کرعارضی پر وجود بخشا اور بے شمار ظاہری وباطنی نعمتوں سے مالامال کیا۔ اس منعم حقيقی نے ديکھنے کے ليے دو آنکھيں دیں، سننے کے ليے دو کان ديے ، چلنے کے ليے دو پير ديے، پکڑنے کے ليے دو ہاتھ ديے، سونگھنے کے ليے ناک ديا، بولنے کے ليے زبان دی ، سمجھنے اورغورکرنے کے ليے عقل سے نوازا۔ مزید یہ کہ مال ودولت، لباس وپوشاک، گھر ومکان ، آب ودانہ ، صحت وعافيت،  آلواولاد اور خوشحالی وسعادتمندی عطا کی اور سب سے بڑھ  کر ایمان کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ پھرہم اس نکتے پربھی غور کرکے دیکھیں کہ آج ہم جس طرح فارغ البال زند گی گزار رہے ہیں چند سالوں پہلےہم اس سے محروم تھے۔ ظاہر ہے یہ توفیق اسی ذات باری تعالی نے دی جس کی بنیاد پر ہم برسرروزگار ہوئے اور ہماری معاشی حالت بہتر سے بہتر ہوتی گئی ۔
 اب ذرا دل کو ٹٹولیں اور من سے پوچھیں کہ کیاہمارے اندر ان نعمتوں کو پاکرتشکروامتنان کے جذبات پیدا ہوئے؟ کیاہم نے اللہ تعالی کی عنایت کردہ نعمتوں کی قدر کی؟ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری یہ نعمتیں باقی رہیں، اور ان میں مزید افزائش ہو توہمیں نعمتوں کی قدرکرنی ہوگی ۔  وہ کیسے ؟

شکر کا جذبہ بیدار رکھیں:

ہمارے اندر شکر کا جذبہ ہمہ وقت بیدار رہناچاہيے ۔ ہمارے دل میں ان نعمتوں کی اہمیت وعظمت بیٹھی ہو، پھر زبان سے بھی اللہ کی حمد وثنا بجالائیں۔ اللہ کے رسول صلي الله عليه وسلم نے فرمایا :
” بیشک اللہ تعالی ایسے بندے سے خوش ہوتا ہے جو ایک لقمہ کھائے تو اللہ کی حمد وثنا بیان کرے اور ایک گھونٹ پئے تو اللہ کی حمد وثنا بیان کرے “۔ (مسلم)
اللہ تعالی کی بے پناہ نعمتوں کا ذکر اور اس کی کرم نوازی کا اظہاربھی کرناچاہيے۔ لیکن تکبر اور فخر کے طور پر نہیں بلکہ اللہ کے فضل وکرم اور اس کے فضل سے زیربار ہوتے ہوئے اور اس کی قدرت وطاقت سے ڈرتے ہوئے کہ کہیں وہ ہمیں اس نعمتوں سے محروم نہ کر دے ۔ اللہ تعالی نے انسانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
” اے انسانو! اپنے اوپر اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو“ (الفاطر 3) 
اور اپنے نبی کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
 ” اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرتا رہ “ ۔(الضحیٰ 11)

 بندگان خدا کا حق نکالیں:

 مال اللہ کا عطیہ اوراس کی بخشش ہے جس سے آج ہم مالامال ہیں تو بہت سارے لوگ محروم ہیں، یہ اللہ تعالی کی مصلحت بالغہ ہے کہ اس نے کسی کو مالدار بنایا تو کسی کو غریب رکھا لیکن یہ اصول بتایا کہ مالداروں کے مالوں میں غریبوں کا حق ہے۔ چنانچہ فرمایا:
 وَآتوھُم مِن مَالِ اللّٰہِ الَّذِی آتاکُم ( النور33
ان غرباء ومساکین کو اللہ کے مال میں سے دوجو اس نے تمہیں دیا ہے“۔  گویا کہ مال اللہ کا ہے، اور اس کی بقا کے ليے ضروری ہے کہ ہم اس میں سے غریبوں کا حق نکالیں تاکہ غریبوں کی ہمدردی و غم خواری ہو اور ہمارا مال بھی آفات سے بچ جائے
آج عالمی کساد بازاری نے پوری دنیا کے سرمایہ داروں کا کچومر نکال رکھا ہے وجہ ظاہر ہے کہ انہوں نے مال کا حق ادا نہیں کیا بلکہ سود در سود کے چکر میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کو مہلت دیتے رہے یہاں تک کہ قدرت نے ایسی مالی آفت بھیجی کہ لمحوں میں ارب پتی قلاش بن گيے ۔ یہ عبرت ونصیحت کے ليے ایک زندہ مثال ہے۔
پوری انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جن اصحاب ثروت نے بھی غریبوں اور مفلسوں کو نظر انداز کیا ان کی نعمتیں چند سالوں میں ان کے ہاتھ  سے نکل گئیں، ہم اپنے معاشرے میں اس کا مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ کل جو مالدار تھے آج غریب ہیں اور کل جو غریب تھے آج مالدار ہیں ایسا محض اس وجہ سے ہوا کہ مالداروں نے اپنے مال کی قدر نہیں کی اور غرباء ومساکین کو بھلا بیٹھے ۔
مسلم معاشرے میں آج کتنے غرباء ومساکین ہیں جو نان شبینہ کو ترس رہے ہیں، کتنی بیوائیں اور یتیم بچے ہیں جنہیں سوکھی روٹی بھی میسر نہیں، کتنی مسلم دوشیزائیں ہیں جن کی شادی نہ ہونے کی وجہ سے جوانی ڈھلتی جا رہی ہے کتنے غریب والدین ہیں جواپنے بچوں کو بنیادی تعلیم دلانے سے بھی قاصر ہیں ۔
اب ہم ذرا اپنے ماضی کی طرف جھانک کر دیکھیں اور دل پر ہاتھ رکھ  کر جواب دیں کہ جب ہم برسرروز گار نہ تھے، جب ہماری معاشی حالت اچھی نہ تھی تو ہم پر کیسا گزر رہا تھا....؟ بالکل آج ویساہی گذر رہاہے مسلم معاشرے کے ان غریبوں، مسکینوں اور فقیروں پر .... لہذا ہمیں چاہيے کہ ہم اپنے پیسوں پر سانپ بن کر نہ بیٹھیں بلکہ انہیں عنایت  ربانی سمجھیں اورکم ازکم ان کی زکاة  ضرور نکالیں تاکہ مسلم معاشرے کے یہ کمزور لوگ جو معاشی جد و جہد میں پیچھے رہ گيے ہیں زندگی کی سانس لے سکیں ۔

خرچ میں اعتدال برتیں:

نعمتوں کے استعمال میں ہمیشہ اعتدال برتنا چاہيے، لیکن آج امت مسلمہ کا المیہ ہے کہ غیر قوموں کے شانہ بشانہ اس کا مالدار طبقہ غیر ضروری اشیاء میں اپنے پیسے پانی کے جیسے بہا رہا ہے،  شادی بیاہ میں لاکھوں روپيے خرچ کرديئے جاتے ہیں، گھرکی تعمیر میں لاکھوں کا صرفہ آتا ہے، آرائش وزیبائش کی چیزوں میں اسراف سے کام لیاجاتا ہے۔ حالاں کہ اگر انہوں نے اپنی آمدنی سے ہلکی سی کٹوتی کرلی ہوتی تو کتنے غریبوں کا بھلا ہو سکتا تھا ۔ بلکہ ہمیں کہنے دیا جائے کہ اگر آج اصحاب ثروت منصوبہ بندی کے ساتھ خرچ کرتے اور مال کو اللہ کا عطیہ سمجھتے ہوئے اس میں سے غرباء ومساکین کا حق نکالتے تو مسلم معاشرے میں ایک غریب بھی نہ رہتا ۔
پردیسی بھائی ! اگرہم نے ان نعمتوں کوپاکراپنے اندر شکر کا جذبہ بیدار رکھا، اپنے مالوں میں سےغرباء مساکین کا حق نکالا، اور خرچ کرنے میں میانہ روی اختیار کی توہم بے پناہ اجروثواب کے مستحق تو ٹھہریں گے ہی .... اس کے ساتھ  ساتھ  ہم پرمزید نعمتوں کا فیضان ہوگا، یہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے:
 ”اگرتم شکرگزاری کروگے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا “ ۔ (ابراہیم 7)
یہی نہیں بلکہ اللہ تعالی ساری مخلوق سے عذاب کو روک لے گا،  یہ بھی اس کا وعدہ ہے
” اللہ تعالیٰ تمہیں سزا دے کر کیا کرے گا اگر تم شکرگزاری کرتے رہو اور باایمان رہو “۔ (النساء147)      

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔