ملکوں اور قوموں پر حکمرانی کی بابت تو ہم بار بار سنتے رہتے ہیں لیکن کچھ
اللہ کے بندے ایسے ہوتے ہیں جو دلوں پر حکومت کرتے ہیں،اور پہلی ملاقات ہی میں
دلوں کوجیت لیتے ہیں۔ ايک داعی کو ميدان دعوت ميں کاميابی کے ليے دلوں کو جيتنے کی
ضرورت ہے ،مياں بيوی کوخوشگوار ازدواجی زندگی گزارنے کے ليے دلوں کو جيتنے کی
ضرورت ہے ۔ معاشرہ کو الفت ومحبت کا پيکر بنانے کے ليے دلوں کو جيتنے کی ضرورت ہے،
ايک کمپنی کو بہترين کارکردگی کے ليے دلوں کو جيتنے کی ضرورت ہے ، اور ايک حاکم کو
ملک کی سلامتی اور استحکام کے ليے دلوں کو جيتنے کی ضرورت ہے - اگر ہم بھی فاتح
قلوب بننا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی دلوں پر فتح پانے کے وسائل کواپنی عملی زندگی میں
جگہ دینی ہوگی ۔ وہ وسائل کیا ہیں؟ آئيے ہم ان وسائل کی جانکاری حاصل کرتے ہيں جو
دلوں پر قابو پانے ميں ہمارے ليے بہترين معاون ہيں ۔
(1)
پہلا وسيلہ : پاکيزہ تبسم اور سچی مسکراہٹ:
دلوں کے ليے تبسم کو وہی حيثيت حاصل ہے جو اشيائے خوردنی ميں نمک کو،
مسکراہٹ اور شگفتہ روئی نہاں خانہ دل ميں نيک جذ بات کے وجود کا پتہ ديتی ہے ۔ ايسے
انسان کا چہرہ گلاب کی طرح کھلا رہتا ہے، اس کی طرف دل خود بخود کھينچتا ہے۔ اور
پہلی ملاقات ہی دل پر ايک نقش چھوڑ جاتی ہے ، خوش مزاج چہرے پر تبسم کے پھول کھلتے
ہی تنگ دلی وتنگ نظری کے سارے پودے يک قلم مرجھا جاتے ہيں، اور خيابان دل ميں الفت
ومحبت کے پودے لہلہانے لگتے ہيں ۔ تبسم ميں
کچھ خرچ نہيں ہوتا تاہم اس کے اثرات نہايت
عجيب اور ديرپا ہوتے ہيں ۔ يہی وجہ ہے کہ جب رحمت عالم صلی الله عليه وسلم کو فاتح
عالم بناکر بھيجا گياتو يہ صفت ان ميں کوٹ کوٹ کر بھردی گئی، ہمارے حبيب کو تبسم
اس قدر محبوب تھا کہ جس دن آپ کی وفات ہوئی اس دن بھی تبسم فرمايا، مرض الموت کے
عالم ميں جبکہ ابوبکررضی الله عنه لوگوں کی امامت کر رہے تھے، گھرکا پردہ اٹھاکر
جانثاروں کو ديکھتے ہيں توآپ کے چہرے پر تبسم کھل جاتا ہے (بخاری) ايک جانثار
عبداللہ بن حارث رضی الله عنه آپ کی اس صفت کی گواہی ان لفظوں ميں ديتے ہيں : ”ميں نے رسول اللہ صلی الله عليه وسلم سے زيادہ
تبسم فرماتے ہوئے کسی کو نہ ديکھا “ (ترمذی)
ايک دوسرے جانثار جريربن عبداللہ البجلی رضی الله عنه فرماتے ہيں ”جب سے ميں
نے اسلام قبول کيا ہے کبھی آپ صلی الله عليه وسلم نے مجھے اپنے پاس داخل ہونے سے
نہيں روکا اور جب کبھی ديکھا مسکرائے ....“(سنن ابن ماجہ ) اسی تبسم کی بدولت دنيا
آپ کے
زيرنگيں ہوئی اور آپ فاتح عالم بنے
جودلوں کو فتح کرلے وہی فاتحِ زمانہ
تبسم سے دلوں کے بند دريچے تو
کھُل ہی جاتے ہيں تاہم تعليم محمدی کی خصوصيت ديکھو.... کہ اس ميں بھی اجروثواب
رکھا گيا ہے :” تيرا اپنے بھائی کے چہرہ پر مسکرانا صدقہ ہے “ (ترمذی) اور يہ تاکيد کی گئی کہ : ”کسی بھی خير
کے کام کو حقير مت سمجھو‘ خواہ تيرا اپنے بھائی کے ساتھ شگفتہ چہرہ کے
ساتھ ملنا ہی کيوں نہ ہو “ (مسلم )
عرض کرنا يہ ہے کہ جب تبسم دلوں کا قفل کھولتا ہے، حسد، کينہ کپٹ دور کرتا
ہے ، نفسياتی وجسمانی سکون فراہم کرتا ہے ، ذہن کو صيقل کرتا ہے،پھريہ ہمارے حبيب
کی سنت ہے ، اس پربے پناہ اجروثواب رکھاگيا ہے، توآخر ہم اس صفت کو اپنانے ميں
بخالت کيوں کرتے ہيں ....؟کيا ہم نے دعوت ميں اس نسخے کو آزمايا ....؟ کيا ہم نے
اپنے شريک حيات کے ساتھ اس نسخے کو آزمايا ....؟ کيا ہم نے اپنے دوست واحباب کے
ساتھ اس نسخے کو آزمايا ....؟ آخر اس ميں ہمارا جاتا کيا ہے ....؟ ذرا اسے آزما کر
تو ديکھيں ! کےسا معجزانہ اثر دکھاتا ہے .... ہم پر .... ہمارے معاشرے پر ....
اورہماری ازدواجی زندگی پر ....
(2) سلام میں پہل کرنا:
سلام میں پیش قدمی کرنے سے جہاں ایک طرف طبیعت میںانکساری پیدا ہوتی ہے
تودوسری طرف مخاطب کے دل پر اُس کا اثرنہایت گہراہوتا ہے بشرطیکہ سلام کے ساتھ گرم
جوش مصافحہ بھی پایا جائے ۔
سلام کرنے سے دلوں میں قربت پیدا ہوتی ہے،الفت ومحبت میں اضافہ ہوتا ہے ،
بغض وحسد ، کینہ کپٹ ،بدظنی اور دل کی دیگر بیماریاں کافور ہوتی ہیں ۔
صحيح مسلم میں ارشادِ نبوی ہے ”
....کیامیں تجھے ایک ایسی چیز نہ بتاوں کہ اگر تم اُس پر عمل پیرا ہوجاوتو آپس میں
محبت پیدا ہوجائے گی ، وہ ےہ کہ تم باہم سلام پھیلاواور اُس کی اشاعت کرو “ ۔
بسااوقات زمانے سے ایک شخص دوسرے کو دیکھتا آتا ہے لیکن سلام نہ کرنے کے
باعث ایک طرح کی دوری بنی رہتی ہے جب ہی سلام کا لفظ زبان سے نکلتا ہے یکایک یہ
دوری نزدیکی میں بدل جاتی ہے ۔
دلوں کو جیتنے کے ليے حضورپاک صلى الله عليه وسلم نے اِس وسیلے کا بکثرت استعمال کیا ، يہاں
تک کہ جب آپ کا گزر بچوں کے پاس سے ہوتا تو آپ اُن کوبھی سلام کرتے تھے۔
ہجرتِ مدینہ کے بعد اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے اپنے پہلے خطبہ میں سلام ہی کو فروغ
دینے کی دعوت دی تھی کیوںکہ وہاں ایک ایسے معاشرے کی تشکیل مقصود تھاجس کے افراد
الفت ومحبت کی لڑی میں پرو دئيے گيے ہوں ۔
لہذا ا گر آپ دلوں کو جیتنا چاہتے ہیں توسلام میں پیش قدمی کریں، گرمجوشی کے
ساتھ مصافحہ ومعانقہ کریں، پھر دیکھیں اُس کا اثر دلوں پر....۔
(3) تحفے تحائف اور ہدیوں کا لین دین:
ہدیوں کا تبادلہ دلوں کی صفائی کا بہترین ذریعہ ہے، اس سے روابط مستحکم
ہوتے ہیں ، الفت ومحبت میں اضافہ ہوتا ہے اور دلوں میں نیک جذبات پیدا ہوتےہیں ۔
حضورِ پاک صلى الله عليه وسلم خود ہدیہ دیتے ، ہدیہ قبول کرتے ، اور ہدیہ پیش کرنے والے کو دعا دیتے
تھے ۔
یوں تو ہرطبقہ اور ہرمیدان کے لوگوں کو ہدیہ کے ذریعہ رام کیا جا سکتا ہے
تاہم جو تعلقات نہایت نازک ہوتے ہیں اور جن کے استحکام کی ہر وقت ضرورت ہے مثلاً
میاں بیوی ، والدین، اور رشتے داروں کے تعلقات توانہیں مضبوط کرنے میں ہديہ کلیدی رول
ادا کرتا ہے ۔
ہدیہ کا پیمانہ ہمیشہ خلوص پرمبنی ہوتا ہے ، ہدیہ گوکہ معمولی قیمت کا ہو‘
دل پرجادو کا سا اثرکرتا ہے ، لہذا دلوں پر قابو پانے کے ليے ہرشخص کو اِس وسیلے کا
استعمال کرنا چاہيے بالخصوص زوجین کے بیچ ہديے کا باہمی تبادلہ ہوتے رہنا چاہيے۔
شوہر بیوی کو ہدیہ پیش کرےاور بیوی شوہرکو ہدیہ دے ، اِس سے ازدواجی زندگی جنت
نظیر بنی رہتی ہے۔ اگر بیوی یہ چاہتی ہے کہ شوہر کے دل کی کنجی اس کے ہاتھ میں ہو
تو اِس نسخے کو آزماکر ديکھے،شوہرکے پیسے ہی سے ہدیہ خرید کر اُس کے دل پرقابوپا
سکتی ہے۔
(4) نرم وسنجیدہ گفتگو:
کسی سے ملیں تو تواضع وانکساری سے ملیں، گفتگو میں سنجیدگی ہو، ناپ تول کر
بات کریں، یاوہ گوئی، غیرمفید، اورلایعنی باتوں سے پرہیز کریں ۔ باتوں میں ایسی
شیرینی ہو کہ دل پر تیرکا سا کام کرے ۔ مجلسوں اور نشست گاہوں میں بکثرت باتیں
کرکے حاضرین پر اپنا رعب ڈالنے اور چھا جانے کی کوشش کر نا معیوب ہے، ایسی حرکت سے
دلوں میں بیٹھا وقار بھی جاتا رہتا ہے ۔ اِسی ليے اللہ تعالی نے بندوں کو درست
گفتاری کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا :
وقل لعبادی یقولوا التی ھی أحسن (الإسراء53 )
” اور میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ وہ بہت ہی اچھی باتیں منہ سے نکالا کریں“
۔
اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کی پوری زندگی خوش گفتاری ونرم گوئی کا
نمونہ تھی ، آپ کی نرمی وآسانی ہی کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام آپ پرفریفتہ تھے ،
آپ پرجان چھڑکنا اپنی سعادت سمجھتے تھے ، فاتحِ قلوب اورمربی اعظم ا دلوں کوفتح
کرنے کا ایسا ملکہ رکھتے تھے کہ ہرملنے والا آپ کی محبت کا اسیر بن جاتا اور آپ کے
اصحاب میں ہرایک کو گمان ہوتا کہ سب سے زیادہ آپ مجھ سے ہی محبت کرتے ہیں ۔ حضرت
عمروبن عاص رضى الله عنه بکثرت مجلس نبوی میں بيٹھا کرتے تھے، وہ اپنا واقعہ بیان
کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم اس توجہ اور خلوص کے ساتھ مجھ سے گفتگو
فرماتے اوراِتنا خیال رکھتے کہ مجھے محسوس ہونے لگا کہ شاید میں اپنی قوم کا سب سے
بہتر آدمی ہوں ۔ ایک دن اُن سے رہا نہ گیا اور اپنے حبیب کے سامنے ایک سوال کے
ذریعہ اِس محبت کے احساس کو مؤکد کرنا چاہا چنانچہ محب کی زبان گویا ہوئی : من أحب
الناس إلیک یا رسول اللہ” اے اللہ کے رسول ! آپ کے نزدیک سب سے محبوب انسان کون ہے
“....؟ آپ نے فرمایا : ”عائشہ“ انہوں نے کہا : مردوں میں.... ۔ آپ نے فرمایا: اُس
کے باپ ابوبکر ،انہوں نے پوچھا : پھرکون ؟ آپ نے فرمایا : عمر۔ پوچھا : عمر کے
بعد.... آپ نے چند دیگر صحابہ کرام کا نام گنایا ۔ کہتے ہیں پھر میں نے وضاحت کے
ساتھ حقیقت معلوم کی تو آپ صلى الله عليه وسلم نے بلا رو رعایت صاف صاف بات کہہ دی
۔ تب مجھے اپنی اِس حرکت پرنہایت شرم آئی اور میں دل ہی دل میں خیال کرنے لگا کہ
لیتنی ماسألت ” کاش کہ میں نے آپ سے یہ سوال نہ کیا ہوتا “ ۔ (ترمذی)
ہمیں بھی دلوں کو جیتنے کے ليے خوش گفتاربننا پڑے گا اورگفتگومیں سنجیدگی
لانی ہوگی۔ واقعہ یہ ہے کہ کتنے لوگ علم، صلاحیت ، اور تجربہ رکھنے کے باوجود بات
کا سلیقہ نہ ہونے کی وجہ سے ملنے والے پر پہلی ملاقات ہی میں غلط چھاپ چھوڑ جاتے
ہیں ۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم اپنی گفتگو اور اسلوبِ بیان پر سنجیدگی سے غورکریں۔
0 تبصرہ:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔