ہفتہ, نومبر 23, 2013

شعبده بازى اور انسانى سماج پراس كے خطرناک اثرات

  
ابھی ہم اکيسويں صدی سے گذر رہے ہیں، یہ صدی ایجادات کی صدی کہلاتی ہے، عقل ودماغ کے عروج کی صدی کہلاتی ہے، دنيا دوسرے سياروں پر زندگی گزارنے کے بارے ميں سوچ رہی ہے ۔ سائنسی ایجادات کا فيضان ہماری مٹھی ميں ہے، ہرمیدان میں ترقی ہی ترقی دکھائی دے رہی ہے ، ليکن افسوس اسی صدی ميں مہذب اور ترقی يافتہ کہلانے والے لوگ ايسا ايسا کام کرنے لگے ہيں کہ جسے سنکر جانوروں کی دنيا ياد آجاتی ہے، عقل ماتم کرنے لگتی ہے، دماغ چکرانے لگتا ہے ۔ اور بار بارہمارے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ لوگ عقل رکھتے ہوئے ايسا سب کچھ کيوں کررہے ہيں.... وہ ہے کيا چيز ....؟

پچھلے دنوں اخباربینی کے دوران میری نظر سے تين ايسے واقعات گزرے جس سے ميں چونک پڑا ۔ان واقعات ميں درس ہے، عبرت ہے، نصیحت ہے اس ليے آج کے حلقے ميں ہم اسی پر تبصرہ کریں گے، آئيے پہلے ان واقعات کو سنتے ہیں۔

پہلا واقعہ : بھارت کی معروف رياست آسام کے علاقہ ميں ايک شخص نے اپنے ہردل عزيز بیٹے کوجان سے مار ڈالاہے کيوں کہ کسی تان ترک نے اسے بتايا تھا کہ اگر تم نے اپنے بچے کو قتل کرديا تو بہت جلد مالدار ہوجاؤگے، مال کے نشہ ميں اس نے اپنے لخت جگر کا خون کرنے سے گريز نہ کيا ۔ يہ پہلا واقعہ ہوا

دوسرا واقعہ: عروس البلاد ممبئی کا ہے جو ہندوستان کا معاشی راجدھانی تصور کيا جاتا ہے ۔ يہ واقعہ بھی پہلے ہی واقعہ کے جيسے ہے ليکن اس ميں مال کے نشہ ميں مدہوش باپ نے باپ بيٹی کے رشتے کو پامال کيا ہے ۔ ايک باپ اپنی ہی بيٹی کے ساتھ نو سال تک جنسی زيادتی کرتا رہا کيوں کہ اسے جيوتشی نے يہ مشورہ ديا تھا کہ اگر اپنی معاشی حالت دور کرنا چاہتے ہو، تو اس کا ايک ہی علاج ہے کہ اپنی بيٹيوں کو اپنی ہوس کا شکار بناؤاور خود باپ نے اپنی ايک دوسری جوان بچی کو تانترک کے حوالے کياجو اسی کے گھرميں اس بچی کی عصمت دری کرتا رہا ۔ اس طرح اندھا باپ اپنی ايک بچی کو اور تانترک اس کی دوسری بچی کوہوس کا شکار بنائے رہا ۔ تاکہ مال ودولت کی ديوی گھر ميں بسيرا کرلے ۔

تيسرا واقعہ: جو پہلے دو واقعات سے زيادہ تعجب خيز اور دلدوز ہے ۔ يہ واقعہ ہندوستان کی راجدھانی دہلی کا ہے جو تہذیب وثقافت کا مرکز سمجھا جاتا ہے ۔ اسی شہر ميں کچھ مہينہ پہلے ايک ايسا واقعہ پيش آيا جس نے انسانیت کو پانی پانی کر دیا ۔ چار بھائيوں نے راتوں رات دولت حاصل کرنے کے چکر ميں تانترکوں کے کہنے پر اپنی ماں کو بے رحمی سے قتل کردیا ۔ اس ميں سب سے زيادہ چوں کا دینے والی بات يہ ہے کہ چاروں بھائی تعليم يافتہ تھے ۔
 ان ميں سے ایک بھائی ایم بی اے.... دوسرا انجنيئراور باقی دو.... بارہويں جماعت کے طالب علم تھے ۔ ان چاروں بھائيوں کو کسی جيوتشی نے يہ بات کہہ دی تھی کہ ان کے گھر ميں خزانہ موجود ہے.... مگر اسے حاصل کرنے کے ليے اپنی ماں کی بلی دینی ہوگی اور غالبا انہیں یقین بھی دلایا کہ وہ دوبارہ ان کی والدہ کو زندہ کردے گا ۔ دولت کے لالچ ميں اور راتوں رات امیر بننے کی خواہش ميں ان نوجوانوں نے اپنی ماں کی بلی چڑھا دی ۔ پھر تانترکوں نے انہیں مشورہ دیا کہ ماں کو زندہ کرنے کے ليے اور خزانہ حاصل کرنے کے ليے انہیں اور تین انسانوں کی بلی دینی ہوگی ۔ دولت کے نشہ ميں اندھے ان چاروں بھائيوں نے ماں کی بیماری کا جھوٹا بہانا بناکر سگی بہن اور اس کے شوہر کی دو بہنوں کو بُلوایا اور ان کے گھر میں داخل ہوتے ہی ان پر حملہ کردیا۔ اچانک ہوئے اس بھیانک حملے سے وہ عورتیں بُری طرح زخمی ہوگئیں اور مدد کے ليے آواز دینے لگیں ۔ چيخ پکار سن کرآس پاس کے لوگ جمع ہوئے اور اُنہيں دبوچ لیا ۔

عزيز قارى ! يہ تين واقعات ہیں ۔ پہلے واقعہ میں باپ نے تانترک کے مشورہ پر دولت کے نشہ میں اپنے لخت جگر کی بلی چڑھائی ۔ دوسرے واقعہ میں باپ نے تانترک کے مشورہ پر دولت کے نشہ میں نوسال تک اپنی بيٹی کی عصمت دری کی اورتانترک سے بھی کروایا۔ اور تيسرے واقعہ ميں چارتعلیم یافتہ بھائیوں نے دولت کے نشہ میں اپنی ماں کی جان لی اورتین عورتوں پرقاتلانہ حملہ کیا۔
اب سوال يہ ہے کہ ان لوگوں نے ايسا کیوں کیا ....؟ کیسے انہیں جرات ہوئی ایسی اوچھی حرکت کرنے کی ....؟ توان واقعات ميں دوہی نکتہ سامنے آرہا ہے پہلا نکتہ.... مال کی محبت .... اور دوسرا نکتہ ....توہم پرستی ۔ مال کی محبت دل ميں پيدا ہوئی اور اللہ پرایمان تھا نہیں ....اس ليے جو چاہا کر گزرے ۔

مال ویسے ہی فتنہ وفساد کی جڑ ہے ....جب مال کی محبت دل ميں آتی ہے، تو انسان ہرطرح کے حدود کو چھلانگ جاتا ہے، جائز وناجائز کسی چيز کی پرواہ نہيں کرتا۔ اللہ پر مضبوط ایمان ہی اسے اپنے دائرے میں رکھتا ہے ....بلکہ اہل ایمان کے ليے بھی مال کو سب سے بڑا فتنہ قرار دیا گیا ہے ایک صحیح حدیث میں آتا ہے کہ.... دو بھوکے بھیڑ ایک بکری پر چھوڑے جائیں وہ جس قدر بکری کو نقصان پہنچائیں گے، اس سے کہیں زیادہ مال انسان کے دین کو نقصان پہنچاتا ہے .... اسی سے آپ انداز ہ لگا سکتے ہیں کہ جب مال اہل ایمان کے ليے اس قدر خطرناک ہے تو ایسے لوگوں کا کیا حال ہوگا جن کا ایمان ہی اللہ پر نہ ہو .... چنانچہ وہی کچھ ہوا ....جو آپ نے ان تین واقعات میں سماعت فرما ۔

يہیں پر ہمیں اسلام کی عظمت سمجھ میں آتی ہے ۔ وہ اسلام.... جودنیاکا سب سے بڑا مظلوم مذہب ہے، جو سارے انسانوں کی رہنمائی کے ليے آيا تھا .... لیکن دنیا کی اکثریت اسے آج تک نہیں سمجھ سکی ہے .... اس کی تعلیم آفاقی اور ہم گیرہے.... اس کا پورا نظام ....فطرت سے ہم آہنگ ہے.... اسلام نے جو اللہ کا تصور اور مال کا تصور پيش کیا ہے ....اگر یہ دونوں تصور انسان کے پیش نظر ہو تو ....ایک انسان سے قطعا اس طرح کے حرکات سرزد نہیں ہو سکتے ۔۔ یہ تينوں واقعات الگ الگ لوگوں کے ہیں لیکن جو چیز ان تينوں کے درمیان قدرمشترک ہے وہ ہے ایمان کا فقدان، اللہ پر ايمان نہ ہونا، اللہ تعالی کی ذات وصفات اور اس کی عظمت سے ناواقف ہونا ...
جی ہاں! ایک مسلمان جو صحیح عقیدے کا حامل ہوگا وہ ایسا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا .... کیوں....؟ اس ليے کہ ایک مسلمان کا ایمان ہوتا ہے کہ اللہ تعالی ایک ہے، اسی نے ساری دنيا کو سجایا ہے، اسی کے ہاتھ  میں آسمان وزمین کی بادشاہت ہے ،وہی ساری مخلوق کو پال رہاہے، چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی مخلوق سب کا رزق اسی کے ہاتھ  میں ہے ۔ وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نہیں دیتا، اسی کے ہاتھ  میں غیب کا علم ہے، آئندہ ہونے والی باتوں کو صرف وہی جانتا ہے اس کے علاوہ اور کوئی ذات نہیں جو غيب کی خبردے سکے ۔ يہ دنیا دارالامتحان ہے....ابتلا وآزمائش کی جگہ ہے ....يہاں ایک انسا ن کو ایک مقررہ مدت کے ليے بسایا گیا ہے....ایک دن اسے مرنا ہے .... اپنے خالق ومالک کے پاس پہنچنا ہے .... اپنے کيے کا حساب وکتاب چکانا ہے .... اوراسی حساب کی بدولت یاتو اس کے ليے جنت کی دائمی نعمتیں ہیں یا جہنم کے دردناک عذاب ۔

یہی ایمان ایک مسلمان کو سکون بخشتا ہے ۔ امن وعافیت عطا کرتا ہے ۔ چنانچہ 
ایک بندہ خوشحالی وبد حالی ہرحالت ميں اللہ سے راضی رہتا ہے، اگر خوشحالی ملتی ہے تو اس نعمت پر اللہ کا شکر بجالاتا ہے کہ بارالہا يہ نعمت تیرے ہی الطاف وعنایات کے طفیل ملے ہيں ، تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے ۔ پھروہ اس نعمت ميں غریبوں اور مسکینوں کو بھی یاد رکھتا ہے ۔ لیکن اگر وہ بدحالی میں ہوتا ہے یا کسی مصیبت سے دوچار ہوتا ہے توپریشان نہیں ہوتا۔ اس وقت بھی اللہ کے فیصلے سے راضی برضا رہتا ہے اور صبرسے کام لیتاہے ۔ مومن کی اسی کیفیت کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان کیا :
’’عجبا لأمر المومن إن أمرہ کلہ لہ خیر إن أصابتہ سراء شکر فکان خیراً لہ وإن أصابتہ ضراء صبر فکان خیرا لہ‘‘ ( رواه مسلم ) 
" مومن کا معاملہ کیا ہی تعجب خیز ہے۔ اس کے ہرمعاملہ ميں اس کے ليے بھلائی ہوتی ہے ۔ اگر اسے خوشحالی پہنچتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتاہے اوريہ اس کے ليے اچھا ہوتا ہے اور اگروہ بدحالی سے دوچار ہوتا ہے تو صبر کرتا ہے اور صبر کرنا بھی اس کے ليے خیرکا باعث ہوتا ہے "۔

لیکن جب ایک انسان کا ایمان اللہ پرنہیں ہوتا .... تو وہ در در کی ٹھوکریں کھاتا ہے، ہرچیز سے ڈرتا ہے ، یہاں تک کہ اپنی پرچھائی سے بھی خوف کھاتا ہے، اپنے ہی جیسے انسان کو نفع ونقصان کا مالک بنا بیٹھتا ہے ....اس کے سامنے سرٹیکتا ہے .... اور مادہ پرستی کے رنگ میں ایسا رنگ جاتا ہے کہ اُس کے اندر سے اچھے اور بُرے کی تمیز مٹ جاتی ہے ۔ وہ انسان نما جانور بن جاتا ہے .... یہاں تک کہ اسے یہ بھی احساس نہیں رہتا کہ کسے قتل کررہا ہے .... کسے بلی دے رہا ہے .... اورکس کی عزت پرحملہ کررہا ہے ....

عزيز قارى ! يہ تو ايسے لوگوں کا حال ہے جن کا ایمان سرے سے اللہ پر نہیں ہوتا لیکن جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہيں صدحیف ایمان کی کمزوری کی وجہ سے ان کے اندر بھی مختلف قسم کی توہم پرستياں پائی جاتی ہيں، جی ہاں! آج بھی ہمارے معاشرے میں توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی بہت حد تک پائی جاتی ہے .... امتحان میں کامیابی حاصل کرنی ہو.... یا ....من پسند کی شادی ،.... شوہر کو قبضہ میں کرنا ہو ....یا.... دشمنوں کو ناکام بنانا .... ہر کام کے ليے تعویز اور عملیات کا سہارا لیا جاتا ہے، جعلی عاملوں کا سب سے آسان شکار عورتیں ہوتی ہيں، واقعہ يہ ہے کہ خواتین مردوں سے کئی گنا زیادہ توہم پرست ہوتی ہیں، اس ليے عامل حضرات ان کو اپنے چنگل ميں پھنسانے کے ليے طرح طرح کے ڈرامے کرتے ہيں ۔اور یہ بھولی بھالی عورتیں شوہر کے خون پسینے کی کمائی ایسے عاملوں کے حوالے کر دیتی ہيں حالاں کہ حقیقت میں یہ فراڈ ہوتے ہيں جن کا کام ہی رنگ بازی اور ٹھگی کرکے دولت کمانا ہوتا ہے ۔

اس مناسبت سے مجھے ایک واقعہ یاد آيا، تقریبا دس سال پہلے کی بات ہے ایک مرتبہ کچھ عورتوں کی صحبت ميں میرے رشتے دار کی ایک عورت ایک جیوتشی کے پاس گئی، غالبااسے کسی طرح کی شکایت تھی ، جیوتشی نے بطور علاج اسے ایک تعويز دیا، گھر آئی تو کسی نے اسے کہا کہ ایسا کرنا غلط ہے ....وہ فورا تعویز ليے میرے پاس آئی، میں نے اصرار کرکے ان سے وہ تعويز لیا اور ان کے سامنے ہی کھولا تو سب لوگ ديکھ کر دنگ رہ گيے کہ اس میں.... کچھ پتے ہیں....کاغذ کے ٹکڑے ہیں....کچھ گھاس ہے ....اور مٹی ہے .... یہ دیکھ  کروہ عورت سر پیٹ کر رہ گئی کہ فراڈ نے میرے پيسے کھا لیا ۔

بہرکیف عرض کرنا يہ ہے کہ ایسے جعل سازوں سے کبھی دھوکہ نہیں کھانا چاہيے کیوں کہ وہ ایمان کا سودا تو کرتے ہی ہيں سادہ لوح عوام سے اچھی خاصی رقم بھی اينٹھ لیتے ہيں ۔ ان کی اشتہاری مہم دیکھ کر ایک عقلمند آدمی سمجھ جاتا ہے کہ یہ شخص جھوٹا ہے ۔ لیکن چوں کہ ان کا ٹارگٹ عقل مند لوگ ہوتے ہی نہیں .... وہ تو توہم پرستوں پر صرف وار کرتے ہیں .... اس ليے آج بھی ان کی دکان خوب چمک رہی ہے ۔ ذرا ان کے بین رز پر بھی ایک نظر ڈال لیجئے گا .... ” تمناؤں کی تکمیل کے ماہر ....سنگ دل محبوب آپ کے قدموں میں....چوبيس گھنٹے میں ہر کام ہونے کی گارنٹی “ یہ اور اس طرح سے ملتے جلتے ہزاروں پوسٹر برصغیرپاک وہند کے چھوٹے بڑے شہر کی سڑکوں پر کثرت سے نظر آتے ہيں ۔

ہمارے معاشرے کے عام لوگ اس قسم کی عبارت پر فورا ہی پھسل جاتے ہیں .... اس کی بنیادی وجہ لوگوں کی ضعیف الاعتقادی ہے۔ جوکہ ہندو کلچر کے اثرات سے در آئی ہے ۔ اصل میں برصغیر کے باسیوں نے اسلام قبول کرلیا لیکن ہندو مذہب کے بعض اثرات ان میں باقی رہ گيے، چنانچہ آج بے شمار ايسے ہندوانہ رسم ورواج مسلم تہذیب کا جزءبن چکے ہیں جن کا اسلام میں کوئی وجود نہیں، مثلا رسم جہيز، رسم بارات، لڑکیوں کو حق وراثت سے محروم رکھنا وغیرہ .... اسی طرح شگون لینا، جادو ٹونے پر حد سے زیادہ اعتقاد رکھنا، اور نفسیاتی امراض کو جن بھوت اور پریت کا کارنامہ سمجھنا اسی باعث ہے ۔ پھر يہ بھی ایک وجہ بنی کہ چوں کہ معاشرے میں ہندووں کے ساتھ  سکونت اختیارکرنی پڑی۔ اس ليے جو لوگ توہم پرستی چھوڑ چکے تھے ان کی آئندہ نسلوں میں سے بہت سے لوگوں نے دوبارہ یہ رويہ اپنا لیا ۔

اس فتنے کی سرکوبی کیسے کی جائے ؟:

جب ہم جیوتشیوں، نجومیوں، اور کاہنوں کی حقیقت کو سمجھ  گيے کہ کیسے وہ سادہ لوح عوام اور بالخصوص خواتین کواپنا یرغمال بناتے ہیں، لوگوں کی عقل کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں، لوگوں کے ایمان کا جنازہ نکال رہے ہیں ، سادہ لوح عوام کو اُلٹا سیدھا سمجھا کر اپنا الو سیدھا کر رہے ہيں اور دجل وفریب کے ذريعہ لوگوں کے جیب سے پیسے اینٹھتے ہیں ۔تواب ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کو اس دلدل سے کیسے نکالاجائے، اوراس فتنے کی سرکوبی کیسے کی جائے ۔ توآئیے ہم جاننے ہیں کہ اس فتنے کی سرکوبی کیسے کریں اور وہ کونسے وسائل ہیں جن کواپناکر ہم اس فتنے سے بچ سکتے ہیں ؟

پہلا وسیلہ:

اس سلسلے میں سب سے پہلا وسیلہ یہ ہے کہ لوگوں کو اللہ تعالی کی ذات وصفات اور اس کی عظمت سے واقف کرایا جائے، حقیقت یہ ہے کہ لوگ کاہنوں اور نجومیوں سے رجوع محض اس وجہ سے کرتے ہیں کہ وہ اللہ کی صفات سے پوری طرح آگاہ نہیں ۔ اگراللہ رب العالمین کی ذات کا صحيح تصور ہوتا تو قطعا نجومیوں سے رجوع نہ کرتے ۔ علم غیب کا مسئلہ ہی لیجئے مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ غیب کا علم صرف اللہ تعالی کے پاس ہے ، اللہ تعالی کے علاوہ کوئی غیب نہیں جانتا، چاہے کوئی نبی ہویا ولی.... پیر ہو یا فقیر ۔

 قل لا یعلم من فی السماوات والارض الغیب الا اللہ ( سورة النمل 65)

" (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) آپ فرما دیجئے کہ آسمان وزمین میں اللہ کے علاوہ کوئی غیب نہیں جانتا۔"
یہاں تک کہ اللہ تعالی نے اپنے حبیب ، سرکارِ دوعالم ، سرورکائنات محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے غیب کے علم کی نفی کردی جو سرورکائنات تھے، جن سے بہترانسان اس دھرتی پر کوئی پیدا ہوا نہ پیدا ہو سکتا ہے ۔ سورہ اعراف آیت نمبر188پر غور کیجئے ! اللہ تعالی اپنے نبی کو خطاب کرکے فرمارہا ہے قُل اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ اُن سے کہہ دیں:

لا أملك لنفسي نفعا ولا ضرا إلا ما شاء اللـه ولو كنت أعلم الغيب لأستكثرت من الخير وما مسني السوء . ﴿الأعراف: 188﴾
" میں اپنی ذات کے ليے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے ۔اوراگرمجھے غیب کا علم ہوتا تومیں بہت سے فائدے اپنے ليے حاصل کرلیتا اورمجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا" ۔ 
حضرت عائشہ رضي الله عنها فرماتی ہیں :

من حدثکم أن محمداً کان يعلم ما في غد فقد أعظم على الله الفرية ( بخارى ومسلم ) 
جس نے تجھ سے یہ بیان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم كل كيا هونے والا ہے اس كا علم ركهتے تھے تو اس نے جھوٹ بولا۔ پھرآپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی قل لا یعلم من فی السماوات والارض الغیب الا اللہ "اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) آپ فرمادیجئے کہ آسمان وزمین میں اللہ کے علاوہ کوئی غیب نہیں جانتا"۔
ایک دفعہ ایک شادی کے موقع پر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرماتھے، انصار کی چند بچیاں گا رہی تھیں، گاتے گاتے انہوں نے یہ مصرعہ کہا : وفینا نبی یعلم مافی غد ہم میں ایک ایسا پیغمبر ہے جو جانتا ہے کہ کل کیا ہوگا ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فورانکیر فرمائی اور کہا:
” یہ نہ کہو بلکہ وہی کہوجو گا رہی تھیں“ (صحيح بخاری )
 اسی سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے تھے تو دوسرے کس کھیت کی مولی ہوتے ہیں ۔اور جب یہ بات طے ہوگئی کہ اللہ کے علاوہ کوئی دوسراغیب نہیں جانتا ....تو ہم کیوں کر کاہنوں اورنجومیوں سے رجوع کرتے ہیں؟ آخرہم کیوں اپنا ہاتھ دکھاکر اور اپنی پریشانی بتاکر اپنے ایمان کو برباد کرتے ہیں....؟
اسی طرح جو لوگ کاہنوں اور نجومیوں کے پاس جاتے ہیں وہ حقیقت میں اللہ کے اس فرمان پر ایمان نہیں رکھتے:
وإن يمسسک اللہ بضر فلا کاشف لہ إلا ھو ( سورة الأنعام 17)
 اگر تجھے کوئی تکلیف پہنچے تو اسے اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا دور نہیں کرسکتا ۔ اگرلوگوں کو اس فرمان الہی پر یقین ہوتا کہ مصیبتوں اور پریشانیوں کو اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا دور نہیں کرسکتا توکیا وہ کاہنوں اور نجومیوں کے پاس آتے ....؟ فیصلہ آپ خود کر سکتے ہیں .... گویا کہ اللہ کی ذات کا صحیح عرفان نہ ہونے کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے ۔
یہ تو پہلا نکتہ ہوا کہ لوگوں کے ذہن میں يہ بات بيٹھائی جائے کہ مصیبتوں کو اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا دور نہیں کرسکتا ....

دوسرا وسیلہ:

دوسرا وسیلہ یہ کہ کاہنوں اور نجومیوں کے پاس آنے کا حکم بھی لوگوں کو بتايا جائے حقیقت يہ ہے کہ اکثر لوگ جہالت کی بنیاد پر ایسے لوگوں کے پاس آتے ہیں اگر ان کو پتہ ہوتا کہ ان کا معاملہ کفروضلالت پر مبنی ہے کیوں کہ وہ امورِ غیب کا دعوی کرتے ہیں تو قطعا ان کے پاس نہ آتے امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من أتی عرافا فسألہ عن شیء لم تقبل لہ صلاة أربعین لیلة (مسلم )
ترجمہ: جو شخص کسی نجومی کے پاس آیا اور اس سے کسی چیز کے بارے میں دریافت کیا تو چالیس رات تک اس کی نماز قبول نہ ہوگی ۔ اور سنن ترمذی کی روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أتی کاھنا فصدقہ بما یقول فقد کفربما أنزل علی محمد (ترمذى)
جو کسی کاہن غیب کے دعویدار  کے پاس آیا اور اس کی بات کی تصدیق کی تو اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری گئی شریعت کا انکار کیا ۔
اب آپ غورکیجئے کہ ایک شخص نجومی کے پاس آتا ہے اور اس سے کسی چیز کی بابت پوچھتا ہے تصدیق نہیں کرتا تواس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی اور اگر اس کی تصدیق کردیتا ہے تو گویا اس نے شریعت محمدی کا انکار کیا ۔ تصورکریں !!
! کیسی وعید ہے يہ .... نجومیوں اور کاہنوں کے پاس آنے والوں کے حق میں .... ایک آدمی جب جانتا ہوگا کہ یہ فرمان ....ہمارے بنی کی زبان فیض ترجمان سے نکلا ہوا ہے ....تو کیا یہ جانتے ہوئے بھی جیوتشیوں، نجومیوں اور شعبدہ بازوں کے دروازے پر دستک دے گا ....؟ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی مسلمان ایسا ہوگاجسے اللہ کے رسول کا فرمان معلوم ہو پھربھی اس کی مخالفت کرے.... لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ جیوتشیوں اور کاہنوں کے پاس آنے والے لوگوں کے سامنے اسلام کی تعليمات رکھی جائیں ۔

تیسرا وسیلہ:

اس سلسلے میں تیسرا وسیلہ یہ ہے کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ اسلام میں ہر بیماری کا علاج موجود ہے، اللہ تعالی نے بیماری پیدا کی ہے تو اس کا علاج بھی بتایا ہے، لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ بیماری میں ڈاکٹروں سے رجوع کریں ....اگرواقعی نظر لگ گئی ہے .... یا جادو کا اثر ہے ....یا جن وآسیب نے پریشان کر رکھا ہے .... تو اس سلسلے میں قرآن کریم نے ہمیں اس کا مکمل علاج بتا دیا ہے ۔ چنانچہ قرآن کریم ....جسے اللہ تعالی نے انسانوں کی ہدایت کے ليے اتا را .... اس میں ایک آیت ہے
 وننزل من القرآن ماھو شفاءو رحمة للمومنین (الاسراء82)
یعنی يہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنوں کے ليے تو سراسر شفا اور رحمت ہے ۔ ایک مسلمان کے ليے ایسی بیماریوں کا علاج کہاں ہے ....؟ کاہنوں اور نجومیوں کے پاس نہیں .... بلکہ قرآن کریم میں.... اللہ تعالی نے اپنے کرم ورحمت سے ايسے وظائف مشروع کيے ہیں جن کو اختیار کرکے ایک آدمی جادو وآسیب وغیرہ سے محفوظ رہ سکتا ہے ۔ وہ وظائف کیا ہیں ....؟ نوٹ کیجئے
(1) ہر فرض نماز سے سلام پھیرنے کے بعد مشروع وظائف کا اہتمام کیا جائے، اور آیت الکرسی کی تلاوت کی جائے ۔
(2) سونے سے پہلے بھی آیت الکرسی پڑھ لینی چاہيے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من قرا آية الکرسی فی لیلة لم یزل علیہ من اللہ حافظ ولا یقربہ الشیطان حتی یصبح (بخارى ) 
جس شخص نے رات کو آیت الکرسی پڑھ لیا ۔ اس کے اوپر اللہ کی طرف سے ایک نگراں برابر رہتا ہے ۔ اور شیطان اس کے قریب نہ آئے گا یہاں تک کہ صبح ہوجائے ۔ (بخاری )
(3) قل ھو اللہ احد ، قل أعوذ برب القلق ، اور قل أعوذ برب الناس
 کا صبح شام ورد کرناچائيے۔
(4) اسی طرح اس دعا کا ورد کثرت سے کرنا چاہيے-
اعوذبکلمات اللہ التامات من شرماخلق
میں اللہ تعالی کے کلمات تامہ کے ذریعہ مخلوق کی برائی سے پناہ مانگتا ہوں ۔ کیوں کہ حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص کسی مقا م پر پڑاوڈالا اور اس نے یہ دعا پڑھی تو اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔
(5) اسی طرح یہ دعابھی کثرت سے کرنی چاہيے:
 بسم اللہ الذی لا یضر مع اسمہ شیء فی الارض ولا فی السماءوھو السميع العلیم 
شروع کرتاہوں اللہ کے نام سے، جس کے نام کے ساتھ زمین وآسمان کی کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے ۔

چوتھا وسیلہ:

جیوتشیوں کے اثر کو ختم کرنے کے ليے چوتھا وسیلہ یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے کاہنوں کاپردہ فاش کیا جائے۔  یہ لوگ کاہن کب بنے ؟ جب انہوں نے شیطانوں اور خبیث جنوں سے تعلق پیدا کیا ....اور یہ بات واضح ہے کہ کوئی بھی جن یا شیطان اس وقت تک اس کے قبضے میں نہیں آسکتا جب تک کہ وہ اللہ کی نافرمانی نہ کریں ۔ اورکیا آپ جانتے ہیں.... یہ کاہن اپنا اثر دکھانے کے ليے اللہ کے کلام کو نجاست سے لکھتے ہیں ۔۔ جی ہاں! نجاست اور گندگی سے لکھتے ہیں ۔۔ کبھی نجس خون سے لکھتے ہیں، کبھی قرآن پاک کے حروف کو الٹ کر لکھتے ہیں .... تب جاکر شیطان اس کی خدمت کرتا ہے .... لہذا کبھی ان کے ظاہر سے دھوکہ نہ کھاناچاہيے .... ۔
کچھ لوگ جو ان جیوتشیوں پرفریفتہ ہیں کہتے ہیں کہ بھئی وہ تو دل کی باتیں بتا دیتا ہے ، میں جب اس کے پاس گیا تو جاتے ہی اس سے ہماری ساری بیماری کو بتانا شروع کردیا .... يہاں تک کہ اس نے میرا نام ....میرا خاندان سب بتادیا.... ایسی صورت میں ہم اس پر یقین کیسے نہ کریں ؟

ایسے لوگوں سے ہم کہنا چاہیں گے کہ میرے بھائی یہ آپ کی سادہ لوحی ہے کہ آپ ان پر یقین کرنے لگے ہیں اور یہ ایمان کی کمزوری کی دلیل بھی ہے .... کیوں کہ اگر ہمارا ایمان مضبوط ہوتا تو ہم سمجھتے کہ دل کی بات کوئی انسان نہیں جان سکتا جب حبیب خدا جو ساری انسانیت سے افضل ہیں وہ غیب نہیں جانتے تھے تو دوسرے کس کھیت کی مولی ہوتے ہیں چنانچہ اللہ تعالی نے اپنے نبی سے کہا : قل لا یعلم من فی السماوات والارض الغیب الا اللہ اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) آپ فرمادیجئے کہ آسمان وزمین میں اللہ کے علاوہ کوئی غیب نہیں جانتا۔ دل کی بات اللہ کے علاوہ اورکوئی جان ہی نہیں سکتا ۔ چاہے کوئی نبی ہویا ولی.... پیر ہو یا فقیر ۔

لیکن سوال یہ ہے کہ وہ بتاتے کيسے ہیں ؟


تو اس سلسلے میں جاننے کی بات یہ ہے کہ ان کا تعلق جنوں اور شیاطین سے ہوتا ہے اور جنوں اور شیاطین کو اللہ تعالی نے ایسے اختیارات دے رکھے ہیں کہ وہ ان کے سہارے اس شخص کا نام ، پتہ اور بیماری بتادیتے ہیں ۔ اللہ تعالی نے فرمایا : 

                إنہ یراکم ھو وقبیلہ من حیث لا ترونھم ( الأعراف 27 ) 
وہ اور اس کا لشکر یعنی شیطان اور اس کے چیلے تم کو ایسے طور پر دیکھتا ہے کہ تم ان کو نہیں دیکھتے ہیں ۔ اسی طرح حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ ہر انسان کے ساتھ میں اس کا ساتھی شیطان لگا ہوا ہے صحيح مسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ما منکم من أحد إلا وقد وکل بہ قرینہ من الجن وقرینہ من الملائکہ (روه مسلم )
 تم میں سے ہر ایک کے ساتھ اس کا ایک ساتھی جنوں میں سے اور دوسرا ساتھی فرشتوں میں سے مقرر ہے ۔
اسی طرح بخاری ومسلم کی ایک تیسری روایت میں آیا ہے:
إن الشیطان یجری من ابن آدم مجری الدم من العروق (بخارى ومسلم )
 یعنی ابن آدم میں شیطان اس طرح چلتا ہے جیسا کہ خون رگوں میں گردش کرتا ہے ۔ 
ان نصوص سے پتہ یہ چلا کہ شیاطین اورجنوں کو اللہ تعالی نے ایسی طاقت دی ہے کہ وہ ہر وقت انسان کو دیکھ سکے، اورشیطان ایک آدمی کے ساتھ ہمیشہ رہتا ہے اور اس کے پاس اس شخص کی ساری معلومات ہوتی ہيں، چنانچہ جب یہ شخص کاہن یا نجومی کے پاس جاتا ہے تو اس کے ساتھ رہنے والا جن کاہن کے کان میں اس کے تعلق سے پوری معلومات دے دیتا ہے ۔ اوراسی کی بنیاد پر یہ کاہن بکنا شروع کرتا ہے کہ تمہارا نام یہ ہے .... تمہارے پاس یہ بیماری ہے .... تم ا س خاندان کے ہو .... وغیرہ وغیرہ ۔

تاریخ میں آتا ہے کہ کسی خلیفہ کے پاس ایک نیک وصالح عالم دین آئے، وہیں پر ایک کاہن بیٹھا ہوا تھا ۔ جس کے پاس بہت ساری کنکریاں رکھی ہوئیں تھیں وہ لوگوں سے کہتا کہ سب لوگ ان میں سے کنکریاں اٹھا ئیں اور اپنے پاس گن کر رکھیں.... میں جان لوں گا کہ کس کے پاس کتنی کنکریا ہیں ۔ سب نے کنکریاں اٹھائیں اور ان کے ساتھ ساتھ اس اللہ والے نے بھی کنکریاں لی ۔ جب سب گن چکے توکاہن نے ہر ایک کی کنکریوں کی تعداد بتاناشروع کیا کہ آپ کے پاس اتنی کنکریاں ہيں اور آپ کے پاس اتنی کنکریاں ہيں ۔ لیکن جب کاہن نے اس اللہ والے کی کنکریوں کی تعداد بتا یا تو غلطی کر گیا ۔ تب اللہ والے نے اس کا پردہ فاش کیا کہ سب نے کنکریوں کو شمار کیا تو ان کے ساتھ ان کے مقرر جن نے بھی شمارکیا لیکن میں نے شمار ہی نہیں کیا ا س ليے جن کو معلوم نہ ہوسکا ۔

جنوں کو یہ قدرت حاصل ہے کہ وہ منٹوں میں ہندوستان یا پاکستان کے کسی مشہور ہوٹل کی مٹھائی لاکر رکھ دے ۔ یا کسی بند الماری یا سوٹ کیس سے کسی کا مال اٹھالائے یا زیور اٹھا لائے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جبکہ اس مٹھائی پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو یا سامان کو رکھتے وقت بسم اللہ نہ کہا گیا ہو۔ پتہ یہ چلا کہ اس طرح کا کشف شیطانی بالادستی کا نتیجہ ہے ۔ اور کشف کوئی بزرگی کا معیار نہیں اگر کشف ہی بزرگی کا معیار ہوتا تو جنگ بدر میں صحابہ کرام کو فرشتے اترتے ہوئے نظر نہیں آئے لیکن شیطان کو نظر آرہے تھے قرآن مجید میں ہے
واذ زين لهم الشيطان أعمالهم وقال لا غالب لكم اليوم من الناس وإني جار لكم فلما تراءت الفئتان نكص علىٰ عقبيه وقال إني بريء منكم إني أَرىٰ ما لا ترون إني أَخاف اللَّه واللـه شديد الْعقاب ﴿ الأنفال: 48 ﴾
اور جب شیطانوں نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کر دکھائے اور کہا کہ آج کے دن لوگوں میں سے کوئی تم پر غالب نہ ہو گا اور میں تمہارا رفیق ہوں (لیکن)
 جب دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابل (صف آرا) ہوئیں تو پسپا ہو کر چل دیا اور کہنے لگا کہ مجھے تم سے کوئی واسطہ نہیں میں تو ایسی چیزیں دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ  سکتے ۔ اس آیت کریمہ سے پتہ یہ چل رہا ہے کہ شیطان کو فرشتے نظر آئے لیکن صحابہ کرام کو نظر نہ آسکے تو کیا کوئی یہ کہنے کی جرات کرے گا کہ شیطان صحابہ کرام سے زیادہ بزرگی رکھتا ہے ؟

رہا مسئلہ ان کاہنوں کی باتوں کی صحت کا ۔ کیوں کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ فلاں جیوتشی نے جیسا کہا تھا بالکل ویسا ہی ہوا ۔ تو اس سلسلے میں سب سے پہلے میں آپ کی خدمت میں وہ حدیث پیش کرتا ہوں جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی ایک کاہن سے مناقشہ کیا تھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک کاہن تھا جو دوسروں کوان کے دل کی باتیں بتا دیا کرتا تھا، اس کا نام ابن صیاد تھا ۔ صحيح مسلم کی روايت ہے ایک مرتبہ ابن صیاد کاہن نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ اپنے جی میں کوئی بات چھپائیں، میں بوجھوں گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جی میں سورة الدخان کا خیال فرمایا: پھر ابن صیاد سے فرمایا کہ میں نے ایک بات اپنے دل میں چھپائی ہے تم بوجھو کیا ہے ....؟
 ابن صیاد نے کہا : الدخ الدخ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

اخسأ فلن تعدو قدرک (مسلم)
” تو رسوا ہو اپنی حد سے آگے نہ جا سکے گا “ ۔ ذرا اس واقعے پر سنجیدگی سے غور کریں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل میں سورہ الدخان چھپایا تھا اور ابن صیاد نے الدخ الدخ کہہ بھی دیا.... اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے معاملے پر تعجب کا اظہار نہیں فرمایا: کہ ماشاءاللہ یہ دل کی بات جان گیا جیسا آج کے بعض مسلمان سوچتے ہیں بلکہ کیا فرمایا :

اخسا فلن تعدو قدرک
” تو رسوا ہو اپنی حد سے آگے نہ بڑھ سکے گا “ کیوں! اس ليے کہ آپ اس کی حقیقت جا ن گئے تھا ۔

اب سوال یہ ہے کہ بتایا کیسے ؟....

اس کا جواب بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دے دیا ہے ۔ الحمد للہ دین اسلام کی خوبی یہ ہے کہ یہ ایک مکمل نظام حیات ہے اس میں زندگی کے ہر شعبے کا حل موجود ہے .... تو سنيے اس کا جواب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے
صحیح مسلم کی روايت ہے ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تارا دیکھا جو کسی کو مارا گیا تھا ....یہ تارا کیا ہے .... ؟ شاید ہمارے قارئین اس سے واقف ہوں گے .... کبھی کبھی آپ دیکھتے ہوں گے کہ آسمان سے تارے گر تے ہیں ....جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا دیکھا، پھر روشنی ہوئی تو آپ نے ساتھیوں سے مخاطب ہوکر فرمایا :

 دور جاہلیت میں تم اس بارے میں کیا کہتے تھے؟

 ساتھیوں نے جواب دیا : ہم کہتے تھے کہ کوئی عظيم شخصیت پیدا ہوئی ہے یا کوئی عظیم شخصیت مرگئی ہے ۔ آپ نے فرمایا :
 کسی کی موت پر یہ نہیں پھینکا جاتا اور نہ ہی کسی کی زندگی پر، ہمارا رب جب کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو حاملین عرش تسبیح کرتے ہیں۔ پھر ان میں سے قریبی آسمان والے تسبیح کرتے ہیں، اسی طرح ان سے متصل نیچے والے ۔ پھر آسمان دنیا پر تسبیح کا غلغلہ پہنچتا ہے، پھرآسمان والے حاملین عرش فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ ہمارے رب تعالی نے کیا فیصلہ صادر فرمایا :

 وہ ایک دوسرے کو بتاتے ہیں حتی کہ یہ بات آسمان دنیا تک پہنچ جاتی ہے ۔ شیاطین وہاں سے بات چراتے ہیں اور نیچے زمین پر اپنے ساتھیوں کی طرف پھنکتے ہیں، جو بات درست پہنچ جاتی ہے وہ حق ہے ۔ مگر وہ اس میں اپنی طرف سے سو جھوٹ کا اضافہ کر دیتے ہیں ۔
اور صحیح مسلم ہی کی ایک دوسری روایت ہے، کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کاہنوں کی بابت پوچھا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
 لیسوا بشیء یہ کچھ بھی نہیں-
سائل نے کہا : 
فانھم یحدثون احیانا الشیء یکون حقا
”بعض اوقات یہ مستقبل کی باتیں بتاتے ہیں اور یہ سچ ثابت ہوتی ہیں“ ۔ آپ نے فرمایا :
تلک الکلمة من الحق یخطفھا الجنی فیقرھا فی أذن ولیہ قر الدجاجة فیخلطون فیھا أکثر من مائة کذبة - (مسلم)
یہ سچی بات جنوں نے آسمان سے جھپٹی ہوتی ہے، جو اپنے ساتھیوں کے کانوں میں ڈال دیتے ہیں اور وہ اس کے ساتھ سیکڑوں جھوٹ ملا دیتے ہیں ۔
ہماری پوری بات کا خلاصہ یہ ہوا کہ ان کاہنوں اور جیوتشیوں کا تعلق چوں کہ جنوں اور شیطانوں سے ہوتا ہے اس ليے وہ ایسی ایسی باتیں بتا دیا کرتے ہیں، اور ا س کے ذریعہ لوگوں کے جیب سے پیسے اینٹھ تے ہیں اور ہم ہیں کہ ان کی باتوں پر یقین کرکے اپنے ایمان کو خراب کرتے ہیں۔ لہذا ہر شخص کو چاہیے کہ وہ ایسے لوگوں کے فریب سے دور رہے ۔

اخیر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بارالہا تو ہمیں توحید وسنت کا متوالا بنا اور ایمان کا سودا کرنے والے سارے فتنے سے دور رکھ آمین یا رب العالمی

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔