کیلنڈر کی انسانی تاریخ میں بڑی اہمیت رہی ہے اورآج بھی ہے ۔ جب آپ اس وقت دنیا میں رائج کیلنڈروں کو دیکھیں گے توآپ کو پتہ چلے گا کہ ہردورمیں لوگوں نے کیلنڈروں کو کسی مذہبی شخصیت سے وابستہ کیا۔ جیسے یہودی کیلنڈر سلیمان علیہ السلام کے فلسطین پرتخت نشینی سے شروع ہوتا ہے۔ عیسائی کیلنڈر عیسی علیہ السلام کی پیدائش کی طرف منسوب ہے، بکرمی کیلنڈر بکرماجیت کی پیدائش سے منسوب ہے۔ جبکہ اسلامی کیلنڈر کسی کی پیدائش اوروفات کی تاریخ سے وابستہ نہیں بلکہ ہجرت سے وابستہ ہے ۔ جس میں ہرسال ایک مسلمان کے لیے سبق ہوتا ہے کہ اگر اللہ کے دین کو اپنانے کی وجہ سے سماج دشمن بن جائے ، اپنے بیگانے بن جائیں ، وطن اورپیدائشی سرزمین تنگ ہونے لگے،تو اپنے دین کی حفاظت کے لیے ہجرت کی جائے ، جیسا کہ صحابہ نے اوراللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے ہجرت کی تھی ۔ اورہجرت کے بعد مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم نصیب ہوا تھا۔ ....
اب آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ہجری کیلنڈر کی شروعا ت کب سے ہوئی ؟ تو سن 17ہجری میں عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہجری کیلنڈر کی شروعات ہوئی ہے ۔ جس کا قصہ یہ ہے کہ حضرت ابوموسی اشعر ی رضی اللہ عنہ جو یمن کے گورنرتھے ، ان کے پاس دوسرے خلیفہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے خطوط آتے تھے ،اس پر مہینہ تو لکھا ہوتا لیکن سال کا اندراج نہیں ہوتا تھا جس کی وجہ سے ان کوسمجھنے میں پریشانی ہوتی تھی کہ یہ خط اس سال کا ہے کہ پچھلے سال کا ہے ۔ اس کی شکایت انہوں نے عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے کی تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے باضابطہ اس سلسلے میں ایک میٹنگ بلائی اور صحابہ کرام رضوان الله عليهم اجمعين کے فیصلے سے یہ طے پایا کہ ہمارا اپنا ايك کیلنڈر ہوناچاہیے جس کی شروعات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے ہو ۔ اس پر سارے صحابہ کا اتفاق ہوگیا اور اس طرح ہجری کیلنڈر کی شروعات ہوئی ۔ آج اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کو 1434 سال ہوچکے ہیں اورابھی ہجرت كا 1435 واں سال شروع ہے ۔
عزیزقاری ! ہجری تقویم قوم مسلم کی امتیاز اور پہچان ہے ، ہماری عبادتیں ہجری کیلنڈرسے ہی جڑی ہوئی ہیں ، پنجوقتہ نمازوں کے اوقات ، روزے کی تاریخ ،عیدین ،عاشورہ اورعرفہ کا پتہ اسی تقویم سے ہوتا ہے ، حج کا وقت اسی سے معلوم ہوتا ہے ۔ جب اسلام ایک آفاقی مذہب ہے توضروری تھا کہ اس کے شعائر کی بجا آوری کےاوقات بھی آفاقی طریقے سے ثابت ہوں، ہجری کیلنڈر کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا تعلق چاند سے ہے ، اسے دقیق اور باريك فلکی حساب سے منسلک نہیں کیا گیا جس کا علم محض بعض لوگوں کو ہوسكتا ہے ،جبکہ قمری حساب اتنا آسان ہے کہ شہر ، قصبہ ، دیہات توکجا ایک جنگل ميں رہنے والا آدمی بھی بآسانی چاند کو دیکھ کر پورے یقین کے ساتھ اپنی عبادت کے آغازوانتہا کی معرفت حاصل کرسکتا ہے ۔
مسلمان ہجری کیلنڈر کا استعمال ہر دورمیں کرتے رہے ،اورعالم اسلام میں اس کا چلن رہا، یہاں تک کہ جب 1924 میں مصطفی کمال اتاترک کے ہاتھوں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تواس نے جہاں مختلف اسلامی شعائرپرپابندی لگائی وہیں ہجری کیلنڈر کاخاتمہ کیا اور عیسوی کیلنڈر کوعام کیا ۔ افسوس کہ آج پوری دنیا میں صرف سعودی عرب ہی ایک ایسا ملک ہے جو رسمی طورپر اس کیلنڈر کو اپنائے ہوئے ہے ۔ورنہ ہر جگہ عیسائی کیلنڈر کا چلن ہے ۔جس کا نتیجہ ہے کہ ہم خود اپنے کیلنڈر کو بھولتے جارہے ہیں ۔ بہت سے مسلمانوں کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ ہجری تاریخ کتنی ہے ؟ بلکہ ہجری سال کونسا چل رہا ہے ؟۔ جب دوسری قومیں اپنے کیلنڈر پر فخر کرتی ہیں تو ہمیں بحیثیت مسلمان ہجری کیلنڈر پر اورزیادہ فخر ہوناچاہیے تھا ۔
0 تبصرہ:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔