ہفتہ, نومبر 09, 2013

سود ايک لعنت ہے


ايک ماہرقتصاديات نے کہا تھا :
” سود اقتصادی زندگی کے لئے ايڈز کی مانند ہے جو اس کی دفاعی قوت کو گھن لگا ديتا ہے اور اسے ہلاکت وبربادی کے گڈھے ميں جا گراتا ہے “-
جى ہاں! اقتصادی نظام جب سودی کاروبار پر چلنا شروع ہوجاتا ہے تو اس کی تباہی يقينی ہوجاتی ہے، دورجانے کی ضرورت نہيں حاليہ دنوں ميں سودی بنکوں کی اقتصادی بدحالی پرنظر ڈال کر ديکھ ليجئے ! يہ اقتصادی بحران جس کا شکار امريکی بنک ہوا اس کی لپٹ ميں پوری دنيا آچکی ہے، سودی کاروبار سے منسلک دنيا کے سارے بنک غيرمعمولی خسارے سے دوچارہيں، کتنے بينک کے ملازمين نوکری سے ہٹا دئيے گئے، جس کی تاب نہ لاکر کچھ لوگوں نے خود کشی تک کر لی ہے۔
بحيثيت مسلمان ہمارے لئے اس حادثے ميں درس ہے، عبرت ہے، نصيحت ہے ، کيونکہ اسلام کی نظر ميں مال کا مالک اللہ تعالی ہے وہ جسے چاہتا ہے زيادہ ديتا ہے، جسے چاہتا ہے ، کم ديتا ہے اور جسے چاہتا ہے، محروم رکھتا ہے ۔ ليکن اس کے باوجود جن لوگوں کو ديتا ہے اسے اس بات کا پابند بناتا ہے کہ اللہ کے دئيے ہوئے مالوں ميں سے غريبوں کا حق اداکرے:
وآتوھم من مال اللہ الذی آتاکم "کہ اللہ تعالی نے تجھے جو مال ديا ہے اس مال ميں سے فقراءو مساکين کو بھی دو" ۔
يہ ہے اللہ تعالی کا معتدل اور متوازن نظام، ليکن جب سرنايہ دار مادہ پرستی کی ہوس ميں انہيں غريبوں کا خون چوسنا شروع کرديتا ہے جن کا حق ان کے مالوں ميں تھا تو اللہ تعالی کبھی کبھی ايسے لوگوں کے کاروبار اور تجارت کو تباہی وبربادی کے دہانے تک پہنچا ديتا ہے تاکہ ديدہ بينا اس سے عبرت حاصل کرے۔ ۔ يہی کچھ ہم عالمی اقتصادی بحران ميں ديکھ رہے ہيں ۔
ديکھو اسے جو ديدہ عبرت نگاہ ہو
زير نظر تحرير ميں ہم جاننے کی کوشش کريں گے کہ سود کی حقيقت کياہے ؟ اس کے تعلق سے اسلام کی کيا رائے ہے اور ہماری انفرادی واجتماعی زندگی پر اس کے کيا اثرات مرتب ہوتے ہيں ؟
سب سے پہلے ہم سود کی حقيقت کو جان ليں ! سود کو عربی زبان ميں ربا کہتے ہيں جس کے معنی ہيں بڑھنا، پروان چڑھنا اور زيادہ ہونا ۔ اور شريعت کی اصطلاح ميں قرض کی مقدار سے زيادہ رقم لينے کا نام سود ہے ۔
مثلا آپ نے کسی کو ايک ہزار روپئے اس شرط پر ديا کہ واپسی کے وقت آپ اس سے بارہ سو روپئے ليں گے خوا ہ آپ نے يہ رقم کسی مجبور شخص کو ديا ہو ، يا سودی کاروبار کرنے والے بينک کو، حکم دونوں کا برابر ہے کيونکہ بينک آپ ہی کے پيسے لے کر دوسروں کو متعينہ شرح پرسود ديتا ہے۔ لہذا يہ بات نوٹ کرليں کہ سودی بنک سے حاصل ہونے والے فوائد اپنی ذات پر استعمال کرنا سود ہے، سودی بنک سے کاروبار کے لئے پيسے حاصل کرنا بھی سود ہے، سودی بنکوں ميں چند سالوں کے لئے پيسے فکس ڈپازٹ کرنا بھی سود ہے ۔ سود بہرحال سود ہے چاہے وہ ظاہر ميں کتناہی خوشنما کيوں نہ لگتاہو؟ چاہے اس کا نام انٹريسٹ رکھاجائے ، عطيہ رکھا جائے ، بونس رکھاجائے، نفع رکھاجائے۔ نام کے بدلنے سے مسميات نہيں بدلتے -
محترم قارئين ! لوگ سودی بينکوں سے انٹريسٹ کيوں ليتے ہيں؟ منافع کيوں حاصل کرتے ہيں ؟ اس ليے نا تاکہ ان کی آمدنی ميں زيادہ سے زيادہ اضافہ ہوجائے ۔ ليکن کيا واقعی سود لينے سے مال بڑھتا ہے ؟ ہم کچھ بھی خيال کريں ليکن ہمارے خالق ومالک نے دوٹوک انداز ميں کہہ ديا ہے کہ سودی کاروبارکرنے والوں کا مال بڑھتا نہيں بلکہ گھٹتا ہے:
يمحق اللہ الربا ويربی الصدقات "اللہ تعالی سود کو مٹاتا ہے اور صدقات وخيرات کو بڑھاتا ہے" ۔ محق کہتے ہيں خوب اچھی طرح سے رگڑنے اور پيسنے کو جيسے ہمارے گھروں ميں عورتيں کسی چيزکوسل پر رکھ کر بٹہ سے رگڑکر پيستی ہيں ۔ گويا کہ سود کا پيسہ اسی طرح پِس جاتا ہے۔
آيت سے پتہ يہ چلا کہ خواہ ہم جس قدربھی پلاننگ کرکے سودکے پيسے اپنے پاس رکھيں اور دولت اکٹھا ہونے کی خوش فہمی ميں مبتلارہيں ليکن وہ ہمارے مال ميں اضافہ نہيں کرتے بلکہ کمی ہی لاتے ہيں ، يہ انسان کی خام خيالی ہے، اسکی غلط فہمی ہے کہ سودی کاروبار سے دولت اکٹھا ہوتی ہے اور عيش وآرام کے مواقع ملتے ہيں ، اورانسان آزاد ہے ، اسے حق ہے کہ جيسے چاہے سوچے ، ليکن شريعت اسلاميہ نے اس تصور کی نکير کردی ۔ سنن ابن ماجہ کی روايت ہے اللہ کے رسول نے فرمايا:
 "جس شخص نے بھی بذريعہ سود زيادہ سے زيادہ مال حاصل کيا اس کا انجام کمی پرہی ہوگا۔"
اور مستدرک حاکم کی ايک روايت ميں ہے کہ ’ ’ سود اگر چہ بظاہر زيادہ نظر آئے ليکن اس کا انجام کمی اور قلت ہے“۔
 ہاں! اگر مال ميں اضافہ ہوتا ہے تو اللہ کے راستے ميں خرچ کرنے سے اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وما آتيتم من ربا ليربو فی أموال الناس فلايربو عنداللہ وما آتيتم من زکاة تريدون وجہ اللہ فأولئک ھم المضعفون (الروم 39) "اور تم لوگ جو سود ديتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال ميں اضافہ ہوجائے تو وہ اللہ کے نزديک نہيں بڑھتا، اور جو تم لوگ زکاة ديتے ہو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے، ايسے ہی لوگ اسے کئی گنا بڑھانے والے ہيں۔ انسان ظاہر بين ہے ، اس کی سوچ کا پيمانہ محدود ہے اس ليے وہ جس چيزکو ظاہر ميں ديکھتا ہے اس سے مسحور ہوجاتا ہے حالانکہ اللہ تعالی کے ہاں کچھ دوسرا ہی فيصلہ ہوچکا ہوتاہے
 محترم قارئين! سودخوری کے تعلق سے قرآن وآحاديث ميں جيسی وعيديں آئی ہيں شايد کسی دوسرے گناہ سے متعلق نہ آئی ہوں:
٭چنانچہ اللہ اوراسکے رسول نے سود خورسے جنگ کا اعلان کيا ہے: فان لم تفعلوا فآذنوا بحرب من اللہ و رسولہ "اگر تم سودخوری سے باز نہيں آتے تواللہ اور اسکے رسول کی جانب سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے"- آخر کون ہے جو خالق ارض وسما اور مالک دوجہاں سے جنگ کرنے کی جرأت کر سکے ؟ جس نے اللہ تعالی سے جنگ کا اعلان کيا اس سے بڑھ کر خائب وخاسر اورنامراد آخرکون ہوسکتا ہے؟
٭سودخور پر اللہ اور اس کے رسول کی لعنت ہے- حضرت جابر رضى الله عنه کہتے ہيں: لعن رسول اللہ آکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہديہ وقال ھم سواء "اللہ کے رسول نے سود کھانے والے ،کھلانے والے،کاغذات لکھنے والے، اور سود کے گواہان سب پر لعنت بھيجی ہے اور پھرفرمايا کہ يہ تمام کے تمام گناہ ميں برابر ہيں۔"
٭سودخور سود کی رقم استعمال کرکے گويا اپنی ماں سے زنا کا ارتکاب کرتا ہے. نعوذ باللہ- حضرت عبداللہ بن مسعود رضى الله عنهما سے روايت ہے اللہ کے رسول نے فرمايا : الربا ثلاثة وسبعون بابا أيسرھا مثل أن ينکح الرجل أمہ (حاکم) "سود کے تہتر دروازے ہيں ان کا سب سے ہلکا گناہ يہ ہے کہ جيسے کوئی آدمی اپنی ماں کے ساتھ نکاح کرے"۔
اللہ اکبر اتنی بری وعيد ! کيا کوئی انسان اپنی ماں سے نکاح کے لئے آمادہ ہوسکتا ہے ؟ نہيں اور ہرگزنہيں الا يہ کہ وہ ماووف العقل ہو۔ اور مسند احمد کی روايت ميں اللہ کے رسول نے يہ بھی فرمايا: درهم ربا يأكله الرجل وھو يعلم أشد عند اللہ من ستة وثلاثين زنية- "سود کا ايک درہم جسے ايک آدمی جانتے بوجھتے کھاتا ہےاللہ تعالی کے نزديک 36 مرتبہ زنا سے بھی بد تر ہے ۔
ذرا غور کروجان بوجھ کر سود کا ايک درہم کھانا چھتيس مرتبہ زنا کرنے سے بھی بدترہے، کيا آپ جانتے ہيں زنا کی سزا اسلام ميں کيا ہے؟ اگر شادی شدہ ہے تو اسے سنگسار کرديا جائے اور اگر غير شادی شدہ ہے تو اسے 100 کوڑے لگائے جائيں ۔ اس سے آپ خود اندازہ کرسکتے ہيں کہ سودخورشريعت کی نگاہ ميں کتنا بڑا مجرم ہے ۔
اس کے علاوہ بھی سود کے بے پناہ اجتماعی و معاشرتی نقصانات ہيں ، سود دلوں ميں کينہ ، خود غرضی، مفاد پرستی، اور سنگ دلی پيدا کرتا ہے، سودخور کا دل رحم و مروت سے خالی ہو جاتا ہے ، تب ہی تو مشہور يہودی سود خور شائی لاک نے سود کی رقم بروقت ادائيگی نہ ہونے کی بنا پر اپنے مقروض کی ران سے بے دريغ گوشت کا ٹکڑا کاٹ ليا ۔ مولانا ابو الکلام آزاد رحمه الله سے پوچھا گيا کہ ڈاکو بہتر ہے يا سود خور ؟ آپ نے جواباً فرمايا :
" سودخور سے ڈاکو کئی درجہ بہتر ہے، کيونکہ اس کے دل کے اندر رحم و کرم کے جذبات ہوتے ہيں، کيونکہ تاريخ ميں کئی ايسے ڈاکو ملتے ہيں جو مالداروں کو لوٹتے اور غريبوں پر خرچ کرتے تھے، ليکن ايک سود خور کا دل رحم سے خالی اور اسکی آنکھيں زندگی سے عاری ہوتی ہيں، کوئی مربھی جائے تووہ اس کے کفن سے بھی اگر سود وصول کر سکتا ہو تو کر لے ۔ (سود : پمفلٹ محمدانورسلفی 10بحوالہ تبرکات آزاد)
 محترم قارئين ! اب ذرا سود خور کا اخروی انجام بھی سن ليں، قرآن نے کہا : الذين يأکلون الربا لا يقومون إلا کما يقوم الذی يتخبطہ الشيطان من المس (البقرہ 275) "جو لوگ سود کھاتے ہيں وہ اپنی قبروں سے ايسے اٹھيں گے جس طرح وہ آدمی جسے شيطان اپنے اثرسے ديوانہ بنا ديتا ہے" ۔
اور بخاری کی روايت ہے ايك رات آپ کو عالم برزخ کا نظارہ کرايا گيا توآپ نے ديکھا کہ ايک شخص خون کے دريا ميں تير رہا ہے اور دريا کے کنارے ايک آدمی ايک وزنی پتھر لئے کھڑا ہے ، جب جب وہ دريا سے نکلنے کے لئے کنارے جاتا ہے وہ آدمی اس کے سر پر پتھر اٹھاکر دے مارتا ہے، وہ بہت زور سے چينختا ہے اور پھر اپنی جگہ چلا جاتا ہے ۔ آپ نے جبريل امين عليه السلام  سے پوچھا کہ يہ کيسا انسان ہے جس کی ايسی درگت ہو رہی ہے ؟ توجبريل امين عليه السلام نے بتايا کہ” يہ سود خور ہے“ –
اور امام احمد اور ابن ماجہ نے حضرت ابو ہريرہ  رضى الله عنه سے روايت کيا ہے کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمايا : اسراءومعراج کی رات ميرا گذر ايک ايسی قوم کے پاس سے ہوا جن کے پيٹ گھرکی مانند تھے جس ميں سانپ بھرے تھے اور باہر سے نظر آرہے تھے ۔ ميں نے جبريل امين سے کہا : يہ کون لوگ ہيں ؟ تو جبريل نے جواب ديا : يہ سود خور لوگ ہيں ۔
جس قوم ميں سود کی بيماری عام ہوئی ہے اس کا اقتصادی نظام تباہی کے دہانے پر پہنچا ہے ، ملکوں اور قوموں ميں انتشار پيدا ہوا ہے، ظلم و زيادتی نے ڈيرے ڈالا ہے ، وہ قوم فقروفاقہ اور ذلت و مسکنت سے دوچارہوئی ہے۔ خواہ انفرادی شکل ميں ہويا اجتماعی شکل ميں۔
ابھی ميرے پاس ايک عربی کتاب ہے "کما تدين تدان جيسی" کرنی ويسی بھرنی مؤلف نے اس ميں ايک واقعہ ذکرکيا ہے، آئيے ذرا واقعے کو صاحب معاملہ کی زبانی سنئے اور عبر ت حاصل کيجئے !
" ميں ايسے گھرانے ميں پيدا ہوا جو غربت وافلاس کا شکار تھا ، ميرے باپ مزدوری کرتے تھے اور ميری ماں ايک گھر ميں کام کرتی تھی ، بچا ہوا کھانا کھاتا اور استعمال شدہ کپڑے پہنتا، ميں والدين کے لئے بوجھ بنا ہوا تھا چنانچہ ہوش سنبھالتے ہی والدين نے ہميں گھر سے نکال ديا، ميں دوسرے شہر ميں چلا گيا ، وہاں اتفاق سے ايک اسکول ميں چپراسی کی نوکری مل گئی ، ميں کلاس سے باہر کھڑکی کے پاس بيٹھتا اور مدرس کا درس سنتا رہتا ، سال بھر ايسا ہی کرتا اور سالانہ امتحان ميں شريک ہوجاتا، اس طرح کرتے کرتے ميں نے ميٹرک پاس کرلی۔ اب اپنے شہر لوٹا تو ہمارے والدين فوت پاچکے تھے، ہميں ايک جگہ نوکری مل گئی، دوران ِملازمت ہماری دوستی چند ايسے لوگوں سے ہوگئی جن کی صحبت نے مجهے نہايت بُرا انسان بناديا ، ميں فضول خرچی کا رسيا بن گيا، ميرے اخراجات آمدنی سے زيادہ ہوگئے چنانچہ ميں سود پرپيسے لينے لگا، ليکن سال گذرتے گذرتے لی ہوئی رقم کا دوگنا مہاجن کو دينا پڑتا ، جب مہاجن کے پيسے زيادہ ہوگئے تومجبوراً ميں نے سود کی ادائيگی کے لئے اپنے رہائشی گھر کو نيلام کرديا اورمہاجن کے پيسے چکائے ، اب ميرے پاس صرف دومہينے کے اخراجات باقی رہ گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔ ميں نے مہاجن سے دامن چھوٹنے کے معاً بعد يہ فيصلہ کيا کہ اب خود مہاجنی شروع کروں تاکہ خاطرخواہ پيسے بٹور سکوں چنانچہ اسی ارادے سے ميں نے اپنے بقيہ پيسے سود پر لگانا شروع کرديا ، دھيرے دھيرے ميرے مال ميں اضافہ ہونے لگا يہاں تک کہ دوسال کے اندر ميں نے ايک خطير رقم اکٹھا کرلی، ميں نے ايک شاندار گھر خريدا، ايک دوسری شادی کی، ميرا کاروبار بھی دن بدن ترقی کرنے لگا، ميں نے پہلے اکسچينج کی دکان کھول رکھی تھی، اسکے بعد مالوں کی درآمدبرآمد کرنے لگا ان سب کے باوجود ميرا اصلی کام سود پر پيسے لگانا ہی رہا، ميری حالت بہتر سے بہتر ہونے لگی ، ميرے گھر ميں کئی ايک بچے اور بچياں پيدا ہوئيں۔
ديکھو!سود سے ترقی ہی ترقی ہو رہی ہے ، مال ميں ترقی، کار وبار ميں ترقی ، آل واولاد ميں ترقی۔ ہرسوترقی ہی ترقی دکھائی دے رہی ہے ليکن يہ ظاہری ترقی ہے۔۔۔ اللہ تعالی نافرمانوں کی گھات ميں لگا ہوا ہے ، جب اپنی رسی کھينچتا ہے تو ہوش ٹھکانے لگ جاتے ہيں، ہاں تو اس کے بعد کيا ہوا ؟ سنئے اور عبرت حاصل کيجئے:  کہتا ہے
 ” ايک دن ميرے ايک خريدار نے ايک ٹرک مال طلب کيا، ميں نے مال بھيج ديا ،ميرا بڑا بچہ بھی ڈرائيور کے ساتھ جانے پر مصرہوگيا ، ميں نے اجازت دے دی، ٹرک ساحلی علاقے سے گذر رہی تھی، اچانک دو پلٹے کھا گئی ، سارا مال تجارت برباد ہوگيا ، ميرا بيٹا جائے حادثہ پر اللہ کو پيارا ہوگيا، ليکن خدا کی شان ديکھئے کہ ڈرائيور کو کسی طرح کا زک نہ پہنچ سکا ۔ جب ميری بيوی کو بچے کی موت کی اطلاع ملی تو اس کا بھی ہارٹ اٹيک کرگيا ، ابھی اس واقعہ کے چند ايام ہی گذرے تھے کہ ميرے تجارتی گودام ميں آگ لگ گئی اورميراآدھا سے زيادہ مال اس ميں برباد ہو گيا، اسی ميں ميرا دوسرا بيٹا جل کرمرگيا، پھرچند دنوں کے بعد گھرميں گيس سلنڈر پھٹنے کے باعث ميری جوان بيٹی جس کا نکاح ہو چکا تھا رخصتی باقی تھی بری طرح جل گئی يہاں تک کہ اس کے جسم کا ايک حصہ مفلوج ہوگيا ۔
جی ہاں ! اسی طريقے سے سودی کار وبار کرنے والوں کے مال کواللہ تعالی مٹاتا ہے ،اور اسے شعور تک نہيں ہوتا ۔ مانا کہ آپ نے سودی بينک ميں پيسے رکھے ، فکس ڈپازت کی ، لائف انشورنس ميں حصہ ليا اور چند سالوں کے اندر اچھی خاصی رقم مل گئی ، ليکن خدا را بتاؤ اگر کوئی آفت آگئی اور تيرے سارے پيسے اُس آفت کی نذرہوگئے توپھرفائدہ کيا ہوا؟ اور ايسا آج نہ کل ہونا ہے ، يہ اللہ کا وعدہ ہے ۔

کچھ لوگ غلط فہمی کے باعث سود اور تجارت دونوں کو خلط ملط کر ديتے ہيں  حالانکہ دونوں ميں آسمان اور زمين کا فرق ہے ، عہد نبوی ميں بھی بعض
 ايسے لوگ تھے جوسود اور تجارت کو برابر سمجھتے تھے اللہ تعالی نے ان کی غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے فرمايا: وأحل اللہ البيع وحرم الربا (البقرة 275) "اللہ تعالی نے خريد و فروخت کو حلال ٹھہرايا ہے جبکہ سود کو حرام قرار ديا ہے" ۔
تجارت کا اصول يہ ہے کہ اگر آپ کسی شخص کو ايک لاکھ روپيہ کار وبار کرنے کے لئے ديتے ہيں توآپ کو نفع اور نقصان دونوں ميں برابر شريک رہنا ہوگا کيونکہ کاروبار ميں کبھی نفع ہوتا ہے تو کبھی نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ جبکہ سود ميں ايک شخص کو ايک متعينہ رقم بے کھٹکے ملتی رہتی ہے وہاں نقصان کا کوئی احتمال ہی نہيں ہوتا ۔اسى طرح نفع كا تناسب طے  كيا گيا هو قطعى مقدار طے  نہ  ہو- مثلا پچاس فيصد، چاليس فيصد وغيره. اگر قطعى مقدار طے  ہو ئى  ہے تو يہى دراصل سود ہے.
اس ليے ہم بحيثيت مسلمان اپنے مال کا جائزہ ليں اگر اس ميں سود کا ايک روپيہ بھی شامل ہے تو اسے نکال باہر کريں کيونکہ پاکيزہ مال سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے،رزق ميں اضافہ ہوتا ہے،آل واولاد ميں برکت ہوتی ہے،اور دونوں جہاں کی کاميابی نصيب ہوتی ہے ۔ اللہ تعالی تمام مسلمانوں کوسود کی تباہ کاريوں سے محفوظ رکھے آمين يا رب العالمين ۔

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔