ہفتہ, نومبر 09, 2013

امانت کا پيکر بنيں اور خيانت سے دور رہيں


اسلام اپنے ماننے والوں کی بہترين اخلاق اورعمدہ خصائل پرتربيت کرنا چاہتا ہے، اپنے تابعدار کو زندہ دل ، بيدار ضمير اور حق شناس ديکھنا چاہتا ہے جو دوسروں کے حقوق ادا کرتے ہوں، ذمہ داريوں کا پاس ولحاظ رکھتے ہوں، اور صاحب حق کا حق پہچانتے ہوں اسی قبيل سے اسلام نے اپنے ماننے والوں کو امانت کے التزام کا حکم ديا اور ہر مسلمان پر واجب قرار ديا کہ وہ امانت وديانت کا پيکر بنيں اور دھوکہ وخيانت سے دور رہيں ۔
محترم قارئين! امانت ہر مذہب کی بنياد ہے،اخلاق فاضلہ کی شاہ کليد ہے، ہر انسانی معاشرے کی ناگزير ضرورت ہے، ہر انسان کے لئے باعث شرف ومنزلت ہے ،حاکم ہو يا محکوم ، کاريگر ہو يا تاجر ، ملازم ہو يا کاشت کار، امير ہو يا غريب ، بڑا ہو يا چھوٹا، استاد ہويا شاگرد، مرد ہو يا عورت ، ہر انسان کے لئے قيمتی سرمايہ ہے ، ہر کاميابی کا راز ہے ، ہر ترقی کی کنجی ہے ، اورہر سعادت کا سرچشمہ ہے ۔
تب ہی تو اسلام نے امانت کو بے پناہ درجہ ديا ہے ، اس کی عظمت وشان کو بڑھايا ہے اور اس کی بے انتہا تاکيد کی ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے:
إن اللہ يأمرکم أن تؤدوا الأمانات إلی أھلھا (النساء58) 
"اللہ تعالی تم کو حکم ديتا ہے کہ امانت کی چيزوں کو ان کے مستحق تک پہنچا دو۔" اوراہل ايمان کو تاکيد کی گئی:
 يا أيھا الذين آمنوا لا تخونوا اللہ والرسول وتخونوا أماناتکم وأنتم تعلمون.
 يعنی اے ايمان والواللہ سے اور اس کے رسول سے خيانت نہ کرو ،آپس کی امانتوں ميں جان بوجھ کر خيانت نہ کرو" ۔
اور اللہ تعالی نے امانت کی ادائيگی کو ايمان کی سب سے بڑی نشانی قرار ديا  والذين ھم لأماناتھم وعھدھم راعون (المومنون8) 
"جو لوگ اپنی امانتوں اور وعدوں کا پاس ولحاظ کرتے ہيں ۔"
 امانت کی عظمت پر دلالت کرنے والی سب سے عظيم آيت سورہ احزاب ميں آئی ہے:
 إنا عرضنا الأمانة علی السماوات والأرض والجبال فأبين أن يحملنھا وأشفقن منھا وحملھا الإنسان إنہ کا ظلوما جھولا (احزاب 72) 
"ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں پر ، زمين پر،اور پہاڑوں پر پيش کيا ليکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کرديا اور اس سے ڈر گئے مگر انسان نے اسے اٹھاليا ، وہ بڑا ہی ظالم جاہل ہے" ۔
اللہ اکبر! امانت کی نزاکت اور اس کی عظيم ذمہ داری کا اندازہ لگاؤکہ جب اسے آسمان وزمين اور پہاڑوں پر پيش کيا گيا تواس کی سنگينی کے باعث اسے اٹھانے سے ڈر گئے ،اور اس کی ذمہ داريوں کو ديکھ کر خوف زدہ ہوگئے کہ اگر اس کی ادائيگی ميں کوتاہی ہوئی تو سخت عذاب سے دوچار کئے جائيں گے ۔
محترم قارئين! اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے بھی ہميں امانت کی ادائيگی کی بے انتہا تاکيد کی ہے، يہاں تک کہ خيانت کرنے والوں کے ساتھ بھی امانت داری کا حکم دياہے ۔ آپ نے فرمايا :
 أد الأمانة إلی من ائتمنک ولا تخن من خانک.
 "جس نے تيرے پاس امانت رکھا ہے اس کی امانت ادا کرو اور جس نے تيرے ساتھ خيانت کيا اس کے ساتھ خيانت مت کرو" ۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے امانت کو انسان کے ايمان اور حسن اخلاق کی دليل بتايا: لا إيمان لمن لا أمانة لہ ولا دين لمن لا عھد لہ "اس شخص کا کوئی ايمان نہيں جس کے اندر امانت کا پاس ولحاظ نہيں ۔ اور اس شخص کا کوئی دين نہيں جو وعدے کا پکا نہيں" ۔
جی ہاں! خيانت ايک مومن کی صفت نہيں ہوسکتی مومن کی پہچان تو يہ ہے کہ لوگ ان سے اپنے مال اور جان کے تئيں مامون رہيں ۔ہاں ! منافق کی يہ پہچان بتائی گئی کہ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو وہ خيانت کر جائے ۔
امانت انبياءورسل کے بنيادی صفات ہيں اللہ تعالی نے سورہ شعراءميں ہميں بتايا ہے کہ حضرت نوح ،حضرت ھود، حضرت صالح، حضرت لوط اور حضرت شعيب عليہم السلام سب نے اپنی اپنی قوموں سے کہا:
 إنی لکم رسول أمين-
 "ميں تمہاری طرف بھيجا گيا امانت دار رسول ہوں" ۔ اور رسول اللہ صلي الله عليه وسلم زمين ميں اللہ تعالی کی رسالت کے امين تھے، بعثت سے قبل لوگ آپ کوامين کے لقب سے پکارا کرتے تھے اور آپ کے پاس اپنی امانتيں رکھتے تھے، وحی کے پيغامبر جبريل عليہ السلام کو بھی اللہ تعالی نے روح امين کے لقب سے نوازا ہے ۔
محترم قارئين! ہم نے امانت کے مقام و مرتبہ کو جان ليا اب ايک اہم نکتے کی وضاحت باقی رہ گئی ہے ، اور وہ ہے امانت کا مفہوم ۔ صدحيف آج اکثر لوگ امانت کو سامان کے ساتھ محصور کر ديتے ہيں کہ اگر کسی نے آپ کے پاس کوئی چيز رکھی ہے تو اسے حسب طلب جوں کا تو واپس کرديں اور بس ۔ يہ امانت کا نہايت تنگ مفہوم ہے ۔ حالانکہ امانت کا لفظ نہايت جامع اور ہمہ گير ہے اس ميں دين کے سارے کليات و جزئيات شامل ہيں امام قرطبی رحمه الله نے بجا فرمايا :
 الأمانة تعم جميع وظائف الدين
"امانت دين کے جملہ وظائف کو شامل ہے" ۔ دين کی منجملہ دو بنياديں ہيں: ايک حقوق اللہ اوردوسرے حقوق العباد۔ حقوق اللہ کی پھر دو بنياديں ہيں: اخلاقيات اور معاملات ۔ اس طرح دين کی چار بنياديں ہوئيں عقائد ، عبادات ، اخلاقيات اور معاملات۔ اور امانت کا عمل دخل ان ساری بنيادوں ميں ہے ۔
 توحيد امانت ہے: چنانچہ عقائد ميں سب سے پہلے توحيد کا درجہ آتا ہے ، توحيد سراسر امانت ہے ۔ کہ اللہ تعالی کی ذات کو يکتا مانا جائے اور اس کے علاوہ کسی کو حاجت روا اور مشکل کشا نہ سمجھاجائے بلکہ حقيقی امانت توحيد ہی ہے اور شرک سب سے بڑی خيانت ہے- آخر اس سے بڑھ کر خيانت اور کيا ہوگی کہ ايک بندہ جس ذات کی نعمتوں ميں ہر لمحہ ڈوبا ہوا ہے اس کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے سامنے اپنی حاجت پيش کرے ۔
عبادات امانت ہيں: اسی طرح عبادات امانت ہيں، وضو امانت ہے، غسل جنابت امانت ہے، نماز امانت ہے ، روزے امانت ہيں، حج ، زکاة ، قربانی، نذر و نياز ، رکوع، سجدہ يہ سب امانت ہيں- اللہ تعالی نے ہميں جس طرح ان کی ادائيگی کا حکم ديا ہے اسی طرح انہيں ادا کريں ۔ اگر ان ميں کسی طرح کی تفريط کی تو گويا ہم نے امانت ميں خيانت کيا ۔
اخلاقيات امانت ہيں: اسی طرح اخلاقيات امانت ہيں سچائی ، وفاداری، نيکی، صلہ رحمی، بردباری، جود وسخا، صبر وشکيب، حياوشرم، بھائی چارگی يہ سب امانت ہيں اور ان کی ضد جھوٹ، دھوکہ، قطع رحمی، ترش روئی ،بخيلی اوربے شرمی خيانت ہيں۔ اسی طرح سارے گناہ قتل، زنا، جادو، چوری، غصب، غيبت، چغل خوری، بہتان، بغض وحسد اور کينہ کپٹ يہ سب خيانت کے قبيل سے آتے ہيں۔
كاروبارى معاملات امانت ہيں: کاروباری معاملات ميں جائز خريد وفروخت امانت ہے ، اور اس ميں دھوکہ دہی اور سامان کے عيوب چھپانا خيانت ہے۔ايک مرتبہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کا گذر بازار ميں ايک ايسے شخص سے ہوا جو اپنا سامان بيچ رہا تھا ۔ آپ نے وہاں ٹھہر کر سامان ميں ہاتھ ڈالا تو اندر سے تری محسوس ہوئی ۔ آپ نے اس سے پوچھا : تم نے يہ کيا کر رکھا ہے ۔ سامان بيچنے والے نے جواب ديا : يا رسول اللہ ! کل بارش ہوگئی تھی جس ميں ہمارا سامان بھيگ گيا تھا ۔ آپ نے فرمايا:
 أفلا جعلتہ فوق الطعام حتی يراہ الناس من غش فليس منا (مسلم)
"آخر تم نے اسے اوپر کيوں نہيں رکھا تاکہ لوگ ديکھ ليں جس نے دھوکہ ديا وہ ہم ميں سے نہيں" ۔
ڈيوٹی امانت ہے: اسی طرح ڈيوٹی امانت ہے اس کا حق ادا کرنا ضروری ہے ،اس ميں سستی اور کاہلی کرنا يا ڈيوٹی کے اوقات ميں ذاتی کام ميں مشغول رہنا خيانت ہے ۔
علم امانت ہے: لہذا علمائے دين پر ضروری ہے کہ وہ اس امانت کو لوگوں تک پہنچائيں تاکہ علم کو فروغ ملے اور جہالت دورہو ۔ دعوت الی اللہ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر امانت ہے اور اس ميں کوتاہی خيانت ہے ۔
 رفاہی ادارے ذمہ داروں کے سر امانت ہيں: دينی کميٹياں ، رفاہی ادارے ، دينی مدارس ان کے ذمہ داروں کے سر امانت ہيں اور ان ميں کسی طرح کی کوتاہی خيانت ہے ۔ اور جو شخص بھی جس چيز کا ذمہ دار ہے وہ چيز اس کے تئيں امانت ہے، اللہ کے رسول صلي الله عليه وسلم  نے فرمايا : ألا کلکم راع وکلکم مسؤول عن رعيتہ... " تم ميں کا ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے ماتحت کے بارے ميں پوچھا جائے گا" ، ايک بادشاہ لوگوں کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعيت کی بابت پوچھ گچھ ہوگی، ايک آدمی اپنے اہل خانہ کا نگراں ہے ، اور وہ انکے تئيں جواب دہ ہے ، ايک عورت شوپر کے گھر اوربچوں کے تئيں نگراں ہے اور اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا ، نوکر اپنے مالک کے مال کا نگراں ہے اور وہ اس کے متعلق جوابدہ ہے ۔ ياد رکھو! تم ميں ہرشخص نگراں ہے اور اس سے اس کے ماتحت کی بابت پوچھ گچھ ہوگی" ۔
اعضاء امانت ہيں: اسی طرح امانت ميں جسم انسانی کے تمام اعضاء داخل ہيں جن کی حفاظت کرنا اور اللہ تعالی کی مرضيات ميں ان کا استعمال کرنا ضروری ہے چنانچہ آنکھ امانت ہے ،اس سے جائز چيز کی طرف ديکھا جائے اور ناجائز کی طرف ديکھنے سے بچا جائے ۔ ہاتھ امانت ہے اس سے جائز کام کيا جائے اور ناجائز کام کرنے سے بچا جائے، پير امانت ہے اس سے جائز جگہ پر جايا جائے اور ناجائز جگہ جانے سے بچا جائے ، زبان امانت ہے اس کا استعمال جائز گفتگو ميں کرے اور ناجائز گفتگو سے پرہيز کرے ، بسا اوقات ايک لفظ انسان کو جہنم کا ايندھن بنا ديتا ہے اور ايک ہی لفظ اسے جنت کا حقدار ٹھہراتا ہے ۔
عزت و آبرو امانت ہے: لہذا ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ اپنی عزت کی حفاظت کرے اور اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو فواحش ومنکرات سے دور رکھے، ابی بن کعب رضى الله عنه کہتے ہيں : امانت ميں يہ بات داخل ہے کہ ايک عورت اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی امين ہے ۔
اولاد امانت ہے: اگر اللہ تعالی نے کسی کو اولاد جيسی نعمت سے سرفراز فرمايا ہے تو اسے سمجھنا چاہئے کہ يہ اگر ايک طرف نعمت ہے تو دوسری طرف امانت بھی ، ان کی خاطر خواہ حفاظت کرنا، اچھی تربيت کرنا ، انہيں دينی تعليم سے آگاہ کرنا ہر والدين کے ليے ضروری ہے ۔ اگر ايسا نہيں کيا تو گويا انہوں نے امانت ميں خيانت کی ۔
دولت امانت ہے: مال ودولت بھی جہاں ايک طرف نعمت ہے تودوسری طرف اللہ تعالی کی امانت بھی ہے، اسے جائز طريقے سے کمانا، جائز راستے ميں خرچ کرنا ، اسراف اور فضول خرچی سے بچنا،اور اپنے مالوں ميں فقراءومساکين کا حق پہچاننا ضروری ہے ۔اگر ايسا نہيں کيا تو يہ مال ميں خيانت ہوگی ۔
اسرار امانت ہيں : ايک مسلمان اپنے بھائی کے راز کو چھپاتا ہے ، اس کا افشا نہيں کرتا کيونکہ اللہ کے رسول صلي الله عليه وسلم  کا فرمان ہے:
اذاحدث الرجل بالحديث ثم إلتفت فھی أمانة (ابوداؤد،ترمذی)
"جب ايک شخص کوئی بات کہتا ہے اورجدا ہوتا ہے تو يہ سننے والے کے لئے امانت بن جاتی ہے"۔ لہذا اگر آپ کا اپنے ساتھی کےساتھ کسی طرح کا اختلاف ہوجاتا ہے تو اس کا مطلب ہرگز نہيں کہ آپ اس کے رازوں کو ٹٹولنا اسے لوگوں ميں پھيلانا شروع کرديں ۔ يہ گندی عادت اور گھٹيا ذہنيت ہے ۔
محترم قارئين! اس مختصر بيان سے آپ کو امانت کی ہمہ گيريت کا اندازہ لگ گيا ہوگا کہ يہ دين کے جملہ امور کو شامل ہے ۔ تب ہی توآسمان نے ، زمين نے ، اور پہاڑ نے اس کا بوجھ اٹھانے سے انکار کرديا ۔ تاہم انسان نے اجروثواب کی رغبت ميں امانت کی ذمہ داری لے لی ۔ ليکن کيا اس سے عہدہ برآ ہوئے بھی؟  جی ہاں! اللہ والوں نے امانت کے ايک ايک لفظ کو سمجھا، اسے اپنی زندگی ميں اتارا ، اور ہمارے سامنے ايک نمونہ چھوڑ گئے جس کی تفصيل کا يہاں موقع نہيں، ليکن دھيرے دھيرے ہمارے اندر ايمانی کمزوری آتی گئی اور ہم سے امانت کا پاس ولحاظ اٹھتا گيا ، آج حال يہ ہو چکا ہے کہ زندگی کے ہر ميدان ميں خيانت ہی خيانت دکھائی ديتی ہے ۔ الا من رحم ربی ۔ عقائد ہوں يا عبادات ۔ اخلاقيات ہوں يامعاملات ۔معيشت ہو ں يا سياست ہرشعبے سے امانت اٹھتی جا رہی ہے۔
محترم قارئين ! مسلمان ہونے کا اعلان کرنا تو بہت آسان ہے ليکن اسلام اور ايمان کے تقاضوں کے مطابق زندگی گذارنا بہت مشکل ہے، علامہ اقبال نے کہا تھا:
چوں می گويم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلات لا الہ را
ليکن يہ بات نوٹ کر ليں کہ يہ راستہ پرخار ضرور ہے تاہم جنت تک لے جانے والا ہے اور جنت کی طلب ہے تو پرخار واديوں سے گذرنا ہوگا ۔ تو پھر آئيے ہم عہد کرتے ہيں کہ امانت کو اس کے وسيع مفہوم ميں اپنی زندگی کے اندر اُتارنے کی کوشش کريں گے ۔ اللہ تعالی ہميں اس کی توفيق دے ۔ آمين يا رب العالمين ۔


0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔