اتوار, نومبر 10, 2013

کسب معاش اور اسلامى تعليمات


اسلام ايک مکمل ضابطہءحيات ہے، وہ ہر شعبہ زندگی ميں ہماری رہنمائی کرتا ہے ۔ خواہ اس کا تعلق عقائد سے ہويا عبادات سے ، معاملات سے ہويا اخلاقيات سے، معاشرت سے ہويا معيشت سے، سياست سے ہويا تہذيب وتمدن سے ہر جگہ، ہر لمحہ اور ہرمسئلہ ميں اسلام ہمارے لئے ايک بہترين رہبر کی حيثيت رکھتا ہے ۔ چنانچہ جب ہم معاشيات کا باب کھولتے ہيں تووہاں ہميں اسلام کی جامع تعليمات ملتی ہيں۔ اسلام ہميں کسب معاش کے لئے ہر جائز ذرائع اختيار کرنے کی تاکيد کرتا ہے، بہتر معيشت کے لئے زراعت و تجارت ، صنعت و حرفت اور ملازمت کی ترغيب ديتا ہے ،کدوکاوش اور جہد مسلسل پر ابھارتا ہے، بيکاری ،کام چوری، تن آسانی اور دوسروں کے لقموں پر پلنے کو معيوب گردانتا ہے ۔
ذرا ديکھئے تو سہی اسلام اس سلسلے ميں کتنا واضح پيغام ديتا ہے:
ھوالذی جعل لکم ألارض ذَلولا فامشُوا فی مناکبھا وکلوا من رزقہ وإليہ النشور‘‘ (ملک 15)
"وہی اللہ ہے جس نے زمين کو تمہارے تابع کر ديا‘ تاکہ تم اس کی راہوں ميں چلتے پھرتے رہو اور اللہ کی روزياں کھاؤپيو، اور اسی کی طرف (تمہيں) جی اٹھنا ہے" ۔ مطلب يہ کہ اللہ تعالی نے زمين کو نرم بنايا ہے اور اِس ميں آسان راستے بنائے ہيں تاکہ انسان بسہولت اپنی ضرورتيں پوری کرسکے ، چنانچہ آدمی زمين ميں پودے لگاتا ہے ، مکان بناتا ہے، کھيتی کرتا ہے، اور روزی کی طلب ميں زمين پر چل کر دور دراز علاقوں شہروں اور ملکوں تک پہنچ جاتا ہے ۔ (تيسيرالرحمن 2/1619)
اسلام ميں کاروبار کی اہميت اس قدر ہے کہ اللہ تعالی نے اس کی تاکيد کرتے ہوئے فرمايا :
 ’’فاذا قضيت الصلاة فانتشروا فی الأرض وابتغوا من فضل اللہ‘‘ (الجمعة 10)
"جب جمعہ کی نماز پوری ہوجائے تو زمين ميں پھيل جاؤ اور اللہ کے فضل يعنی رزق کی تلاش کرو"  مطلب اس امر کی وضاحت ہے کہ جمعہ کا دن گوکہ نہايت افضل دن ہے ليکن اس دن بھی کارو بار بند کرنے کی ضرورت نہيں صرف نماز کے وقت ايسا کرنا ضروری ہے ۔ چنانچہ عراک بن مالک رضى الله عنه نمازجمعہ سے فارغ ہونے کے بعد مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوجاتے اور فرماتے: ’’اللھم إنی أجبت دعوتک وصليت فريضتک وانتشرت کما أمرتنی فارزقنی من فضلک وأنت خير الرازقين‘‘-
 " اے اللہ ميں نے تيری پکار پر لبيک کہا، تيرے فريضے کی ادئیگی کرلی اور تيرے حکم کے مطابق زمين ميں پھيل گيا، لہذا بارالہا!  تو اپنے فضل سے ہميں رزق عطا فرما، تو بہترين رزق عطا فرمانے والا ہے" ۔
اور بعض اللہ والے نے کہا: من باع واشتری يوم الجمعة بعد الصلاة بارک اللہ لہ سبعين مرة "جس نے بروزجمعہ نماز کے بعد خريد وفروخت کيا اللہ تعالی اسے ستر مرتبہ برکت ديتے ہيں۔"
کسب معاش کی اہميت کا اندازہ اس بات سے بھی لگايا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے کسب معاش کےلئے سفرکرنے لوگوں کا ذکر مجاہدين فی سبيل اللہ کے ساتھ کيا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوا:
وآخَرُونَ يضرِبُونَ فِی الارضِ يبتَغُونَ مِن فَضلِ اللّٰہِ وَآخَرُونَ يقَاتِلُونَ فِی سَبِيلِ اللّٰہِ  (سورة المزمل/ 2) "اور کچھ دوسرے لوگ اللہ تعالی کے فضل (رزق)کی تلاش ميں سفرکريں گے اور کچھ لوگ اللہ تعالی کی راہ ميں جہاد بھی کريں گے "۔
اس دھرتی پر انسانيت کی سب سے افضل جماعت انبياءعليہم السلام ہيں، ان پاکيزہ نفوس نے اپنے ہاتھ کی کمائی پر گذربسر کيا،
 حافظ ابن کثير ؒ نے البداية والنھاية ( 7/188) ميں لکھا ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت آدم عليہ السلام کو زمين پر اتارا تو ان کوہرقسم کی صنعت کی تعليم دی ۔ حضرت آدم و حوا جب زمين پر اُترے تھے تواُن کے جسم پر صرف جنت کے پتے لپٹے ہوئے تھے،حضرت جبريل عليہ السلام نے روئی لاکر حضرت حوا کو کاتنا سکھا يا اور حضرت آدم کو بننا سکھايا۔ اس طرح آدم وحوا عليہم السلام نے سب سے پہلے کپڑے بننے کی تعليم پائی۔ حضرت ادريس عليہ السلام کتابت و خياطت يعنی لکھنے اور سينے کا کام کرتے تھے اور ہرٹانکے پر لفظ سبحا ن اللہ کہتے۔ حضرت نوح عليہ السلام نے ناؤبنايا اور ملاحی کا کام کيا ، حضرت موسی عليہ السلام نے اپنے خسر کے پاس آٹھ دس سال تک ملازمت ومزدوری کی ۔
حضرت ابراہيم عليہ السلام بزازی کا کام کرتے تھے ۔ حضرت شعيب عليہ السلام بھی کپڑا بن کر تجارت کرتے تھے ۔ حضرت اسماعيل عليہ السلام تير بناتے اور فروخت کرتے تھے ۔ حضرت صالح عليہ السلام تھيلوں کی تجارت کرتے تھے ۔ حضرت يحیی عليہ السلام جوتے سيتے اور جوتے کی تجارت کرتے تھے ۔ اور حضرت زکريا عليہ السلام بڑھئی گری کرکے معاش پيدا کرتے تھے
جب نبوت کا سلسلہ اللہ کے رسول پر ختم ہواتوآپ نے کار وبار اور تجارت کو دين کا ايک حصہ ٹھہرايا اور اسے عبادت کے زمرے ميں شامل کيا ، آپ نے بچپن ميں چند سکوں کے عوض اہل مکہ کی بکرياں چرائی اور بڑے ہوئے تو نبوت سے پہلے بارہ سال تک تجارت کی اور ابن کثير ؒ کے بقول آپ نے اسے اس قدر وسعت دی کہ آپ کا مال تجارت شام يمن حبشہ ، بحرين اور مسقط وغيرہ کی زبردست منڈيوں ميں بِکنے کے لئے جايا کرتا تھا ۔آپ نے اپنے چچا ابوطالب کے ہمراہ تجارتی سفر کيا ۔ اسی طرح حضرت خديجہ ؓ کا تجارتی مال لےکر شام گئے ۔
کاروبار کی اہميت کے پيش نظر آپ نے مدينہ ميں باضابطہ ايک منڈی کھولی تھی۔جس کی ديکھ ريکھ کرنے کے لئے مستقل وہاں جايا کرتے تھے۔ اس سلسلے ميں علامہ يوسف قرضاوی حفظہ اللہ فرماتے ہيں
”تجارت کے معاملہ ميں ہماری رہنمائی کے لئے نبی اکرم کا يہ اسوہ کافی ہے کہ آپ نے جہاں روحانی پہلو کو پوری اہميت کے ساتھ ملحوظ رکھا چنانچہ مدينہ ميں تقوی کی اساس پر مسجد قائم کی تاکہ وہ عبادت ،علم ،دعوت، اور حکومت سب کا مرکز بنے ۔ وہاں آپ نے اقتصادی پہلو کا بھی پورا پورا لحاظ فرمايا چنانچہ خالص اسلامی بازار قائم کرکے يہوديوں کے تسلط کو ختم کيا ، آپ نے خود اس کا نظام مرتب کيا، اس کی نگرانی فرماتے رہے اور ساتھ ہی اس سے متعلق ہدايات اور تعليمات جاری فرماتے رہے ۔ اس بازار کی خصوصيت يہ تھی کہ وہ فريب ناپ تول ميں کمی، ذخيرہ اندوزی اور دوسروں کو زک پہنچانے والی باتوں سے بالکل پاک تھا“ (اسلام ميں حلال وحرام ص 185)
يہ توآپ کے کار وبار کی عملی حيثيت تھی پھرآپ نے قولی حيثيت سے بھی اُس کی اہميت کو دوچند کيا ،کسب معاش پر ابھارا ،کام کرنے کی تاکيد کی،سستی اور بيکاری سے منع کياچنانچہ آپ نے فرمايا :
’’ان أطيب ما أکلتم من کسبکم ‘‘ جو اپنے قوت بازو سے کما کر کھا ليتے ہوں وہ سب سے زيادہ پاکيزہ  روزی ہے ۔ نيز آپ نے فرمايا : ’’ما اکل احد طعاما قط خيرا من أن ياکل من عمل يديہ‘‘  " اپنے ہاتھ کی محنت سے کماکر کھانا سب کھانوں سے بہتر ہے ۔ کسی نے آپ سے پوچھا : يا رسول اللہ صلي الله عليه وسلم ! کونسی کمائی پاکيزہ تر ہے تو آپ نے فرمايا :
’’عمل الرجل بيدہ وکل بيع مبرور‘‘ (احمد) اپنے ہاتھ کی کمائی اور ہر وہ سچی تجارت جس ميں دھوکہ اور فريب نہ ہو ۔ اور آپ نے سچی تجارت کرنے والوں کے متعلق فرمايا: ’’التاجر الصدوق الأمين مع النبيين والصديقين والشھداء(ترمذی) "سچا امانت دار تاجر قيامت کے دن نبيوں ،صديقوں اور شہيدوں کے ساتھ اٹھايا جائے گا ۔ سبحان اللہ ۔ يہ ہے اسلام کی عظمت کہ دنيا کماؤاور جنت بناؤ، دنيا ميں روزی ملی اور آخرت ميں جنت ملی بلکہ انبياء وشہداءکی رفاقت بھی نصيب ہوئی"۔
کھيتی باڑی اور باغبانی بھی ايک جائز پيشہ ہے ، شريعت نے کسانوں اور باغبانوں کی تعريف فرمائی اور اس زراعتی عمل کو اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمايا أفرأيتم ما تحرثون٭أأنتم تزرعونہ أم نحن الزارعون (الواقعہ 64-63 )
"اچھا يہ بتاؤکہ جو کچھ تم بوتے ہو اسے تم اگاتے ہو يا ہم اگانے والے ہيں ۔ يعنی زمين ميں جو کچھ تم بوتے ہو اس سے دانہ اگانا ہمارا کام ہے تمہارا کام نہيں ۔اور اللہ کے رسول کے فرمان سے پتہ چلتا ہے کہ ايک کسان جب کھيتی کرتاہے اور اس سے مخلوق الله فائدہ اٹھاتی ہے تويہ اسکے حق ميں صدقہ کا درجہ رکھتا ہے آپ نے فرمايا: ”جو مسلمان کوئی درخت لگائے يا کھيتی کرے اس ميں سے کوئی پرندہ يا انسان يا کوئی جانور کھائے تواس باغ لگانے والے اور کھيتی کرنے والے کو صدقہ کا ثواب ملے گا “ (بخاری )
محترم قارئين! تاريخ شاہد ہے کہ رحمت عالم کے زير تربيت جو روحانی جماعت تيار ہوئی اُن نفوس قدسيہ ميں ايک جماعت اگر کاشتکار تھی تو ايک طبقہ تاجروں اور بازاروں ميں کام کرنے والوں کا بھی تھا ۔ حضرت ابوبکر صديق رضي الله عنه کپڑوں کی تجارت کرتے تھے ۔ حضرت عمرفاروق رضي الله عنه بھی بہت بڑے تاجر تھے آپ کا تجارتی کاروبار اس قدر پھيلا ہوا تھا کہ دوسرے ملکوں ميں اس کی نکاسی ہوتی تھی ۔ آپ کاہی يہ قول ہے:
 ” راہ خدا ميں جہاد کے بعد اگر کسی حالت ميں جان دينا مجھے سب سے زيادہ محبوب ہے تو وہ يہ ہے کہ ميں روزی کی تلاش ميں کسی پہاڑی دُرے سے گذر رہا ہوں اور وہاں مجھ کو موت آجائے “-
 حضرت عبدالرحمن بن عوف رضي الله عنه بہت بڑے سوداگر تھے ، ہجرت کے موقع سے جب ان کے مواخاتی بھائی سعد بن ربيع رضي الله عنه نے ان سے کہا کہ ميں اپنے مال کا آدھا حصہ آپ کو دے ديتا ہوں اس ميں آپ جيسے چاہيں تصرف کريں۔ وہ ہم جيسے لوگ نہيں تھے کہ مال غنيمت سمجھ کر آدھا مال ہتھيا ليں۔ اور پير ہاتھ  باندھ  کر کھانے لگيں بلکہ انہوں نے مدرسہ نبوت ميں کسب معاش کی تربيت پائی تھی چنانچہ عبدالرحمن بن عوف رضي الله عنه اپنے بھائی سعد بن ربيع رضى الله عنه سے کہتے ہيں:
 بارک اللہ لک فی أھلک ومالک دلونی علی السوق.
"اللہ تعالی تمہارے مال واہل ميں برکت دے مجھے تو بازار کا راستہ بتادو"۔ چنانچہ انہوں نے بازار ميں سودا بيچنا شروع کيا يہاں تک کہ کچھ ہی عرصے ميں اتنا فائدہ ہوا کہ دوسروں سے بے نياز ہوگئے۔ ايک وقت وہ بھی آيا کہ کہتے تھے جب ميں مٹی کو بھی چھوتا ہوں تو وہ ہمارے لئے سونا بن جاتی ہے ۔ اسی طرح حضرت طلحہ رضى الله عنه بھی تجارت کيا کرتے تھے ، آپ نے تجارت کے ساتھ ساتھ زراعت کا پيشہ بھی اختيار کر رکھا تھا ۔حضرت زبير رضى الله عنه کا ذريعہ معاش تجارت ہی تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضى الله عنه اونٹوں کی خريد وفروخت کا کار وبار کرتے تھے ۔
پھر علمائے امت اور بزرگان دين نے بھی تجارت و زراعت اور صنعت و حرفت کو ہی اپنا ذريعہ معاش بنايا ،ان نفوس قدسيہ نے اپنے ہاتھ کی کمائی کھانے کو پسند کيا اورتجارت وکار وبار کو اپنا پيشہ بنايا۔ يہ ان کے ليے فخر کی بات تھی کہ وہ تاجر پيشہ تھے، اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے۔ بلکہ بعض اللہ والوں نے يہاں تک کہا: ان من الذنوب ذنوبا لا يکفرھا الا الھم فی طلب المعيشة "کچھ گناہ ايسے ہوتے ہيں جن کا کفارہ کسب معاش ميں لگن ہی بن سکتا ہے " ۔

 جب تک مسلمان کار وبار اورتجارت سے لگے رہے دنيا کی منڈيوں پر مسلمانوں کا قبضہ رہا، ہر جگہ ان کی طوطی بولتی رہی، جس ملک ميں قدم رکھا تاجر کی حيثيت سے قدم رکھا ، اوراس ميدان ميں ان کے معاملات اس قدر صاف تھے کہ غيرقوموں نے ان کی ديانت داری اور حسن اخلاق سے متاثرھوكر اسلام کو گلے لگا ليا۔
ليکن جب اس امت کے زوال کا دور آيا تواس امت نے دين تو کھويا ہی اس کے ساتھ  ساتھ دنيا بھی کھو بيٹھی۔ اس کی حکومت گئی،سلطنت گئی ، عزت گئی، دولت گئی، تجارت گئی، زراعت گئی غرضيکہ اس کا سب کچھ جاتا رہا ۔
آج تجارت ميں غير قوم آگے ہے، صنعت وحرفت ميں غير قوم آگے ہے، زراعت ميں غيرقوم آگے ہے، کيوں ؟ اسلئے کہ وہ محنتی اور جفاکش ہے ۔ اس کو معمولی تجارت کرنے دال ، آٹا ،چاول دھنيا، مرچ، نمک اور کپڑا وغيرہ فروخت کرنے ميں شرم نہيں آتی ۔ بلکہ اس کا تعليم يافتہ آدمی بھی بوقت ضرورت رکشہ چلاتا ہے، سڑکوں پر جوتوں کی پالش کرتا ہے ، فٹ پاتھ  پر چائے بناکر بيچتا ہے، ابھی چندايام قبل ہندی روزنامہ دينک جاگرن نے ہندی کے ايک ہندو قلمکار کی تصوير چھاپی تھی جس کی درجنوں ادبی کتابيں چھپ چکی ہيں ليکن جانتے ہيں اس کا پيشہ کيا ہے ؟ فٹ پاتھ  پر چائے بناکر بيچتا ہے ۔

ملازمت سے متعلق دوحقائق:

 ملازمت اور کار وبار سے متعلق دو حقائق ہميشہ ہمارے ذہن ميں بيٹھے ہونے چاہئے

پہلی حقيقت يہ کہ: رزق کی تقسيم اللہ تعالی نے اپنے ہاتھ ميں رکھی ہے جسے جتنا چاہتا ہے نوازتا ہے اس حقيقت کو ذہن ميں رکھنے کے بعد سوچيں کہ آپ کے برسرروزگار ہونے ميں محض آپ کی صلاحيت و لياقت کا دخل نہيں بلکہ ايسا اللہ رب العالمين کے فضل و کرم اور اُس کے احسان کے طفيل ہو سکا ہے۔ کيا ديکھتے نہيں کہ آپ سے زيادہ قابليت و صلاحيت کے مالک معمولی ملازمت کررہے ہيں يا روزگار سے بالکل محروم ہيں ۔اِسلئے اِس نوازش پر اللہ رب العالمين کا شکر بجا لائيں کہ اُس نے آپ کوخودکفيل بنايا اور دوسروں سے بے نياز رکھا اللھم لک الحمد والشکر.

دوسری حقيقت يہ کہ : اسلام ميں کوئی بھی پيشہ معيوب نہيں ہے بشرطيکہ جائز ہو،۔تاريخ بتاتی ہے کہ انبياء کرام اور علمائے امت ميں کوئی لوہار تھا، کوئی بڑھئی تھا، کوئی درزی تھا، کوئی بزاز تھا، کوئی موچی تھا اور کوئی کسان تھا  امام اعظم ابوحنيفہ ؒ کپڑے کی تجارت کرتے تھے ، امام بخاری ؒ بھی کپڑوں کی تجارت کرتے تھے ، امام خالد الحذاءجوتے فروخت کرتے تھے ، امام قدوری ؒ برتنوں کی تجارت کرتے تھے ، علمائے امت کی بات تو درکنار انبياء کرام جو انسانيت ميں سب سے افضل ہيں، سبہوں نے بکری کی چرواہی کا پيشہ اختيار کيا اللہ کے رسول کا فرمان ہے ما بعث اللہ من نبی الا رعی الغنم قال حتی انت يا رسول اللہ ؟ قال : نعم کنت ارعاھا علی قراريط لاھل مکة اللہ نے جتنے بھی نبی بھيجے سب نے بکری کی چرواہی کی ۔ صحابہ کرام نے کہا : کيا آپ نے بھی يہ کام کيا ؟ فرمايا : ہاں ميں بھی چند سکوں کے عوض اہل مکہ کی بکرياں چرايا کرتا تھا ۔
آج مسلمانوں کی معاشی بدحالی کے اسباب کی کھوج کريں گے تو آپ کوپتہ چلے گا کہ مسلمانوں کی معاشی بدحالی کی ايک وجہ مسلم سماج ميں پيشہ کے اعتبار سے کمتری اور برتری کا رجحان عام ہونا ہے، آج مسلمانوں کی اکثريت اکثر کاموں کو اپنی شان کے خلاف سمجھتی ہے۔ سبزياں بيچ نہيں سکتے، غلے کا کارو بار کر نہيں سکتے، منڈيوں ميں سامان لے کر جا نہيں سکتے ۔خدارا ہميں بتاؤ اگرسارے انبياء نے بکرياں چرائی تو کيا ان کی شان ميں کمی آگئی ؟ حضرت يحيی عليہ السلام نے موچی کا کام کيا تو کيا ان کا مقام گھٹ گيا ؟ حضرت ابراہيم عليه السلام حضرت ابوبکرصديق رضى الله عنه  ،امام اعظم ابوحنيفہ ؒ اورامام بخاری نے کپڑے کی تجارت کی،بزازی کا کام کياتوکيا ان کی عظمت کو بٹا لگ گيا ؟ نہيں اور ہرگز نہيں ۔ بلکہ وہ آسمان عظمت کے روشن ستارہ تھے اور رہيں گے ۔ ليکن کيا ہم اس قسم کا پيشہ اختيار کرنے والوں کو کمتر جان کر انبياء کرام اور صحابہ کی سنت پر تيشہ زنی نہيں کر رہے ہيں ؟ نہ جانے مسلم معاشرے ميں اس طرح کا تصور کہا ں سے در آيا کہ فلاںکام ہمارے لائق نہيں تو فلاں پيشہ غيرقوموں کا ہے ؟ نتيجہ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے اندربيکاری اور کام چوری آگئی۔ آج مسلمانوں کی اکثريت خط افلاس سے نيچے زندگی گذار رہی ہے ۔۔مسلمانوں کی غربت وافلاس کی ايک بنيادی وجہ يہ ہے کہ وہ محنتی کا رو بار سے جی چراتے ہيں ، محنت و جفا کشی سے بھاگتے ہيں،تن آسانی وکام چوری کے عادی بنتے جارہے ہيں۔

دو گزارشات :

 يہ توتھے پيشہ سے متعلق دوحقائق ۔اب ہميں آپ کی خدمت ميں دوگزارشات رکھنے ہيں
پہلی گزارش يہ کہ آپ جس پيشہ سے منسلک ہوں خواہ وہ تجارت ہو يازراعت ، صنعت و حرفت ہو يا کوئی ملازمت سب سے پہلے اپنے آپ کو اس کے تئيں مطمئن کريں۔ اور نہايت تندہی ،لگن اوراخلاص کے ساتھ اپنی ذمہ داری نبھائيں ۔ اللہ کے رسول کا فرمان ہے اِنَّ اللّٰہَ يحِبُّ اِذَا عَمِلَ احَدُکُم عَمَلاً ان يت قِنَہ (البيھقی وحسنہ الالبانی فی صحيح الجامع 1880) بيشک اللہ تعالی پسند کرتا ہے کہ جب تم ميں سے کوئی شخص کوئی کام کرے تو اُسے عمدہ طريقے سے انجام دے ۔
واضح ہوکہ کام ميں عمدگی اسی وقت پيدا ہوگی جبکہ آپ کے اندر اخلاص وللہيت پائی جائے ، ديانت داری کا جذبہ ہواور ذمہ داری کو امانت سمجھيں۔ اور امانت دار ملازم وہی ہو سکتا ہے جووقت کا پابند ہو، بروقت ڈيوٹی پرپہنچ جاتاہو، اس کے پاس کاموں کی ٹھوس پلاننگ اور منصوبہ بندی پائی جاتی ہو ، روزانہ کے کاموں کی چارٹ بناکر ترتيب وار اپنے کاموں کو نمٹاتا ہو ۔ نہايت لگن اور محنت سے کام کرتا ہو ، ڈيوٹی کے اوقات ميں ذاتی کاموں کےطرف قطعا دھيان نہ ديتا ہو، اسی طرح وہ کمپنی ، آفس يا کفيل کے سارے املاک کو امانت سمجھتا ہو ۔امانت دار ملازم کی ہر شخص قدر کرتاہے ، وہ ديگر ملازمين کے لئے نمونہ ہوتا ہے ، اورمنيجر کی نظر ميں اس کی وقعت ہوتی ہے۔ يہ تو پہلی گذارش ہوئی

 دوسری گذارش يہ کہ آپ عادت کو عبادت بناننے کی کوشش کريں : اس دنيا ميں يوں تو کماتے سب لوگ ہيں تاہم جو چيز ہميں غيروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے اسلام ، اسلام نے محنت و عمل کو عبادت کا درجہ ديا ہے ۔ليکن کب ؟ جبکہ ہماری نيت خالص ہو۔ لہذاعادت کو عبادت ميں تبديل کرنے کی کوشش کريں ،مطلب يہ کہ آپ ايک مقررہ وقت سے مقررہ وقت تک ڈيوٹی ضرورکرتے ہيں، يہ آپ کے روزانہ کی عادت ہے اگر بوقت ڈيوٹی يہ نيت ہو کہ اِس کے ذريعہ ہم حرام خوری سے بچ جائيں گے اورحلال کمائی سے اپنے بيوی بچوں کی پرورش کريں گے تو آپ کی يہ عادت عبادت بن جائے گی، تب ہی تو پيارے نبی نے ہميں يہ بشارت سنائی اِنَّکَ لَن تُنفِقَ نَفَقَةً تَبتَغِی بِھَا وَجہَ اللّٰہِ اِلَّا اُجِرتَ عَلَيھَا حَتّٰی مَا تَجعَلُ فِی فِی امرَاتِکَ ” تم رضاءالہی کی نيت سے جو کچھ خرچ کرتے ہو اُس پر تجھے اجر ملتا ہے حتی کہ اُس لقمہ پر بھی جو تم اپنی بيوی کے منہ ميں ڈالتے ہو “ (بخاری )
اور امام طبرانی ؒ نے حضرت کعب بن عجرہ رضى الله عنه سے يہ روايت نقل کيا ہے کہ ايک مرتبہ اللہ کے رسول  اور آپ کے صحابہ کرام کا گذر ايک ايسے شخص سے ہوا جو بڑی محنت ومشقت کر رہا تھا ، صحابہ کرام نے کہا : يا رسول اللہ! کاش اس آدمی کی محنت اللہ کے راستے ميں ہوتی ؟ آپ نے فرمايا : اگر وہ محنت و مشقت اپنے معصوم بچوں کے لئے کر رہا ہے تواس کا يہ عمل اللہ کے راستے ہی ميں ہے اور اگر اپنے عمررسيدہ والدين کے لئے کر رہا ہے توبھی اللہ کے راستے ميں ہے اور اگر اپنے نفس کے لئے کر رہا ہے اور مقصد يہ ہے کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ  پھيلانے سے بچا رہے تويہ کوشش بھی اللہ کے راستے ميں ہے ۔ ۔ البتہ اگر اس کی يہ محنت زيادہ مال حاصل کرکے لوگوں پر برتری جتانے اور لوگوں کو دکھانے کے لئے ہے تو يہ ساری محنت شيطان کی راہ ميں شمار ہوگی ۔
غرضيکہ ايک شخص فخر ومباہات سے پرے کسب حلال کے ارادہ سے کوئی کام کرتاہے تواللہ تعالی اس کے اس عمل کو عبادت قرارديتاہے جبکہ نيت کے کھوٹ سے انسان اپنے آپ کو بے پناہ اجر وثواب سے محروم کر ليتا ہے ۔

تجارت پيشہ افراد كى خدمت ميں:
جو لوگ تجارت کے پيشہ سے منسلک ہيں سب سے پہلے ميں انہيں مبار کباد پيش کرتا ہوں کہ آپ نے انبيائی پيشہ اختيار کيا ہے ليکن يہ بات ذہن سے اوجھل نہ ہونے پائے کہ شريعت نے تجارت کے کچھ  آداب  مقرر کئے ہيں ہميں بحيثيت مسلمان انہيں اپنے پيش نظر رکھنے ہونگے واقعہ يہ ہے کہ آج اکثر مسلمان تجار شريعت کے انہيں اصول کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے تجارت کو فروغ نہيں دے پا رہے هيں ۔ اب سوال يہ ہے کہ وہ اصول کيا ہيں جن کو اپنا کر ہم کامياب تاجر بن سکتے ہيں ۔ تو اس سلسلے ميں
پہلا اصول : يہ ہے کہ تاجر کو ايماندار اور ديانت دار ہونا چاہئے: ايمانداری اور ديانت داری سے خريداروں کو اپنے اعتماد ميں لينے کی کوشش کريں يہاں تک کہ وہ آپ کو اپنا خيرخواہ سمجھنے لگيں، آپ پر بھروسہ کريں اور ان کو پورا پورا اطمينان ہوجائے کہ آپ کے ہاں دھوکہ نہ کھائيں گے ، جو اپنے لئے پسند کرتے ہيں وہی اپنے خريدار کے لئے بھی پسند کريں ، اپنے سامان کی بيجا تعريف نہ کريں کيونکہ يہ جھوٹ ہے ،خريداروں کو اچھا مال فراہم کريں ، جو مال خراب ہو اس کے عيب کو چھپاکر بيچنے کی کوشش نہ کريں يہ دراصل مکر وفريب اوردھوکہ ہے جس کی اجازت اسلام ہميں قطعا نہيں ديتا ۔ ايک مرتبہ کا واقعہ ہے اللہ کے رسول کا گذرغلے کے ايک ڈھير کے پاس سے ہوا ، آپ نے وہاں ٹھہر کر اپنا ہاتھ اس ڈھير ميں ڈالا توانگليوں ميں کچھ تری محسوس ہوئی ، آپ نے غلے والے سے پوچھا : تونے يہ کيا کيا ؟ دکاندار نے کہا : يا رسول اللہ! اس ڈھير پر بارش ہوگئی تھی۔ آپ نے فرمايا : أفلا جعلتہ فوق الطعام کی يراہ الناس من غش فليس منی (مسلم) " تم نے بھيگے ہوئے غلے کو اوپر کيوں نہ رکھ ديا کہ لوگ اسے ديکھ ليتے ، جو شخص دھوکہ دے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہيں" ۔
کچھ لوگوں کو خريد وفروخت ميں ڈنڈی مارنے کی عادت ہوتی ہے ، ليتے وقت زيادہ ليں گے جبکہ ديتے وقت وزن کم کر ديں گے ايسے لوگوں کے لئے سخت ہلاکت وبربادی ہے اللہ تعالی نے فرمايا: ويل للمطففين الذين اذا اکتالوا علی الناس يستوفون واذا کالوھم او وزنوھم يخسرون‘‘ بڑی ہلاکت ہے ناپ تول ميں کمی کرنے والوں کی کہ جب لوگوں سے ناپ کر ليتے ہيں تو پورا پورا ليتے ہيں اور جب انہيں ناپ کر يا تول کر ديتے ہيں تو کم ديتے ہيں اس آيت کے فورا بعد اللہ تعالی نے فرمايا : الا يظن اولئک انھم مبعوثون ليوم عظيم کيا انہيں اپنے مرنے کے بعد اس عظيم دن ميںجی اٹھنے کا خيال نہيں؟ آج وہ ڈنڈی مار رہے ہيں ليکن کيا وہ يہ نہيں سمجھتے کہ اللہ رب العالمين ان کے اس حرکت سے آگاہ ہے ،ايک دن انہيں اپنے رب کے پاس پہنچنا ہے اور اپنے ايک ايک عمل کا حسا ب وکتاب چکانا ہے ؟ ۔
کچھ لوگ ايسے بھی ہوتے ہيں جو مال بيچنے کے نشہ ميں جھوٹی قسميں کھانے لگتے ہيں تاکہ خريدار کو اس پراعتماد ہوجائے بخدا ميں نے يہ سامان اتنے ميں خريدا ہے ، واللہ اس ميں کوئی فائدہ نہيں ، اللہ تعالی نے ايسے لوگوں کو سخت وعيديں سنائی ہے ۔ نبی اکرم نے فرمايا : قيامت کے دن اللہ تعالی نہ اس شخص سے بات کرے گا نہ اس کی طرف منہ اٹھاکر ديکھے گا اور نہ اس کو پاک صاف کر کے جنت ميں داخل کرے گا جو جھوٹی قسميں کھا کھا کر اپنی تجارت کو فروغ دينے کی کوشش کرتا ہے ۔ (مسلم) آپ نے يہ بھی فرمايا کہ الحَلِفُ مُنَفِّقَة للسلعةِ مُمحِقة للبَرَکةِ ”اپنا مال بيچنے کے لئے کثرت سے جھوٹی قسميں کھانے سے بچويہ چيز وقتی طور پر تو فروغ کی معلوم ہوتی ہے ليکن آخر کار کارو بار ميں برکت ختم ہوجاتی ہے ۔ (مسلم )
دوسرا اصول: يہ کہ تاجر کو محنتی اور جفا کش ہونا چاہئے اور مستقل مزاج بھی : يوں تو محنت اور جفاکشی ہر ميدان ميں مطلوب ہے تاہم تجارت کے ميدان ميں اسکی اہميت مزيد دوبالا ہوجاتی ہے۔آرام طلب تاجر کبھی کامياب نہيں ہوتا۔حضرت ابوقلابہ ؒ کہا کرتے تھے : بازار ميں جم کر کاروبار کرو۔تم دين پر مضبوطی کے ساتھ جم سکوگے اور لوگوں سے بينياز رہوگے ۔اسی طرح تاجر کو مستقل مزاج ہونا چاہئے، عجلت اور جلد بازی سے بچنا چاہئے۔تجارت ميں اگرنفع ہوتا ہے تو کبھی کبھی خسارہ بھی ہوسکتا ہے لہذا خسارہ کی تلافی کرنے کی کوشش کريں نہ کہ کاروبار ہی ٹھپ کرديں۔
 تيسرا اصول : يہ کہ تاجر کو خريداروں سے نہايت خندہ پيشانی کا معاملہ کرنا چاہئے : جب خريدار سامنے آئے توتبسم اورمسکراہٹ چہرے پر کھل جائے،سلام ميں پہل کريں،نرم وشيريں انداز ميں گفتگوکريں،اس کے احترام اور تعظيم وتوقيرکوملحوظ رکھتے ہوئے اس کی مزاج پرسی کريں،اور اس کے حالات کی جانکاری ليں۔
 چوتھا اصول : يہ کہ تاجر کو حرام چيز کی تجارت نہيں کرنی چاہئے: وہ چيزيں جن کا لينا اور استعمال کرنا حرام ہے خواہ اس کا تعلق ماکولات ومشروبات سے ہو ۔ يا ملبوسات سے اس کی تجارت حرام ہے اور جب اس کی تجارت حرام ہوگی تو اس کی قيمت بھی حرام ٹھہرے گی يعنی جب وہ حرام کے دائرے ميں داخل ہوگيا تواس کی خريد وفروخت جائز نہ ہوگی۔ مسنداحمد ميں اللہ کے رسول نے فرمايا :ان اللہ اذا حرم شيئا حرم ثمنہ جب اللہ تعالی کسی چيز کوحرام کرتا ہے تواس کی قيمت بھی حرام ٹھہراتاہے۔
محترم قارئين ! يہ تھے دنيوی تجارت کے چنداصول ۔ ليکن ايک تجارت اوربھی ہے جسے ہم اخروی تجارت کا نام ديتے ہيں ۔۔ يہ وہ تجارت ہے جوہميں آخرت کے درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع ہميشہ کی کامرانی اور دائمی سکون وراحت ہے اللہ تعالی نے فرمايا ﴾ياايھا الذين آمنوا ھل ادلکم علی تجارة تنجيکم من عذاب اليم تومنون باللہ ورسولہ وتجاہدون فی سبيل اللہ باموالکم وانفسکم ذلکم خيرلکم ان کنتم تعلمون ﴿ ۔اے ايمان والو! ميں تجھے ايسی تجارت کيوں نہ بتاؤں جو تمہيں دردناک عذاب سے نجات دلائے يہ کہ تم اللہ پر اور اس کے رسول پر ايمان لاؤاور اللہ کی راہ ميں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کرو۔ يہ تمہارے حق ميں بہت بہتر ہے اگر تم علم سے کام لو ۔

اگر ہم دنيوی تجارت ميں کاميابی چاہتے ہيں تو ہميں اخروی تجارت کو اپنانا ہوگا ورنہ يہ افضل پيشہ ہونے کے باوجود ہمارے لئے وبال جان بن جائے گا۔ اللہ تعالی ہم سب کو اِس کی توفيق دے آمين 

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔