پیر, نومبر 11, 2013

اپنى كمائى کوحلال كريں


جس دن محشر بپا ہوگا سارے لوگ اللہ رب العالمين کے دربار ميں اکٹھا ہوں گے، ننگے پاؤں، ننگے بدن اور غيرمختون ۔ نفسی نفسی کا عالم ہوگا ، کتنے لوگ پسينے ميں شرابور ہوں گے ، اس دن ہمارا قدم اس وقت تک آگے نہيں بڑھ سکتا جب تک ہم چار سوالوں کا جواب نہ دے ليں: عمر کہاں گنوائی ؟ علم کے مطابق کيا کيا؟ جسم کس چيز ميں کھپايا؟ اورمال کہاں سے کمايا اور کہاں خرچ کيا ؟
جی ہاں ! يہ مال جو آج ہم کما رہے ہيں اس کے متعلق ہم سے پوچھا جانے والا ہے ۔ روزی کمانے کے دوہی طريقے ہيں: حلال طريقہ اور حرام طريقہ اللہ تعالی نے بندہ مومن کو حلال طريقہ سے روزی کمانے کا حکم ديا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: يا أيھا الناس کلوا مما فی الأرض حلالا طيبا (البقرہ 72)
"اے لوگو! زمين سے حلا ل وطيب چيزوں کا استعمال کرو"۔
اور سنن بيہقی کی روايت کے مطابق اللہ کے رسول نے فرمايا: طلب کسب الحلال فريضة بعد الفريضة- "حلال روزی کا طلب کرنا فرض ہے اللہ کے فريضہ کے بعد ۔ کيوں؟ اسلئے کہ عبادات کی قبوليت کا دار ومدار دراصل حلال کمائی ہی پر ہے ۔
٭حرام مال کے استعمال سے نماز قبول نہيں ہوتی : مسند احمد ميں اللہ کے رسول کا فرمان ہے: ”جس نے دس درہم ميں کپڑا خريدا اور اس ميں ايک درہم حرام کا تھا تو جب تک وہ کپڑا اس کے بدن پر رہے گا اللہ تعالی اس کی نماز قبول نہيں فرمائے گا ۔ “
ذرا تصور کيجئے کہ جب ايک کپڑے ميں دسواں حصہ حرام کا شامل ہوگا تو نماز قبول نہ ہوگی تو جس کے سارے کپڑے حرام پيسوں سے ہوں اس کی نماز کيسے قبول ہوگی ؟
٭ حرام مال کھانے والوں کی دعائيں بھی قبول نہيں ہوتيں:
 ذرا اس شخص کا تصور کريں جو ذلت ومسکنت کے عالم ميں ہے ، فقروفاقہ کا شکار ہے ، آمدنی کے سارے ذرائع کٹ چکے ہيں ، اجنبی ملک ميں ہے ، پراگندہ سر پراگندہ بال اور غبار آلود ہے ، قبوليت دعا کے سارے علامات اس پر ظاہر ہوچکے ہيں ايسی حالت ميں پورے خلوص اور رقت قلب کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے کہتا ہے: يارب يا رب "اے ميرے رب، اے ميرے پروردگار" يعنی نہايت عاجزی سے دعائيں کرتا ہے، ليکن اسے دھتکار ديا جاتا ہے ۔ جانتے ہيں کيوں ؟ کسب حرام کی وجہ سے، سنيں اپنے نبی کی زبانی:
 ومطعمہ حرام ومشربہ حرام وملبسہ حرام وغذی بالحرام فأنى يستجاب لہ-
"حالانکہ اس كا کھانا حرام ہے ، اس کا پينا حرام ہے ، اور حرام مال ہی سے اس کی پرورش ہوئی ہے تواس کی دعا کيوں کر قبول کی جائے گی"۔
آخر ايک انسان کے ليے دنيا ميں باقی کيا رہ گيا اگر اس کا تعلق اس کے خالق ومالک سے کٹ جائے، وہ رحمت الہی سے محروم کر ديا جائے، اسی ليے حضرت ابن عمر رضی الله عنهما نے فرمايا : " اگر تم نماز ادا کرتے کرتے کمان کی طرح جھک جاؤ اور روزہ رکھتے رکھتے چلے کی طرح دبلے ہو جاؤ تو اللہ تعالی تمہارے يہ اعمال قبول نہ کرے گا جب تک حرام سے نہ بچوگے" ۔

حرام سے بچنا عبادت ہے :
ياد رکھيں حرام سے بچنا ہی سب سے بڑی عبادت ہے- سنن ترمذی ميں اللہ کے رسول کا فرمان ہے: اتق المحارم تکن أعبد الناس- "حرام سے بچو سب سے زيادہ عابد بن جاؤگے" ۔ آج امت کا عجيب الميہ ہے کہ دين کو لوگوں نے عبادات تک محصور کر رکھا ہے ۔ رہے معاملات تواس ميں دين کے تعلق کا خيال بھی نہيں رہتا، اسی ليے آپ ديکھيں گے کہ کتنے نمازی ، وظائف واوراد کے پابند مسجد ميں اللہ اللہ کرتے ہوں گے اور جب مسجد سے باہر نکليں گے تو ساہوکار بن جائيں گے-
مولانا اشرف علی تھانوی کے ملفوظات ميں لکھا ہے مولانا نے فرمايا:
 ” اس زمانہ کو کيا پوچھتے ہو خدا کی پناہ ! ميرٹھ ميں ايک صاحب عہدہ دار تھے ، وظائف، اشراق ، چاشت سب ادا کرتے تھے اوروظائف کے درميان رشوت کی گفتگو بھی اشارة ًہوا کرتی تھی ۔ چونکہ پير صاحب نے وظيفہ ميں بولنے کو منع کيا تھا اس ليے اصحاب معاملہ سے صرف اشارہ سے بتا ديا کرتے تھے ، کبھی دو انگلياں اٹھا ديں ، کبھی تين انگلياں اٹھا دیں کہ دو سو لوں گا تين سو لوں گا۔ ظالم چاشت کی نماز سے فارغ ہوتے ہوتے کئی سو روپئے لے کر اٹھتا تھا ۔ ايک طرف مال حرام کا استحصال اور دوسری طرف عبادت"۔
 واقعی مولانا تھانوی ؒ کا بيان کيا ہوا يہ قصہ آج بھی بہت سارے لوگوں پر صادق آتا ہے ، پنج وقتہ نمازوں کی پابندی کريں گے ليکن حرام کا روبار ميں پيش پيش دکھائی ديں گے، ہميشہ تسبيح کے دانے ہاتھ ميں ہوں گے ليکن سودی لين دين ميں ملوث ہوں گے، اسی کو کہتے ہيں: اونٹ نگل جاتے ہيں اور مچھر کو چھان کر پيتے ہيں ۔
مشتبہ چيزوں سے پرہيز:
ايک وقت وہ تھا کہ اللہ والے مشتبہ چيزوں سے پرہيز کرتے تھے کہ ايسا نہ ہو کہ ان کے پيٹ ميں حرام کا لقمہ پہنچ جائے- ايک دن کا واقعہ ہے حضرت ابوبکر رضی الله عنه کا نوکر کھانے کا کوئی سامان لے کر آتا ہے اور اپنے مالک کو پيش کر تا ہے ، حضرت ابوبکر رضی الله عنه يہ پوچھے بغير تناول فرما ليتے ہيں کہ يہ کہاں کا ہے ؟ پھر بعد ميں جب نوکر نے بتايا کہ جاہليت کے زمانہ ميں ميں نے ايک شخص سے جھوٹ موٹ کی کہانت کی تھی آج اس نے ميری اس کہانت کی مزدوری دی ہے، يہ وہی ہے جو آپ نے ابھی کھايا ہے ۔ يہ سننا تھا کہ ابوبکر رضی الله عنه نے فورا اپنے حلق ميں انگلی ڈالا اور جو کچھ کھايا تھا قی کر ديا پھر فرمايا: لو لم تَخرُج اِلامع نفسی لأخرجتُھا- "اگر اسے نکالنے ميں ميری جان بھی چلی جاتی تو بھی اسے نکال باہر کرتا"۔
جی ہاں! يہ وہی لوگ تھے کہ جب وہ صبح ميں اپنے گھر سے طلب معاش کے ليے نکلتے تھے تو ان کی بيوياں کہتی تھيں:
 يا ھذا اتق اللہ فی رزقنا فإننا نصبر علی الجوع ولا نصبر علی النار-
"ہمارے رزق کے معاملے ميں اللہ کا ڈر رکھنا اس ميں حرام کی آميزش نہ آنے پائے کيونکہ ہم بھوک پر صبر کر سکتے ہيں ليکن آگ پر صبر نہيں کر سکتے"۔
جبکہ آج ہمارا حال يہ ہے کہ اکثرلوگوں کے کار وبار سے حلال وحرام کی تميز اٹھ چکی ہے اور يہ دراصل اس پيش گوئی کی تصديق ہے جو رحمت عالم نے کی تھی: يأتی علی الناس زمان لا يبالی المرء ما أخذ منہ أمن الحلال ام من الحرام (بخاری)
"لوگوں پر ايسا زمانہ آنے والا ہے کہ وہ اپنی کمائی ميں اس بات کی قطعا پرواہ نہ کريں گے کہ اياوہ حلال طريقے سے آرہی ہے يا حرام طريقے سے" ۔

حرام خوری کے اثرات:
واقعہ يہ ہے کہ حرام خوری کے انفرادی واجتماعی زندگی پر نہايت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہيں ۔ چنانچہ حرام خوری بصيرت کو اندھا کرديتی ہے، دين کو کمزور کرديتی ہے ، دل ميں قساوت وتنگی پيدا کرتی ہے ، فکر کو پراگندہ کر ديتی ہے، اعضاء وجوارح کو اطاعت کے اعمال سے روک ديتی ہے ، اور اسے دنيا کی بھول بھليوں ميں پھنسا ديتی ہے ۔
مزيد برآں حرام کمائی سے مال کی برکت چھن جاتی ہے ، جسمانی عوارض لاحق ہوتے ہيں ، آفتيں برستی ہيں، آپسی تعلقات متاثر ہوتے ہيں، معاشرے ميں بغض و حسد اور چبقلش کا ماحول بنتا ہے اور لوگ بيکاری، کام چوری، تن آسانی کے عادی ہوجاتے ہيں۔

 مال حرام كى قسميں :
حرام مال کيا ہے اور حلال مال کيا ہے ؟ اسے ہم سب سمجھتے ہيں بس ضرورت ہے حلال کو اختيار کرنے اور حرام سے بچنے کی البتہ آئيے ہم ان حرام مالوں پربھی ايک نظر ڈال ليں جن کا تعلق بندوں کی حق تلفی سے ہے ۔

٭ امانت ميں خيانت :
ان ميں سب سے پہلے مال امانت ميں خيانت کرنا ہے: اگر کسی کو امانت کا مال سونپا گيا ہے خواہ وہ کسی کميٹی کے صدر ہوں يا دينی ورفاہی اداروں کے ذمہ دار ان کا فرض بنتا ہے کہ مال کو صحيح مصرف ميں استعمال کريں اگر انہوں نے غلط سلط حساب کر کے امانت ميں خيانت کی تو انہيں ياد رکھنا چاہئے کہ کل قيامت کے دن خيانت کردہ چيزوں کو اپنى کمر اور پيٹھ پر لادے ہوئے اللہ کے دربار ميں حاضر ہونا ہوگا: ومن يغلل يأت بما غل يوم القيامة ثم توفی کل نفس ما کسبت وھم لا يظلمون (آل عمران 161)
"جو شخص خيانت کرے گا وہ خيانت کردہ چيز کو قيامت کے دن لے کر آئے گا پھر ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ ديا جائے گا"۔
اس سلسلے ميں بخاری ومسلم کی ايک طويل حديث ہے جس ميں آيا ہے کہ آپ صلي الله عليه وسلم نے ايک دن وعظ فرمايا: اوراس ميں خيانت کا ذکر خصوصيت سے کيا نيزاس کی شناعت بيان کرتے ہوئے فرمايا کہ جس نے دنيا ميں جو کچھ خيانت کی ہوگی اسے اپنى گردن پر لادے ہوئے آپ صلي الله عليه وسلم کے پاس حاضر ہوگا ،آپ صلي الله عليه وسلم سے سفارش کی درخواست کرتے ہوئے کہے گا کہ يا رسول اللہ أغثنی "اے اللہ کے رسول! ميری امداد فرمائيے"- آپ صلي الله عليه وسلم اس وقت صاف جواب دے ديں گے: لا أملک لک شيئا قد أبلغتک "ميں تيرے ليے کسی چيز کا مالک نہيں ہوں، نہ تيری امداد کر سکتا ہوں ، دنيا ميں ميں نے تجھے يہ بات پہنچا دی تھی"۔
اللہ اکبر ! کليجہ پھٹنے لگتا ہے اس طرح کی وعيديں سن کر۔ ليکن اسی پر بس نہيں ذرا اور سنيے: صحيح بخاری کی روايت ہے ايک مرتبہ آپ کے ايک خادم نے غنيمت سے ايک چادر چرالی تھی ، جہاد ميں تير لگنے سے شہيد ہو گيا ، لوگوں نے اس کی شہادت پر مبارکباد دی کہ جنت مبارک ہو يعنی شہيد ہو گيا جنت ميں جائے گا ۔ رسول اللہ نے فرمايا : کلا والذی نفسی بيدہ إن الشملة التی أخذھا يوم خيبر من المغانم لم تصبہا المقاسم لتشتعل عليہ نارا-
"ہرگز نہيں الله کی قسم ! جس چادر کو خيبر کی جنگ ميں اس نے چرايا ہے اور وہ تقسيم نہيں ہوئی تھی ، وہ چادر اس غلام پر دوزخ کی آگ بھڑکا رہی ہے"۔ يعنی ايک چادر کی خيانت کی وجہ سے وہ دوزخ ميں گيا ۔ جب لوگوں نے يہ وعيد سنی تو ڈر کے مارے ايک صاحب اٹھے اور چمڑے کے ايک يا دو تسمے لاکر آپ کی خدمت ميں پيش کردی، آپ نے فرمايا : يہ ايک يا دو آگ کے تسمے ہيں" ( حلال کمائی ص31)
دينی بھائيواور بہنو ! ہم نے امانت ميں خيانت کرنے والوں کے حق ميں وعيديں سن لی ہے اب ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر اپنے دل سے پوچھيں کہ کہيں ہم بھی اس خيانت ميں ملوث تو نہيں ، کمپنی کے کسی سامان پر ناجائز قبضہ تو نہيں کيا ؟ کفيل کے گھر سے کوئی سامان دبا تو نہيں لی ؟ اپنے دوست کے علم کے بغير اس کے کسی سامان پر تصرف تو نہيں کر ليا ؟ واقعہ يہ ہے کہ آج ہمارے مسلم معاشرے ميں اس طرح کی خيانتيں بالکل عام ہوتی جا رہی ہيں، موقع ملا توکسی کا پيسہ دبا ليا ، دھوکہ دے کر کسی کے مال پر ناحق قبضہ کرليا ؟ آج کتنے ايسے لوگ ہيں جو اپنے بھائيوں کو دھوکہ دے کر ان سے پيسے انيٹھتے ہيں ۔ آج کتنے ايسے لوگ ہيں جو قرض کے بہانے دوسروں سے پيسے ليتے ہيں اور فرار ہوجاتے ہيں کيا ہميں اللہ کا ڈر نہيں ؟ کيا ہميں موت پر يقين نہيں ؟ کيا ہميں جہنم کا خوف نہيں ؟ يہ نہ سمجھيں کہ جيسے چاہيں پيسے بٹور ليں اس کی کوئی پوچھ گچھ ہونے والی نہيں ؟ جن جن لوگوں کو چکما دے کر پيسے اينٹھے تھے کل قيامت کے دن سارے لوگ دعويدار بن کر ہمارے سامنے آئيں گے ، اس دن پيسے تو ہوں گے نہيں کہ دعويداروں کو چکا سکيں تاہم نيکياں ہوں گی ، چنانچہ ہماری ايک ايک نيکياں لے کر دعويداروں کو دے دی جائے گی ، جب نيکياں ختم ہو جائيں گی اور دعويدار باقی رہ جائيں گے تو دعويداروں کے گناہوں کو لے کرہمارے سرپر تھوپ ديا جائے گا ۔ پہاڑوں جيسی نيکياں لے کر آئے تھے ليکن ابھی گناہوں کا پتلہ بن کر رہ گئے، چنانچہ فرشتے کو حکم ہوگا کہ اسے دبوچ کر جہنم کی کھائی ميں پھينک دو ۔۔۔۔ يہی ہے حقيقی افلاس ۔

غصب:
مال حرام کی ايک قسم غصب بھی ہے يعنی کسی دوسرے کے سامان کو زبردستی چھين کر اپنا بنا لينا جيسے مکان يا زمين وغيرہ پر قبضہ کرلينا ايسے لوگوں کی نہ عبادتيں قبول ہوتی ہيں اور نہ دعائيں سنی جاتی ہيں جب تک کہ حق والے کو حق لوٹا نہ دے اور آخرت ميں ان کا انجام نہايت لرزہ خيز ہوگا اس سلسلے ميں چند سزائيں سنئے اور عبرت حاصل کيجئے:
(1) پہلی سزا يہ کہ وہ ساتوں زمينوں کا طوق پہنے ہوئے اللہ کے دربار ميں حاضر ہوگا: بخاری ومسلم کی روايت ہے اللہ کے رسول نے فرمايا : من أخذ شبرا من الأرض ظلما فانہ يطَوِّقُہ يوم القيامة من سبع أرضين َ "جس نے کسی کی ايک بالشت زمين ناحق دبائی ہے تو قيامت کے دن ساتوں زمينوں کا طوق گلے ميں ڈالے ہوئے اٹھے گا" ۔
(2) دوسری سزا يہ کہ قيامت کے دن اسے ساتوں زمين تک دھنسايا جائے گا: صحيح بخاری کی روايت ہے: من أخذ من الأرض شيئا بغير حقہ خسف بہ يوم القيامة إلی سبع أرضين- "جس نے کسی کی کچھ زمين ناحق دبائی ہے توقيامت کے دن ساتوں زمين تک دھنسايا جائے گا"-
(3) تيسری سزايہ کہ اسے حکم ديا جائے گا کہ غصب شدہ زمين کی مٹی کھود کر ميدان محشر ميں لائے- مسند احمد کی روايت ہے اللہ کے رسول نے فرمايا : من أخذ أرضا بغير حقھا کلف أن يحمل ترابھا إلی الحشر "جس نے ظلما کسی کی زمين چھين لی ہے تو اسے اس بات کی تکليف دی جائے گی کہ اس کی مٹی کھود کر ميدان محشر ميں لائے"-
(4) چوتھی سزا يہ کہ اسے تکليف دی جائے گی کہ غصب شدہ زمين کی ساتوں زمينوں تک کھودے: مسند احمد کی روايت ہے اللہ کے رسول نے فرمايا أيما رجل ظلم شبرا من الأرض کلفہ اللہ عزوجل أن يحفرہ حتی يبلغَ آخَرَ سبعِ أرضين َ "جس نے ظلما کسی کی ايک بالشت زمين لے لی ہے تو اللہ تعالی اسے اس بات کی تکليف دے گا کہ ساتوں زمينوں تک کھودے"۔
يہ ہيں سزائيں زمين غصب کرنے والوں کی، لہذا اگر ہم ميں کسی نے ايسا کيا ہے تو آج ہی توبہ کرے اور صاحب حق کو اس کا حق لوٹا دے۔
گداگری کا پيشہ:
 اپنے ہاتھ کی کمائی سب سے بہترکمائی ہے اور اللہ کے رسول نے اِسے افضل کمائی بتايا ہےاورعبادت کا درجہ ديا ہے، اس کے برعکس صحت و تندرستی رکھتے ہوئے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھيلانا،  کاسہ گدائی ليے پھرنا، اوردوسروں کے لقموں پر پلنا اسلام کی نظر ميں نہايت معيوب ہے-
بخاری ومسلم ميں حضرت ابن عمر رضي الله عنهما کا بيان ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمايا : لاتزال المسئلة بأحدکم حتی يلقی اللہ تعالی وليس فی وجھہ مزعة لحم- "تم ميں سے ايک شخص مانگتا رہتا ہے يہاں تک کہ اللہ سے جا ملتا ہے ( وہ اس حال ميں اللہ کو ملے گا ) کہ اس کے چہرے پر گوشت کا کوئی ٹکڑا نہيں ہوگا"۔
اللہ اکبر! يہ ہے وعيد ايسے شخص کے تعلق سے جو صحت و تندرستی رکھتے ہوئے بھی دوسروں کے سامنے ہاتھ پھيلاتا رہتا ہے، ايسے شخص کے ليے دنيا وآخرت دونوں جگہ رسوائی ہے ۔
اسلام تو ہميں ضرورت کے باوجود سوال نہ کرنے اور صبروقناعت اختيار کرنے کی تعليم ديتا ہے- سنن أبی داؤد ميں حضرت ثوبان رضی الله عنه کا بيان ہے کہ ايک مرتبہ اللہ کے رسول نے فرمايا: من تکفل لی أن لا يسال الناس شيئا وأتکفل لہ بالجنة "جو شخص مجھے اس بات کی ضمانت دے کہ وہ لوگوں سے کسی چيز کا سوال نہ کرے گا توميں اس کے ليے جنت کی ضمانت ديتا ہوں"۔ حضرت ثوبان رضی الله عنه کہتے ہيں کہ ميں نے کہا : ميں اس کی ضمانت ديتا ہوں چنانچہ وہ کسی سے کسی چيز کا سوال نہيں کرتے تھے ۔ يہ صرف حضرت ثوبان رضی الله عنه کا معاملہ نہيں تھا بلکہ سارے صحابہ کرام محنت ومزدوری کرکے کھاتے تھے، ان کے اندر خود داری ايسی تھی کہ بھوکے سوجاتے ليکن دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھيلاتے-
 آج ہمارے مسلم معاشرے ميں گداگری کا جو پيشہ عام ہوتا جا رہا ہے اس کی اسلام نے قطعا اجازت نہيں دی ، يہ سراسر ناجائز ہے اور ايسی کمائی حرام ہے صحيح مسلم کی روايت ہے حضرت قبيصہ بن مخارق رضی الله عنه فرماتے ہيں کہ ميں ايک شخص کے قرض کی ادائيگی کا ذمہ دار ہو گيا ، ميں نے اس کے قرض کی ادائيگی تو کردی تاہم ميں خود قرض دار ہو گيا اور اس کے ادا کرنے کی کوئی صورت نہ بن رہی تھی ۔ بالآخر خدمت نبوی ميں حاضر ہوا اورآپ سے ادا کرنے کی درخواست کی تو آپ نے فرمايا : ابھی ہمارے پاس کچھ نہيں ہے‘ کہيں سے زکاة خيرات کا جب مال آئے گا تو اس ميں سے تمہارے قرض کے ادا کرنے کے ليے کچھ روپئے دلا ديں گے ۔ پھر آپ نے بطور نصيحت ان سے فرمايا : قبيصہ! تين آدميوں کے سوا کسی کے ليے سوال کرنا جائز نہيں ہے:
(1) ايک وہ جو تمہاری طرح ضمانت اٹھا لے، لہذا اس قرض کے ادا کرنے کے ليے سوال کرنا جائز ہے يہاں تک کہ ضرورت کے مطابق وہ حاصل کر لے ۔
(2) دوسرا وہ آدمی جو کسی آفت يا حادثے کا شکار ہو گيا جس نے اس کے مال کو تباہ و برباد کر ديا ‘ اس کے ليے بھی اس حد تک سوال کرنا جائز ہے جس سے اسے اپنی گذران کے مطابق مال حاصل ہوجائے
(3) تيسرا وہ آدمی جو فاقے کی حالت کو پہنچ جائے حتی کہ اس کی قوم کے تين عقلمند آدمی گواہی ديں کہ فلاں شخص فاقے ميں مبتلا ہے تواس کے ليے سوال کرنا جائز ہے، پھر جب اس کی پريشانی جاتی رہی تو سوال کرنے سے رک جائے ۔ فما سواھن من المسئلة يا قبيصة سحت يأکلھا صاحبھا سحتا "ان تينوں کے علاوہ اے قبيصہ سوال کرنا حرام ہے، اور ايسا سوال کرنے والا حرام کھاتا ہے"۔

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔