حضرت نوح علیہ السلام کی وفات کا جب وقت قریب ہوا تو انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں۔میں تمہیں دوچیزوں کا حکم دیتا ہوں،اوردوچیزوں سے منع کرتا ہوں،میں تمہیں لا الہ الا اللہ کا حکم دیتا ہوں،اس لیے کہ ساتوں زمین اورساتوں آسمان اگرترازوکے ایک پلڑے میں رکھ دئیے جائیں اورلا الہ الا اللہ ایک پلڑے میں رکھ دیاجائے تو لا الہ الااللہ کا پلڑا بھاری ہوجائے گا ۔ اوراگر ساتوں زمین اورساتوں آسمان ایک مبہم حلقہ بن جائے تولا الہ الا اللہ انہیں توڑ دے گا اورمیں تمہیں ’سبحان اللہ وبحمدہ ‘کہنے کا حکم دیتا ہوں اس لیے کہ وہ ہرچیز کی تسبیح ہے ،اوراسی کے ذریعے مخلوق کو روزی دی جاتی ہے ۔ اورمیں تم کو شرک اورتکبر سے منع کرتا ہوں ۔ (اس حدیث کو امام بخاری نے الادب المفرد میں بیان کیاہے )
اس حدیث پر غورکیجئے کہ حضرت نوح علیہ السلام اپنے بیٹے کووفات کے وقت لا الہ الا اللہ کی وصیت کررہے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اسے معمولی مت سمجھنا ،لا الہ الا اللہ کا پوری کائنات مقابلہ نہیں کرسکتی ۔اگراسے وزن کرنے کے لیے ترازوکے ایک پلڑے میں ساتوں زمین اورساتوں آسمان رکھ دئیے جائیں اوردوسرے پلڑے میں لا الہ الا اللہ رکھ دیاجائے تو لا الہ الااللہ کا پلڑا بھاری ہوجائے گا ۔ اوراگر ساتوں زمین اورساتوں آسمان ایک مبہم حلقہ بن جائے تولا الہ الا اللہ انہیں توڑ دے گا۔
اللہ اکبر ....یہ ہے لا الہ الا اللہ کی عظمت .... اورکیوں نا ہوکہ اسی کے لیے اللہ پاک نے جن وانس کو پیدا کیا،زمین وآسمان بنایا،رسولوں کو بھیجا اورکتابیں اُتاریں ،جنت وجہنم بنایا،سارے انبیاءنے اسی کی طرف دعوت دی ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب دعوت کا آغاز کرتے ہیں تو اسی کی طرف بلاتے ہیں ،آپ کا یہی نعرہ تھا : یاایھا الناس قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا ”اے لوگو! لاالہ الا اللہ کہہ لو ، کامیاب ہوجاو ¿ گے “۔
اس یہودی لڑکے کو دیکھیں جسے موت سے کچھ دیر پہلے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لاالہ الااللہ کی تلقین کی ،ادھر لا الہ اللہ کہتا ہے ،اورادھر اس کی روح نکل جاتی ہے ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نکلتے ہیں تو آپ کا چہرہ خوشی سے دمک رہا ہوتا ہے اورآپ کی زبان پہ یہ الفاظ ہوتے ہیں الحمدللہ الذی انقذہ بی من النار اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میرے ذریعہ اسے آگ سے بچا لیا ۔کیوں؟ اس لیے کہ من کان آخرکلامہ لا الہ الا اللہ دخل الجنة جس کی آخری گفتگو لا الہ الا اللہ ہوگی وہ جنت میں داخل ہوگا ۔
دوسری طرف ابوطالب کو دیکھیں کہ اس کی موت کا وقت ہے ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم باربار اسے اس کلمہ کی تلقین کررہے ہیں لیکن اس کا اقرارنہ کرنے کی وجہ سے جہنمی ٹھہرتا ہے ۔
تیسری طرف اسامہ کودیکھیں کہ دشمن قابومیں ہے ، تلوار اٹھا رکھی ہے ،لا الہ الا اللہ بول دیتا ہے ،سوچتے ہیں کہ یہ تلوار کے ڈر سے بولا ہے ،بالآخر اسے قتل کردیتے ہیں ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سخت غصہ ہوتے ہیں اسامہ کے اس عمل پر ....کہتے ہیں اقتلتہ بعدان قال لا الہ الا اللہ لا الہ الا اللہ کہنے کے باوجود تم نے اسے قتل کردیا ،کہتے ہیں کہ یارسول اللہ اس نے ڈر سے کلمہ پڑھا تھا :آپ کہتے ہیں :کیاتم نے اس کا دل چیرکر دیکھاتھا ،فکیف بلا الہ الا اللہ اذا جاءت یوم القیامة ،لا الہ الا اللہ کا کیاکرسکوگے جب اللہ کے دربارمیں شکوی کرے گا ....
یہ وہ کلمہ توحید ہے جواسلام کی پہلی بنیادہے ،جسے ایک غیرمسلم بولتا ہے تومسلمان بن جاتا ہے،پنجوقتہ نمازوں میں اسے ہرمسلم بولتا ہے ،ہر اذان میں سنتا ہے ،کیا اس لفظ میں کوئی جادوہے کہ ایک انسان کو غیرمسلم سے مسلمان بنادے رہا ہے ، کیا بات ہے اس کلمہ میں ۔ کیا اثر ہے اس لفظ کا ؟ کیاخوبی ہے اس لفظ میں ؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ کلمہ توہم سب کو یاد ہے ،لیکن بہت کم لوگ ہیں جن کو اس کا صحیح معنی بھی معلوم ہوگا،توچلئے آئیے ....جانتے ہیں کہ لا الہ الا اللہ کامعنی کیاہوتا ہے ؟
کلمہ لاالہ الا اللہ دولفظوں سے مل کربناہے ،یا یہ کہہ لیجئے کہ لا الہ الا اللہ کے دوپیلرس ہیں نفی اوراثبات
پہلا پیلر نفی ہے :لا الہ نہیں ہے کوئی سچا معبود ۔ یہ ہرطرح کے شرک کا انکارکردیتا ہے،اوراللہ کے علاوہ ہر چیز کی عبادت کو باطل ٹھہراتا ہے ،
دوسرا پیلر اثبات ہے : الا اللہ یہ ثابت کرتا ہے کہ عبادت کی مستحق ذات اگر کوئی ہے تو وہ صرف اللہ ہے ۔
جیسے کوئی کہے کہ روم میں کوئی نہیں ہے سوائے احمد کے ....اس کا مطلب یہ ہوا کہ احمد کے علاوہ کوئی دوسرا روم میں ہے ہی نہیں ....اس میں کوئی شک رہ ہی نہیں جاتا ....توجب ہم کہتے ہیں لا الہ الا اللہ تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عبادت کے لائق اورکوئی ہے ہی نہیں سوائے اللہ تعالی کے ۔ اس میں پہلے شرک اورکفرکی نفی ہے اس کے بعد اللہ کے لیے عبادت کو ثابت کیاگیاہے ۔ اس طرح لا الہ الا اللہ کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ لامعبودبحق الا اللہ اللہ کے علاوہ کوئی سچا عبادت کے لائق نہیں ۔ گویا لا الہ الا اللہ کا مطلب یہ ہوا کہ اس بات کا عقیدہ اوراقرار کہ اللہ کے علاوہ کوئی صحیح عبادت کے لائق نہیں ہے ۔
عبادت کیاہے ؟ العبادة اسم جامع لکل مایحبہ اللہ من الاقوال والاعمال الظاہرة والباطنة عبادت نام ہے ہر اس ظاہری اورباطنی قول وعمل کا جسے اللہ تعالی پسند فرماتا ہے ۔لہذا عبادت ہروہ کام ہوا جو کسی مخصوص ہستی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیاجائے یااس کی ناراضگی کے ڈرسے کیاجائے ،اس لیے صرف نماز،روزہ ،حج ،زکاة ، ہی عبادات نہیں ہیں بلکہ کسی مخصوص ہستی سے دعا اورالتجا کرنا ،اس کے نام کی نذر ونیاز دینا ،اس کے سامنے ہاتھ بھاندھے کھڑا ہونا،اس کا طواف کرنا اوراس سے امید وخوف رکھنا وغیرہ یہ سب عبادات ہیں جن کوخالص اللہ کے لیے انجام دینا ضروری ہے ۔ہم ہررکعت میں سورہ فاتحہ کے اندر یہی اقرار کرتے ہیں کہ ایاک نعبد وایاک نستعین اے اللہ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں ۔اورتشہد میں یہی دعا کرتے ہیں کہ التحیات للہ والصلوات والطیبات ”ہرقسم کی قولی ،بدنی اورمالی عبادات اللہ تعالی ہی کے لیے ہیں ۔“
قل ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین لاشریک لہ وبذلک امرت وانااول المسلمین ،لاشریک لہ وبذلک أمرت وأنا أول المسلمین ۔ اے میرے نبی فرمادیجئے ! بیشک میری نماز اورمیری قربانی،اورمیری زندگی اورموت صرف اللہ کے لیے ہے ،اس کا کوئی شریک نہیں ،مجھے اسی بات کا حکم دیاگیاہے اورمیں سب سے زیادہ فرمانبردارہوں۔
الہ کیاہے ؟ الہ کا معنی ہے وہ معبود جو عبادت کا حق رکھتا ہو ،کس بنیاد پرعبادت کا حق رکھتا ہو ....ان صفات کی بنیاد پر جس سے وہ متصف ہے ....اوریہ ذات اللہ کی ہے ،انسان سب سے پہلے یہ دیکھتا ہے کہ اس کے نفع اورنقصان کا مالک کون ہے ،جب وہ جان لیتا ہے کہ اللہ ہی نے اسے پیدا کیا،اس سے پہلے کے لوگوں کو پیدا کیا،وہی روزی دیتا ہے ،وہی پالتا ہے ، وہی کائنات پر حکمرانی کررہا ہے ، وہی ہربھلائی کا اختیار رکھتا ہے، وہی ہرنقصان سے بچاسکتا ہے ،اس کا دل ، دماغ، جگر، گردہ، غرضیکہ جسم کا ہرحصہ اللہ ہی کے قبضہ وقدرت میں ہے ، جب تک وہ چاہتا ہے یہ تمام اعضاءصحیح کام کرتے ہیں اورجب وہ چاہتا ہے اس کو موت دے دیتا ہے ،عزت دینا ،ذلت دینا ،اولاد دینا سب اسی کے ہاتھ میں ہے تواس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کے دل میں اللہ تعالی سے شدید محبت پیدا ہوجاتی ہے ،اس کا تعلق اللہ سے ایسا ہی ہوجاتا ہے جیسے ایک دودھ پیتے بچے کا اپنی ماں کی گود سے ۔ ٭ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا ٭ وہ اللہ پر بھروسہ اورتوکل کرتا ہے ۔ اللہ کے ہر حکم اورفیصلے پر صبر کرتا ہے ،اللہ کے عذاب سے خوف محسوس کرتا ہے ،اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا ۔ عبادت کے سارے کام اللہ کے لیے انجام دینے لگتا ہے ،پریشانیوںمیں اسی سے لولگاتاہے،مشکلات میں اسی کو پکارتا ہے ،اسی کے پاس پناہ طلب کرتا ہے اوراسی کی محبت میں سکون پاتا ہے ۔
اوریہی ہے لا الہ الا اللہ کا تقاضا کہ اللہ کے علاوہ ہر چیز کی عبادت کو چھوڑ دیاجائے ،اورعبادت کے سارے کام اللہ کے لیے شروع کردئیے جائیں ،اب اگر کوئی لا الہ الا اللہ کہتا ہو لیکن عبادت کے کچھ کام غیروںکے لیے بھی کرتا ہو مثلاً کسی غیر کو مشکل کشا سمجھتا ہے،حاجت روا مانتاہے،کسی انسان ،پیر فقیر کی قبروںپر سجدے کرتا ہے،ان کے لیے نذریں مانناہے،ان کی قبروں پر جانورذبح کرتا ہے تو گویا اس نے لا الہ اللہ کے تقاضا کو پورا نہیں کیا ۔
ذلک بان اللہ ھوالحق وأن ما یدعون من دونہ ھو الباطل” یہ اس لیے کہ اللہ تعالی ہی حق ہے اور وہ اللہ کے علاوہ جس کی پوجا کرتے ہیں وہ باطل ہے ۔“
محترم قارئین ! لا الہ الا اللہ کا اقرار کب صحیح ہوگا ؟ کب مانا جائے گا کہ ایک آدمی لا الہ الا اللہ کو صحیح طریقے سے اپنا رہا ہے ،اس کی شرطیں کیا ہيں؟ اس میں چھ شرطوں کاپایاجانابہت ضروری ہے :
علم : یعنی بولنے والے کو اس کلمہ کا معنی پتہ ہو اوراس کا جو تقاضا ہے کہ ”اللہ کے علاوہ ہرایک کی عبادت ترک کردینا “ اسے وہ جانتا ہو۔ فاعلم أنہ لا الہ الا اللہ ”جان لو کہ اللہ کے علاوہ اورکوئی معبودبرحق نہیں ۔ “
یقین: یعنی بولنے والے کے دل میں اس کے تعلق سے ذرا برابر شک نہ ہو ،یا لا الہ الا اللہ کا جو تقاضا ہے کہ ”اللہ کے علاوہ ہرایک کی عبادت ترک کردینا ‘ اس کے تعلق سے اس کے دل میں کسی طرح کا شک نہ ہو ۔ انما المو ¿منون الذین آمنوا باللہ ورسولہ ثم لم یرتابوا (الحجرات 15) بیشک مومن وہ ہیں جو اللہ پر اوراس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں پھر اس میں کسی طرح کا شک نہیں کرتے ۔
اخلاص : یعنی اللہ کی رضاچاہتے ہوں اس کلمہ کے ذریعہ ،اللہ تعالی نے فرمایا: وما ا ¿مروا الا لیعبدوا اللہ مخلصین لہ الدین (البینة ۵) ان کو یہی حکم ملا تھا کہ دین کو خالص کرکے اس کی عبادت کریں ۔
سچائی : یعنی اپنے دل کی سچائی سے اس کی گواہی دے ،اس کی زبان اس کے دل کی موافقت کر رہی ہو ۔ ومن الناس من یقول آمنا باللہ وبالیوم الآخروماھم بمؤمنین ہے ۔ (البقرة 8) لوگوںمیں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پراوریوم آخرت پر ایمان لائے ہیں حالانکہ وہ مومن نہیں ہیں ۔
محبت : یعنی اس کلمہ سے محبت ہو ،اس کے پڑھنے والے سے محبت ہو ،اورجو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں اوراہل ایمان سے بغض رکھتے ہیں ان سے بغض ہو والذین آمنوا اشد حبا للہ ایمان والے اللہ سے شدیدمحبت رکھنے والے ہوتے ہیں ۔
قبول : قبول کا مطلب ہے کسی چیز کودل کی خوشی سے لے لینا، اوریہاں مراد ہے کہ کلمہ توحیداوراس کا جو تقاضا ہے اسے سراورآنکھوں سے قبول کرلینااوران میں سے کسی چیز کا انکار نہ کرنا ۔ اللہ پاک نے ایسی قوم کی خبر دی ہے جس نے لا الہ الا اللہ کہنے سے انکار کردیا تو یہ اس کی ہلاکت کا سبب بنا: انا کذلک نفعل بالمجرمین انھم کانوا اذا قیل لھم لا الہ الا اللہ یستکبرون (الصافات34۔35) ہم مجرموں کو ایسا ہی بدلہ دیاکرتے ہیں ،جب ان سے کہا جاتا تھا کہ لا الہ الا اللہ کہہ لو تو تکبر کرتے تھے ۔
تابعداری اوراطاعت : یعنی لا الہ الا اللہ اوراس کے تقاضے کا ظاہری اورباطنی طورپر تابع ہوجائے ۔ مطلب یہ کہ اللہ نے جن چیزوں کا حکم دیاہے انہیں کرنے لگ جائے اورجن چیزوں سے روک دیاہے ان سے رک جائے ۔ وأنیوا الی ربکم وأسلموا لہ من قبل أن یاتیکم العذاب ثم لا تنصرون (الزمر54) اوراپنے رب کی طرف رجو ع کرواوراس کے تابعداربن جاو ¿ ،اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آجائے اور پھر تمہاری مدد نہ کی جاسکے ۔
محترم قارئین ! یہاں پر ایک بہت بڑی غلط فہمی جو پائی جاتی ہے لا الہ الا اللہ کے ترجمہ کے تعلق سے ....اسے بھی واضح کردینا بہت مناسب ہے .... کچھ لوگ لا الہ الا اللہ کا معنی کرتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا اللہ نہیں ....یا اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا مالک نہیں ....یہ غلط ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ کیوںغلط ہے ؟اگر ہم لا الہ الا اللہ کا ترجمہ کریں کہ اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا اللہ نہیں ،یا اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا مالک نہیں تو اس میں کیاحرج ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا کہنے سے اسلام کو دوسرے مذاہب سے کوئی امتیاز حاصل نہیں ہوگا ،اس لیے کہ دنیا کے اکثر مذاہب مانتے ہیں کہ خالق ومالک اورمدبر اوپر والا اللہ ہے ۔خودزمانہ جاہلیت کے مشرکین کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے ،وہی رزق دیتا ہے ،وہی مارتا ہے ،وہی جلاتا ہے ،اوروہی کائنات کی تدبیر کررہا ہے ۔اللہ تعالی نے فرمایا: قل من یرزقکم من السماءوالا ¿رض أمن یملک السمع والأبصار ومن يخرج الحی من المیت ویخرج المیت من الحی ومن یدبر الأمرفسیقولون اللہ آپ کہہ دیجئے کہ وہ کون ہے جو تم کو آسمان اورزمین سے رزق پہنچاتا ہے یاوہ کون ہے جو آنکھوںاورکانوںپر پورا اختیار رکھتا ہے ،یاوہ کون ہے جو کانوں اورآنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے ،اوروہ کون ہے جو زندے کو مردے سے نکالتا ہے اورمردے کو زندہ سے نکالتا ہے اوروہ کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے ؟ضرور وہ یہی کہیں گے کہ اللہ ۔ تو ان سے کہئے کہ پھر کیوں نہیں ڈرتے ؟ ۔ یہی نہیں بلکہ وہ صدقہ بھی کرتے تھے ،حج بھی کرتے تھے ،عمرہ بھی کرتے تھے ،اوراللہ کے ڈرسے بہت سارے حرام کاموںکو ترک بھی کرتے تھے لیکن جس بنیادپر وہ مشرک اورکافر ٹھہرے وہ یہ کہ عبادت کو خالص اللہ رب العالمین کے لیے ثابت نہیں کیا ۔ کہ اللہ کے علاوہ کسی سے مددنہیں مانگی جاسکتی ،اللہ کے علاوہ کسی کومشکل کشا اورحاجت روانہیں سمجھا جاسکتا ۔ قرآن نے خود ان کے عقیدہ کو نقل کیا سورہ زمرآیت نمبر3 والذین اتخذوامن دونہ اولیاءمانعبدھم الا لیقربونا الی اللہ زلفا اورجو لوگ اس (اللہ ) کے سوا اولیاء بنا رکھے ہیں اورکہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں ۔ یہی بات سورہ یونس آیت نمبر18میں بھی کہی گئی کہ ویعبدون من دون اللہ مالایضرھم ولاینفعھم ویقولون ھولاء شفعاءنا عنداللہ وہ اللہ کے علاوہ ان کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کونفع پہنچا سکیں اورنہ نقصان اورکہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں ۔
کچھ لوگ نادانی کی بنیاد پر یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی ذات بہت اونچی ہے ،اس تک ہماری بات ڈائرکٹ نہیں پہنچ سکتی ،اللہ تک پہنچنے کے لیے واسطے کی ضرورت ہے ،جیسے بادشاہ سے ملنا ہوتو پہلے اس کے مقربین سے ملنا پڑتا ہے ۔ اللہ کی ذات کے بارے میں یہ سوچ بالکل غلط ہے ،اوراسی سوچ کی بنیاد پر دنیا میں شرک پھیلا ہے ،اللہ تعالی کو اس کی کمزورمخلوق پر قیاس نہیں کیاجاسکتا ۔ مثال کے طورپر بادشاہ جہاں پر بیٹھا ہوا ہے وہاں سے نہ اپنی پوری رعایاکو دیکھ سکتا ہے اورنہ بغیر ذریعہ کے ان کی بات کو سن سکتا ہے ،اورپھر اسے اپنی حفاظت کے لیے بڈی گارڈ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ لیکن اللہ تعالی ان چیزوںسے پاک ہے اورہرحال اورہرجگہ اپنی مخلوق کو دیکھتا بھی ہے اورہرکسی کی بات کو ڈاٹرکٹ سنتا بھی ہے ،بندے اوراللہ کے بیچ میں کوئی گیپ ، کوئیDistence اورکوئی دوری نہیں ہے ،وہ تو انسان کی شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ، اس لیے اللہ کی ذات کو مخلوق پر قیاس کرنا جائز نہیں فلا تضربوا للہ الأمثال ان اللہ یعلم وأنتم لاتعلمون اللہ تعالی کے لیے مثالیں مت بناؤ ،اللہ خوب جانتا ہے اورتم نہیں جانتے ۔
محترم قارئین ! یہ ہے کلمہ لا الہ اللہ کا مفہوم ،شرائط اورتقاضے ....اب اگر کوئی آدمی اللہ تعالی کی ذات میں یا اس کی صفات میں یا اس کی عبادت میں کسی غیرکو شریک ٹھہراتا ہے تو گویا وہ لا الہ الا اللہ کے خلاف چل رہا ہے ،اوریہی شرک ہے ۔یعنی اللہ تعالی کی ذات ،یااس کی صفات یا اس کی عبادت میں کسی غیر کو شریک ٹھہرانا ۔ اورشرک بہت بڑا ظلم ہے ،اس لیے کہ یہ اللہ تعالی کی حق تلفی ہے ،توحیدبہت بڑا عدل ہے اورشرک بہت بڑا ظلم ہے ۔ظاہر ہے کہ اللہ کا خالص حق دوسروںکودے دینا ظلم نہیں تو اورکیا ہے ۔ اللہ پاک نے فرمایا: ان الشرک لظلم عظیم شرک بہت بڑا ظلم ہے ۔شرک سے سارے اعمال برباد ہوجاتے ہیں ولقداوحی الیک والی الذین من قبلک لئن أشرکت لیحبطن عملک ولتکونن من الخاسرین (الزمر65) یقیناً تیری طرف بھی اورتجھ سے پہلے کے نبیوں کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگرتونے شرک کیا تو بلاشبہ تیرا عمل ضائع ہوجائے گا ۔ اور یقیناً تو نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔بلکہ اگر کسی شخص کی مو ت شرک کی حالت میں ہوگئی تو اس کی معافی بھی نہیں ہے اللہ تعالی نے فرمایا: ان اللہ لایغفر أن یشرک بہ ویغفرمادون ذلک لمن یشاء(سورة نساء48) بیشک اللہ تعالی اپنے ساتھ شرک کئے جانے کو نہیں بخشتا اوراس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے ۔
0 تبصرہ:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔