پیر, نومبر 04, 2013

اسلام كےمحاسن اور اس کے تئیں ہماری ذمہ داریاں

اسلام ایک آفاقی اورعالمگیر دین ہے جس کی تعلیمات کسی خاص جگہ ،کسی خاص قوم ، یاکسی خاص زمانے کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ پوری انسانیت کا دین ہے جو قیامت کے دن تک دنیا کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ قرآن خود اپنا تعارف کراتا ہے ھدی للناس قرآن رہنمائی ہے ساری انسانیت کے لیے ....ان ھو الا ذکر للعالمین ۔قرآن نصیحت ہے ساری دنیاوالوںکے لیے .... تبارک الذی نزل الفرقا ن علی عبدہ لیکون للعالمین نذیرا برکت و الی ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر یہ قرآن اُتارا تاکہ یہ ساری دنیا کے لیے ڈرانے والا ہو۔ قرآن آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہتا ہے : وما أرسلناک الاکافة للناس بشیراونذیرا ولکن اکثرالناس لایعلمون (سبا28) ”ہم نے آپ کو سارے انسانوںکے لیے خوشخبری دینے والا اورڈرانے والا بناکر بھیجا ہے ....لیکن اکثرلوگ یہ بات نہیں جانتے ۔“

يہ دین way of life ہے، زندگی گزارنے کا ایک طریقہ ہے ....مکمل نظام حیات ہے، زندگی کے ہرشعبے میں رہنمائی کرتاہے ،اس میں کسی طرح کی کمی اوربیشی کی کوئی گنجائش نہیں الیوم اکملت لکم دینکم وا ¿تممت علیکم تعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ”آج میں نے تمہارا دین مکمل کردیا،تم پر اپنی نعمت تمام کردی ،اورتمہارے لیے اسلام کوبحیثیت دین کے پسند کرلیا ۔ یہ دین اتناہی پُرا نا ہے جتنا کہ خود انسان ہے ،اسلام انبیاءورسل کا دین ہے جو پہلے انسان آدم علیہ السلام سے شروع ہوا ،ہرزمانے میں انبیاءورسل آتے رہے ،لیکن جب دنیا ساتویںصدی عیسوی میں اپنی جوانی کو پہنچ گئی تواللہ پاک نے آخری نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم پراس دین کو ختم کرکے قیامت کے دن تک کے لیے محفوظ کردیا ۔
جب اپنی پوری جوانی پہ آگئی دنیا  
جہاں کے واسطے ایک آخری پیام آیا
اس دین کی فطری تعلیم تو دیکھیں کہ یہ ہمیں اپنے خالق ومالک سے ملاتا ہے ،وہ ہماری پیشانی کی قدرکرتا ہے کہ اِسے صرف اُسی اللہ کے سامنے جھکنا چاہیے ۔جوہمارا پیدا کرنے والاہے ،ہم سے پہلے لوگوں کا پیدا کرنے والا ہے ،جس نے زمین بنایا،آسمان بنائی ،سورج چاند بنائے ،ہم پر ہرطرح کی انعامات کی توپھر عبادت بھی توصرف اُسی ایک اللہ کی ہونی چاہیے ۔فلاتجعلوا للہ انداداوا ¿نتم تعلمون 

یہ وہ دین ہے جو انسانوں کو ایک مقصد ایک ہدف اور ایک نصب العین پر جمع کرتا ہے ....جو رنگ ونسل کے فرق کو مٹاکر ساری انسانیت کو ایک کردیتا ہے ....سارے انسانوںکو ایک ماں باپ کی اولاد قرار دیتا ہے ،جن کے بیچ کوئی بھیدبھاو ¿،نسلی تعصب اورامتیاز نہیں ،اِس طرح اسلام عالمی بھائی چارہ قائم کرتا ہے ۔ یاا ¿یھالناس انا خلقناکم من ذکرو أنثی وجعلناکم شعوبا وقبائل لتعارفوا ان اکرمکم عنداللہ أتقاکم اے لوگو!ہم نے تم سب کو ایک ہی مردوعورت سے پیدا کیا ہے اورمختلف قبیلوں اورجماعتوں میں بانٹ دیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو ،اللہ کے نزدیک تم میں سے بہتر وہ ہے جو اللہ کا سب سے زیادہ ڈررکھنے والا ہو۔ 

یہ وہ دین ہے جس کا راستہ بالکل سیدھا،بالکل واضح اوردوٹوک ہے۔ وأن ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ ولاتتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ یہ میرا سیدھا راستہ ہے لہذا اسی پر چلواورمختلف راستوں پہ مت لگو ورنہ صحیح راستے سے ہٹ جاؤ گے ۔ترکتکم علی المجحة البیضاءلیلھا کنھارھا لایزیغ عنھا الا ھالک ہم تمہیں بالکل روشن راستے پر چھوڑے جارہے ہیں جس کی رات بھی دن کے جیسے ہے ،جو اُس سے اعراض کرے گا وہ برباد ہوجائے گا۔ 

اسلام ہمیں اعتدال اورتوازن سکھاتا ہے ،اس میں نہ افراط ہے اورنہ تفریط ہے ۔

اسلام دین فطرت ہے ،انسانی طبیعت سے میل کھانے والا دین ہے ....اسلام ترک دنیا،رہبانیت اورجوگی پن کو پسند نہیں کرتا ۔دینداری کے نام پر بیوی بچوں سے الگ ہوجانا جنگلوں میں چلے جانا اسلامی تعلیم کے خلاف ہے ،اسلام ہمیں معاشرت پسند بناتاہے ، معاشرے میں رہنا اوربیوی بچوںکے حقوق ادا کرنا سکھاتا ہے ۔

اسلام بہت آسان مذہب ہے جس پر چلنا بہت ہی آسان ہے ۔ یریداللہ بکم الیسرولایریدبکم العسر اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے ۔سختی نہیں چاہتا ۔اسلام کی تعلیمات انسان کی طبیعت کی رعایت کرتی ہیں ۔

اسلام کے تمام مسئلے انسانیت کی نجات اور حفاظت کے ضامن ہیں ....اسلام دین کی حفاظت کرتا ہے ،عقل کی حفاظت کرتا ہے ،جان کی حفاظت کرتا ہے ،مال کی حفاظت کرتا ہے ، عزت کی حفاظت کرتا ہے ۔

اسلام ایک ماڈرن اورایٹوڈیٹ مذہب ہے ،ماڈرن اتنا کہ دنیاکی ساری ماڈرنیٹی اسلام کی ماڈرنیٹی کے سامنے قربان ہے ،اوراپٹوڈیٹ اتنا کہ اس کے کسی بھی قانون میںExpiry Date نہیں، زمانے اورجگہ کے فرق سے اس کی تعلیمات کبھی بدل نہیں سکتیں....عقائد ہوں،عبادات ہو، معاملات ہوں،اخلاقیات ہوں،حلال وحرام ہو،حقوق وفرائض ہو ںسب اپنی جگہ پرٹھوس ہیں ۔اِس میں کوئی لوچ نہیں۔ اوررہے بھی کیسے کہ یہ اُتارا ہواہے اس خالق کائنات کا جوانسان کی فطرت سے آگاہ ہے: ألایعلم من خلق وھو اللطیف الخبیرکیاوہی نہ جانے جس نے پیدا کیا اوروہ باریک بیں اورخبر رکھنے والا ہے ۔
   
 اسی لیے ہمارے خالق ومالک کے نزدیک اگرکوئی دین قابل اعتبار ہے تووہ دین اسلام ہے ....ان الدین عنداللہ الاسلام (سورہ آل عمران آیت نمبر19) ” بیشک دین اللہ رب العالمین کے نزدیک اسلام ہی ہے ۔“ ومن یبتغ غیرالاسلام دیناً فلن یقبل منہ وھوفی الآخرة من الخاسرین (سورہ آل عمران آیت نمبر85) ”اورجوکوئی اسلام کے علاوہ کسی اوردین کو اپنائے گا وہ اس سے قبول نہ کیاجائے گا اوروہ آخرت میں گھاٹا اٹھانے والوںمیں سے ہوگا ۔“ اورصحیح مسلم کی روایت ہے : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: والذی نفسی بیدہ لایسمع بی ا ¿حد من ھذہ الا ¿مة یہودی ولانصرانی ثم یموت ولم یو ¿من بالذی ا ¿رسلت بہ الا کان من أصحاب النار قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ،اس امت کا جوکوئی چاہے یہودی ہویاعیسائی ....میری بات سنتا ہے ،اورمیرے پیغام پر ایمان لائے بغیرمرجاتا ہے تو وہ جہنمی ہوگا ۔ 

یہ ہے ہمارا دین ! جس کے ہم ماننے والے ہیں ،جس پراللہ پاک نے ہمیں پیدا فرمایاہے ،اگروہ چاہتا توہمیں کسی غیرمسلم گھرانے میں پیدا کرسکتا تھا ،ہم مورتیوںکے سامنے سرٹیکنے والے ہوتے ،لیکن اس نے ہم پر کرم فرمایا،اپنی ذات کی پہچان عطاکی،اوراتنا بہتردین دیا.

 دین کے تئیں ہماری سب سے پہلی ذمہ داری :
یادرکھیں! اس دین کے تئیں ہماری سب سے پہلی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ ہم اِسے سیکھیں،اِسے جانیں....کیوں؟ ....اس لیے کہ دین سیکھنا ہرمسلمان مردوعورت کی ذمہ داری ہے ۔ہمارے نبی کا فرمان ہے :طلب العلم فریضة علی کل مسلم ”علم کا سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے “۔اس سے مراد دین کا ضروری اوربنیادی علم ہے ۔

علم کیا ہے ؟جہالت کااپوزٹ ہے ،اورکسی جاہل کوبھی یہ بات پسند نہیں ہوتی کہ اُسے جاہل کہاجائے ،اِسی سے آپ علم کی اہمیت کا اندازہ لگاسکتے ہیں ۔اللہ کی ایک صفت علیم ہے ،یعنی بہت زیادہ جاننے والا ،آدم علیہ السلام کوفرشتوںپر علم کی بدولت برتری حاصل ہوئی ،قرآن کریم میں سب سے پہلی آیت جو نازل ہوئی اس کی شروعات اقرا ¿ سے ہورہی ہے ۔اس میں پڑھنے کا حکم دیاجارہا ہے جو علم کی کنجی ہے ۔
یہ علم ہے جسے سیکھنے کے لیے آدمی نکلتا ہے تواس کے لیے جنت کا راستہ آسان کردیاجاتاہے ، فرشتے اس کے راستے میں پر بچھاتے ہیں ،عالم کے لیے زمین وآسمان کی ساری مخلوق یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں بھی دعا کرتی ہیں ۔اس سے بڑھ کر عظمت ،فضیلت اوربرتری اورکیاہوگی کہ ہمارے لیے فرشتے جو نورانی مخلوق ہیں پر بچھادیں اور سمندرکی مچھلیاں بھی دعا گوہوں۔
علم کی اسی اہمیت کی بنیاد پر اللہ پاک نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ اس میں اضافہ کی دعا کرتے رہیں : وقل رب زدنی علماً اورکہتے رہیں کہ اے اللہ میرے علم میں زیادتی فرما۔
 اسلام عمل کرنے سے پہلے علم سیکھنے کا حکم دیتا ہے ،امام بخاری ؒ باب باندھتے ہیں باب العلم قبل القول والعمل ،باب ہے قول اورعمل سے پہلے علم کا ....اس کے ضمن میںیہ آیت پیش کرتے ہیںفاعلم انہ لاالہ الا اللہ ۔جان لو کہ اللہ کے علاوہ اورکوئی معبود برحق نہیں ۔اس سے پتہ چلا کہ ایک مسلمان جاہل نہیں ہوسکتا ۔سب سے پہلے اُسے کلمہ لاالہ الا اللہ کوجاننے کی ضرورت پڑتی ہے،پھروہ مسلمان بنتاہے۔
علم کی یہی اہمیت تھی کہ ہمارے علماءنے دین سیکھنے اورسکھانے میں ریکارڈ قائم کردیا۔ دنیا کی تاریخ میں علماءنے جس قدرمحنت کی کسی نے نہیں کیا ،آج اسلامی کتابوںکے جو ذخیرے پائے جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے ،یہ انہیں علماءکی کوششوں کا نتیجہ ہے ۔ 
پھر دین سیکھنے میں عیب کیاہے ،چاہے ہماری عمر کتنی بھی ہوگئی ہو ،کوئی ضروری نہیںہے کہ آدمی علم کے لیے خود کو پورے طورپرفارغ کرلے ،کام بھی کرسکتا ہے ،اورادھر طالب علم بھی بنارہ سکتا ہے ، اوریہ بات کہنا بالکل غلط ہے کہ ہمارے پاس ٹائم نہیں ہے ....دین کے لیے اگر ہم ڈائم نہیں نکال سکتے توہماری زندگی کا مقصد ہی جاتا رہا ۔ اورہاں! ٹائم ضرور نکلے گا بس پلاننگ کرنے کی ضرورت ہے ۔
 اس لیے آئیے ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنے دین کو سیکھیں گے ۔اوردین سیکھنے کے لیے چارباتوںکوسامنے رکھیں گے ۔ سب سے پہلے ہمارے اندراخلاص ہوگا: ہم اللہ کی رضا کے لیے علم سیکھیں گے۔ مسلسل محنت کریں گے ،اس بات کی بالکل پرواہ نہیں ہوگی کہ ہماری عمر کیا ہے کہ یہ دین کا معاملہ ہے ۔اس سلسلے میں ہمارے اندر فولادی ارادہ ہوگا اوربلندہمتی پائی جائے گی ....اورچھوتھے نمبرپر اسلام سیکھنے میںادب اورسلیقہ کالحاظ رکھیں گے ۔

دین سیکھنے کی ترتیب :
صحابہ کرام علم کے رسیا تھے ،ان میں سے بعض لوگ ہمیشہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھاکرتے تھے ،وہ سوالات کرکے بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے علم سیکھاکرتے تھے ،صحابہ کرام کو یہ بات بھی پسند ہوتی تھی کہ دیہاتی لوگ آئیں ،آپ سے دین کے بارے میں پوچھیںاس طرح ان کوسیکھنے کا موقع ملے ،ایک دن کی بات ہے ،عادت کے مطابق صحابہ کرام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میںبیٹھے ہوئے تھے ،اچانک مجلس میں ایک اجنبی شخص آگیا،مجلس میں سے کوئی آدمی اُسے پہچان نہیں رہا ہے ،سفید لباس پہنے ہوئے ہے، بال بالکل سیاہ ہے ،اورعجیب بات یہ ہے کہ اس پر سفر کی نشانی بھی ظاہر نہیں ہورہی ہے ۔سب حیران ہیں کہ یہ کون آدمی ہے ؟ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آیااورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گیااوراپنی دونوںہتھیلیاں دونوںرانوںپر رکھ لیں ۔پھراُس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوکر کچھ سوالات کیے ۔ 
پہلا سوال تھا : اے محمد! مجھے بتائیے اسلام کیاہے ؟ آپ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ زبان سے تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ،اورمحمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔نمازقائم کر ،زکاة ادا کر ، رمضان کے روزے رکھ ،اوراگر تجھے طاقت ہے یعنی سواری اورزادراہ میسر ہے تو بیت اللہ کا حج کر ۔ اُس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا: 
حضرت عمرؓ کہتے ہیں ہمیں تعجب ہوا کہ یہ کیسا آدمی ہے جو پوچھ بھی رہا ہے اورپھر اُس کی تائید بھی کررہا ہے ۔کیونکہ پوچھتا تو وہ ہے جسے معلومات نہ ہو اور تائید وہ کرتا ہے جسے معلومات ہو ....دونوںایک ساتھ جمع ہو رہا تھا تو ظاہر سی بات ہے حیرانی ہوگی ہی ۔ 
اُس نے دوسرا سوال کیا : اے نبی! مجھے بتائیے ایمان کیاہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پر ایمان لائے ،اس کے فرشتوںکو مانے ،اُس کی کتابوںکو تسلیم کرے ، اس کے رسولوںپر تیرا ایمان ہو ،یوم آخرت پر تیرا یقین ہو اورتقدیر کے اچھا اور بُرا ہونے پر بھی تو ایمان رکھے ۔ اُس آدمی نے کہا : آپ نے سچ فرمایا: 
اُس نے تیسرا سوال کیا : اے نبی مجھے بتائیے احسان کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ا ¿ن تعبداللہ کا ¿نک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک تواللہ کی عبادت یوںکرگویا تو اُسے دیکھ رہا ہے ۔ اوراگرتو اللہ کواپنی آنکھوںکے سامنے دیکھنے کا تصورنہیں کرسکتا توکم سے کم یہ تصور رہے کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے ۔ 
اُس نے چوتھا سوال کیا : اے نبی مجھے بتائیے قیامت کب آئے گی ؟آپ نے فرمایا: ماالمسﺅل عنھا با ¿علم من السائل ”جس سے سوال کیاگیاہے وہ سوال کرنے والے سے کچھ زیادہ نہیں جانتا ۔یعنی اس کے بارے میں مجھے تم سے زیادہ علم نہیں ہے ۔اُس نے عرض کیا : توپھرمجھے قیامت کی نشانیاں ہی بتادیجئے ۔آپ نے فرمایا: قیامت کی نشانی یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دینے لگے گی ، اورننگے پاو ¿ں،ننگے بدن غریب اورمفلس ،بکریوںکے چرواہے اونچی اونچی عمارتیں بنانے میں مقابلہ بازی شروع کردیں گے ۔
 صحابہ کرام کی اس مجلس میں اس نے یہی چار سوالات کئے کہ اسلام کیا ہے ؟ایمان کیاہے ؟احسان کیا ہے ؟اورقیامت کب آئے گی ؟پھر وہ اٹھ کر چلاگیا، سارے صحابہ مجلس میں بیٹھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ دیکھ رہے ہیں کہ کب پتہ چلے اس آدمی کا ....جو آیا،پوچھا اورچلتا بنا ۔ کچھ ہی دیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرفاروق ؓ سے پوچھا : اے عمر!تم جانتے ہو یہ سوال کرنے والا کون تھا ؟ عمرفاروق نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: فانہ جبریلُ أتاکم یعلمُکم دینَکم ”یہ جبریل امین تھے جو تمہیں تمہار ادین سکھانے آئے تھے “۔ 

یہ حدیث حدیث جبریل کے نام سے مشہورہے ،اس حدیث میں جبریل علیہ السلام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آتے ہیںاورترتیب سے دین سکھاتے ہیں ، سب سے پہلے اسلام کی بنیاد بتائی جارہی ہے ،اُس کے بعد ایمان کی بنیاد پرروشنی ڈالی جارہی ہے ،اس کے بعد احسان کی کیفیت کو واضح کیاجارہا ہے ،اوراخیرمیں قیامت کے بارے میں گفتگو ہورہی ہے ۔دین سیکھنے کا یہی طریقہ سب سے بہتر طریقہ ہے ،تب ہی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اخیرمیں فرمایا فانہ جبریلُ ا ¿تاکم یعلمُکم دینَکم کہ ’یہ جبریل امین تھے جو تمہیں تمہار ادین سکھانے آئے تھے ‘۔ 

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔