پیر, نومبر 04, 2013

نماز : اهميت، فضيلت اور فلسفہ


ایک آدمی اگرکسی کمپنی میں ملازمت اختیار کرتا ہے تواس کی ذمہ داری کیا بنتی ہے ؟ یہی نا کہ ڈیوٹی کے ٹائم میں ڈیوٹی دے ، تب ہی اس کی ملازمت برقرار رہ سکتی ہے ، آپ اپنے بچے کا داخلہ سکول میں کراتے ہیں تو بچے کو کورس دیاجاتا ہے اب اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ روزانہ کلاس میں حاضر ہو، سبق کو یاد کرے ، تب ہی وہ اسکول کا طالب علم سمجھا جائے گا۔ اورامتحان میں پاس ہوگا ۔ بالکل اُسی طرح جب ہم نے کلمہ شہادت کا اقرار کیا اوراپنے آپ کو مسلمان کہا تو گویا ہم اسلام کی عمارت میں داخل ہوگئے ، اسلام کے گھر میں داخل ہونے کے بعد ہم پر پہلی ذمہ داری یہ عائد ہوئی کہ ہم نماز ادا کریں جواس عمارت کا بنیادی پیلر ہے ، اگر پیلر گر گیا تو عمارت قائم نہیں رہ سکتی ،اُسی طرح نماز اگرضائع ہونے لگی تو اسلام کا وجود مشکل ہے، اس لیے کہ ہم نے زبان سے تو اقرار کیا کہ ایک اللہ کی عبادت کریں گے لیکن اپنے عمل سے اُس کا انکار کیا گویا ویسے ہی ہوا کہ ہم نے جاب تو حاصل کرلیا لیکن ڈیوٹی میں نہیں گئے ،یا بچے کا اڈمیشن توکرادیا لیکن اسے کبھی اسکول نہیں بھیجا ....اب آپ خود غورکیجئے کہ ایسی ملازمت اورایسے اڈمیشن کا کچھ فائدہ ہوگا ....جی نہیں ....بالکل اُسی طرح یہ نمازایک مسلمان کی پہچان ہے ،اسلام اورکفرمیں فرق اورتمیز کرنے والی چیز ہے ، ہرعاقل وبالغ مسلمان مردوعورت پرفرض ہے، اگر اسلام میں توحید کی حیثیت دل کی ہے تو نماز کی حیثیت دماغ کی ،بغیر نماز کے اسلام کا تصور اس جسم کی طرح ہے جو دماغ کی دولت سے محروم ہو ۔اِسی لیے اہل طائف جو نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے ،اُن کا ایک وفد اللہ کے رسول  صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں آیا اوراسلام قبول کیا توانہوں نے آپ سے درخواست کی کہ ہمیں نماز کی رخصت دی جائے ، کیا اللہ کے رسول  صلى الله عليه وسلم  نے ان کو نماز کی رخصت دے دی ؟ نہیں، آپ نے ان سے فرمایا: لاخیرفی دین لیس فیہ رکوع (ابوداو ¿د) ”اس دین میں کوئی بھلائی نہیں جس میں نماز نہ ہو “۔ 
جی ہاں! کلمہ شہادت کے اقرارکے بعد ہی نماز فرض ہوجاتی ہے اورجب تک جان میں جان ہے نمازکسی بھی حالت میں معاف نہیں ،یہاں تک کہ ایک بیمار کھڑا ہوکر نماز نہیں پڑھ سکتا توبیٹھ کر پڑھے گا ، اگربیٹھ کر نہیں پڑھ سکتا تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھے گا ،اگر اُس سے بھی عاجز ہو تو اشارے سے پڑھے گا خلاصہ یہ کہ جب تک عقل ساتھ دے رہی ہو ترک نماز کسی بھی صورت میں جائز نہیں ۔ ہاں!ایک عذر ہے ....لیکن اللہ تعالی نے اس عذر سے مردوںکو عافیت بخشی ہے اوروہ ہے عورتوںکے مخصوص ایام یعنی حیض ونفاس کاخون ۔

نماز کی اہمیت کے پیش نظر اللہ پاک نے اس کا ذکر اپنی کتاب میں ۹۹مرتبہ کیا ہے ، اور جوچیز جتنی اہمیت رکھتی ہے اسی قدر اس کا اہتمام ہوتا ہے ،اللہ نے سارے احکام فرش پر اُتارے ،روزے کا حکم فرش پر اُتارا،زکاة کا حکم فرش پر اُتارا ،حج کا حکم فرش پر اُتارا ،پورا قرآن فرش پر اُتارا،پوری شریعت فرش پر اُتاری لیکن جب نماز کا تحفہ دینے کی باری آئی تو اللہ پاک نے اپنے نبی کو عرش پر بلایا....
غزوہ احزاب کے موقع سے جنگی مشغولیت کی وجہ سے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کی نماز جاتی رہی اورآپ بروقت نماز عصر ادا نہ کرسکے تو آپ کو اِس کا اتنا افسوس ہوا کہ آپ نے اُن کے حق میں بددعا فرمائی ملأ اللہ بیوتھم وقبورھم نارا کماحبسونا وشغلونا عن الصلاة الوسطی اللہ ان کے گھروں اوران کی قبروں کوآگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر سے مشغول کردیا ، حالانکہ یہی نبی ہیں کہ اہل طائف نے لہولہان کردیاتھا پھر بھی اُن کے حق میں ہدایت کی دعا کی تھی جبکہ یہاں بد دعا کررہے ہیں ....کیوں؟ اس لیے کہ نماز آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھی،آپ کو جب کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو نماز کی طرف جلدی کرتے تھے اوربلال ؓ سے فرماتے کہ بلال! اذان دو تاکہ نماز کے ذریعہ راحت ملے ۔ 

نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ کوئی ایسی عبادت نہیں جس کی ادائیگی کو ترک کرنے پر بچے کو مارنے کا حکم وارد ہوا ہو سوائے نماز کے ،چنانچہ پیارے نبی نے فرمایاکہ اپنے بچے کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دیں اوردس سال کی عمر میں نماز کی پابندی نہ کرنے پر ان کی پٹائی کریں ۔ 
معراج کی رات اللہ کے رسول  صلى الله عليه وسلم  کا گذر جبریل علیہ السلام کے ساتھ ایسی قوم سے ہوا جن کے سر پتھر سے توڑے جارہے تھے ،پھر وہ درست ہوجاتے ،پھر توڑے جاتے ،حضور پاک  صلى الله عليه وسلم  نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایاکہ یہ وہ لوگ ہیں جونماز میں سستی کرتے تھے ۔ 

کل قیامت کے دن سب سے پہلے نماز ہی کے بارے میں پوچھ گچھ ہونے والی ہے ،اگر نماز ٹھیک نکلی تو سارے اعمال ٹھیک اوراگرنماز خراب نکلی تو سارے اعمال رد کردئیے جائیں گے ۔انسان نے کتنی بھی اچھائیاں کی ہوں لیکن نماز جو ایک مسلمان کی پہچان ہے یہ نہ رہی .... تو ہمیں ٹرخا دیاجائے گا ۔ بلکہ جب جنتی جنت میں اورجہنمی جہنم میں چلے جائیں گے تو جنتی اپنے سامنے جہنمیوںکی چلاہٹ اورآہ وفغاں کو سن کر پوچھیں گے ماسلککم فی سقر ؟ تمہیں جہنم میں کس چیز نے داخل کیا ؟ جانتے ہیں اُن کا پہلا جواب کیا ہوگا ؟ قالوا لم نک من المصلین کہیں گے ہم نماز پڑھنے والوںمیں سے نہیں تھے ۔ 
نماز کی اسی اہمیت کے پیش نظر اللہ کے رسول  صلى الله عليه وسلم  یات طیبہ کے آخری دن جبکہ آپ سخت تکلیف سے دوچار تھے ،اورلمحہ بلمحہ تکلیف بڑھتی ہی جارہی تھی ،ایسی کربناک حالت میں صحابہ کرام کو وصیت فرماتے ہیں الصلاة الصلاة وماملکیت ایمانکم نماز کی پابندی کرتے رہنا ،نماز کا خیال رکھنا اور اپنے ماتحتوںکے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا ۔ 
فرض کیجئے کہ کسی اچھے انسان نے نہایت تنگی کی حالت میں آپ کی مدد کی ہو ،اُس کے تئیں آپ کا رویہ کیسا ہوگا ؟ ظاہر سی بات ہے کہ آپ کے دل میں اُس کی محبت بیٹھ جائے گی ،اورآپ کی زبان پر ہمیشہ اس کا نام رہے گا ،اب خدارا ہمیں بتائیے ! جس ذات نے انسان کو معمولی پانی کے ایک قطرہ سے بنایا،نہایت تنگ جگہ سے نکالا ،وہ ننگا بدن تھا ،ننگا پیر تھا ،خالی ہاتھ تھا ،کمزوراورنحیف تھا ،عقل وشعور سے عاری تھا ،اللہ پاک نے اس کی تربیت کی ،عقل وشعوردیا،صحت وعافیت دی ، بیوی بچے دئیے ، مال ودولت دیا، ہر طرح کی ظاہری اورباطنی نعمتوں سے مالامال کیا ، اور سب سے بڑھ کر اپنی ذات کی پہچان دی ....کیا اِن نعمتوں کا کوئی حق ادا کرسکتا ہے ....قطعا ً نہیں ....نماز دراصل اسی منعم حقیقی کے حق کا اعتراف اور اس کے احسانات کا شکریہ ہے ۔ 

 اللہ کوہماری نماز کی ضرورت نہیں ہے ، وہ ہرچیز سے بے نیاز ہے ، اگر وہ نماز کی اہمیت بتاتا ہے ،اوراسے ہماری ذمہ داری ٹھہراتا ہے تو گویا وہ ہماری مدد کررہا ہے ،ہماری بھلائی چاہتا ہے ،آئیے ذرا ہم ورزش اور جسمانی صحت کے اعتبار سے نمازکے فلسفہ پر غورکرتے ہیں : 
سنت نبوی اورجدید سائنس کے مولف حکیم محمد طارق محمود صاحب نے اپنی اس کتاب میں لکھا ہے کہ : 
”نماز ایک بہترین ورزش ہے ،سستی کاہلی اور بے عملی کے اس دورمیں صرف نمازہی ایک ایسی ورزش ہے کہ اگر اس کو صحیح طرز پر پڑھاجائے تودنیا کے تمام دکھوںکا علاج بن سکتی ہے ، نماز کی ورزشین جہاںبیرونی اعضاءکی خوشنمائی کا ذریعہ ہیں وہیں اندرونی اعضاء مثلاً دل، گردے،جگر، پھیپھرے، دماغ، آنتیں، معدہ ، ریڑھ کی ہڈی ، گردن ، سینہ اورتمام قسم کے گلینڈز کی نشونما کرتی ہیں بلکہ جسم کو سڈول اورخوبصورت بناتی ہیں ۔ یہ ورزشیں ایسی ہیں جن سے عمرمیں اضافہ ہوتا ہے اورآدمی غیرمعمولی طاقت کا مالک بن جاتا ہے ۔ ایسی بھی ہیں جن سے چہرے کے نقش ونگار خوبصورت اورحسین نظر آتے ہیں ۔ “ 
حکیم محمدطارق محمودصاحب اپنی اسی کتاب میں دوسری جگہ فرماتے ہیں : ”ایک صاحب اے آرقمر اپنے یورپ کے سفرنامہ میں لکھتے ہیں کہ میں نمازپڑھ رہا تھا ،ایک انگریز مجھے کھڑا دیکھتا رہا ،جب میں نماز سے فارغ ہوا تو وہ مجھ سے کہنے لگا : ورزش کا یہ طریقہ تم نے میری کتاب سے سیکھا ہے ؟ کیونکہ میں نے بھی اسی طریقہ سے ورزش کرنے کا طریقہ بتایاہے ، جو شخص اس طریقہ سے ورزش کرے گا وہ کبھی بھی طویل ،پیچیدہ اورسنسی خیز امراض میں مبتلا نہ ہوگا ،پھر اس نے وضاحت کی کہ اگرکھڑا آدمی فوراً سجدے کی ورزش میں چلاجائے تواس سے اعصاب اوردل پر بُرا اثر ہوتا ہے ،اس لیے میں نے اپنی کتاب میں یہ بات خاص طورپر تحریر کی ہے کہ پہلے کھڑے ہوکر ورزش کی جائے جس میں ہاتھ بندھے ہوئے ہوں ،یعنی قیام ،پھر جھک کر ہاتھوںاورقمر کی ورزش کی جائے ،یعنی رکوع اورپھر سرکو زمین سے لگاکر ورزش کی جائے یعنی سجدہ ۔یہ ورزش صرف ماہرین ہی کراسکتے ہیں ۔ 
جب اُس نے یہ بات کہی تو نمازی صاحب فرمانے لگے کہ میں مسلمان ہو ںاورمیرے اسلام نے مجھے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے ،میں نے آپ کی کتاب ہرگز نہیں پڑھی اورایسا میں دن میں کم ازکم پانچ بار کرتا ہو ں۔ یہ بات سنتے ہی وہ انگریز ماہر حیران رہ گیا اوران سے اسلام کے بارے میں معلومات لینے لگا ۔ 
حکیم صاحب آگے لگھتے ہیں : ایک پاکستانی ڈاکٹرماجد زماں عثمانی یورپ میں فزیوتھراپی میںاعلی ڈگری کے لیے گئے ،جب وہاں ان کو بالکل نماز کی طر ح ورزش پڑھائی اورسمجھائی گئی تو یہ اُس ورزش کو دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ہم نے تو آج تک نماز کو ایک دینی فریضہ سمجھا اورپڑھ لیا لیکن یہاں تو عجیب وغریب انکشافات ہیں ۔ 
اورایسا کیوں نا ہو کہ یہ کورس اُتا را ہوا ہے اُس ذات باری کا جوانسان کی فطرت سے آگاہ ہے ، ألا یعلم من خلق وھو اللطیف الخبیر کیاوہی نہ جانے جس نے پیدا کیا اوروہ باریک بیں اور خبر رکھنے والا ہے ۔ 

اسلام اجتماعیت کا قائل ہے ،اس لیے مردوں کوحکم دیاگیاکہ مسجد میں جاکر نماز جماعت سے اداکریں ،تاکہ اسلام کی شان وشوکت قائم ہو ،معاشرے کے افراد کے بیچ محبت اورخیرسگالی کا ماحول بنے ،رات ودن کی پانچ بارملاقات کے ذریعہ ایسا مثالی معاشرہ وجودمیں آئے جس کا ہرفرد ایک دوسرے کا خیرخواہ ہو ۔ البتہ یہ حکم مردوں کے ساتھ خاص ہے ،عورتوںکو اس حکم سے الگ رکھا گیا ہے ،کیونکہ عورت بذات خود پردہ ہے ،اسی لیے شریعت اسلامیہ نے عورتوںکے لیے افضل ٹھہرایا کہ گھر میں نماز پڑھیں ۔ ہاں ! اگر وہ بھی مسجد جاناچاہیں تو اُن کوروکا نہیں جاسکتا لیکن گھر میں اُن کا نمازادا کرنا افضل ہے ۔ 
مردوں کے لیے نماز باجماعت کی بہت اہمیت ہے ،اللہ تعالی نے فرمایا: وارکعوا مع الراکعین (البقرة 43) یعنی نماز پڑھنے والوں کے ساتھ مل کر نماز پڑھو۔ اورحضورپاک صلى الله عليه وسلم  نے فرمایا: صلاة الجماعة تفضل صلاة الفذ بسبع وعشرین درجة (بخاری ) یعنی جماعت کی نماز تنہا نماز پر ستائس درجہ فضیلت رکھتی ہے ۔ 
ایک مرتبہ تو اللہ کے رسول  صلى الله عليه وسلم  نے جماعت سے پیچھے رہ جانے والوں پر غصہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: میں نے ارادہ کیا کہ جو لوگ جماعت میں حاضر نہیں ہوتے ،ان کے ساتھ ان کے گھر وں کو جلاکر راکھ کردوں ۔ لیکن اس ارادے کو اس لیے نافذ نہیں کیا گیا کہ گھر میں عورتیں ہوتی ہیں اوربچے بھی ہوتے ہیں جن پر جماعت فرض نہیں ہے ۔ 
صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول  صلى الله عليه وسلم  کی خدمت میں ایک نابینا آیا او ر اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ لیس لی قائد یقودنی الی المسجد اے اللہ کے رسول ! میرا کوئی قائد نہیں جو مجھے مسجد تک لے آیا کرے ، توآپ نے اُسے رخصت عطا فرمادی ،جب وہ جانے کے لیے پیٹھ پھیراتو آپ نے اُسے بلایا اورپوچھا : ھل تسمع النداءبالصلاة کیا تو نماز کی اذان سنتا ہے ،اس نے کہا : ہاں! تو آپ نے فرمایا: توپھر تمہارے لیے مسجد میں آنا ضروری ہے ۔
ان احادیث سے جماعت کی نماز کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں ،اِسی لیے صحابہ کرام کے زمانے میں یہ تصوربھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ مسلمان جماعت سے پیچھے رہے ، یہی حال اللہ والوں کا رہا ، امام التابعین سعیدبن مسیب ؒ فرماتے ہیں کہ پچاس سال سے میری تکبیر اولی فوت نہ ہوئی ۔ ابراہیم التیمی فرماتے ہیں: اذا رأیت الرجل یتھاون فی التکبیرة الاولی فاغسل یدک منہ (حلیہ الاولیاء4/215) جب کسی شخص کو تکبیر اولی سے سستی کرتے دیکھو تو اُس سے اپناہاتھ دھل لو ۔ 

طبقات ابن سعد میں عمربن عبدالعزیز کے بارے میں آتا ہے کہ ان کو خبرملی کہ اُن کے ایک لڑکے نے جو وطن سے کافی دور تعلیم پارہے تھے ،حجامت بنوانے میں ایسا مشغول ہوئے کہ انہوں نے فلاں دن عصر کی نماز جماعت سے ادا نہیں کی ....یہ بات سن کر خلیفہ وقت کو اتنا غصہ آیا کہ انہوںنے استاد کے نام ایک خط لکھا اورایک درہ بھیجا کہ ترک جماعت پراس کو اسی درہ سے اس قدر پیٹے کے مارتے مارتے درہ ٹوٹ جائے تاکہ آئندہ ترک جماعت کی ہمت نہ کرسکے ۔ 

اللہ اکبر ! کیسے وہ لوگ تھے ،اورکتنا خیال ہوتا تھا ان کو نمازوں کا .... اوراپنے بچوں کی تربیت کا .... اُن کے مقابلہ میں ہم اپنے دل کو ٹٹولیں اورمن سے پوچھیں کہ ہم کہا ںہیں اور وہ کہا ں.... کیاہم خود جماعت سے نمازیں ادا کرلے رہے ہیں .... اوراگر ہم واقعی نماز باجماعت کے پابند ہیں توکیا ہم نے اپنے بچوں کو اس کی تاکید کی ....؟ یاایھاالذین آمنوا قوا انفسکم وأھلیکم نارا ”اے ایمان والو! اپنے آپ کو اوراپنے گھر والوںکو جہنم کی آگ سے بچاؤ ۔ “ 

جب ایک آدمی وضوکرکے گھر سے نکلتا ہے فرض نماز کی ادائیگی کے لیے اور مسجد کی طرف قدم اٹھاتا ہے ،تو اللہ کی رحمت دیکھیں کہ اُس کے ایک قدم پرایک گناہ مٹتا اور ایک درجہ بلند ہوتا ہے ۔ صحیح مسلم کی حدیث کے الفاظ ہیں کانت خطواتہ احداھا تحط خطیئة والا ¿خری ترفع درجة یعنی اس کا ایک قدم اس کے گناہ کو مٹا تا ہے اور دوسرا قدم ایک درجہ بلند کرتا ہے ۔ پھر جب ایک نمازی مسجد میں قدم رکھتا ہے اورنماز کے انتظار میں بیٹھتا ہے تو فرشتے اس کے لیے رحمت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں اللھم صل علیہ اللھم ارحمہ اے اللہ اس پر رحمت فرما،اے اللہ ! اس پر مہربان ہوجا ۔ اوراس کا بیٹھنا بھی نماز میں شامل کرلیا جاتا ہے ۔اورمسند احمد اورطبرانی کی روایت میں اللہ کے رسول ا نے فرمایا: ویکتب من المصلین من حین یخرج من بیتہ حتی یرجع الیہ یعنی جس وقت وہ اپنے گھر سے نماز کے لیے نکلتا ہے ،اس وقت سے لے کر اپنے گھر لوٹنے تک نماز کی حالت میں لکھ دیاجاتا ہے ۔ 

 پانچ وقت کی نمازوں میں کچھ نمازیں ایسی ہیں جو خاص فضیلت رکھتی ہیں جیسے عصر کی نماز ،عشاءکی نماز اور فجر کی نماز .... 
صحیح مسلم میں حضرت عثمان بن عفان ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول انے فرمایا: من صلی العشاءفی جماعة فکا ¿نما قام نصف اللیل ومن صلی الصبح فی جماعة فکأنما صلی اللیل کلہ ”جس نے جماعت سے عشاءکی نماز پڑھی تو اس نے گویا آدھی رات قیام کیا اورجس نے جماعت سے صبح کی نماز ادا کی گویا اس نے ساری رات نماز پڑھی ۔ 
اورکیا آپ جانتے ہیں کہ نماز عصر اور فجر کی باجماعت ادائیگی کا ثواب کیا ہے ؟ جہنم سے نجات اورجنت میں داخلہ ص.... صحیح مسلم میں اللہ کے رسول ا نے فرمایا: من صلی البردین دخل الجنة ” جوشخص دو ٹھنڈی نمازیں یعنی عصر اور فجر پڑھتا ہے وہ جنت میں جائے گا ۔ اورصحیح مسلم کی ایک دوسری حدیث میں اللہ کے رسول ا نے فرمایا: لن یلج النار احد صلی قبل طلوع الشمس وقبل غروبھا جو شخص سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈوبنے سے پہلے کی نمازیں یعنی فجر اورعصر پڑھتا ہے وہ ہرگز جہنم کی آگ میں داخل ....نہیں ہوگا ۔
عصر اورفجر ان دونمازوں کی پابندی خصوصی اہتمام کے بغیر ممکن نہیں ،جہاں تک عصر کا مسئلہ ہے تو اُس وقت کاروباری مصروفیات کا ہجوم ہوتا ہے ،یا انسان نیند میں گودمیں آرام کرتا ہوتا ہے ،جس کی وجہ سے نماز کے لیے اٹھتا طبیعت پر گراں گذرتا ہے ۔ بخاری ومسلم کی ایک روایت میں توفرمایاگیا : الذی تفوتہ صلاة العصر فکا ¿نما وتر اھلہ ومالہ ”جس کی نماز عصر فوت ہوگئی گویا کہ وہ اپنے اہل وعیال اورمال میں گھاٹا اٹھایا ۔ 
نماز فجر کی اہمیت اس لیے کہ آدمی اللہ کی خاطر نرم بستر ،نیندکی لذت اور طبیعت کے آرام کو تج کر نماز کے لیے بیدار ہوتا ہے ۔ اس لیے وہ اللہ کی حفاظت میں آجاتا ہے ۔من صلی الصبح فھو فی ذمة اللہ ” جس نے صبح کی نماز ادا کرلی وہ اللہ کی امان میں آگیا ۔ 
سبحان اللہ !کیا مقام ہے اس بندہ مومن کا کہ دن کا آغاز اپنے رب کی نگہبانی میں کررہا ہے ، پھروہ تازہ دم ہوتا ہے ، چست اور پاکیزہ طبیعت بن جاتا ہے۔اس کے برعکس جوشخص ٹی وی کے فحش پروگراموں کا مشاہدہ کرتے کرتے نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے، نہ اللہ کا نام لیا نہ سوتے وقت کے اذکار کا اہتمام کیا‘ نتیجہ ظاہر ہے کہ شیطان اس پر قابو پا لیتاہے ، تھپکیاں دے دے کر سورج نکلنے تک سلائے رکھتاہے۔ چنانچہ جب وہ طلوع آفتاب کے بعدبیدار ہوتا ہے توفاصبح خبیث النفس کسلان خبیث طبیعت اور سست وکاہل بن جاتا ہے۔اللہ کو بھی اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی اوردن بھراللہ کی امان سے محروم رہتا ہے۔
اب ہمیں اپنامحاسبہ کرنا ہے کہ ہم کس حد تک نماز فجر کی محافظت کررہے ہیں ،جس نماز سے اللہ کی امان حاصل ہوتی ہے ،طبیعت کو شادابی ملتی ہے ،جس نماز پرجنت میں داخلہ اورجہنم سے نجات موقوف ہے ، جس نماز سے دیدار الہی نصیب ہوگی،ایسی نماز سے اکثریت کی لاپرواہی المیہ نہیں تواورکیاہے....جب انسان کی پکار ہوتی ہے ،اور ڈیوٹی کا وقت آتا ہے تو ہم پوری مستعد ی کے ساتھ سڑکوںپر پر پِل پڑتے ہیںخواہ چاربجے صبح ہی کیوںنہ ہو ،تاہم جب اللہ کی پکار ہوتی ہے تو ہم بے پروا ہ خواب خرگوش میں مست رہتے ہیں ،ایسا کیوں؟
کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے     
ہم سے کب پیار ہے ہاں نیند تمہیں پیاری ہے
ظاہر ہے کہ یہ فکرآخرت میں کمی کا نتیجہ ہے ،اللہ کی گرفت سے جب انسان مطمئن ہوجاتا ہے تو اس کے احکام کو پامال کرنے میں ذرا بھی جھجھک محسوس نہیں کرتا ، اس لیے سب سے پہلے اپنے اندر یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ ہم سے بہت بڑی کوتاہی ہو رہی ہے پھر ہلکی سی عزیمت درکار ہے ،نمازِ فجر کی پابندی آسان ہوجائے گی۔سوتے وقت مسنون اذکار کا اہتمام کرلیں ،سونے سے قبل نمازفجر کے لیے بیداری کا پختہ ارادہ ہو ، رات کو سویرے سونے کی عادت ڈالیں، بیدار کرنے کے لیے الارم گھڑی کا استعمال کریں یا کسی ساتھی کو جگانے کی تاکید کردیںاور گناہوں سے دوری اختیار کریں۔
آئیے اخیر میں اللہ پاک سے ان نمازوںکی پابندی کا عہد کرتے ہوئے اُن کی ادائیگی کے لیے توفیق کا سوال کرتے ہیں : اوردعا کرتے ہیں کہ 
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل 
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت صحرا دے 
پیدا دل ویراں میں پھر شورش محشر کر  
اس محمل خالی کو پھر شاہد لیلی دے 
اس دور کی ظلمت میں ہر قلب پریشاں کو 
وہ داغ محبت دے جو چاند کو شرمادے 
آمین یا رب العالمین ۔ صلی اللہ علی نبینا محمدوعلی آلہ صحبہ اجمعین 

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔