ہفتہ, نومبر 30, 2013

کیا واقعی نظر لگ جانا حق ہے ؟

 سوال:

کیا واقعی نظر لگ جانا حق ہے، اور اس كا علاج كيا  ہو سكتاہے، میں اپنے دوست کے گھر گیاتھا تو ا ن کی شکایت ہے کہ میرے ان کے گھر جانے کی وجہ سے ان کا بیٹا بیمار ہوگیا ہے ؟

جواب: 


آپ کے سوال میں دو باتیں ہیں :

پہلی بات :


نظر لگنے کے تعلق سے ہے : تو سلسلے میں عرض یہ ہے کہ نظر کا لگ جانا واقعی حق ہے ، اور ایسا کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے، یعنی کسی کی نظر کسی کو لگ سکتی ہے، اسی لیے اسلام نے ہمیں اس بات کی تاکید کی ہے کہ اگر ہم کوئی چیز دیکھیں جو ہمیں بھلی معلوم ہورہی ہے تو اس وقت ہمیں چاہیے کہ ماشاءاللہ کہیں ….یہ ہے اسلامی تعلیم نظر بد کے اثر سے بچنے کے لیے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صحیح مسلم کی روایت ہے :
النظر حق ولوکان شی ء سابق القدر سبقتہ وإذا استغسلتم فاغسلوا (مسلم) 
"نظر لگ جانا حق ہے ،اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت لے جانے والی ہوتی تو نظر لے جاتی ۔ اورجب تم سے علاج کے طور پرغسل کرنے کا مطالبہ کیاجائے تو تم غسل کرکے پانی دے دو۔ تاکہ اسے بیمار کے بدن پر بہا دیا جائے"۔
صحیح حدیث میں آتا ہے، ایک دن کی بات ہے ،حضرت عامر بن ربیعہ ؓ سہل بن حنیف ؓ کے پاس سے گذرے ،اس وقت وہ غسل کررہے تھے ،انہوں نے جب ان کو ننگے بدن دیکھا تو بول اٹھے، ایسا جسم تو میں نے آج تک نہیں دیکھا تھا ۔ یہ کہنے کے بعد وہ وہاں سے نکلے اور یہ ادھرزمین پر گر گئے ، لوگ انہیں اٹھا کر لائے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ماجرا بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : تمہیں کس پر شک ہے، لوگوں نے کہا : عامر بن ربیعہ پر ۔ تب آپ نے فرمایا:
علام یقتل أحدکم أخاہ فإذا رأی أحدکم من أخیہ ما یعجبہ فلیدع لہ بالبرکة ( رواه ابن ماجه ) 
"ایسا کیا ہے کہ تم میں سے ایک آدمی اپنے بھائی کو قتل کرتا ہے، جب تم کسی کے اندر کوئی چیز دیکھو جو تمہیں بھلی لگے تو تمہیں چاہیے کہ اُس کے لیے برکت کی دعا کرو"۔ پھر آپ نے اسے غسل کرنے کا حکم دیا اوریہ پانی اس پر انڈیل دیاگیا ۔ ( ابن ماجہ
اس سے پتہ چلا کہ نظر لگنا حق ہے، اورجب ہم کسی کو کسی خوبی میں دیکھیں تو ماشاءاللہ کہیں ۔ اگر نظر لگ جاتی ہے تو جس پر شک ہے اس سے گذارش کی جائے کہ وہ غسل کرکے پانی دے، جس کا طریقہ یہ ہو کہ اپنے اعضاء کوکسی ٹب میں دھوئے اور ٹب  كا پانی  بیمار کے پورے بدن پر بہادیاجائے ۔
یہ تو ہوا اس وقت جبکہ جس کی نظرلگی ہے اس کا پتہ چل جائے، اگر اس کا پتہ نہ چل سکے تو کیا کیا جائے گا….؟  سورہ قلم کی آخری آیت: 

وَإِن يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ (القلم: 51)

" اور قریب ہے کہ کافر اپنی تیز نگاہوں سے آپ کو پھسلا دیں، جب کبھی قرآن سنتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں یہ تو ضرور دیوانہ ہے.
سورہ تبارک کی پہلی چار آیتیں:
تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿١ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ﴿٢ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا ۖ مَّا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَـٰنِ مِن تَفَاوُتٍ ۖ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِن فُطُورٍ ﴿٣ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ ﴿٤ 
" بہت بابرکت ہے وه (اللہ) جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور جو ہر چیز پر قدرت رکھنے واﻻ ہے (1) جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے، اور وه غالب (اور) بخشنے واﻻ ہے (2) جس نے سات آسمان اوپر تلے بنائے۔ (تو اے دیکھنے والے) اللہ رحمٰن کی پیدائش میں کوئی بے ضابطگی نہ دیکھے گا، دوباره (نظریں ڈال کر) دیکھ لے کیا کوئی شگاف بھی نظر آرہا ہے (3) پھر دوہرا کر دو دو بار دیکھ لے تیری نگاه تیری طرف ذلیل (و عاجز) ہو کر تھکی ہوئی لوٹ آئے گی (4)."
سورہ یوسف کی آیت:
 وَقَالَ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ ﴿يوسف: 67﴾
"اور (یعقوب علیہ السلام) نے کہا اے میرے بچو! تم سب ایک دروازے سے نہ جانا بلکہ کئی جدا جدا دروازوں میں سے داخل ہونا۔ میں اللہ کی طرف سے آنے والی کسی چیز کو تم سے ٹال نہیں سکتا۔ حکم صرف اللہ ہی کا چلتا ہے۔ میرا کامل بھروسہ اسی پر ہے اور ہر ایک بھروسہ کرنے والے کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے ."
یہ آیات پڑھ کر مریض پر دم کریں.
اسی طرح  أعوذ بكلمات الله التامَّات من شرِّ ما خلَق. پڑھیں
 اور یہ دعا بھی پڑھیں:
اللَّهُمَّ أَذْهِبْ البَأْسَ رَبَّ النَّاسِ ، وَاشْفِ فَأَنْتَ الشَّافِي ، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا "رواه الترمذي ان شاء الله شفاء ملے گى.

دوسرى بات :

اس سلسلے میں ہمارے معاشرے میں لوگ افراط کے بھی شکار ہیں، کچھ بھی ہوا  فوراً اپنے دوستوں پر  شک کی سوئی گھما دیتے ہیں ، جس سے اختلافات ہوتے ہیں، ناچاقیاں پیدا ہوتی ہیں ۔ اورتعلقات خراب ہوتے ہیں۔ اس لیے ہم کہیں گے کہ خواہ مخوا ہ اپنے دوستوں پر شک نہیں کرنا چاہیے ۔ ہاں! اگر آپ نے دیکھا کہ آپ کے دوست کو آپ کی کوئی چیز بھلی لگی اور انہوں نے دعا نہیں دی، ماشاءاللہ نہیں کہا ….اورکچھ شکایت ہوگئی ہے تو دوستانہ انداز میں ان سے گذارش کی جاسکتی ہے جس سے اختلاف نہ ہو ۔ بدظنی نہ پھیلے ۔اسى طرح اگر کسی معقول وجہ کی بنیاد پر آپ کا  دوست آپ پر شک کرتا ہے تو آپ کو چاہیے کہ اس کی بات دل پر نہ لیں اور غسل کرکے پانی اس کے حوالے کر دیں تاکہ بچے کی شکایت دور ہو سکے-

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔