جمعرات, نومبر 28, 2013

انبیاء و رسل پر ایمان کیوں اورکیسے ؟



اللہ پاک نے انسان کو کائنات کے ایک حصے زمین پر بسایا اوراسے ساری انسانیت پر فضیلت عطا کی تواسے دنیا میں کیوں بسایاگیاتھا ،اس کا مقصد تخلیق کیاتھا ،اسے عملی شکل میں بتانے کے لیے اللہ پاک نے انسانوںمیں سے پاکیزہ ہستیوں کو چنا جو اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچاسکیں ۔ ایسے ہی لوگوں کو نبی اوررسول کہتے ہیں ۔ یعنی خالق اور مخلوق کے درمیان خالق کی شریعت کو پہنچانے کا واسطہ ۔ اورنبوت کوئی کسبی چیز نہیں ہے  جسے عبادت اور ریاضت کے ذریعہ حاصل کی جاسکے ،بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوںمیں سے جسے چاہتا ہے نبوت کیلئے منتخب فرماتا ہے ، انتخاب کرنے کا یہ اختیار اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں ہے۔الله تعالى  نے فرمايا:
 "اللہ اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں رکھے" ۔ (الانعام 124)

انبياء ورسل كى بعثت كا فلسفہ:

ایک عام انسان کے ذہن میں یہ سوال ابھرسکتا ہے کہ آخر انبیاءورسل کا سلسلہ کیوں جاری کیاگیا ، کیاانسان کورسالت کااحتیاج ہے ؟ تو اس کا دوٹوک جواب یہ ہے کہ خوردونوش کی اشیاءاوردوا سے زیادہ انسان کورسالت کی ضرورت ہے ، جس کی وضاحت مندرجہ ذیل نکات سے ہوتی ہے :
  1. انسان مخلوق ہے اوراس کی بہترین ساخت میں بناوٹ ہوئی ہے ،اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے خالق کو جانے ، رسالت ہی ہمیں بتاتی ہے کہ ہمیں کس نے پیدا کیا،ہمیں کیوں پیدا کیاگیا،اورہمیں کہاں جانا ہے ۔اس نكتے كوانسان محض اپنی عقل كے سہارے نہیں سمجھ سکتا،ضرورت ہے انبیاءورسل کی رہنمائی کی ۔
  2.  رسالت کے اندر زندگی ہے ،اللہ پاک نے سورہ انعام  122میں فرمایا: "کیاتم اسے نہیں دیکھتے جو مردہ تھا ہم نے اسے زندگی عطا کی"  جی ہاں ! رسالت کے بغیر انسان زندہ ہونے کے باوجودزندگی سے محروم ہوتا ہے ۔رسالت روح کی غذا ہے ،انسان دو عناصر سے مل کر بناہے ،روح اورجسم ،جسم تو ہر مخلوق کے اندر ہوتا ہے ،یہاں تک کہ جانوروں کے اندربھی ،اگر انسان اورجانورمیں امتیاز ہوسکتا ہے تو روح کے ذریعہ ہی ہوسکتا ہے....جسم کی غذا اشیائے خوردونوش ہے جبکہ روح کی غذا اس کے پیدا کرنے والے نے خود طے کی ہے ،اوریہ سچا دین اورعمل صالح ہے ،اس طرح انبیاءورسل کا کام روح کا تزکیہ اورنفس کی اصلاح ہے ۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:”وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے ، اگر چہ وہ اس سے پہلے واضح گمراہی میں تھے“۔ [الجمعة: 2]
  3. انسان فطری طورپر مذہبی واقع ہوا ہے ،اس کی فطرت میں ایک عظیم ہستی کی نگرانی کا تصور ہوتا ہے،ایسے وقت اسے دین کی ضرورت پڑتی ہے جسے اختیار کرسکے ،اوروہ دین سچا بھی ہوناچاہیے، ظاہر ہے کہ دین کے صحیح ہونے کے لیے انبیاءورسل پر ایمان رکھنا ضروری ہے ۔
  4. انسان ایسے راستے کا محتاج ہے جو اسے دنیا میں اللہ کی رضامندی تک پہنچاسکے اورآخرت میں نعمتوں بھر ی جنت کا حقدار ٹھہرا سکے ،اورایسے راستے کی رہنمائی انبیاءورسل ہی کرسکتے ہیں ۔
  5. انسان بذات خود کمزورواقع ہواہے ،اس کے دشمن اس کی گھات میں لگے ہوئے ہیں،شیطان ہے جواسے گمراہ کرناچاہتا ہے ،بُری صحبت ہے جو اس کے سامنے قبیح کو خوبصورت بنا کرپیش کرتی ہے ، اورنفس امارہ ہے جو اسے برائی کی طرف دعوت دیتی ہے ۔ اس لیے ایک انسان اس بات کا ضرورتمندہے کہ اپنے دشمن کے مکر سے محفوظ رہنے کے لیے انبیاءورسل کی تابعداری کرے ۔
  6. انبیاءورسل اس لیے بھی بھیجے گئے کہ کل قیامت کے دن لوگ یہ عذر پیش نہ کریں کہ ہمارے بیچ کوئی راہ دکھانے والا نہیں آیاتھا،گویااللہ پاک نے رسولوں کو بھیج کر لوگوں پر حجت قائم کردی۔فرمان باری تعالیٰ ہے: ترجمہ : ”ہم نے انہیں رسول بنایا ہے خوشخبریاں سنانے والے اور ڈرانے والے تاکہ رسولوں کو بھیجنے کے بعد لوگوں کی اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت نہ رہ جائے، اللہ تعالیٰ بڑا غالب اور بڑا با حکمت ہے“۔ [النسا ء: 165]
  7.  اللہ نے انسان کو عقل دی ،اس کے ذریعہ وہ ظاہری باتوں کو تو سمجھ سکتا ہے مگربہت سی باتیں وہ ہیں جن کو جاننے کے لیے ظاہری علم کافی نہیں ، خوددنیا کی بہت ساری حقیقتیں انسان کی عقل سے باہر ہیں تواللہ اوررسول کا معاملہ تو دوسری دنیا  کا ہے جو مکمل طورپر انسان کو دکھائی نہیں دیتیں، چنانچہ پیغمبراس کمی کو پورا کرتے ہیں اوران کے ذریعہ ہمیں ان غیبی امور کاعلم ہوتا ہے جن کا ادراک ہم اپنی عقلوں سے نہیں کر سکتے ، مثال کے طورپراللہ تعالیٰ کے اسماءوصفات، فرشتے، قیامت کے دن سے پہلے واقع ہونے والے امور ، روزِ قیامت ، حساب وکتاب ، جنت ودوزخ وغیرہ
  8. رسولوں کی بعثت کا ایک مقصد یہ تھا کہ وہ اپنی امتوں کے سامنے زندگی گذارنے کا ایک بہترین نمونہ اورآئیڈیل پیش کریں ۔الله تعالى نے  فرمایا: ترجمہ : ”یقینا تمہارے لئے ان لوگوں میں بہترین نمونہ ہے“۔[الممتحنة: 6]

انبياء ورسل كى تاريخ :

انسان اس دنیا میں جب سے بسا ہے اسی وقت سے پیغمبروں کا سلسلہ شروع ہوگیا، سب سے پہلے انسان آدم علیہ السلام ہیں جوپہلے انسان بھی ہیں اورپہلے نبی بھی ، البتہ پہلے رسول حضرت نوح علیہ السلام ہیں ،جو آدم علیہ السلام کے دس صدیوں بعد جب قوم نوح کے نیک لوگوں کی شان میں غلو کرنے کے نتیجہ میں شرک کا آغاز ہوا تو پہلے رسول کی حیثیت سے بھیجے گئے،گویا پہلے نبی آدم اورپہلے رسول حضرت نوح علیہ السلام ٹھہرتے ہیں۔ ہم نے کہا ”نبی اوررسول “ تو کیا نبوت اور رسالت میں فرق ہے ؟ جی ہاں! رسول وہ ہے جس کی طرف نئی شریعت کی وحی کی گئی ہو ،اور نبی وہ ہے جوپہلی شریعت کی تبلیغ کے لیے بھیجے گئے ہوں۔
اب سوال یہ ہے کہ انبیاءورسل کی تعداد کتنی ہے؟تو اس سلسلے میں اصولی بات یہ ہے کہ اللہ پاک نے ہرقوم اورہر جگہ اپنے نبیوں کو بھیجا ۔اللہ پاک نے سورہ فاطر میں فرمایا: ”ہر قوم میں کوئی نہ کوئی ڈرانے والا ضرور آیا ہے۔ “ ان انبیاءورسل کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار تک پہنچتی ہے جيسا کہ مسند احمد ميں ہے ، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روايت ہے کہ ميں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم  سے انبياءعليہم السلام کی تعداد كے متعلق دريافت کيا تو آپ  نے فرمايا : ” انبياءعليہم السلام کی تعداد ايک لاکھ چوبيس ہزار ہے ، جن ميں سے رسل تين سو پندرہ کی تعداد ميں ، ايک بہت بڑی جماعت ہے “۔
قرآن وحديث ميں ان برگزيدہ شخصيات ميں سے بعض کا ذکرموجودہے اور بہت سے انبياءورسل عليہم السلام کے اسمائے گرامی مذکور نہيں ہيں اور وہ اللہ جل شانہ کے علم ميں ہيں ارشادِ باری ہے : ”يقينا ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسل عظام کو مبعوث کيا ، جن ميں سے بعض کا تذکرہ ہم نے آپ کے سامنے کيا ہے اور بعض کا نہيں کيا “۔( غافر : 78) قرآن کريم ميں25 انبياءورسل عليہم السلام کے اسمائے گرامی مذکور ہوئے ہيں ، ان ميں سے 18انبياءعليہم السلام کے اسمائے گرامی سورة الانعام کی آيت نمبر 83 تا 86 ميں مذکور ہيں:
 ( يعنی حضرت ابراہيم ، اسحاق ، يعقوب ، نوح ، دا ؤد ، سليمان ، ايوب ، يوسف ، موسیٰ ، ہارون ، زکريا ، عيسیٰ ، يحيی ، الياس ، اسماعيل ، يسع ، يونس ، لوط عليہم الصلاة و السلام ) اور سات انبياءورسل حضرت محمد  ، حضرت آدم ، حضرت صالح ، حضرت ھود ، حضرت شعيب ، حضرت ادريس ، حضرت ذو الکفل عليہم الصلاة والسلام )کے اسمائے گرامی مختلف مقامات پر وارد ہوئے ہيں ۔ اور جمہور کی رائے کے مطابق حضرت خضر عليہ السلام بھی اللہ کے نبی ہيں اور دو انبياءعليہم السلام کا ذکر حديثِ پاک ميں موجود ہے : حضرت شيث عليہ السلام اورحضرت يوشع بن نون عليہ السلام ۔البتہ ذوالقرنین اور تبع کے سلسلے میں توقف بہتر ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے ان انبیاءمیں سے بعض کو بعض پر فضیلت اور برتری عطا کی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض پر بہتری اور برتری دی ہے“۔ [الاسراء: 55] اسی طرح اللہ تعالی نے رسولوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی ، جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمہ : ”یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے“۔[البقرة:253]
اور ان میں سے افضل وہ رسول ہیں جو اولو العزم (عزيمت والے، عالی ہمت) کہلاتے ہیں اور وہ ہیں: حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمدصلى الله عليه وسلم ۔فرمان الٰہی ہے:
”پس (اے پیغمبر!) آپ ایسا صبر کریں جیسا صبر عالی ہمت رسولوں نے کیا“۔[الا حقاف35]

 انبياء ورسل كى دعوت :

تمام انبیاءکی دعوت ایک ہی تھی ،جس کا خلاصہ تھا انسانوں کو بندوں کی عبادت سے نکال کر بندوں کے رب کی عبادت پر لگانا۔ ارشاد ربانی ہے:
”اور یقینا ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ ) لوگو( صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام باطل معبودوں سے بچو“۔[النحل: 36]
اگرچہ ان کی شریعتیں اور احکام مختلف تھے لیکن وہ سب کے سب ایک اساس وبنیاد پر متفق تھے جو کہ توحید ہے۔بخاری اورمسلم میں حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا :
 ”تمام انبیاءآپس میں علاتی بھائی ہیں(جن کا باپ ایک ہے اور ) مائیں الگ الگ ہیں، اور ان سب کا دین ایک ہے “۔

انبياء  ورسل كى بشريت:

 جتنے بھی انبیاءورسل آئے سب کے سب بشر اورانسان تھے ،اس میں ایک طرف بندوں پر اللہ کی مہربانی تھی کہ اللہ پاک نے ان کے لیے انبیاءانہیں کے جنس سے بھیجا،اوریہ فطری تقاضا بھی تھا کہ رسول چونکہ آئڈیل اور معلم ہوتا ہے اس لیے معلم متعلم کے جنس سے ہوتاکہ تعلیم کا پورا مقصد حاصل ہوسکے۔اسی لیے اللہ پاک نے فرمایا:
قل لوکان فی الأرض ملائکة یمشون مطمئنین لنزلنا علیھم من السماء ملکا رسولا۔سورہ اسراء (59)
اِن سے کہو اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ضرور آسمان سے کسی فرشتے ہی کو اُن کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجتے  –“وہ دوسرے انسانوں کی طرح انسان ہی تھے ،    وہ کھاتے بھی تھے ، پیتے بھی تھے ، شادی بھی کرتے تھے، سوتے بھی تھے ، بیمار بھی ہوتے تھے اور وہ تھکاوٹ بھی محسوس کرتے تھے فرمان الٰہی ہے:
”اور ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب کے سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے تھے“۔ [الفرقان: 20]
 اور فرمایا:
 ”ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا“۔ [الرعد:38]
اور انہیں بھی انسانوں کی طرح خوشی وغم، مشقت وآسانی اور ہشاش وبشاش ہونا جیسے عوارض لاحق ہوتے تھے-

انبياء ورسل كا جنس :

 تمام  انبیاءورسل  مرد تھے ،نبوت مردوں کے ساتھ خاص ہے ،اللہ پاک نے فرمایا:
"ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی نبی بھیجا وہ مرد ہوتے تھے جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے"  سورہ انبیاء(7) 
اورنبوت کا تقاضا ہے کہ دعوت کو فروغ دیاجائے ،لوگوں سے ملاقات کی جائے ،مخالفوں سے نمٹاجائے،اوریہ سب عورتوں کے مناسب نہیں" ۔

 انبياء ورسل كى بعض خصوصيات :

انبیاء علم غیب  نہیں رکھتے بجز اس کے کہ جس کی اللہ تعالیٰ ان کو خبر دے فرمان الٰہی ہے: ترجمہ :
”وہی غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا، سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کر لے لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کر دیتا ہے“۔[الجن: 26، 27]
 اس کے باوجود رسولوں کی کچھ خصوصیات ہیں :
پہلی خصوصیت:  رسولوں پر وحی کا نزول ہوتا ہے :
جو بھی مسئلہ پیدا ہوتا ہے نبی کو وحی کے ذریعہ اس کی اطلاع دے دی جاتی ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے : قل انما ا نا بشر مثلکم یوحی الی (الکہف 110) ”آپ فرمادیجئے کہ میں محض تمہارے جیسا ہی ایک انسان ہوں فرق یہ ہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے" ۔
 دوسری خصوصیت :  رسول معصوم ہوتے ہیں: 
پیغام کو اپنانے میں معصوم ہوتے ہیں،پیغام کی تبلیغ میں معصوم ہوتے ہیں،اسی طرح کبیرہ گناہوں،قول عمل اوراخلاق میں فحش گوئی سے معصوم ہوتے ہیں،البتہ بعض غلطیوں کا صادر ہونا جو تبلیغ رسالت سے متعلق نہیں عصمت کے منافی نہیں ہے ۔ کیونکہ وہ بھی بحیثیت مجموعی انسان تھے ، ہاں ! وہ اپنی غلطی پر قائم نہیں رہتے ،جب کبھی کسی نبی سے کوئی معمولی غلطی سر زد ہوئی ، جس کا تبلیغ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا ، اللہ تعالیٰ نے اسے ان کیلئے بیان فرمادیا، اور انہوں نے اس سے فوراً توبہ کرلی اور اللہ تعالی کی طرف رجوع کرلیا ، چنانچہ وہ معمولی غلطیاں ایسے ہوگئیں گویا ان کا وجود ہی نہ تھا۔
تیسری خصوصیت :ان کو معجزات سے نوازاجانا ہے:
 وہ خلاف عادت چیزجسے اللہ اپنے رسولوں اورنبیوں کے ہاتھوں پر ظاہر کرتا ہے جس کے کرنے سے دنیا کے لوگ عاجز ہوتے ہیں، تاکہ لوگ ان امورکو دیکھ کر اس نبی کی نبوت کی تصدیق کریں،اورسب کے سامنے رسول کی سچائی ظاہر ہوسکے ۔اوررسولوں کو معجزے ان کی قوم میں جس چیز کا زیادہ چلن تھا اسی کے مطابق دئے گئے تھے ، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ موسی علیہ السلام کے دورمیں جادو گری عروج پر تھی تو اللہ پاک نے موسی علیہ السلام کو اسی قبیل کا معجزہ دیاتھا چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی سانپ کی شکل میں بن کر جادوگروں کے جادو کے سانپوں کو نگل گئی، اور سب جادوگر عاجز ہوکرموسی علیہ السلام پر ایمان لے آئے۔
 حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللّٰہ تعالٰی کے حکم سے سمندر پر لاٹھی ماری جس سے بارہ راستے بن گئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دورمیں طب کا غلبہ تھاچنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ تعالی کے حکم سے مردوں کو زندہ کر دیتے، مادرزاد اندھوں کی آنکھوں کوٹھیک کر دیتے ، کوڑھیوں کو اچھا کر دیتے اور مٹی کا پرندہ بنا کر زندہ کر کے اڑا دیتے تھے۔
خوداللہ کے رسول  صلى الله عليه وسلم کے ہاتھوں پر بیشمار معجزات ظاہر ہوئے ، آپ کا سب سے بڑا اور تاقیامت زندہ معجزہ قرآن مجید ہے، دنیا کے بڑے بڑے عالم و فاضل عربی دان انتہائی کوشش کے باوجود اس کی چھوٹی سے چھوٹی سورت کی مانند نہ بنا سکے اور نہ قیامت تک بنا سکیں گے۔اسی طرح اسراءومعراج آپ کا معجزہ ہے ، کفار مکہ کے معجزہ طلب کرنے پر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی انگلی کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہوگئے- ایک ٹکڑا مشرق میں اور دوسرا مغرب میں چلا گیا اور بالکل اندھیرا ہو گیا-  سب حاضرین نے دیکھ لیا پھر دونوں ٹکڑے آپس میں مل گئے اور چاند اصلی حالت پرلو ٹ آیا ، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے ایک دو آدمیوں کا کھانا سیکڑوں آدمیوں نے پیٹ بھر کھایا ،اس کے علاوہ آپ کی انگلیوں سے پانی کا ابلنا درختوں، پتھروں اور جانوروں کا آپ کو سلام او رسجدہ کرنا، کنکریوں کا کلمہ پڑھنا وغیرہ آپ کے بےشمار معجزات ہیں۔

رسولوں پر ایمان لانے کا مطلب :

رسولوں پر ایمان چار چیزوں پر مشتمل ہے:
پہلی چیز: 
اس بات پر ایمان لاناکہ سارے انبیاءکی رسالت برحق اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے تھی، جس نے ان رسولوں میں سے کسی کی رسالت کا انکار کیا  اس نے گویاان سب کا انکار کیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:  ”نوح کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا “(سورة الشعراء105)غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کو تمام رسولوں کو جھٹلانے والی قوم قرار دیا،حالانکہ جس وقت انہوں نے تکذیب کی تھی اس وقت تک نوح علیہ السلام کے سوا کوئی دوسرا رسول ان کے ہاں نہ آیا تھا۔اسی طرح اگر کسی مسلمان نے موسی علیہ السلام یا عیسی علیہ السلام کی نبوت کا انکار کیاتو اس نے گویا اللہ کے رسول ﷺکی نبوت کا بھی انکار کیا کہ کسی ایک نبی کا انکار ہمیں اسلام کے دائرہ سے نکال دیتا ہے ۔
دوسری چیز :
 جن رسولوں کے نام ہمیں معلوم ہیں ان پر تفصیل سے ایمان لانا مثلا حضرت محمدﷺ،ابراہیم،موسی،عیسی اور نوح علیھم السلام، یہ پانچ اولوالعزم رسول ہیں، ان برگزیدہ رسولوں کے علاوہ جن انبیاءکرام علیھم السلام کے اسمائے گرامی کا ہمیں علم نہیں ان پر بھی اجمالا ایمان لانا ہم پر لازم ہے۔
تیسری چیز : 
ان کی جو خبریں درست ہوں ان کی تصدیق کرناضروری ہے ۔
چوتھی چیز :
 اس بات پر ایمان رکھنا کہ اللہ کے رسول ﷺ سے پہلے آنے والے پیغمبروںکا مستندریکارڈ باقی نہیں رہا،ان کی کتابیں بھی تحریف کا شکار ہوگئیں اس لیے اخیرمیں اللہ تعالی نے ساری انسانیت کے لیے محمدﷺ کو نبی بناکر بھیجا ،اب آپ کی شریعت پر عمل کرنا،اوریہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ آپ کے آنے کے بعد گذشتہ ساری شریعتیں منسوخ ہوگئیں ،اب کسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت نبی پاک ﷺ کے علاوہ کسی اورنبی کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کرے ۔ کہ آخری نبی اورساری انسانیت کے پیغمبر محمد ﷺ آگئے ۔اب دنیا کے لیے قرآن فائنل اتھارٹی اورمحمدﷺقیامت تک اللہ کے واحد نمائندہ ہیں۔
 اس حقیقت کو منطقی اندازمیں یوںسمجھاجاسکتا ہے کہ   ایک سرکار کسی ملک میں اپنے آدمی کو سفیر بناکر بھیجتی ہے تو ظاہر ہے کہ سفیر کی نمائندگی اسی وقت تک کے لیے ہو گی تب تک وہ اپنے منصب پر فائز رہے گا ۔جب اس کی مدت ختم ہوجائے اوردوسرے آدمی کو اس منصب پر متعین کردیاجائے تو اس کے بعد وہی سفیر سرکار کا نمائندہ ہوگا جس کو سب سے اخیرمیں سفارت کا موقع ملا ہے ۔ اس طرح اللہ کے رسولﷺ آخری سفیر ہیں ،پھرآپ کے بعد کوئی سفیر آنے والے نہیں ، یہی فارقلیط ہیں ،یہی کلکی اوتار ہیں ،یہی نراشنس ہیں ،یہی جگت پتی ہیں ۔
آپ ﷺ سب رسولوں میں سے افضل رسول ہیں ،آپ خاتم النبیین، امام المتقین اور بنی آدم کے سردارہیں ،جب تمام نبی اکٹھے ہوں تو آپ ان کے امام اور جب وہ تشریف لائیں تو آپ ان کے خطیب ہیں، آپ ہی صاحب مقام محمود ہیں جس پر پہلے اور بعد میں آنے والے سبھی رشک کریں گے، صاحب حوض ہیں جہاں پر لوگ وارد ہوں گے،اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے دین کی سب سے افضل شریعت دے کر مبعوث فرمایا، اور آپ کی امت کو جو لوگوں کے لئے بھیجی گئی، بہترین امت بنایا، آپ کی امت دنیا میں آنے کے اعتبار سے سب سے آخری امت ہے لیکن قیامت کے دن سب سے پہلے اٹھائی جانے والی ہے۔
  ہمارے حبیب اورآقا پر امت کا حق یہ تھاکہ وہ امت کی پریشانی میں شریک ہوں،امت کی سعادت کے حریص رہیں، اورامت کے لیے نہایت نرم اورشفیق بنیں۔ اورواقعی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حقوق کی کماحقہ ادائیگی فرمادی ۔ یہاں تک کہ اللہ پاک نے اس کی شہادت دی :
”تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر کی آمد ہوئی ہے، جو تمہاری ہی جنس سے ہیں، جن کو تمہارے نقصان کی باتیں بہت بھاری لگتی ہیں جوتمہارے فائدے کے بڑے خواہشمند رہتے ہیں، ایمان والوں کے لیے بہت ہی شفیق اور مہربان ہیں ۔ “(التوبة : 128)  
البتہ ہم پر ہمارے آقا  کا حق یہ تھا کہ ہم ان کی اطاعت کریں ،ان کے نقش قدم پر چلیں ،ان کے اقوال وافعال کے سامنے کسی کے قول وفعل کو کوئی اہمیت نے دیں ،آپ پر درود وسلام بھیجیں ،اورآپ کی آفاقی تعلیمات کو اپنی ذات میں، اپنے معاشرے میں اورغیراقوام میں پھیلانے کی کوشش کریں ....لیکن کیا ہم ایسا کرسکے ؟

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔