پیر, نومبر 25, 2013

نگرانی کرنے والا کون ؟


اس دنيا کوجس قادر مطلق نے رچايا ہے، اورقسم قسم کی مخلوقات سے اسے زينت بخشی ہے وہ اس کی نگرانی بھی کر رہا ہے، اس ذات واحد کی نگاہ جملہ مخلوقات پر ہر وقت، ہر آن، اور ہر لمحہ رہتی ہے ، ديوار کی اوٹ ميں کيا ہے؟ اسے انسان نہيں جانتا ۔ ليکن اللہ تعالی کی ذات عالم الغيب ہے ، اسکی نظر ہر چھوٹی بڑی چيز پر ہے ، وہ دلوں کے بھيد اور آنکھوں کی خيانت سے بخوبی آگاہ ہے ، انسانی قلوب ميں پيدا ہونے ہونے والے احساسات و کيفيات کو بھی جانتا ہے:
 يعلم خائنة الأعين وما تخفی الصدور (المؤمن 20)
" اللہ تعالی آنکھوں کی خيانت کو اور سينوں کی پوشيدہ باتوں کو بھی خوب جانتا ہے" ۔
اس کا ارشاد ہے:
لاجرم أن اللہ يعلم مايسرون ومايعلنون (النحل 19)
"بے شک اللہ تعالی ہر اس چيز کو جسے وہ لوگ چھپاتے ہيں اور جسے ظاہر کرتے ہيں بخوبی جانتا ہے" ۔ اس وحدہ لاشريک لہ کا فرمان ہے:
 واعلموا أن اللہ يعلم ما فی أنفسکم فاحذروہ (البقرہ 235)
"اور يقين کرو کہ اللہ تعالی تمہارے دلوں کی باتيں جانتا ہے، پس اسی سے ڈرو"۔
اس ذات باری کا اعلان ہے:
 ان اللہ کان عليکم رقيبا . ( النساء 1)
"بےشک اللہ تعالی تمہاری نگرانی کر رہا ہے" 
نيز ارشاد عالی ہے:
وما تکون فی شأن وما تتلو منہ من قرآن ولا تعملون من عمل إلا کنا عليکم شھودا إذ تفيضون فيہ (يونس 61)
"اور تم جس حال ميں ہوتے ہو اور قرآن پڑھتے ہو اور جو بھی عمل کرتے ہو ہم تمہارے سامنے ہوتے ہيں جب تم اس ميں مشغول ہوتے ہو۔" 
ايک شخص بند کمرے ميں بيٹھا يہ سوچ رہا ہو کہ يہاں کوئی نہيں آ سکتا آسانی سے جو چاہو کرلو، ليکن وہيں يہ آواز سنتا ہے:
إنہ عليم بذات الصدور ألا يعلم من خلق وھواللطيف الخبير (الملک 14)
" وہ تو سينوں کی پوشيدگيوں کو بھی بخوبی جانتا ہے ، کيا وہی نہ جانے جس نے پيدا کيا پھر وہ باريک بيں اور باخبر بھی ہو" ۔

لہذا اے حرمات الہی کی پامالی کرنے والو! بند کمروں ميں، تاريکيوں ميں، تنہائيوں ميں، اور بيابانوں ميں جہاں چرند و پرند کا بھی بسيرا نہيں ہوتا، کبھی اپنے دل سے پوچھا : اللہ کہاں ہے ؟ کبھی سوچا کہ اللہ تعالی تمہاری ايک ايک حرکت کو ديکھ رہا ہے ، حقير مخلوق سے شرماتے ہو ليکن خالق دو جہاں سے شرم نہيں آتى۔ 

ايک مرتبہ كا واقعہ ہے امير المؤمنين عمر فاروق رضى الله عنه ايک شب حسب معمول رعايا کی خبر گيری کے ليے نکلتے ہيں، تھکاوٹ کے باعث ديوار کا سہارا ليا تاکہ آرام کر سکيں ، اسی اثنا ايک خاتون کی آواز آئی جو اپنی بيٹی سے کہہ رہی تھی:
” بيٹی! اٹھو اور دودھ ميں پانی ملادو تاکہ فروخت کے وقت زيادہ ہو جائے“
بيٹی نے جواب ديا: ا مير المؤمنين کے منادی نے اعلان کيا ہے کہ دودھ ميں پانی نہ ملايا جائے.
ماں نے کہا : بيٹی ! اٹھو ابھی تو ايسی جگہ پر ہے جہاں نہ تو تمہيں عمر فاروق  رضى الله عنه ديکھ رہے ہيں نہ ان کے منادی.
بيٹی نے ترکی بترکی جواب ديا:
أی أماہ فأين اللہ؟
 امی جان ہميں عمر تو نہيں ديکھ رہے ہيں ليکن اللہ کہاں گيا ؟ وہ تو ہميں ديکھ رہا ہے.
اللہ اکبر! يہ دراصل اللہ تعالی کی ہمہ وقت نگرانی کا بھرپوراحساس تھا جس نے بچی کو دودھ ميں پانی ملانے سے روکا ۔

اسی طرح کا ايک واقعہ عبداللہ بن دينار سے منقول ہے کہتے ہيں کہ ميں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی معيت ميں مکہ کے سفر پر روانہ ہوا، راستہ ميں ايک جگہ آرام کے ليے فروکش ہوئے، دامن کوہ سے ايک چرواہا ہمارے پاس آيا، عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس سے بطور امتحان کہا: اے چرواہے! ہميں اپنی بکريوں ميں سے ايک بکری فروخت کردو ۔ چرواہے نے جواب ديا : ميں غلام ہوں امير المؤمنين رضی اللہ عنہ نے کہا: اپنے مالك سے کہہ دينا کہ اسے بھيڑيا کھا گيا ہے، غلام نے جواب ديا: اللہ تو ديکھ رہا ہے۔ يہ جواب سن کر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔ اور صبح چرواہے کے سردار سے ملے اور اسے خريد کر آزاد کر ديا۔
حقيقت يہ ہے کہ اللہ والوں کے دلوں ميں ہر وقت اور ہر آن اللہ تعالی کی معيت کا احساس رہتا ہے، ظاہر ہے کہ وہ بچی جس نے اپنی ماں کو اللہ کی نگرانی کا احساس دلايا، اور وہ غلام جس نے اپنے سردار کے غائبانہ ميں بھی اللہ کی معيت کو اپنے دل ميں تروتازہ رکھا، يہ دراصل اس ذات وحدہ لاشريک لہ کی ہمہ وقت نگرانی کا ہی آئينہ دار تھا ۔ اگر ايسا ہی خوف ہر انسان کے اندر پيدا ہوجائے تو کيا ايک گناہ کے ارتکاب کا بھی تصور کيا جا سکتا ہے؟ نہيں اور ہر گز نہيں. 

اللہ تعالی کی نگرانی کے احساس سے متعلق ايک تيسرا واقعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہی كا ہے، ايک مرتبہ لوگوں کے احوال معلوم کرنے کے ليے بستيوں ميں گشت لگا رہے تھے کہ آپ کا گذر ايک ايسی خاتون سے ہوا جس کا خاوند اللہ کے راستے ميں جہاد پر چند مہينوں سے گيا ہواتھا، يہ خاتون تين طرح کی تاريکی ميں ہے، خاوند سے دوری کی تاريکی، رات کی تاريکی اور گھر کی تاريکی ۔ ايسی حالت ميں اپنے دلی احساسات کو شعرى جامہ پہناتے ہوئے کہتی جارہی ہے: 
         تطاول ھذا الليل وازور جانبہ   و أرقنی أن لا حبيب ألاعبہ          فواللہ لولا اللہ لارب غيرہ    لحرک من ہذا السرير جوانبہ
" شب دراز ہو رہی ہے اوراس کے گوشے لمبے ہورہے ہیں اورمجھے یہ بات پریشان کررہی ہے کہ کوئی حبیب نہیں کہ اس سے دل لگی کرسکوں، اللہ کی قسم !اگراللہ نہ ہوتا جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں (یعنی اگر اللہ کا ڈر نہ ہوتا) تو کب اس چارپائی کے گوشے ہل چکے ہوتے ۔ (یعنی شوہر کی خیانت ہوچکی ہوتی )" 
ذرا تصورکریں رات کی تاريکی ہے، شوہر بھی غير موجود ہے ، ساری انسانيت خوابيدہ ہے، کوئی انسان ديکھنے والا بھی نہيں ہے ليکن ايک ذات ہے جو اس کی نگرانی کر رہی ہے، اسی کی نگرانی کا خوف شوہر کی خيانت سے مانع ہے، اسی کی معيت کا احساس اسے عفت و عصمت کا پيکر بنائے ہوا ہے:
ألم تر أن اللہ يعلم ما فی السماوات ومافی الأرض ما يکون من نجوی ثلاثة إلا ھو رابعھم ولا خمسة إلا ھو سادسھم ولا أدنی من ذلک ولا أکثر إلا ھو معھم أينما کانوا، ثم ينبئھم بما عملوا يوم القيامة إن اللہ بکل شيیءعليم. ( سورة المجادلة 7) 
" کيا تونے نہيں ديکھا کہ اللہ تعالی آسمانوں کی اور زمين کی ہر چيز سے واقف ہے ۔ تين آدميوں کی سرگوشی نہيں ہوتی مگر اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے ، اور نہ پانچ کی مگر ان کا چھٹا وہ ہوتا ہے، اور نہ اس سے کم کی نہ زيادہ کی ، مگر وہ ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں بھی ہوں پھر قيامت کے دن انہيں ان کے اعمال سے آگاہ کرے گا ، بيشک اللہ تعالی ہر چيز سے واقف ہے"-  

آيت کا مفہوم يہ ہے کہ ہم جہاں کہيں بھی ہوں اللہ تعالی سے چھپے نہيں رہ سکتے ، خلوت ميں ہوں يا جلوت ميں، شہروں ميں ہوں يا جنگل ميں، آباديوں ميں ہوں يا بيابانوں ميں جہاں کہيں بھی ہوں اللہ تعالی کی نگرانی ہمارے ساتھ ہے۔ ہمارا عقيدہ ہے کہ اللہ تعالی عرش پر مستوی ہے ليکن اس کی نگاہ سے ايک مخلوق بھی اوجھل نہيں۔
اللہ کی نگرانی کا احساس رکھنے والے بيشمار ايسے اشخاص گذرے ہيں جن کے سنہرے کردار سے تاريخ کے صفحات درخشاں اور تابندہ ہيں۔ آئيےميں آپ کو تاريخ کے دريچے سے ايک واقعہ سناؤں: 
 نوح بن مريم نام کا ايک شخص تھا،جو ايک دولتمند، صاحب ثروت، شريف النسب اور ديندار آدمی تھا ، اس کے پاس ايک غلام تھا جس کا نام مبارک تھا، جو غريب ضرور تھا تاہم حسن اخلاق کا پيکر اور نہايت تقوی شعار تھا ، مالک نے اسے اپنے باغيچے ميں بھيجا اور کہا کہ باغيچے کے پھلوں کی رکھوالی کرنا اور ہمارے آنے تک اس کی ديکھ بھال کرتے رہنا ۔ حسب فرمائش غلام باغيچے کی ديکھ بھال کے ليے چلا گيا، دو ماہ تک باغيچے ميں رہا۔ دو ماہ بعد جب مالک آيا تو باغيچے ميں ايک درخت کے سائے کے پاس آرام کرنے کے ليے بيٹھا اور اپنے خادم سے کہا : مبارک انگور کا ايک گچھا لاؤ ، مبارک گيا اور ايک گچھا لاکر مالک کی خدمت ميں پيش کيا جو کھٹا تھا، کہا دوسرا گچھا لاؤ يہ کھٹا ہے، دوسرا گچھا لايا ليکن وہ بھی کھٹا نکلا ۔ کہا : تيسرا گچھا لاؤ ، چنانچہ تيسرا گچھا لايا، تاہم وہ بھی کھٹا نکلا ، اب مالک غصے سے مخاطب ہوا:
 ” مبارک ميں تم سے پکے انگور کا گچھا مانگ رہا ہوں اور تم کچے انگور کا گچھا لاکر دے رہے ہو ۔ کيا تم کھٹے ميٹھے کی پہچان نہيں کرتے “ 
خادم نے جواب ديا : اگرچکھتا تب تو کھٹے ميٹھے کی پہچان ہوتى، الله كى قسم آپ نے مجھے انگور کھانے کے ليے نہيں بھيجا تھا بلکہ  باغيچے  کی حفاظت اور نگرانی کے ليے بھيجا تھا، اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہيں ميں نے  باغيچے  کا ايک انگور بھی نہيں چکھا ،  الله كى قسم نہ آپ ديکھ رہے تھے نہ کائنات کی کوئی چيز ديکھ رہی تھی تاہم وہ ذات ضرور ديکھ ديکھ رہی تھی جس سے آسمان و زمين کی کوئی شے پوشسدہ نہيں ۔ 
اس كى يہ ديانت دارى سن كر وہ اس کے اخلاق سے بہت متاثر ہوا، اور اس کے زہد و تقوی کا قائل ہوکر بول اٹھا : ابھی ميں تم سے ايک مشورہ لينا چاہتا ہوں ، ميری لڑکی کا پيغام نکاح فلاں فلاں جگہ سے آيا ہے جو صاحب ثروت، صاحب حيثيت اور بلند حسب ونسب کے ہيں، ان ميں کس کو اپنی بيٹی کے ليے بطور شوہر اختيار کروں۔ مبارک نے کہا: زمانہ جاہليت ميں لوگ حسب ونسب اورخاندان کی بنياد پر شادی کرتے تھے، يہود مال کی بنياد پر شادی کرتے ہيں ، نصاری حسن و جمال کی بنياد پر شادی کرتے ہيں، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک ميں دين اور اخلاق کی بنياد پر شادی ہوتی تھی جبکہ ہمارے زمانہ ميں ثروت اور حيثيت کی بنياد پر شادی ہوتی ہے، اور آدمی جس سے محبت کرتا ہے اسی کے ساتھ اس کا حشر ہوگا ۔ اور جس نے کسی قوم سے مشابہت اختيار کی وہ اسی ميں سے ہے. 
اللہ اکبر! يہ کتنی قيمتى نصيحت تھی؟ يہ کتنا گرانقدرمشورہ تھا ؟ جی ہاں! يہ ايک خيرخواہ کی نصيحت تھی جو گو کہ مفلس تھا، ليکن تھا صالح، نيک اور ديندار، اس مالك نے سوچا، غور کيا ، نظر دوڑائى تاہم مبارک سے بہتر انسان کسی کو نہ پايا، تب اس نے مبارک سے کہا : أنت حر لوجه الله " تم اللہ کے ليے آزاد ہو." 

عزيز قارى! ايک مالک اپنے غلام کو آزادی کا پروانہ عطا کر رہا ہے ۔ صرف اس کی تقوی شعاری اور اللہ کی نگرانی کا احساس رکهنے كے باعث، پھر جانتے هيں آزادی کے بعد کيا ہوا ؟ اس نے اپنے آزاد غلام سے کہا : ميں نے غور کيا تو پايا کہ تم ہی ميری صاحبزادی سے شادی کرنے کا زيادہ حق ركهتے ہو، لہذا ميں اپنی صاحبزادی پر تمہارا معاملہ پيش کرتا ہوں ، وہ گيے، اپنی صاحبزادی کے اوپر مبارک کے معاملے کو پيش کيا اور کہا کہ ميں نے غور کيا تو ايسا ايسا معلوم ہوا ہے لہذا ميری رائے ہے کہ مبارک سے شادی کرلو ۔ صاحبزادی بولی : کيا آپ اسے ميرے ليے پسند کرتے ہيں ، باپ نے کہا : ہاں! تو لڑکی بولی : ميں بھی اس سے راضی ہوں۔
چنانچہ مبارک سے يہ شادی نہايت مبارک ثابت ہوئی ۔ جی ہاں! نہايت مبارک ۔ يہ عورت حاملہ ہوئی اور ايک بچہ جنی جس کا نام عبد اللہ رکھا گيا ۔ جنہيں تاريخ عبد اللہ بن مبارک رحمه الله کے نام سے جانتی ہے ۔

عزيز قارى! جس شخص کے اندر اللہ تعالی کی ہمہ وقت نگرانی کا احساس بيدار ہو جائے ، وہ خلوت ميں محارم الہی کو پامال نہيں کر سکتا، تنہائی ميں منہيات کا ارتکاب نہيں کرسکتا۔ آخر حضرت يوسف عليہ السلام کو عزيز مصر كى بيوى سے کس چيز نے روکا ؟ ظاہر ہے کہ اللہ کی نگرانی کا احساس اور اس کی گرفت کا ڈر تها ۔ کہتے ہيں کہ زليخہ جب حضرت يوسف عليہ السلام کو خلوت ميں لے گئی تو اپنے بت پڑ پردہ ڈال ديا : يوسف عليہ السلام نے کہا: تو اس پتھر کا لحاظ کر رہی ہے اور ميں بادشاہ جبار کا لحاظ کيوں نا کروں۔ 
  اذا ما خلوت الدھر يوما فلا تقل   خلوت ولکن قل علی رقيب 
  ولا تحسبن اللہ يغفل ساعة     ولا أن ما تخفی عليہ يغيب
"جب تو کبھی کسی جگہ اکيلا ہو تو يہ نہ کہنا کہ ميں اکيلا ہوں ، بلکہ کہو : ميرے اوپر نگہبان ہے۔ اور نہ يہ سمجھ کہ اللہ ايک لمحہ بھی غافل ہے ۔ اور نہ يہ کہ جو تو اس سے چھپاتا ہے وہ چيز اس سے غائب ہے ۔"
حقيقت يہ ہے کہ تنہائی ميں اللہ کی ياد کا آنا اور اس کے ڈر سے آنسو ؤوں کا بہنا کمال شخصيت کا راز اور خوف الهى کا غماز ہے اور ايسے ہی لوگوں کو قيامت کے دن عرش الہی کے سايے کی بشارت دی گئی ہے جس دن اللہ کے سايہ کے علاوہ اور کوئی سايہ نہ ہوگا:
 ورجل ذکر اللہ خاليا ففاضت عيناہ ( البخارى)
اور ايسا آدمی جس نے اللہ کو تنہائی ميں ياد کيا اور اس کی آنکھ سے آنسو بہہ پڑے ۔
عزيز قارى! یہ تو رہی تنہائی میں اللہ کی نگرانی کا احساس رکھنے والے اورخوف الہی سے لرزنے والے اہل ایمان کے سبق آموز واقعات کی ایک جھلک ، ليکن صد حيف ہمارے سماج ميں ايسے لوگوں کی کمی نہيں جو مجمع ميں تو نيکی اور پرہيزگاری کا اظہار کرتے ہيں، ليکن تنہائی ميں ساری پرہيزگاری جاتی رہتی ہے، جلوت ميں احکام الہی کی پاسداری ہو رہی ہے تو خلوت ميں احکام الہی کی پامالی ۔ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے ايسے ہی لوگوں کے بارے ميں ارشاد فرمايا : 
ليأتين أقوام يوم القيامة معھم أعمال کجبال تھامة بيض يجعلھا اللہ هباء منثورا
 بروزقيامت کچھ جماعتيں ايسی آئيں گی جن کے پاس تہامہ کے پہاڑوں جيسے اعمال ہوں گے تاہم اللہ تعالی انہيں خش وخاشاک کی مانند کر دے گا ۔ حضرت ثوبان رضى الله عنه نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دريافت کيا : من هم يا رسول اللہ "وہ کون ايسے بد نصيب ہوں گے يا رسول اللہ"  ہميں ان کی صفت بتائيے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا :
ألا إنھم يصلون کما تصلون ويصومون کما تصومون و يأخذون من الليل کماتأخذون ولکنھم قوم اذا خلوا بمحارم اللہ انتھکوھا ۔ (ابن ماجه )
وہ نماز پڑھتے ہوں گے جس طرح تم نماز پڑھتے ہو ، وہ روزہ رکھتے ہوں گے جس طرح تم روزہ رکھتے ہو، وہ قيام الليل کرتے ہوں گے جس طرح تم قيام الليل کرتے ہو۔ تاہم وہ ايسی قوم ہوں گے کہ جب خلوت ميں ہوں تو محارم الہی کا ارتکاب کر بيٹھيں۔ 
جب اللہ کی نگرانی کا یہ احساس ذہنوں سے اوجھل ہوتا ہے تو انسان بلاجھجھک محارم الہی کو پامال کرنے لگتا ہے، لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوکر اپنے گھروں میں بیٹھا فحش فلمیں دیکھتا ہے ،حرام طریقے سے لوگوں کا مال اینٹھتا ہے ، اگر ایسے انسان کے پاس دل بیدار ہوتا تو سمجھ سکتا تھا کہ معمولی پانی کے قطرہ سے پیدا ہونے والے انسان سے شرم کھاتا ہے لیکن خالق ارض وسما کی آنکھوں کے سامنے ایسی ہی حرکت بڑی ڈھٹائی سے کرتا ہے اوراسے ذرا برابر شرم نہیں آتی ۔ 

( افادات : ڈاكٹرعلى القرني حفظه الله  )

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔