محبت...
ہے تو ايک چھوٹا سا لفظ ليکن اس کا معنی بہت وسيع ہے ، اس کا اثر نہايت گہرا ہوتا
ہے، اسی کی خاطر کتنی جانيں قربان ہوئی ہيں ، کتنے خون بہے ہيں ، کتنے املاک تباہ
و برباد ہوئے ہيں۔ البتہ اس کے دو پہلو ہيں۔ ايک پہلو ايسا ہے جو مطلوب ہے جبکہ
دوسرا پہلو مذموم ہے۔ جی ہاں! محبت جائز بھی ہوتی ہے اور ناجائز بھی۔ ناجائز محبت
کو تو ہم سب جانتے ہيں ليکن جائز محبت اللہ تعالی سے ہوتی ہے، اس کے رسول صلى الله عليه وسلم سے ہوتی ہے، ماں باپ سے ہوتی ہے، بيوی بچوں سے ہوتی ہے، اور ديگرمخلوق الهى سے ہوتی
ہے، ليکن ان ساری محبتوں ميں سب سے عظيم محبت وہ ہے جو اللہ اور بندوں کے بيچ ہے ۔
ميرے
بھائی ! کبھی آپ نے سوچا کہ اللہ تعالی آپ سے کتنی محبت کرتا ہے؟ ہم کچھ نہيں تھے
اس نے ہميں قطرہ آب سے پيدا کيا ، عقل وشعور عطا کيا ، سکون وعافيت سے مالامال کيا،
ہم پر ہرطرح کی نوازشيں کی ؟ ان ساری نعمتوں ميں سب سے عظيم نعمت اسلام کی نعمت ہے
، اگر وہ آپ سے محبت نہ کرتا ہوتا توآپ کا نام اسلامی نام نہ رکھتا ، آپ کو اسلامی
علامت سے مميز نہ کرتا، کيا آپ کے مسلمان بننے ميں آپ کی ذاتی کوشش کا کوئی دخل ہے؟
کيا کوئی دعوی کر سکتا ہے کہ اس نے شکم مادر ميں يہ دعا کی ہو کہ اللہ تعالی
اسے
مسلمان بناکر پيدا کرے اورايسا ہی ہوا ہو؟ کيا يہ ممکن نہيں تھا کہ اللہ تعالی آپ
کو کسی کافر گھرانے ميں پيدا کرتا اور کفر پر ہی آپ کی موت ہوتی؟ ہاں! بالکل ممکن
تھا، ليکن اللہ تعالی آپ سے محبت کرتا تھا اس ليے آپ کو مسلمان بنايا، توحيد کا
متوالا بنايا، شرک کی غلاظتوں سے پاک رکھا، بندوں کی عبادت سے نکال کر بندوں کے
خالق کے سامنے جھکايا، بتوں کی پرستش سے ہٹا کر اپنی ذات کا عرفان عطا کيا۔
اب
ہميں جواب ديجئے کہ اس محبت کا تقاضا کيا ہے؟ يہ محبت ہم سے کس چيز کا مطالبہ کرتی
ہے؟ جی ہاں! يہ محبت ہم سے اس بات کا مطالبہ کرتی ہے کہ ہم بھی اپنے محب کو ٹوٹ کر
چاہيں، اس کے ليے تن من دھن قربان کرنے کے ليے تيار رہيں، جان کا مطالبہ ہو تو جان
دے دينے کے ليے تيار ہوجائيں، مال کا مطالبہ ہو تو مال دينے سے گريز نہ کريں، اس کی
رضا کے ليے بيوی بچوں، کنبہ قبيلہ اوردوست واحباب کی بھی پرواہ نہ کريں اور بزبان
حال يہ کہيں:
جان دی
ہوئی اسی کی تھی
حق تو يہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
بلکہ
اللہ تعالی نے سورہ التوبہ ميں ساری محبتوں پر اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو ترجيح
دينے کی تاکيد فرمائی اور ايسا نہ کرنے والوں کو الٹی ميٹم ديا. چنانچہ فرمايا:
قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ ﴿التوبة: 24 ﴾
"اے نبی ﷺ
آپ کہہ ديں اگر تمہارے باپ اور بيٹے اور بھائی اور بيوياں اورتمہارا کنبہ قبيلہ
اورجومال تم نے کمائے اور وہ تجارت جس کے مندا پڑنے کا تمہيں ڈر ہے اورمکانات جنہيں
تم پسند کرتے ہو، يہ سب تمہيں اللہ اور اس کے رسول اوراس کی راہ ميں جہاد کرنے سے
زيادہ عزيز ہيں توانتظار کرو يہاں تک کہ اللہ تعالی اپنا حکم بھيج دے اور اللہ
تعالی نافرمان لوگوں کو ہدايت نہيں ديتا" ۔
جی
ہاں! اللہ کی محبت دنيا کی ساری محبتوں کے سامنے ہيچ ہے، اِسی ليے کسی اللہ والے
نے کہا تھا:
”دنيا والے کس قدر مسکين ہيں کہ يہاں سے چلے
جاتے ہيں اور يہاں کی سب سے لذيذ شیء سے لطف اندوز نہيں ہوپاتے ، لوگوں نے پوچھا :
وہ لذيذ شیء کيا ہے؟ کہا : اللہ تعالی کی محبت اور اس کی معرفت" ۔
جب
ہی تو موسی عليہ السلام فرما تے ہيں:
وَعَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضَىٰ ﴿طه: 84﴾
اے
ميرے رب ميں نے تيری طرف جلدی کی تاکہ تو ہم سے راضی ہوجائے ۔
پھر ابراہيم عليہ
السلام کو ديکھو کہ محبت الہی ميں کس قدرسرشار ہيں کہ اپنے نورنظراور لخت جگرکو
اُس کی رضا کے لئے منی کی سرزمين ميں قربان کر رہے ہيں ۔
يہ
ذات ربانی سے والہانہ لگاؤاور گہری محبت ہی کا نتيجہ تھا کہ حبيب خدا ﷺ
يہ دعا کرتے ہيں: اللھم إنی أسئلک حبک وحب من يحبک وحب کل عمل يقربنی إلی حبک.
"اے
اللہ ميں تجھ سے تيری محبت کا خواستگارہوں ، اور اس کی محبت کا خواستگار ہوں جو
تجھ سے محبت رکھتا ہواورہر اُس عمل سے محبت کا خواستگارہوں جو ہميں تيری محبت تک
پہنچا سکے" ۔
دينی
بھائيو ! کيا يہ واقعہ نہيں کہ اِس دنيا ميں کوئی بھی انسان جب آپ سے کوئی معاملہ
کرتا ہے تو اُس کا مقصد ہوتا ہے کہ آپ سے نفع کمائے ليکن اللہ رب العالمين کا
معاملہ اُس کے بالکل برعکس ہے ، اللہ رب العالمين آپ سے معاملہ کرتا ہے تاکہ آپ
اُس سے کماؤاور منافع حاصل کرو ، ايک نيکی کا اجر وثواب دس سے لے کر سات سو گنا تک
ديتا ہے کيونکہ وہ آپ سے محبت کرتا ہے جبکہ گناہ کی صورت ميں ايک گناہ ہی آپ کے
نامہ اعمال ميں درج کرتا ہے اور وہ بہت جلد مٹ بھی جاتا ہے ، آنسوؤں کا ايک قطرہ
ہزاروں گناہوں کو بہا لے جاتا ہے اور اُس کی راہ ميں ايک قدم لاکھوں گناہوں کا
کفارہ بنتا ہے اور ايسا کيوں نہ ہو جب کہ اُس نے اپنا نام ہی غفور رکھا ہے يعنی بے
انتہا بخشنے والا ۔
ذرا
اُس کی سنو تو سہی !کس قدر پيار بھرے لہجہ ميں فرماتا ہے:
اذا ھم عبدی بحسنة ولم يعملھا کتبتُ لہ حسنة فإن ھوعملھا کتبتُھا لہ عشرحسنات إلی سبعمائة ضعف وإذا ھم بسيئة ولم يعملھا لم أکتبھا عليہ فان عملھا کتبتُھا سيئة واحدة. ( رواه البخاري ومسلم )
"جب
ميرا بندہ کسی نيکی کا ارادہ کرتا ہے اور اسے نہيں کرتا تو ميں اس کےليے ايک نيکی
لکھ ديتا ہوں اور اگر اسے کر ليتا ہے تو اس کے ليے دس نيکيوں سے لےکر سات سو نيکياں
تک لکھتا ہوں۔ اورجب کسی گناہ کا ارادہ کرتا ہے اوراسے نہيں کرتا توميں کچھ بھی
گناہ نہيں لکھتا اور اگر کر گذرتا ہے تو محض ايک گناہ لکھتاہوں"۔
اس کی محبت کا کرشمہ ديکھو کہ رات کے سہہ پہر ميں
سماء دنيا پر اترتا ہے اور اپنے بندوں کو نہايت شيريں اسلوب ميں پُکارتا ہے : کيا
کوئی مانگنے والا ہے کہ ہم اُسے ديں ؟ کيا کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ ہم اس کی
مغفرت فرماديں ؟ يہ ہے رحمت باری تعالی کا ٹھاٹھيں مارتا ہوا سمندر...تواب ہميں
بتائيں کہ کيا آپ کو دين ودنيا سے متعلق کسی طرح کی ضرورت نہيں ؟
کيا
آپ کے پاس کسی طرح کی پريشانی نہيں؟ کيا آپ اللہ تعالی سے بے نياز ہو چکے ہيں ؟ کيا
آپ کے سارے مسائل حل ہوچکے ہيں ؟ اگرنہيں تو کيوں نا رب کريم کے سامنے اپنی حاجت
پپش کرتے ؟ ہم اس مخلوق کے سامنے اپنی حاجت پيش کرتے ہيں جو اپنا دروازہ بندرکھتا
اور وہاں ايک نگراں متعين کيے ہوتا ہے اور اس ذات کو بھول جاتے ہيں جس کا دروازہ
ہمہ وقت کھلارہتاہے ۔ جب ہمارا باپ شب کے سہہ پہر ميں ہميں کسی کام کے ليے بلاتا
ہے تو فورا جگ جاتے ہيں ليکن جب رب العالمين ہمارے ہی فائدے کے ليے ہميں پکارتے ہيں
توہم خواب خرگوش ميں مدہوش رہتے ہيں ۔ جب ہماراکوئی محسن رات کے سہہ پہر ميں
پکارتا ہے تواس کی پکارپرلبيک کہتے ہيں ليکن جب ذات باری کی پُکارہوتی ہے توہميں اس
کی کوئی پرواہ نہيں ہوتی حالانکہ ہم اس کی نعمتوں ميں سراپا ڈوبے ہوئے ہيں۔
دينی
بھائيو! اللہ تعالی جس شخص سے محبت کرتا ہے اس کا امتحان بھی ليتا ہے ، اُسے مختلف
قسم کی آزمائشوں ميں ڈال کراُسے پرکھتا ہے، کيا آپ نے پيارے نبی ﷺ
کا يہ فرمان نہيں سنا:
من يرد اللہ بہ خيرا يصب منہ (رواه البخارى)
"جس کے ساتھ اللہ تعالی
بھلائی کا معاملہ کرنا چاہتا ہے اسے ابتلاء وآزمائش ميں ڈال ديتا ہے" ۔ بہت
سارے لوگ مصيبت آنے پر پريشان ہوجاتے ہيں، عجيب عجيب حرکتيں کرنے لگتے ہيں حتی کہ
بعض لوگ کفريہ کلمات تک بول ديتے ہيں ، ذات باری تعالی کو کوسنے لگتے ہيں ، کيا
اللہ تعالی کو ہمارے علاوہ کوئی نہيں ملا؟ اللہ بھی ميری نہيں سنتا ، اگر اللہ
ہوتا تو ميری حالت نہ ديکھتا، نغوذ باللہ ايسے ايسے کفريہ کلمات لوگ بول جاتے ہيں
۔ حالانکہ اگر تقدير پر ايمان ہوتا توايسے کلمات ہرگز زبان پر نہ آتے ، ايک مومن
خوشی و غمی ہردوحالت ميں اللہ تعالی پر بھروسہ کرتا ہے تب ہی تو نبی پاک ﷺ
نے مومن کے معاملے پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرمايا :
عجبا لأمر المؤمن إن أمرہ کلہ لہ خير إن أصابتہ سراء شکر فکان خيرا لہ وإن أصابتہ ضراء صبر فکان خيرا لہ. ( رواه مسلم )
"
مومن کا معاملہ کيا ہی تعجب خيز ہے، اس کے ہر معاملے ميں بھلائی ہوتی ہے ، اگر اسے
خوشی پہنچتی ہے تو اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہے اور يہ اس کے ليے بہتر ہوتا ہے،
اور اگر غم لاحق ہوتا ہے تو صبر کرتا ہے اور يہ اُس کے ليے بہتر ہوتا ہے۔ لہذا اگر
آپ مومن وموحد ہوتے ہوئے کسی مصيبت سے دوچار ہوتے ہيں تو سمجھ ليں کہ اس کے ذريعہ
اللہ تعالی جنت ميں آپ كا مقام بلند کرنا چاہتا ہے ، وہ آپ كو آزماتا ہے تاکہ آپ كو
غفلت سے بيدار کردے ۔وہ آپ كو آزماتا ہے تاکہ آپ كے ان گناہوں کو مٹا دے جوآپ كو
جہنم ميں لے جانے کا باعث ہيں ، وہ آپ كو آزماتا ہے تاکہ آپ اللہ تعالی کی بے شمار
نعمتوں کو پہچان سکيں اور اس کے شکر گزار بن سکيں۔ وہ آپ كو آزماتا ہے تاکہ آپ اس
کے سامنے جھک جائيں، اس سے مدد طلب کريں، اور وہ آپ پر اپنی رحمتوں کا فيضان کرے: إنما
يوفی الصابرون أجرھم بغير حساب ۔
اس
کی صفت رحيمی ديکھو کہ جب کبھی آپ نے گناہ کيا اس کی نظروں کے سامنے کيا ليکن وہ اس
پر پردہ ڈالتا رہا تاکہ لوگ آپ کی بُرائی سے آگاہ نہ ہو سکيں ۔ واقعہ يہ ہے کہ اگر
اس نے ہمارے کرتوتوں پر ہماری گرفت کی ہوتی تو نہ جانے ہمارا وجود بھی مٹ چکا ہوتا:
وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّـهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَىٰ ظَهْرِهَا مِن دَابَّةٍ ﴿فاطر: 45﴾
"اور
اگر اللہ تعالی لوگوں کو ان کے اعمال کی وجہ سے پکڑتا تو وہ اِس زمين کی پشت پر
چلنے والا کوئی جاندار نہ چھوڑتا" ۔ ا
اسی
ليے بعض صالحين ميٹھا پانی بھی پيتے تو يہ دعا پڑھتے تھے:
الحمد للہ الذی جعلہ عذبا فُراتا برحمتہ ولم يجعلہ ملحا أجاجا بذنوبنا.
"
اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اپنی رحمت سے اسے شيريں پانی بنايا اور ہمارے گناہوں کی
وجہ سے اُسے نمکين اور شور نہ بنايا"-
ميرے
بھائی ! آپ کيسے جانيں گے کہ اللہ تعالی آپ سے محبت کر رہا ہے؟ آپ کيسے سمجھيں گے
کہ اللہ تعالی کی نگاہ ميں محبوب ہوں ؟ تو اِس تعلق سے تين باتيں ياد رکھيں:
پہلی
بات يہ کہ اگر اللہ تعالی نے آپ کو نيکی تقوی اور ايمان کی دولت سے مالا مال کر
رکھا ہے تو سمجھ ليں کہ آپ کا شمار ان لوگوں ميں ہو رہا ہے جو اللہ تعالی کے محبوب
ہيں ۔ فرمان نبوی ہے:
إن الدنيا يعطيھا اللہ من يحب ومن لا يحب ولکن الدين لا يعطيہ اللہ إلا من يحب ( أخرجه أحمد وإسناده ضعيف)
"بلاشبہ
اللہ تعالی دنيا اسے بھی ديتا ہے جو اس کی نظرميں محبوب ہے اوراسے بھی ديتا ہے جو
اس کی نظر ميں محبوب نہيں ليکن دين اسی کو ديتا ہے جواس کی نظر ميں محبوب ہے"۔
دوسری
بات يہ کہ اگر اللہ تعالی نے آپ کے ليے اطاعت کے کاموں کو آسان کر رکھا ہے، کسب
حلال کی توفيق دے رکھی ہے تو سمجھ ليں کہ وہ آپ سے محبت کرتا ہے ، کتنے لوگ اللہ
تعالی سے غافل ہيں ليکن اللہ تعالی نے آپ کو توفيق دی کہ مسجد ميں پنجوقتہ نمازوں
کی ادائيگی کر سکيں ، کتنے لوگ بُرائيوں ميں لت پت ہيں ليکن اللہ تعالی نے آپ
کوتوفيق بخشی کہ آپ اللہ تعالی کے نيک اور وفاشعار بندہ بن سکيں ۔
تيسری
بات يہ کہ اگر آپ کو اپنے نفس پر کنٹرول حاصل ہے، گناہوں کے دلدل ميں بٓاسانی نہيں
پھنس سکتے تو سمجھ ليں کہ اللہ تعالی کی نظر ميں آپ محبوب ہيں اورا گر مسلسل اللہ
تعالی کی نافرمانی کرتے رہے اور وہ اس پر پردہ ڈالتا رہا تو سمجھ ليں کہ آپ اللہ کی
نظر سے گر چکے ہيں اب اسے اس بات کی فکر نہيں کہ آپ کس وادی ميں ٹامک ٹوئيے مار رہے
ہيں. اللہ تعالی کا فرمان ہے:
حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ ﴿الأنعام: 44﴾
"حتی
کہ جب وہ ان چيزوں پر اِترانے لگے جو اُنہيں دی گئی تھیں تو ہم نے اُنہيں اچانک
پکڑ ليا پھر وہ نا اميد ہوکر رہ گئے" ۔
ليکن جو بندہ اللہ تعالی کی نظر ميں محبوب ہوتا
ہے اس کے ليے نيکی کی انجام دہی بہت آسان ہوتی ہے جبکہ گناہ کا ارتکاب نہايت سخت
ہوتا ہے:
اب
ہميں بتائيں! کيا آپ كو نيکی ، صلاح اور تقوی کی توفيق ملی ہے؟ کيا آپ كو خير کے
کاموں کوانجام دينا آسان لگتا ہے؟ اور گناہوں کا ارتکاب طبيعت پربھاری پڑتا ہے؟
اگرايسا ہے تو سمجھ ليں کہ اللہ تعالی آپ سے محبت کرتاہے. جی ہاں! يہ ہيں وہ
علامات جن کو پيش نظر رکھ کر ہر شخص اپنا جائزہ لے سکتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی
نظر ميں محبوب ہے يا مبغوض ۔
ہم
ميں ہر شخص کی يہ خواہش ہوگی کہ اللہ تعالی اس سے محبت کرے ،اور اس پر خاص عنايت
فرمائے تو آئيے ميں آپ کو وہ اسباب بتاؤں جن کوعملی جامہ پہنا کرہم محب الہی بن
سکتے ہيں
اللہ
تعالی سے محبت کرنے والوں کی پہلی صفت يہ ہے کہ وه قرآن کريم کی تلاوت كرتے ہيں اور
اس پر تدبروتفکر كرتے ہيں : قرآن اللہ کا کلام ہے، جب بندہ اس کی تلاوت کرتا ہے
اور اس کے معانی ومفاہيم پر غور کرتا ہے تو اس کے دل ميں اللہ تعالی کی عظمت بيٹھتی
ہے ،
اللہ
تعالی سے محبت کرنے والوں کی دوسری صفت يہ ہے کہ وہ بکثرت اللہ تعالی کا ذکر کرتے
ہيں ظاہر ہے کہ محب اپنے محبوب کا ذکر زيادہ سے زيادہ کرتا ہی ہے، اہل دنيا دنيا کی تلاش ميں
سرگرداں ہوتے ہيں جب کہ اللہ والے اللہ کی ياد اس کی فکر، اوراس کے کلام کی تلاوت
ميں اپنا وقت بسر کرتے ہيں ، ذوالنون کہتے ہيں: "جس کا دل اور جس کی زبان ذکر
الہی ميں مشغول ہو اللہ تعالی اس کے دل ميں اپنی طرف شوق کا نور بھر ديتے ہيں"
۔
اور
اللہ تعالی سے محبت کی نشانی ہے قرآن کريم سے محبت کرنا اور قرآن کريم سے محبت کی
نشانی ہے پيارے نبی ﷺ سے محبت کرنا، اور
پيارے نبی ﷺسے محبت کی نشانی
ہے سنت سے محبت کرنا اور سنت سے محبت کی نشانی ہے آخرت سے محبت کرنا اور آخرت سے
محبت کی نشانی ہے دنيا سے محبت نہ کرنا اور دنيا سے محبت نہ کرنے کی نشانی ہے دنيا
سے اِس قدر حاصل کرنا جوآخرت کی تياری کے ليے کافی ہوسکے ۔
اللہ
تعالی سے محبت کرنے والوں کی تيسری صفت ہے مومنوں سے محبت کرنا، جی ہاں ! اللہ
تعالی سے محبت کر نے والے ان لوگوں سے بھی محبت کرتے ہيں جو انہيں اللہ کی ياد
دلاتے ہيں ۔
اور
اللہ تعالی سے محبت کرنے والوں کی تيسری صفت ہے فرائض کے بعد نوافل کا بکثرت
اہتمام کرنا: کيونکہ نوافل کے ذريعہ بندہ اللہ تعالی سے قريب سے قريب تر ہوتا جاتا
ہے چنانچہ اللہ تعالی نے حديث قدسی ميں فرمايا :
ومايزال عبدی يتقرب إلی بالنوافل حتی أحبہ. ( رواه البخارى)
"اور ميرا بندہ نوافل کے ذريعہ مسلسل ہم
سے قريب ہوتا رہتا ہے يہاں تک کہ ہم اُس سے محبت کرنے لگتے ہيں"۔
0 تبصرہ:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔