اتوار, نومبر 17, 2013

جمعہ والے كہاں ہیں ؟ ( ترجمہ )


 رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے :
ان اللہ یبعث الأیام یوم القیامة علی ہیئتہا ویبعث الجمعة زہراء منیرة لأہلہا فیحفون بہا کالعروس تہدی الی کریمہا٬ تضیء لہم یمشون فی ضوئہا٬ ألوانہم کالثلج بیاضا٬ ریاحہم تسطع کالمسک یخوضون فی جبال الکافور ینظرالیہم الثقلان ما یطرقون تعجبا حتی یدخلوا الجنة لا یخالطہم أحد إلا الموذنون المحتسبون ( حدیث رقم :1872 فی صحیح الجامع الصغیر)
" بيشک اللہ تعالی بروز قيامت دنوں کواپنی ہيئت ميں اٹھائے گا اور جمعہ کو اس کے قائم کرنے والوں کے ليے نہايت تابناک اور چمکدار بناکر اٹھائے گا ، چنانچہ وہ اس سے لپٹ جائيں گے اس دلہن کی مانند جو اپنے کريم کے پاس پيش کی جاتی ہے، وہ ان کے ليے راستے کو منور کرے گا اس کی روشنی ميں وہ چليں گے،ان کا رنگ سفيدی ميں بالکل برف کی مانند ہوگا، ان کی خوشبو مشک کے جيسے پھيلتی ہوگی، کافور کے پہاڑ ميں ٹہلتے ہوں گے، جن وانس ان کے ناز وانداز کو ديکھ کر تعجب سے ان کی طرف ديکھتے ہوں گے، يہاں تک کہ وہ جنت ميں داخل ہو جائيں گے، ان کے ساتھ اجر وثواب کی اميد رکھنے والے موذنوں کے علاوہ کوئی نشست و برخواست نہ کر سکے گا"۔
دوسری جگہ اللہ کے رسول نے فرمايا :
ان فی الجنة لسوقا یأتونہا کل جمعة فیہا کثبان المسک فتہب ریح الشمال فتحث فی وجوہہم وثیابہم فیزدادون حسنا وجمالا فیرجعون الی أہلیہم وقد ازدادوا حسنا وجمالا فیقول لہم أہلوہم : واللہ لقد ازددتم بعدنا حسنا وجمالا فیقولون : وأنتم واللہ لقد ازددتم بعدنا حسنا وجمالا. ( صحیح الجامع الصغیر حديث نمبر 2124)
" بے شک جنت ميں ايک بازار ہوگا جہاں اہل جنت ہر جمعہ کوآئيں گے،اس ميں نشيبی زمين مشک کی ہوگی،جب شمالی ہوا کے جھونکے چليں گے توان کے چہرے اور کپڑے ( مشک سے) معطرہوجائیں گے جس سے ان کے حسن وجمال میں دوآتشگی آجائے گی، جب اپنی جنتی بيويوں کے پاس لوٹيں گے تو ان کے حسن وجمال ميں نکھار پيدا ہو چکا ہوگا، ان کی بيوياں ان سے کہيں گی: الله كى قسم! آپ کے حسن وجمال ميں اضافہ ہوچکا ہے ۔ وہ کہيں گے : الله كى قسم! آپ کے حسن وجمال ميں بھی تو اضافہ ہوچکا ہے"۔
پاک ہے وہ ذات جس نے جمعہ کو خصوصيت بخشی ، اسے دنيا وآخرت کے باقی دنوں سے مميز کيا اور اس کے مقام ومرتبہ کو بلند کيا تاکہ مسلمانوں کے اندر اسکے اہتمام کا حوصلہ پيدا ہو۔ يہاں تک کہ بعض اللہ والوں نے اس دن کو عيد کا دن قرار دياہے۔
حافظ ابن رجب ؒ لطائف المعارف ميں فرماتے ہيں:
" دنيا ميں مومنوں کے ليے تين عيديں ہيں، ايک عيد وہ ہے جو ہرہفتہ آتی ہے، اور دوعيدیں وہ ہيں جوسال ميں صرف ايک بار آتی ہيں، بار بار نہيں، جوعيد باربار آتی ہے وہ جمعہ کا دن ہے جو ہفتے کی عيد کہلاتی ہے ، اور يہ عيد فرض نمازوں کی تکميل پرمنائی جاتی ہے ، کيوں کہ اللہ تعالی نے مومنوں پر شب وروز ميں پانچ وقت کی نمازيں فرض کی ہيں ، اور دنيا کے ايام سات دنوں پرچکر لگاتے ہيں، جب جب دنيا کے ايام کا ہفتہ واری مرحلہ مکمل ہوتاہے اورمسلمان ان دنوں ميں نماز کی تکميل کر ليتے ہيں توان کے ليے تقريب کا ايک دن رکھا جاتا ہے" ۔
اسی دن تخليق كائنات کی تکميل ہوئی، اسی دن آدم عليہ السلام کی پيدائش ہوئی، اسی دن آدم عليہ السلام جنت ميں داخل کيے گئے ، اسی دن جنت سے نکالے گئے ۔ اسی دن دنيا کی مدت ختم ہوگی اورقيامت وقوع پزير ہوگی۔ اوراسی دن پند ونصيحت سننے اور نمازجمعہ کی ادائيگی کرنے کے ليے لوگ اکٹھا ہوتے ہيں۔ چنانچہ اس دن کو مسلمانوں کے ليے عيد کادن قرار ديا گيا۔ اور تنہا اس دن روزہ رکھنے سے منع کيا گيا۔
جمعہ کے ليے حاضری ميں حج کی مشابہت پائی جاتی ہے، کہتے ہيں کہ يہ غريبوں کا حج ہے ۔ امام سعيد بن مسيب ؒ فرماتے ہيں : جمعہ کے دن کی حاضری ہمارے ليے نفل حج سے بھی زيادہ پسنديدہ ہے ۔ اور اس دن نمازجمعہ کی ادائيگی کے ليے مسجد ميں جلدی پہنچنے والوں کوباعتبار ساعت جو انعام ملتا ہے وہ(حج کی ) قربانی کے قائم مقام ہے ۔ چنانچہ سب سے پہلے پہنچنے والے کو ايک اونٹ اللہ کی راہ ميں قربان کرنے کا ثواب ملتا ہے،جواس کے بعد والی ساعت ميں گيا گويا اس نے ايک گائے قربان کی،اور جو اس کے بعد گيا گويا اس نے مينڈھا قربا ن کيا، جواس کے بعد گيا گويا اس نے مرغی کا صدقہ کيا، اور جو اس کے بعد گيا گويا اس نے ايک انڈا اللہ کی راہ ميں صدقہ کيا ۔
اورجس طرح حج مبرور اس سال کے گناہ کے ساتھ ساتھ دوسرے حج تک کے گناہ معاف کرديتا ہے،اسی طرح جمعہ کی حاضری دوسرے جمعہ تک کے گناہوں کا کفارہ بنتی ہے بشرطيکہ کبيرہ گناہوں سے اجتناب کيا جائے ۔
غرضيکہ جمعہ ہفتہ کی عيد ہے جس کا تعلق فرض نمازوں کی تکميل سے ہے جو شہادتيں کے اقرار کے بعد اسلام کا عظيم رکن اور اس کی اساس ہے۔
حسن بصری ؒ فرماتے ہيں:
”ہروہ دن جس ميں اللہ کی نافرمانی نہ کی جائے وہ عيد کا دن ہے اور ہروہ دن جسے مومن باری تعالی کی اطاعت اور اس کے ذکر وشکر ميں گذارے وہ اس کے ليے عيد کا دن ہے“۔
لہذا اے مسلمانو! اللہ تمہاری حفاظت فرمائے۔ ذرا جمعہ کے مقام ومرتبے پر غور کرواللہ تعالی نے اس کی عظمت کی جو ترغيب دی ہے شايد جمعہ کا حق ادا کر کے بفضلہ تعالی اس کے حقدار بن سکو۔ اس کا فرمان ہے:
 ذَلِکَ وَمَن يعَظِّم شَعَائِرَ اللّہِ فَاِنَّھَا مِن تَقوَی القُلُوبِ (الحج 32)
"سنو! اللہ کی نشانيوں کی جو عزت وحرمت کرے يہ اس کے دل کی پرہيزگاری کی علامت ہے"۔
اب شايد آپ کے اندردنيا ميں جمعہ کے مقام ومرتبہ کو جاننے اور اس سے خاطرخواہ فائدہ اٹھانے کی تڑپ پيدا ہو رہی ہوگی تاکہ آپ کا شمار بھی اہل جمعہ ميں سے ہوسکے اور آپ عظيم اجروثواب کے مستحق ٹھہر سکيں ۔

(1) جمعہ کی اہميت کا اندازہ اس بات سے لگايا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب ميں اس نام سے مستقل ايک سورہ کو موسوم کيا ہے جس کی تاقيامت تلاوت کی جاتی رہے گی۔ اس سورہ ميں قابل غور بات يہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس کی ابتداء بندوں پر اپنے حق کے بيان سے کيا ہے۔ اور اس ميں اپنے چار جلال وکمال اور عظمت پر مشتمل ناموں کا ذکر کيا ہے چنانچہ فرمايا:”يسَبِّحُ لِلّہ“ يعنی آسمان وزمين کی ساری چيزيں اللہ کی پاکی بيان کرتی ہيں، اس کے حکم کی تعميل کرتی ہيں اور اس کی عبادت وبندگی ميں محوہيں کيوں کہ وہ کامل ملکيت کا مالک ہے ۔ جو بادشاہ ہے، نہايت پاک ہے، غالب ہے، باحکمت ہے۔
اس سورہ ميں اللہ تعالی نے امت محمديہ پر کی گئی سب سے عظيم نعمت کا ذکر کيا ہے کہ ان ميں ايک ايسا رسول مبعوث فرمايا جو ان کی رہنمائی کرتا اور ان کا تزکيہ کرتا ہے ۔
 دوسرا احسان يہ کہ ان کے بعض لاحقين کواوليں اسلام لانے والوں کے ساتھ ملا ديا جو فی الواقع ان ميں نہيں تھے چنانچہ فرمايا:
وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿الجمعة: 3﴾
 " اور (اس رسول کی بعثت) اُن دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہے جو ابھی اُن سے نہیں ملے ہیں"
اور دوسروں کے ليے بھی انہيں ميں سے جواب تک ان سے نہيں ملے۔ اللہ تعالی نے فرمايا:
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴿التوبة: 100﴾
" وہ مہاجر و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوت ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی، نیز وہ جو بعد میں راستبازی کے ساتھ پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، یہی عظیم الشان کامیابی ہے"-
  • اور سورہ کے اخير ميں مسلمانوں کو جمعہ کا خاطرخواہ اہتمام کرنے اور اس کی ادائيگی کے ليے مسجد ميں جلدی جانے کی دعوت دی ہے ۔

اس سورہ کی تفسير ميں شيخ سعدی ؒ فرماتے ہيں : بلاشبہ جمعہ مومنوں پر فرض ہے، اسی طرح جمعہ کے دن دو خطبے بھی فرض ہيں جن ميں حاضری ضروری ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے :
ذَلِکَ وَمَن يعَظِّم شَعَائِرَ اللّہِ فَاِنَّھَا مِن تَقوَی القُلُوبِ (الحج 32)
"سنو! اللہ کی نشانيوں کی جو عزت وحرمت کرے يہ اس کے دل کی پرہيزگاری کی علامت ہے" ۔
مزيد فرماتے ہيں: " شعائر سے مراد دين کے نماياں امتيازی احکام ہيں۔ اور شعائر الہی کی تعظيم دراصل دلی تقوی کی بنياد پر ہوتی ہے، لہذا ان کی تعظيم فی الواقع تقوی کی علامت اور صحت ايمان کی دليل ہے کيوں کہ ان کی تعظيم اللہ کی تعظيم اور اجلال کے مترادف ہے"۔

2۔ جمعہ ميں آپ كے ليے کيا ہے ؟

دعائے مستجاب : اللہ کے رسول فرماتے ہيں:
إن فی الجمعة لساعة لا یوافقہا عبد مسلم وہو قائم یصلي یسأل اللہ فیہا خیرا إلا أعطاہ اللہ إیاہ ( صحیح الجامع الصغیرحدیث نمبر : 2120 )
” جمعہ کے دن ايک ايسی گھڑی ہے،کہ جس مسلمان بندے کو وہ ميسر آجائے اور وہ کھڑا نماز پڑھ رہا ہو‘ وہ اللہ سے جس چيز کا سوال کرتا ہے اللہ تعالی اسے ضرور عطا کرتا ہے"-
بروز جمعہ قبوليت دعا کی اس ساعت سے کيسے فائدہ اٹھائيں؟
بروزجمعہ قبوليت دعا کی اس ساعت پر عمل کرنے کے تعلق سے علماء امت کے آراء مختلف ہيں:
(۱) حافظ ابن حجر ؒ فتح الباری ميں فرماتے ہيں اللہ کے رسول کا فرمان کہ ’’وہ کھڑا نماز پڑھ رہا ہو“ يہاں نماز دعا يا انتظار پر محمول ہے،اور کھڑا ہونا لزوم ودوام پر محمول کيا جائے گا۔ اسی سے اللہ تعالی کا يہ قول ہے: إلا ما دمت عليہ قائما (آل عمران 75) "الّا یہ کہ تم اس کے سر پر سوار ہو جاؤ" -
(۲) يہ بھی ممکن ہے کہ قبوليت دعا کی ساعت سے مراد بعد نمازعصردو رکعت ادا کرنے کے بعد بحالت سجدہ دعا کرنا ہو، يہ اس قول کی بنياد پر کہ عصر کے بعد سے آفتاب غروب ہونے سے پہلے پہلے نماز پڑھنا جائز ہے، چنانچہ علامہ البانی ؒ نے سلسلہ صحيحہ ميں زيربحث مسئلے سے متعلق جواز وعدم جواز کی احاديث درج کرکے ايک طويل بحث کی ہے، او ر دونوں کے بيچ توفيق کی صورت نکالی ہے ۔
چنا نچہ آپ السلسلة الصحيحہ 1/ص199 ميں امام ابن حزم رحمه الله (3/4) کے حوالے سے نقل کرتے ہيں کہ حضرت بلال رضی الله عنه مؤذن رسول اللہ نے فرمايا کہ
 لم ينہ عن الصلاة الا عند غروب الشمس ۔
 "يعنی نماز سے صرف اس وقت منع کيا گيا ہے جب کہ سورج غروب ہو رہا ہو" ۔ اس کے بعد فرماتے ہيں :
جس حديث ميں اس بات کی دلالت پائی جاتی ہے کہ عصرکی نماز کے بعد سے سورج ميں زردی آنے تک نماز جائز ہے خواہ نفل ہی کيوں نہ ہو ، اسی پر اعتماد کرنا مناسب ہے ۔ اسی کے قائل ابن حزم ؒ ہيں جنہوں نے ابن عمر رضی الله عنهما کی متابعت کی ہے جيسا کہ حافظ عراقی وغيرہ نے صراحت کيا ہے۔ لہذا ان لوگوں کے جيسے مت بنو جوہرمسئلے ميں کثرت تعدادپر نازاں رہتے ہيں گوکہ خلاف سنت ہو۔
اسی طرح ألبانی رحمه الله نے سلسلہ 1/303 ميں دو حديثيں نقل کی ہيں:
پھلی حديث :
 ”لا تصلوا عند طلوع الشمس، ولا عند غروبہا فإنہا تطلع و تغرب علی قرن شیطان وصلوا بین ذلک ما شئتم.
 "طلوع آفتاب کے وقت نماز مت پڑھو اور نہ غروب کے وقت ، کيوں کہ وہ شيطان کے سينگ پر طلوع وغروب ہوتا ہے اور اس کے بيچ جتنا چاہو پڑھو" ۔
دوسری حديث:
 لا تصلوا بعد العصرإلا أن تصلوا والشمس مرتفعة.
”عصر کے بعد نماز مت پڑھو، سوائے اس کے کہ اس حالت ميں پڑھو جبکہ سورج بلند ہو. “
علامہ البانی رحمه الله فرماتے ہيں:
”ان دو حديثوں ميں اس بات کی دليل پائی جاتی ہے کہ کتب فقہ ميں جويہ مشہور ہے کہ عصر کے بعد مطلقا نماز پڑھنا منع ہے گوکہ سورج صاف اور بلند ہو ان دو صريح حديثوں کے خلاف ہے ، اور مانعين کی دليل دراصل مطلقا عصر کے بعد نماز سے ممانعت پر دلالت کرنے والی مشہورآحاديث ہيں ، تاہم ياد رکھو! کہ يہ دو حديثيں ان آحاديث کو مقيد کرديتی ہيں.“
اس کے بعد آپ زيربحث مسئلہ کے تعلق سے أم المومنين عائشہ رضی الله عنها اور ديگر صحابہ کرام کے اقوال ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہيں:
” اور يہاں مناسب ہے کہ ميں ان اہل سنت کو نصيحت کروں جو سنتوں کو زندہ کرنے اور بدعتوں کا قلع قمع کرنے کے حريص ہيں وہ جب جب عصرکی نماز اپنے مشروع وقت ميں پڑھيں اس کے بعد (جمعہ کے دن کی ) يہ دو رکعتيں ادا کر ليا کريں کيوں کہ فرمان نبوی ہے :
من سن سنة حسنة عمل بہا بعدہ کان لہ أجرہ ومثل أجورہم من غیر أن ینقص من أجورہم شيء ومن سن سنة سیئة فعمل بہا بعدہ کان علیہ وزرہا ومثل أوزارہم من غیر أن ینقص من أوزارہم شیء. ( فی صحیح الجامع الصغیر 6306)
"جس نے کسی اچھی سنت کوزندہ کيا جس پراس کے بعد عمل کيا گيا تو اسے عمل کرنے والوں کے عمل کے برابر ثواب ملے گا اور عمل کرنے والے کے ثواب ميں کوئی کمی واقع نہ ہوگی ۔ اور جس نے کسی برے طريقہ کو زندہ کيا ، اور اس پر اس کے بعد عمل کيا گيا تو اسے عمل کرنے والے کے گناہ کے برابر گناہ ہوگا او رعمل کرنے والوں کے گناہ ميں کوئی کمی واقع نہ ہوگی" ۔ تفصيل کے ليے مراجعہ فرمائيں (السلسة الصحيحة 1/ 199)
(ب) گناہوں کی مغفرت
اللہ کے رسول نے فرمايا :
من اغتسل یوم الجمعة ثم أتی الجمعة فصلی ما قدر لہ ثم أنصت حتی یفرغ الإمام من خطبتہ ثم یصلى  معہ غفر لہ ما بینہ وبین الجمعة الأخری وفضل ثلاثة أیام (صحيح الجامع الصغير حديث نمبر 6062 )
" جس نے جمعہ کے دن غسل کيا پھر نمازجمعہ کے ليے آيا، اور حسب توفيق نماز پڑھی، اور امام کے خطبہ سے فارغ ہونے تک خاموش رہا پھر امام کے ساتھ نماز پڑھی، تو اس کے اس جمعے سے دوسرے جمعے تک کی درميانی مدت اور مزيد تين دن کے گناہ معاف کر دئيے جاتے ہيں" ۔
(ج) اسی طرح جمعہ کے دن مندرجہ ذيل عبادات کی ادائيگی کے اجر وثواب بھی آپ كے ليے ہيں۔

(3)عام دنوں کی بنسبت جمعہ کے دن کو امتيازی مقام کيسے ديں؟

 شب جمعہ کی ابتداء سے اللہ کے نبی پر درود وسلام بھيجنا
اللہ کے رسول فرماتے ہيں:
 أکثروا الصلاة عليّ فی یوم الجمعة فإنہ لیس یصلى علیّ أحد یوم الجمعة إلا عرضت عليّ صلاتہ.
" جمعہ کے دن ميں مجھ پر کثرت سے درود بھيجا کرو کيوں کہ جو شخص بھی جمعہ کے دن ہم پر درود بھيجتا ہے اس کا درود وسلام مجھ  پر پيش کيا جاتا ہے" ۔ (صحيح الجامع الصغير حديث نمبر 1208)
دوسری جگہ فرمايا :
”أکثروا الصلاة عليّ یوم الجمعة ولیلة الجمعة فمن صلی عليّ صلاة صلی اللہ علیہ عشرا.
"جمعہ کے دن اور اس کی شب ہم پر بکثرت درود و سلام بھيجا کرو، جس نے ہم پر ايک مرتبہ درود وسلام بھيجا اللہ تعالی اس پر دس مرتبہ درود وسلام بھيجتے ہيں"۔ (صحيح الجامع الصغير حديث نمبر1209 )
(ب) فجر کی نماز باجماعت پڑھنے کی کوشش کرنی اورشب جمعہ سحر خيزی يا لہو ولعب ميں پھنس کراسے ضائع نہ ہونے دينا۔
اللہ کے رسول فرماتے ہيں:
أفضل الصلوات عند اللہ صلاة الصبح یوم الجمعة فی جماعة.
 "اللہ تعالی کے نزديک ساری نمازوں ميں سب سے افضل نمازجمعہ کے دن صبح کی نمازباجماعت ہے"۔
(ج) غسل کرکے ، خوشبولگاکر، مسواک کرکے، صاف ستھرے کپڑے زيب تن کرکے جمعہ کی تياری کرنا۔ اور يہ دراصل عيد کی خوشی اور اس کی فرحت وسرور کا مظہر ہے۔ اللہ کے رسول نے فرمايا :
من اغتسل یوم الجمعة فأحسن الغسل وتطہر فأحسن الطہور ٬ ولبس من أحسن ثیابہ ومس ما کتب اللہ لہ من طیب أو دہن أہلہ ثم أتی المسجد فلم یلغ ولم یفرق بین اثنین غفر اللہ لہ ما بینہ و بین الجمعة الأخری. (صحيح الجامع الصغير حديث نمبر 6064 )
" جس نے جمعہ کے دن اچھی طرح سے غسل کيا، اور اچھی طرح پاکی حاصل کی، اور اپنے کپڑوں ميں سے اچھا کپڑا زيب تن کيا، خوشبو لگايا يا اپنے گھر ميں موجود تيل لگايا، پھر مسجد آيا، کوئی لغو کام نہ کيا اور نہ دو آدميوں کے درميان گھس کر ان کے درميان تفريق پيدا کی، تو اس کے اس جمعے سے دوسرے جمعے تک کی درميانی مدت ميں ہونے والے گناہ معاف کر دئيے جاتے ہيں" ۔
اور اللہ کے رسول نے فرمايا :
من اغتسل یوم الجمعة واستاک ومس من طیب إن کان عندہ ولبس من أحسن ثیابہ ثم خرج حتی یأتي المسجد ولم یتخط رقاب الناس ثم رکع ما شاء اللہ أن یرکع ثم أنصت اذا خرج الإمام فلم یتکلم حتی یفرغ من صلاتہ کانت کفارة لما بینہا وبین الجمعة الأخری. “ (صحيح الجامع الصغير حديث نمبر 6066)
" جس نے جمعہ کے دن غسل کيا اور مسواک کيا، اگر خوشبو ميسر ہوتو خوشبو لگايا، اپنے کپڑوں ميں سے سب سے اچھا کپڑا زيب تن کيا ، پھر نکلا يہاں تک کہ مسجد آيا، لوگوں کى گردنوں کو چھلانگ لگاتے ہوئے آگے نہ بڑھا، پھر حسب توفيق نمازيں پڑھی، پھر خاموش رہا، اور امام سے خطبہ کے فارغ ہونے تک گفتگو نہ کی، تو يہ اس کے اس جمعے سے دوسرے جمعے تک کی درميانی مد ت ميں ہونے والے گناہ کا کفارہ بنتے ہيں" ۔
 نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من اغتسل یوم الجمعة ومس من طیب امرأتہ إن کان لہا ولبس من صالح ثیابہ ثم لم یتخط رقاب الناس ولم یلغ عند الموعظة کانت کفارة لما بینہا ومن لغی وتخطی رقاب الناس کانت لہ ظہرا. (صحیح الجامع الصغیر حدیث : 6067 )
" جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اگر گهر میں خوشبو لگایا اپنے کپڑوں میں سے اچہا کپڑا زیب تن کیا ( اور مسجد پہنچا) پہر لوگوں کی گردنیں چہلانگتے ہوے آگے نہ بڑہا اور بوقت خطبہ کوئی لغو بات نہ کہی تو اس کے اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے گناہ مٹادئے جاتے ہیں اور( بوقت جمعہ) جو لوگوں کی گردنیں چہلانگتے ہوے آگے بڑہا تو اسے جمعہ کا ثواب نہیں ملتا محض ظہر کا ثواب پاتا ہے"-
(د) بڑوں اور چہوٹوں کو جمعہ کے دن اول وقت میں مسجد پہنچنے کی فضیلت سے آگاہی :
 اللہ کے رسول نے فرمایا :
 من اغتسل يوم الجمعة غسل الجنابة ثم راح فی الساعة الأولی فکأنما قرب بدنة ومن راح فی الساعة الثانية فکأنما قرب بقرة ومن راح فی الساعة الثالثة فکأنما قرب کبشا أقرن ومن راح فی الساعة الرابعة فکأنما قرب دجاجة ومن راح فی الساعة الخامسة فکأنما قرب بيضة فإذا خرج الامام حضرت الملائکة يستمعون الذکر. (صحيح الجامع الصغير حديث نمبر 6063)
 "جس نے جمعہ کے دن غسل جنابت کیا پھر اول وقت مسجد گيا تو گویا اس نےِ ایک اونٹ کی قربانی دی اور جو دوسرے وقت میں مسجد گیا گویا اس نے ایک گائے کی قربانی دی اور جو تیسری ساعت میں مسجد گیا گویا اس نے ایک مینڈہے کی قربانی دی اور جو چوتہی ساعت میں پہنچا گویا اس نے ایک مرغی صدقہ کیا اور جو پانچویں وقت میں مسجد گیا گویا اس نے ایک انڈے کا صدقہ کیا جب امام خطبہ دینے کے ليے نکل آتے ہیں تو فرشتے ( رجسٹر بند کرکے) خطبہ سننے کے ليے حاضر ہوجاتے ہیں"۔
اور دوسری جگہ اللہ کے رسول نے فرمایا :
من غسل يوم الجمعة واغتسل ثم بکر وابتکر ومشی ولم يرکب ودنا من الإمام واستمع وأنصت ولم يلغ کان لہ بکل خطوة يخطوھا من بيتہ إلی المسجد عمل سنة أجر صيامھا و قيامھا (صحيح الجامع الصغير 6405)
"جوشخص جمعہ کے دن اچھی طرح نہا دھوکرپيدل چلا اور صحيح وقت پر مسجد پہنچ گيا اور امام کے سامنے بيٹھ کر پوری توجہ سے خطبہ سنا اور کوئی لغو حرکت نہ کيا (کيوں کہ بحالت خطبہ بات کرنا لغو ہے اور جس نے اپنے بھائی سے کہا :” خاموش رہو “ اس نے لغو حرکت کيا ) تو اسے ہر ہر قدم کے بدلے سال بھر کے روزوں اورسال بھر تک تمام راتوں کی عبادت کا ثواب ملتا ہے"۔
 اللہ اکبر ! جو شخص پہلی ساعت میں مسجد پہنچا وہ گویا دو غیر معمولی اجر کا مستحق ٹھہرا ۔ ایک : اونٹ کی قربانی اور دوسرا: اپنے گھر سے مسجد تک آتے ہوئے ہرہر قدم کے بدلے سال بھر کے قیام اورسال بھرکے صیام کا اجر پایا، اگر وہ سو قدم چلا ہوگا تو گویا اسطرح وہ سو سال قیام اورسوسال صیام کے اجر کا مستحق ٹھہرا اور اگر پانچ سو قدم چلا ہوگا تو گویا وہ پانچ سوسال کے قیام و صیام کے اجر وثواب کا مستحق قرار پايا ۔
 اللہ اکبر! آخر کہاں گئے اس ساعت کے حصول میں سبقت کرنے والے، مقابلہ کرنے والے اور جلدی کرنے والے ؟!!
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وسارعوا المغفرة من ربکم وجنة عرضہا السموات الأرض أعدت للمتقین (آل عمران :133)
" اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے٬ جو پرہیز گاروں کے ليے تیار کی گئی ہے"۔ اور اللہ تعالی نے فرمایا :
 وسابقوا الی مغفرة من ربکم وجنة عرضہا کعرض السماء والأرض أعدت للذین آمنوا باللہ ورسلہ، ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم ( الحدید : 21)
"دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین کی وسعت کے برابر ہے یہ ان کے لیے بنائی گئی ہے جو اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان رکہتے ہیں یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے اور اللہ بڑے فضل والا ہے" ۔
 نیز ارشاد ربانی ہے :
وفی ذلک فلیتنافس المتنافسون ( المطففین : 26)
 "رغبت کرنے والوں کو اس کی رغبت کرنی چاہئے "۔

کونسی چیز مانع ہے :

جی ہاں ! مسلمانوں کے ليے اس گھڑی کو پانے اور اس کے ليے سبقت کرنے ميں کونسی چیز مانع ہے؟ کیا اس وجہ سے کہ یہ ساعت بالکل سویرے آتی ہے ، اور جمعہ چھٹی کا دن ہے جسے لوگوں نے آرام وراحت کے ليے خاص کر رکھا ہے... آخر میٹھی نیند کو پہلی ساعت پانے کے ليے کیسے چھوڑدیں؟ ایک مسلمان جس نے بے پناہ اجر و ثواب کی بشارت سن رکھی ہو آخر اس کے ليے کونسی چیز مانع ہے کہ ہفتہ میں ایک دن اپنے بچوں کے ساتہ مسجد میں سویرے ہی پہنچ جائے حالانکہ ہم اسی کو دیکهتے ہیں کہ ہفتہ میں پانچ دنوں تک اپنے بچے کو صبح سویرے مدرسہ پہنچانے میں کوشاں رہتا ہے، ہم دیکهتے ہیں کہ چھ بجے صبح ہی مسلم گهرانے مدرسہ کی تیاری اور صبح کی حاضری کے ليے شہد کی مکهیوں کی طرح پورے طور پر حرکت میں آجاتے ہیں ؟ کہاں گئے مسلمان اور فرزندان اسلام...؟ کہاں ہیں وہ لوگ جو ان لمحات میں مسجدوں کو آباد کرتے ہیں...؟ یا مسئلہ صرف یہ ہے کہ جمعہ کی رات سحرخیزی كے باعث صبح میں میٹهی نیند آنے لگی ؟ جب ہم دنیوی ملازمت اور تجارتوں کے مواقع سے فائدہ اٹهانے میں عزم وہمت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو پهر نیک اعمال کی انجام دہی اور اس کی طلب میں جلد بازی کرنے والے عزائم کہاں گئے؟ کیا آخرت کے حصول کے ليے دنیوی لذات کو خیر باد کہنا اخروی فلاح کی راہ میں صداقت کی نشانی نہیں...؟
ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ سلف صالحین کی سیرت کا مطالعہ کرے تاکہ وہ جمعہ کے دن صبح سویرے مسجد پہنچنے کی راہ میں ان کی کوششوں ٬ قربانیوں اور صبرو جانفشانی کو جان سکے اور اس بات سے باخبر ہوسکے کہ جمعہ کے اجر وثواب کے حصول میں ان کے کھانے پینے کے اسباب اور آرام و راحت کے سامان مانع نہ ہو سکے ۔ چونکہ صحابہ کرام کا معمول تھا کہ وہ زوال سے پہلے قیلولہ کیا کرتے تھے لیکن جمعہ کے دن جمعہ کی تیاری کرنے کے باعث کھانے پینے اور قیلولہ سے محروم ہوجاتے تھے پھر جب جمعہ کی نماز ختم ہوجاتی تو کھانے پینے اور قیلولہ کی طرف دھیان دیتے تھے ۔
حمید رحمه الله کہتے ہیں:
 ” میں نے حضرت انس رضی الله عنه کو فرماتے ہوئے سنا: کنا نبکرإلی الجمعة ثم نقیل "ہم لوگ جمعہ کے دن صبح سویرے مسجد آتے پھر بعد نماز جمعہ قیلولہ کیا کرتے تھے" ۔
اور ابو حازم کہتے ہیں کہ سہل رضی الله عنه نے فرمایا:
کنا نصلی مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم الجمعة ثم تکون القائلة.
"ہم لوگ اللہ کے نبی کے ساتھ جمعہ کی نماز ادا فرماتے پھر قیلولہ کرتے تھے"-

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔