جمعرات, نومبر 21, 2013

مجھے اسلام ميں سعادت ملی



”ميں کبھی بت پرست تھا، بت پرستی ميں اس قدر آگے بڑھا ہوا تھا کہ ہميشہ بتوں کی تعريف وتوصيف ميں آسمان وزمين کے قلابے ملايا کرتا ، ہرجگہ اس کی ثنا خوانی ميں لگا رہتا اور دوسروں کو بھی بت پرستی کی طرف راغب کيا کرتا تھا ، صبح سويرے بيدار ہوتا، بتوں کی پوجا سے فارغ ہوکر طلوع آفتاب کا انتظار کرتا، جب سورج طلوع ہوجاتا تو اس کی پوجا کرنے کے بعد ہی اپنی ڈيوٹی پر جاتا تھا، يہی ميرے روزانہ کا معمول تھا ۔
جب ميں کويت آيا تو ہندو احباب کے ساتھ رہتا تھا انہوں نے اپنی رہائش گاہوں ميں بتوں کے مجسمے نصب کر رکھے تھے، ميں حسب معمول روزانہ ان کی پوجا کرتا اور سورج کی پوجا بھی نہيں چھوڑتا تھا ۔ حسن اتفاق ايک دن حيدرآباد کے ايک مسلم دوست نے مجھے سورج کی پوجا کرتے ہوئے ديکھا تو تعجب سے پوچھا:
 ”کيا کر رہے ہو ہيرا ....“؟
ميں نے بے التفاتی برتی، وہ بضد رہا، اور پوچھتا رہا کہ تم يہ کيا کررہے ہو؟
ميں نے کہا : سورج کی پوجا کر رہاہوں؟
اس نے بلا جھجھک مجھ سے بول ديا : سورج اور چاند کی پوجا مت کرو، اس ذات کی پوجا کر وجس نے سورج ،چاند ، انس وجن، زمين اورآسمان کو بنايا ہے ۔
ميں نے کہا : ميں بھی بھگوان کی پوجا کرتا ہوں۔ اس کے مختلف نام ہيں جس نام سے چاہو اس کی پوجا کرو، ہم ہندو اسے بھگوان کہتے ہيں اور آپ لوگ اسے اللہ کہتے ہيں ، فرق صرف نام کا ہے ....سب کی منزل ايک ہی ہے ....
ميرے دوست نے کہا: اچھا بتاؤ! تم کن کن بھگوانوں کی پوجا کرتے ہو ؟
ميں نے کہا: کرشن جی، شيو جی، شنکرجی ، رام جی ....!
ميرے دوست نے کہا: وہ سب تو انسان تھے نا ؟
ميں نے کہا :جی ہاں! انسا ن تو تھے ....پر.... بھگوان ان کا روپ دھارن کرکے زمين پر اترے تھے، اس ليے ان کی پوجا ايشور کی پوجا ہے ۔
ميرے دوست نے کہا:
ہيرا .... يہ کيسے ہوگا کہ ايشور جو ساری دنيا کا پيدا کرنے والا ہے، جب انسانوں کی ہدايت کا ارادہ کرے تو اپنی ہی پيدا کی ہوئی کسی مرد کا نطفہ بن جائے ، اپنی ہی بنائی ہوئی کسی عورت کے رحم کی تاريک کوٹھری ميں داخل ہوکر نو مہينہ تک وہاں قيد رہے ، تخليق کے مختلف مراحل سے گذرتا رہے، خون اور گوشت ميں مل کر پلتا بڑھتا رہے، پھرنہايت تنگ جگہ سے نکلے،  شيرخواری اور بچپنا سے گزرتے ہوئے جوان ہو پھروہی بھگوان بن جائے ؟ .... پھرکيا ايسا نہيں کہ انسان کی شکل ميں پيدا ہونے کی وجہ سے لوگ اسے انسان ہی مانيں گے ؟ اس کے ساتھ  بھی وہی سلوک کريں گے جو دوسروں کے ساتھ کرتے ہيں ۔ اسے گالياں سننا پڑ سکتی ہيں، جھوٹے مقد مات ميں پھنسايا جا سکتا ہے ۔ مختصريہ کہ انسان کی شکل ميں آنے کی وجہ سے اللہ کو بھی وہ تمام پاپڑ بيلنے پڑيں گے جو کسی انسان کو بيلنے پڑتے ہيں ....کيا اس سے اس کی الوہيت ميں بٹا نہ لگے گا ؟ ....صاف بات يہ ہے کہ اللہ يکتا اور بے مثل ہے، اس کے پاس ماں باپ نہيں، اس کے پاس اولاد نہيں، اس کو کسی کی ضرورت نہيں پڑتی اور اس کا کوئی شريک نہيں ۔ ....تم اس اللہ کی پوجا کرو جو ساری دنيا کا بنانے والا ہے ۔
 بات اسی پر ختم ہوگئی، اس کے بعد جب بھی ميراحيدرآبادی دوست مجھ سے ملتا‘مجھے اسلام کی بابت کچھ نہ کچھ ضرور بتاتا۔ يہاں تک کہ وہ سنہرا دن بھی آيا کہ ميرے دوست نے مجھے ipc کے داعی ....(راقم سطور) کے پاس لاکر بٹھا ديا تھا : ميرے دل ميں بتوں کی محبت بدستورقائم تھی تاہم اپنے اندر ايک خلا محسوس کر رہا تھا، ميں توحيد ، رسالت اور يوم آخرت پرمشتمل ان کی باتيں بغور سنتا رہا ‘ يہاں تک کہ ميرے سامنے يہ حقيقت واضح ہوگئی کہ اسلام ہی ہمارا مذہب ہے اور ہر دور ميں انبيائے کرام نے اسی دين کی تبليغ کی ، اللہ تعالی نے اسی پيغام کو آخری شکل ميں اللہ کے رسول صلي الله عليه وسلم کے اوپر اتارا جن کا پيغام ساری انسانيت کے ليے تھا ۔
انہوں نے اللہ کے رسول صلي الله عليه وسلم کی آمد سے متعلق ہندو مذہبی کتابوں ميں پيشين گوئيوں کی طرف بھی اشارہ کيا اوراخيرميں کہا کہ اسلام آپ کا دين ہے ، آپ کے پيدا کرنے والے کا اتارا ہوا آخری نظام ہے، محمد صلي الله عليه وسلم ساری دنيا کے ليے بھيجے گيے اور يہی کلکی اوتار ہيں جن کا آج ہندومذہب ميں انتظار ہو رہا ہے، اس ليے اسلام کو اپنانا دھرم پريورتن (تبد يلی مذہب) نہيں بلکہ اپنے اس دين کو اپنانا ہے جس پرآپ کی پيدائش ہوئی تھی ۔ الغرض اللہ تعالی نے ميرا دل کھول ديا اور ميں نے اسی وقت کلمہ شہادت کی گواہی دی " أشہد أن لا إلہ إلا اللہ وأشہد أن محمدا رسول اللہ"-   

معزز قارئين ! ہندوستان کی معروف رياست راجستھا ن کے ہمارے بھائی ہيرا لال
(عبدالرحيم )  کے قبول اسلام کی يہ ہلکی سی روداد تھی الحمد للہ آج وہ ہمارے بيچ پکے مسلمان کی حيثيت سے جانے جاتے ہيں، گھر کے اکثرافراد اسلام ميں آچکے ہيں، انہيں ديکھ کر آپ کا ايمان تازہ ہوجائے گا ، ميں نے کئی بار تنہائی ميں انہيں نماز ميں روتے ہوئے ديکھا ہے، ان کی نمازيں خشوع وخضوع کی آئينہ دار ہوتی ہيں جس کا اثرچہرے پراشک کی شکل ميں ظاہر ہوتا رہتا ہے ۔ ايک مرتبہ انہوں نے مجھے اپنے دل کی کيفيت يوں سنائی تھی  
”جب مجھے نماز ميں رونا نہيں آتا تو خيال آتاہے کہ ميری نماز ميں کچھ کمی آگئی ہے “۔


0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔