وَلَوأنَّ اَہلَ
القُرَی آمَنُوا وَاتَّقَوالَفَتَحنَا عَلَیہِم بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالاَرضِ
وَلَکِن کَذَّبُوا فَاَخَذنَاہُم بِمَا کَانُوا یَکسِبُونَ (سورہ الاعراف 96)
ترجمہ :
” اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور
پرہیزگار ہو جاتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات کے دروازے کھول دیتے مگر
اُنہوں نے تو تکذیب کی چنانچہ ان کے اعمال کی سزا میں ہم نے اُن کو پکڑ لیا“ ۔
تشریح :
اس آیت
کریمہ میں اللہ تعالی نے اپنا ایک اصول بیان کیا ہے کہ جو قوم ایمان اور تقوی کی
دولت سے مالا مال ہوتی ہے اسے دنیا وآخرت دونوں جگہ کامیابی وشاد کامی نصیب ہوتی
ہے، ایمان اور تقوی یہ ایسی چیز ہے کہ جس بستی کے لوگ اسے اپنالیں اللہ پاک اس پر
آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے ہیں، یعنی آسمان سے حسب ضرورت بارش ہوتی ہے
اور زمین اس سے سیراب ہوکر خوب پیداوار دیتی ہے، اس طرح وہ خوش حال وفارغ البال
ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس جو قوم اللہ کے احکام سے منہ موڑتے ہوئے تکذیب وعناد کا
راستہ اپناتی ہے تو اللہ پاک اس کو صفحہ ہستی سے نابود کردیتے ہیں، ان کی ہنستی
کھیلتی بستیوں کو کھنڈرات میں بدل کررکھ دیتے
ہیں، مردود اقوام کی تاریخ ہمارے سامنے ہے، جو احکام الہی کو پامال کرنے کی بدولت
نابود کردی گئیں آج وہ تاریخ میں عبرت کا نشان بنی ہوئی ہیں:
نہ گورسکندر نہ
ہے قبر دارا مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
تاریخ شاہد ہے کہ عرب کے بادیہ پیما اور صحرانشیں
جب ایمان اور تقوی کی دولت سے مالامال ہوتے ہیں تو اللہ پاک ان کے لیے زمین کے
خزانے کھول دیتے ہیں، مشرق ومغرب میں ان کی حکمرانی قائم ہوتی ہے، اسلام کا پھریرا
چہار دانگ عالم میں لہراتا ہے اور خوشحالی وشادابی ان کے گھر کی کنیز بنتی ہے ۔
ایمان اور تقوی
کی بنا پرآج بھی اللہ پاک کی نوازشیں ہورہی ہیں، اور تاصبح قیامت ہوتی رہیں گی، دور
جانے کی ضرورت نہیں خلیجی ممالک کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ عرب کی اس صحرائی سرزمین
پر پٹرول کی شکل میں اللہ کی برکات کا فیضان اور خوشحالی وشادابی کا سایہ درازہونا
ایک زندہ مثال ہے کہ ایمان اور تقوی کی بنیاد پر اللہ پاک نے ہر دور میں قوموں کو
نوازا ہے اور نوازتا رہے گا-
جی ہاں ! یہ ثمرہ
ہے شرک وبدعت سے دوری ،حدود اللہ کی تنفیذ اور اسلام کی خالص تعلیمات کو عام کرنے
کا ، کتنے لوگ عربوں سے خار کھاتے ہیںاور ان کی برائی کرنے بیٹھتے ہیں تو آسمان
وزمین کے قلابے ملادیتے ہیں اس میں عالمی میڈیاکا بھی کلیدی رول ہے جو تنکے کو
پہاڑ بناکر پیش کرتا ہے حالانکہ آج بھی الحمدللہ عربوں میں ایمان اور تقوی کی باد
بہاری ہے، ان کے دل میں ملت کا درد ہے ،ملت کے تئیں ذمہ داری کا احساس ہے ، اسلام
کے فروغ کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں ، سخاوت وفیاضی ان کا شعار ہے ، عالم اسلام
کے دینی مدارس اور رفاہی تنظیمیں انہیں کے تعاون سے برگ وبار لا رہی ہیں راقم سطور
نے عربوں کے بیچ ایک عرصہ بتایا ہے اس لیے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ آج بھی
عربوں میں بہت خیر ہے ، ضرورت ہے کہ آج ان کی خوبیوں کو ہم اپنا نمونہ بنائیں ۔
غرضیکہ ایمان اور
تقوی کی بنیاد پر اللہ تعالی آسمان وزمین کی برکتوں کا دروازہ کھول دیتا ہے،البتہ
بعض اوقات اللہ پاک اپنے نیک بندوں کوان کے تقوی اور ایمان کے باوجود آزمانے کے
لیے انکی روزی تنگ کردیتا ہے جبکہ گنہگاروں کو وقتی طور پر فراغت وخوشحالی عطا
فرماتا ہے جس سے عام آدمی کو غلط فہمی ہونے لگتی ہے کہ شاید اللہ پاک اس نیک بندے
سے ناراض اور اس گنہگار سے خوش ہے حالانکہ روزی کی تنگی بندہٓ مومن کے لیے
خیروبھلائی کا پیش خیمہ ہوتی ہے جبکہ فارغ البالی نافرمانوں اورگنہگاروں کے لیے
ایک طرح کی آزمائش ، اللہ تعالی نے فرمایا
:
”کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم انہیں مال ، اولاد سے مدد دیے جارہے ہیں تو گویا انہیں بھلائیاں دینے میں سرگرم ہیں،نہیں! اصل معاملے کا انھیں شعور نہیں ہے۔“ (المؤمنون: ٥٦)
اور اللہ کے رسول
صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جب تم دیکھو کہ کسی شخص کو اس کے گناہوں کے باوجود
اللہ تعالیٰ اسے نوازرہاہے تو سمجھ لو کہ اللہ اس کو ڈھیل دے رہاہے۔“ (مسند احمد)
اللہ پاک ہم سب
کو ایمان اور تقوی کی دولت سے مالا مال کرے۔ آمین
0 تبصرہ:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔