اتوار, ستمبر 08, 2013

ذرا عمررفتہ کو آواز دینا (1)


 کوئی 1996کی بات ہے ، جب جامعہ امام ابن تیمیہ میں عربی کی ساتویں جماعت میں زیرتعلیم تھا ، اورغالباً ششماہی امتحان کی تعطیل تھی، ان دنوں مجھے لکھنے کا بہت شوق تھا، تاہم قلم میں پختگی نہ تھی (اورنہ اب تک آسکی ہے) ایک روز خیال آیا کہ کیوں نا اپنی زندگی کے نشیب وفراز کو قلمبند کروں تاکہ لکھنے کا مشق ہوسکے، چنانچہ ایک پرانی ڈائری جسے بڑے بھائی نے مجھے ہدیہ کیا تھا اسے سیاہ کرنے لگا، چند دنوں یہ سلسلہ جاری رہا پھرٹوٹ گیا، یہاں تک کہ جامعہ امام ابن تیمیہ سے فراغت کے بعد اور مدینہ یونیورسٹی جانے سے قبل چند مہینوں گھر پر رہنے کا اتفاق ہوا تو کبھی کبھی کچھ لکھ دیا ، مقصد اس کے علاوہ اورکچھ نہیں تھا کہ لکھنے کا سلیقہ آجائے ۔ ڈائری گھر میں پڑی رہی، ایک طویل عرصہ کے بعد گذشتہ سال سالانہ تعطیل کے موقع سے گھر جانے کا اتفا ق ہوا اور کسی ضرورت سے پرانے اوراق الٹ رہا تھا کہ اسی میں ڈائری مل گئی ، اپنے ہمراہ کویت لے آیا، جب ڈائری پر سرسری نظر ڈالا تو پرانی یادیں تازہ ہونے لگیں ، اہلیہ نے اپنے شوق سے ڈائری کو ان پیج میں منتقل کردیا، تب خیال آیا کہ الکٹرونک میڈیا کی ڈائری "بلوگ" پر کیوں نا اسے پوسٹ کردیا جائے تاکہ مادہ بھی محفوظ رہے اور میری لا ابالی زندگی میں آوارہ قسم کے طالب علموں کو پیغام بھی مل جائے کہ اک انسان مثبت اورمنفی دونوں رویے سے سیکھتا ہے ، تولیجئے پیش خدمت ہے ڈائری کی پہلی قسط


بچپن کازمانہ واقعی سرمستی اور بے کیفی کازمانہ ہوتا ہے۔ ہرچیز سے بے فکر اور ہر معاملہ سے لا پرواہ۔ نہ سود کی لالچ نہ زیاں کا خوف ، نہ مصیبت کا احساس نہ غم کا سوگ ، نہ اپنوں کا خیال نہ بے گانوں کا دھیان غرضیکہ ہر سود و زیاں سے بے پرواہ ہوکر ایک بچہ اپنی حیات وزیست کی نیا کو رواں دواں رکھتا ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے کہ ماں کی گود ہی بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے ،ےہاں اگر اسے اچھے ڈگر پر کھڑا کیاگیا اور اس کے ذہن وفکر میں اخلاق حسنہ کا رس گھول گھول کر پلایا گیا تو وہ آگے چل کر ہر جگہ کامیاب اورکامران رہے گا۔ اس کے برعکس اگر اسے یہیں پر خود سری کی تعلیم دی گئی اور اس کی تربیت خاطرخواہ طریقے سے نہ کی گئی تو آگے چل کر اس کی پوری زندگی بھی ناتراشیدہ ہوگی، اوربے مہارزندگی گذارنے کا وہ عادی ہو چکا ہوگا ،کیوں کہ
خشت اول چوں نہد معمار کج     تا ثریا می رود دیوار کج
یہ بندہ بھی انہیں تلخ حقائق سے دوچار ہوا ،چونکہ بچپنے کی زندگی غیروں کے سایے میں گزری اور ماں کی ممتا سے محروم رہا ، ہوا یوں کہ راقم السطور کی پیدائش کے سال ہی ماں ماوف العقل ہوگئی (جس میں میرے دادھیالی رشتے داروں کی کارستانی تھی ورنہ والدہ کی ذہانت کی لوگ قسمیں کھاتے تھے،پڑوس کی کتنی خواتین کوآپ نے قرآن پڑھنا سکھایاتھا، اب تک والدہ بچپن میں یادکی ہوئی اسلامی نظمیں بڑے شوق سے پڑھتی ہیں،اللہ انہیں صحتیاب رکھے اوران کی عمردراز فرمائے آمين) اب ایسی نازک حالت میں انہیں کیا پڑی تھی کہ میرا بچہ کہا ں ہے تاہم بھائی بہنوں اور نانا نانی (یغفر اللہ لھما وجعل الجنة مثواھما) کی جانثاری وقربانی کی بدولت اچھے ڈھنگ سے تربیت ہوئی۔نانا جان کو شعورکی حالت میں دیکھنے کا موقع نہ مل سکا تاہم نانی جان کے ظل عاطفت میں رہنے کا بہت موقع ملا، نانی جان ‘ والدہ صاحبہ اوربھائیوں بہنوں کا بہت خیال کرتی تھی ، زندگی کا قافلہ جادہ پیما ں رہا، جب سن شعور کو پہنچا اور رطب ویابس میں تمیز کرنے کے قابل ہوا تو بڑے بھائی کی تربیت بھی نصیب ہوئی ، اس وقت وہ مدرسہ مدنی بسہیا شیخ میں زیر تعلیم تھے۔ چونکہ ہم سب ابھی بچے تھے ، جس کے باعث مجھے مدرسہ لے کر تونہیں جاتے تھے البتہ مجھے یاد آتا ہے کہ گھر پر ہی بھائی جان اپنی نگرانی میں پڑھایا کرتے تھے اور ہم سب خوب چلا چلا کر الف با کی رٹ لگا تے تھے۔ لیکن ہم جس ماحول میں پرورش پا رہے تھے وہ تھا نہایت کندہ ناتراش ، جہالت کا آئینہ دار، اورگنوار بچوں سے اٹا ہوا سماج ، جہاں دیکھیں وہاں عورتیں بکواس میں لگی ہوئی ہیں، جہاں جائیں وہاں بچے گالم گلوچ کر رہے ہیں ، ہر جگہ شتر بے مہار کی طرح بھٹکتے پھر رہے ہیں ، اور ایک بچہ پر ماحول کا خاصا اثر پڑتا ہے، اس وجہ سے مجھے بھی ان بچوں کی صحبت سے یارا نہ رہا اور بھائی جان کی عقابی نگا ہ کے باوجود ہم نے پڑھائی سے بالکل کناہ کشی اختیار کرلی۔ اور انہیں شرارت پسند بچوں کی صحبت میں پورا دن گزار دیا کرتاتھا ، بھائی جان میری شرست دیکھ کر آگ بگولا ہوجایا کرتے اور فوراً ڈانٹ پلاتے ، گاہے بگاہے گوشمالی بھی کرتے تھے ، لیکن بچہ بچپن میں ہر طرح کی فکر سے بے نیاز ہوتا ہے ، اس لیے مجھے کیاپڑی تھی بھائی جان کی سزا کی ، بس ایک ڈنڈا کھا لیا اور وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی وہ اب بھی ہے

جب کان پکڑ کر کسرت کر وایا گیا :
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے جو اب تک ذہن میں پیوست ہے کہ مدرسہ نہ جانے کے جرم میں بھائی جان نے کان پکڑکر کسرت کروایا تھا اور دائیں ہاتھ پر تھوک کر اسے چاٹنے پر مجبور کیا تھا تاہم میری طبیعت گوارہ نہ کی بالآخر انہوں نے معاف کر دیا۔ اس وقت مجھے احساس توضرور ہوا اور سبکی بھی ہوئی لیکن سر پر چونکہ خودسری کا عفریت سوار تھا اس لیے دوڑا دوڑا فوراً  گھر آیا اور ٹسوے بہاتا اماں کو شکایت کردی ،اب اماں کو اتنا سننا تھا کہ چراغ پا ہوگئیں اور لگیں بھائی جا ن کو کڑوی کسیلی سنانے۔ اس وقت دل ہی دل خوشی سے پھولے نہ سما رہا تھا کہ چلئے ہم نے بدلہ چکا لیا
لیکن اب جب کہ بھائی جان نے ماں کی جلی کٹی سن لی تھیں تواب انہیں کیا سروکار تھا مجھ سے، شاید اسی روزانہوں نے کان پکڑکر توبہ کر لیا تھاکہ اب ہم اسے بالکل نہ چھیڑیں گے ،،اورہوابھی ایسا ہی اس کے بعد سے وہ ہم سے کوئی تعرض نہیں کرتے تھے، اب ہمیں کھیلنے کودنے کاخوب خوب موقع ملا، صرف بیکاراورشریر بچوں کی صحبت میں رہتا، اورادھر ادھر بھٹکتا رہتا ،کبھی اس کوگالی دیا توکبھی اس کو دوچار سنایا، بس ہمارا یہی کام رہ گیا تھا ،اس طرح کرتے کرتے زندگی کا اچھا خاصا وقت گزرگیا اورہم نے اب تک عقل کے ناخن نہیں لیا، اوریوںہی شریر بچوں کی صحبت میں مستی کے ساتھ اپنے قیمتی اوقات کو ضائع کرتا رہا۔

امید کی کرن !
ادھر میں مستقبل کی فکر سے بے پرواہ اپنی ہنستی کھیلتی زندگی کے سنہرے ایام کولاشعوری میں مقتل بنانے میں کوشاں تھا اورادھر قدرت کی دور بیں نگاہیں کچھ دوسرا ہی تماشہ دکھانا چاہتی تھیں ،چنانچہ مایوسیوں کی اندوہناک تاریکی میں امید کی روشن کرن طلوع ہوئی اورقدرت نے ایک فرشتہ صفت انسان کو میری بہی خواہی کے لئے ایستادہ کیا جس نے ہمدردی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے بڑی شفقت سے مجھے لاکر اپنے علاقے کی معروف ومشہور اورتاریخی بستی اموامدینة الشیخ کی ایک علمی درسگاہ میں ماہر اساتذہ کے ظل عاطفت میں کردیا ،لیکن چونکہ وہ مدرسہ مکتب کی شکل کا تھا اوراس میں رہائش کا معقول انتطام نہیں تھا اس لئے ہم نانی کے ہاں رہتے اورصبح شام مدرسہ آکراپنے مشفق اساتذہ کرام کے خوان علم سے خوشہ چینی کرتے ، شروع میں ہمیں جن اساتذہ سے مستفید ہونے کا زریں موقع ملاان میں سرفہرست جناب مولانا غفاراحمد ، جناب مولانا بشیر احمد ،جناب مولانا حیات اللہ السلفی، جناب ماسٹرعباس صاحب ،مولانا عقیل احمد السلفی حفظھم اللہ قابل ذکر ہیں ان میں موخر الذکر کا تو میری تربیت اورمیرے نوک وپلک کو سدھارنے میں کلیدی رول رہا ہے جن کے احسان کا بدلہ چکانے سے بہر حال میں قاصر ہوں ،جب مدرسہ ربانیہ میں میرا داخلہ ہوا تو اس وقت میں پڑھنے میں سب سے پیچھے اورعمر میں سب سے بڑا تھا، اس لئے بچوں کی جو سب سے ابتدائی کتاب ، الف با ہوتی ہے جو ”بغدادی شریف “کے نام سے مشہور ہے اس کو چھوڑ کر میں نے ”یسرنالقران “ ہی سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا ،میرے بڑاپن کے سبب اساتذہ بھی میرا خیال کرتے تھے ۔

 ایک مضحکہ خیز معاملہ اورسلسلہ تعلیم کا انقطاع :
یوں تو ہمیں خود اپنے بڑاپن کا احساس تھا جس کی وجہ کر توجہ اور محنت سے اپنا سبق یاد کرلیاکرتا لیکن ساتھیوں کی صحبت میں تعلیم کے دوران کچھ گفتگو بھی کرلیا کرتا چنانچہ ایک مرتبہ ایسا ہی ہوا، ہم لوگ خمیدہ سر گفتگو میں محو تھے کہ حافظ ریاض صاحب کی نظرہم سبہوں پر پڑگئی ،فورا ڈنڈا ہاتھ میں لئے آئے اور دو تین ڈنڈا زور زورسے دے مارا جس سے میں ماہی بے آب کی طرح تڑپتا رہ گیا ،لیکن ہماری کیا جرأت تھی ان کے سامنے اپنی بے قصوری واضح کرنے کی کہ ان کا رعب بچوں کے ذہن ودماغ پر اس طرح طاری تھا کہ کوئی اف بھی نہ کرسکتا تھا البتہ بچپن کی شرارت کہیے کہ ان کی عدم موجودگی میں انکے خلاف میری زبان سے کچھ برے کلمات نکل پڑے (اس غلطی کا مجھے آج تک احساس ہے ) ہمارے ساتھیو ں میں ایک شریر لڑکا تھا جس نے قسم دلائی کہ اللہ کی قسم! میں حافظ صاحب کو اس کی شکایت کرکے رہوں گا،اب ہمارے دل میں جو خوف سمایا وہ نہایت ہی پریشان کن اور سیماب دش ثابت ہوا نتیجتا چھٹی کی گھنٹی بجتے ہی بوریا بستر لئے نانی کے گھر جانے کی بجائے اپنے گھر بھاگ آیا ،اس کے بعد میرے ذہن میں خلجانی کیفیت طاری ہوئی اورپڑھائی سے ہمارا دھیان جاتا رہا ،اور پھروہی رفتار ے بے ڈھنگی جوپہلے تھی وہ اب بھی ہے کاسماں طاری ہوگیا ۔

ماموں کی بسہیاآمد:
لیکن چونکہ ہمارے ماموں کے دل میں ہم لوگوں کے تئیں ہمدردی کاجذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اوروہ ہم لوگوں کوضائع ہونے دینا نہیں چاہتے تھے اس وجہ سے وہ پھر دوبارہ ہمیں اموا لے جانے کے لیے بسہیا تشریف لائے ، اور وہاں لے جانے کے لیے اصرار کیا ، شفقت بھرے لہجے میں سمجھایا، لیکن میں تھاکہ ماننے کو تیار نہیں ، پھربھی ماموں کے شدید اصرار پر بادل نخواستہ تیار ہوا، اور دوبارہ مدرسہ ربانیہ میں آکر علم کی بکھری ہوئی موتیوں کو چشم خانہ سے چننے لگا۔اب جبکہ مجھے ہر طرح سے لاچار ہونا پڑا تھا اور ہر ڈگرپر میری گرفت کی گئی تھی،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرے اندر خود بخودپڑھنے کاجذ بہ کروٹیں لینے لگااور میری طبیعت کا رجحان تعلیم کی طرف حد سے زیادہ ہوگیا، اس کے بعد سے نہ مجھے کسی نے پڑھنے کی تاکید کی، نہ کبھی اس کی طرف دھیان دلایا ، بس اپنے تئیں میں ہمیشہ کتابوں کاکیڑا بنا رہا ،صبح سات بجے سے چار بجے تک تو مدرسہ ہی میں گزراوقات کرتا ،پھرچھٹی ہونے پر گھرآکر قلم کاپی لے کر بیٹھ جاتا جس کے لئے نانی گاہے بگاہے فہمائش بھی کرتیں ، لیکن میں اپنے معمول سے باز نہ آتا،  البتہ بخودخود طبیعت میں اکتاہٹ محسوس ہوتی تو کہیں ٹہلنے نکل جایاکرتاتھا۔
  مزید برآں رات میں بھی ماموں جان کی نگرانی میں ہم سب تھوری دیر پڑھاکرتے تھے ، اور جیسا کہ میں نے پہلے ہی عرض کیا ہے کہ مجھے اپنے بڑاپن کا بے حد احساس تھا اسلئے اساتذہ بھی میری خاص رعایت کرتے تھے چناچہ اساتذہ کرام کی توجہ ولگن اور محبت وشفقت نے میری زندگی کے لیے مہمیزکاکام کیا اوربہت کم ہی دنوں میں ناظرہ قرآن مجید سے فراغت حاصل کرلی، اس کے بعد اردو کی ابتدائی کتاب مولوی غفاراحمدصاحب رحمه الله کے پاس پڑھی، ابھی ہم سب انہیں کے درس میں تھے کہ مولانا حیات اللہ السلفی کی بحالی عمل میں آئی چناچہ ہم سب اب انہیں کی تحویل میں کردیئے گئے ،ان کی مشفقانہ تربیت نے ہم سب میں پڑھنے کا شعور پیدا کیا ، اب ہم سب اردو ہندی انگریزی اورفارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھ رہے تھے ۔ 
  چونکہ مولانا موصوف تعلیمی نظام میں سدھار لانا چاہتے تھے اسلئے انہوں نے تعلیم میں جدت لانے کے لیے درجات کے حساب سے تعلیم کو جاری کیا ،مزید یہ کہ شب میں مسجد کے اندر پڑھانے کامنظم بندوبست کیا، جسمیں گزشتہ اسباق کا اعادہ اوردعاخوانی ہواکرتی تھی ، اس کی نگرانی دوتین اساتذہ کرتے تھے ان میں سرفہرست مولانا حیات اللہ السلفی ، اور مولوی بشیرصاحب ہوتے تھے، لیکن موخر الذکرکسی مدرسہ کے فارغ التحصیل اور سند یافتہ نہیں تھے اسلئے ان میں پھر پڑھنے کا جذبہ بیدار ہوا تاہم عمرزیادہ ہونے کی وجہ سے کسی مدرسہ میں داخلہ لینے سے توقاصر رہے البتہ خوشخط اچھی تھی، اس لیے پٹنہ کتابت سیکھنے چلے گئے ،ان کی جگہ ان کے والد کی بحالی عمل میں آئی جوگورنمنٹ رٹائرڈ ماسٹر تھے، تدریسی میدان میں خاصا تجربہ رکھتے تھے اور بچوں کے دلوں کو اپیل کرنے کا انداز نہایت اچھا تھا،جب وہ ہم سب کو اردو املا کراتے تو گاہے بگاہے معمولی پیسے کاانعام بھی رکھتے تھے،اللہ کی شان کہ ہر بار میں ہی بازی لے جاتا ۔ایک مرتبہ انہوں نے ایک لفظ ”جھنجھپٹ جھنجھال پور“ بولا اورصحیح لکھنے پر دس روپیہ کا انعام رکھا ، سارے ساتھیوں نے بصدشوق لکھنا شروع کیا لیکن سب میں کوئی نہ کوئی نقص ضرور نکلا، تاہم میرا لکھاہوا صحیح نکلا بالآخرمیں نے انعام حاصل کر لیا ،ان سے میری مراد استادمحترم عین الحق صاحب ہیں،(پتہ نہیں ابھی باحیات ہیں یااللہ کوپیارے ہوگئے ،اگرباحیات ہوں گے تو اللہ ان کوصحت وتندرستی سے نوازے اور زندگی دراز کرے اوراگر وفات پاچکے ہوں گے تو اللہ ان کی قبر کو نورسے بھر دے اورجنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے ۔آمين) استاد محترم کی یہ خوبی کہیں یا خامی کہ وہ اچھے بچوں کی ذہانت کی تعریف ان کے سامنے نہیں کرتے تھے ، خود ناچیزکے تیئں اپنے دل میں حسن ظن رکھنے کے باوجود زبان پر کبھی تعریفی کلمات نہیں لاتے اورہمیشہ کوستے ہی رہتے لیکن دوسروں کے سامنے ان کا ریویو اس کے بالکل برعکس رہا ،اس موقع سے غالب کا وہ شعر ذہن میں آرہا ہے :     
دوسروں کے سامنے میری ذہانت کا بیاں      اور میرے سامنے میری شکایت ہائے ہائے
بہر حال انکے زیر شفقت بالخصوص ہم نے بہت کچھ حاصل کیا لیکن وہ معمر ہونے کی وجہ سے تادیر نہ رہ سکے اورتقریبا دوسال میں ہم سب کو داغ مفارقت دے گئے ۔  
                                                  ( جارى )  

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔