پیر, جولائی 08, 2013

علم دين كا حصول كيوں اور كيسے ؟


ہم مسلمان ہیں ،اورہمارا دین اسلام ہے ،یہ ہمارے لیے بڑے فخر اوراعزاز کی بات ہے کہ اللہ پاک نے ہمیں مسلم گھرانے میں پیدا فرمایا ،اگروہ چاہتا توہمیں کسی غیرمسلم گھرانے میں پیدا کرسکتا تھا ،ہم مورتیوں کے سامنے سرٹیکنے والے ہوتے، لیکن اس نے ہم پر کرم فرمایا،اپنی ذات کی پہچان عطاکی،اوراتنا بہتردین دیا….یادرکھیں! اس دین کے تئیں ہماری سب سے پہلی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ ہم اِسے سیکھیں،اِسے جانیں….کیوں؟ ….اس لیے کہ دین سیکھنا ہرمسلمان مردوعورت کی ذمہ داری ہے ۔ ہمارے نبی کا فرمان ہے :
طلب العلم فریضة علی کل مسلم
”علم کا سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے “۔اس سے مراد دین کا ضروری اوربنیادی علم ہے ۔
علم کیا ہے ؟ جہالت کا اپوزٹ ہے ، اورکسی جاہل کو بھی یہ بات پسند نہیں ہوتی کہ اُسے جاہل کہا جائے ، اِسی سے آپ علم کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اللہ کی ایک صفت علیم ہے، یعنی بہت زیادہ جاننے والا، آدم علیہ السلام کوفرشتوں پر علم کی بدولت برتری حاصل ہوئی، قرآن کریم میں سب سے پہلی آیت جو نازل ہوئی اس کی شروعات اقرأ سے ہورہی ہے ۔اس میں پڑھنے کا حکم دیا جارہا ہے جو علم کی کنجی ہے ۔
یہ علم ہے جسے سیکھنے کے لیے آدمی نکلتا ہے تواس کے لیے جنت کا راستہ آسان کردیا جاتا ہے ، فرشتے اس کے راستے میں پر بچھاتے ہیں ،عالم کے لیے زمین وآسمان کی ساری مخلوق یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں بھی دعا کرتی ہیں ۔ اس سے بڑھ کر عظمت، فضیلت اوربرتری اورکیا ہوگی کہ ہمارے لیے فرشتے جو نورانی مخلوق ہیں پر بچھادیں اور سمندرکی مچھلیاں بھی دعا گو ہوں۔
علم کی اسی اہمیت کی بنیاد پر اللہ پاک نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ اس میں اضافہ کی دعا کرتے رہیں :
وقل رب زدنی علماً 
اورکہتے رہیں کہ اے اللہ میرے علم میں زیادتی فرما۔
 اسلام عمل کرنے سے پہلے علم سیکھنے کا حکم دیتا ہے، امام بخاری ؒ باب باندھتے ہیں باب العلم قبل القول والعمل ،باب ہے قول اورعمل سے پہلے علم کا ….اس کے ضمن میں یہ آیت پیش کرتے ہیں:
 فاعلم أنہ لا إلہ إلا اللہ ۔
جان لو کہ اللہ کے علاوہ اورکوئی معبود برحق نہیں ۔اس سے پتہ چلا کہ ایک مسلمان جاہل نہیں ہوسکتا ۔ سب سے پہلے اُسے کلمہ لاالہ الا اللہ کو جاننے کی ضرورت پڑتی ہے، پھروہ مسلمان بنتا ہے۔
علم کی یہی اہمیت تھی کہ ہمارے علماء نے دین سیکھنے اورسکھانے میں ریکارڈ قائم کردیا۔ دنیا کی تاریخ میں علماء نے جس قدرمحنت کی کسی نے نہیں کیا، آج اسلامی کتابوں کے جو ذخیرے پائے جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے ، یہ انہیں علماء کی کوششوں کا نتیجہ ہے ۔
پھر دین سیکھنے میں عیب کیا ہے ، چاہے ہماری عمر کتنی بھی ہوگئی ہو، کوئی ضروری نہیں ہے کہ آدمی علم کے لیے خود کو پورے طور پرفارغ کرلے، کام بھی کرسکتا ہے، اورادھر طالب علم بھی بنا رہ سکتا ہے، اور یہ بات کہنا بالکل غلط ہے کہ ہمارے پاس ٹائم نہیں ہے…. دین کے لیے اگر ہم ڈائم نہیں نکال سکتے تو ہماری زندگی کا مقصد ہی جاتا رہا ۔ اور ہاں! ٹائم ضرور نکلے گا بس پلاننگ کرنے کی ضرورت ہے ۔

دین سیکھنے میں ترجیحات کو مدنظر رکھیں:

صحابہ کرام علم کے رسیا تھے، ان میں سے بعض لوگ ہمیشہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے، وہ سوالات کرکے بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے علم سیکھا کرتے تھے، صحابہ کرام کو یہ بات بھی پسند ہوتی تھی کہ دیہاتی لوگ آئیں ،آپ سے دین کے بارے میں پوچھیں اس طرح ان کوسیکھنے کا موقع ملے، ایک دن کی بات ہے، عادت کے مطابق صحابہ کرام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے، اچانک مجلس میں ایک اجنبی شخص آگیا، مجلس میں سے کوئی آدمی اسے پہچان نہیں رہا ہے، سفید لباس پہنے ہوئے ہے، بال بالکل سیاہ ہے، اورعجیب بات یہ ہے کہ اس پر سفر کی نشانی بھی ظاہر نہیں ہو رہی ہے۔ سب حیران ہیں کہ یہ کون آدمی ہے ؟ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آیا اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گیا اوراپنی دونوں ہتھیلیاں دونوں رانوں پر رکھ لیں ۔ پھراس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوکر کچھ سوالات کیے ۔
پہلا سوال تھا : اے محمد! مجھے بتائیے اسلام کیا ہے؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ زبان سے تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ نمازقائم کر، زکاة ادا کر، رمضان کے روزے رکھ ، اوراگر تجھے طاقت ہے یعنی سواری اور زادراہ میسر ہے تو بیت اللہ کا حج کر ۔ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا:
حضرت عمر رضى الله عنه کہتے ہیں ہمیں تعجب ہوا کہ یہ کیسا آدمی ہے جو پوچھ بھی رہا ہے اور پھر اس کی تائید بھی کررہا ہے ۔ کیونکہ پوچھتا تو وہ ہے جسے معلومات نہ ہو اور تائید وہ کرتا ہے جسے معلومات ہو ….دونوں ایک ساتھ جمع ہو رہا تھا تو ظاہر سی بات ہے حیرانی ہوگی ہی ۔
اس نے دوسرا سوال کیا : اے نبی! مجھے بتائیے ایمان کیاہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پر ایمان لائے ،اس کے فرشتوں کو مانے ،اُس کی کتابوں کو تسلیم کرے ، اس کے رسولوں پر تیرا ایمان ہو، یوم آخرت پر تیرا یقین ہو اورتقدیر کے اچھا اور بُرا ہونے پر بھی تو ایمان رکھے ۔ اس آدمی نے کہا : آپ نے سچ فرمایا:
اس نے تیسرا سوال کیا : اے نبی مجھے بتائیے احسان کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أن تعبد اللہ کأنک تراہ فإن لم تکن تراہ فإنہ یراک " تواللہ کی عبادت یوں کرگویا تو اسے دیکھ رہا ہے ۔ اوراگرتو اللہ کواپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنے کا تصور نہیں کرسکتا تو کم سے کم یہ تصور رہے کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے"۔
اس نے چوتھا سوال کیا : اے نبی مجھے بتائیے قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا: ما المسؤول عنھا بأعلم من السائل ”جس سے سوال کیا گیا ہے وہ سوال کرنے والے سے کچھ زیادہ نہیں جانتا ۔ یعنی اس کے بارے میں مجھے تم سے زیادہ علم نہیں ہے۔ اُس نے عرض کیا : توپھرمجھے قیامت کی نشانیاں ہی بتا دیجئے ۔آپ نے فرمایا: قیامت کی نشانی یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دینے لگے گی ، اورننگے پاوں، ننگے بدن غریب اورمفلس، بکریوں کے چرواہے اونچی اونچی عمارتیں بنانے میں مقابلہ بازی شروع کردیں گے ۔
 صحابہ کرام کی اس مجلس میں اس نے یہی چار سوالات کئے کہ اسلام کیا ہے؟ ایمان کیا ہے؟ احسان کیا ہے؟ اورقیامت کب آئے گی؟ پھر وہ اٹھ کر چلا گیا، سارے صحابہ مجلس میں بیٹھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ دیکھ رہے ہیں کہ کب پتہ چلے اس آدمی کا….جو آیا، پوچھا اورچلتا بنا ۔ کچھ ہی دیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرفاروق رضى الله عنه سے پوچھا : اے عمر! تم جانتے ہو یہ سوال کرنے والا کون تھا ؟ عمرفاروق رضي الله عنه نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: فإنہ جبریلُ أتاکم یعلمُکم دینَکم ”یہ جبریل امین تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے “۔
عزیزقاری! یہ حدیث حدیث جبریل کے نام سے مشہورہے ،اس حدیث میں جبریل علیہ السلام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آتے ہیںاورترتیب سے دین سکھاتے ہیں ، سب سے پہلے اسلام کی بنیاد بتائی جارہی ہے ،اُس کے بعد ایمان کی بنیاد پرروشنی ڈالی جارہی ہے ،اس کے بعد احسان کی کیفیت کو واضح کیاجارہا ہے ،اوراخیرمیں قیامت کے بارے میں گفتگو ہورہی ہے ۔دین سیکھنے کا یہی طریقہ سب سے بہتر طریقہ ہے ،تب ہی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اخیرمیں فرمایا فانہ جبریلُ اتاکم یعلمُکم دینَکم کہ ’یہ جبریل امین تھے جو تمہیں تمہار ادین سکھانے آئے تھے ‘۔
  اسی ترتیب کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا دین سیکھیں کہ یہ ترتیب سب سے بہتر ترتیب ہے ۔ کلمہ شہادت کی تشریح ، طہارت اورنماز کے مسائل ،نمازمیں خشوع وخضوع کیسے پیدا ہو اس سلسلے میں بھی رہنمائی ، زکاة ، روزے، اورحج وعمرہ کے مسائل، ایمانیات میں ایمان باللہ، فرشتوں کے وجود، آسمانی کتابوں کا تذکرہ، رسولوں کی تاریخ، آخرت کے دن پر تفصیلی گفتگو، قیامت کی نشانیاں، جنت وجہنم کے مناظر اورقضا وقدر کے مسائل کی جانکاری حاصل کریں۔ اس کے بعد حقوق ، آداب، اخلاقیات اورمعاملات کو جانیں ۔
 توآئیے ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم اسى ترتيب سے اپنے دین کو سیکھیں گے۔ اوردین سیکھنے کے لیے چارباتوں کوسامنے رکھیں گے۔ سب سے پہلے ہمارے اندراخلاص ہوگا: ہم اللہ کی رضا کے لیے علم سیکھیں گے۔ مسلسل محنت کریں گے ،اس بات کی بالکل پرواہ نہیں ہوگی کہ ہماری عمر کیا ہے کہ یہ دین کا معاملہ ہے ۔ اس سلسلے میں ہمارے اندر فولادی ارادہ ہوگا اوربلندہمتی پائی جائے گی ….اورچھوتھے نمبر پر اسلام سیکھنے میں ادب اورسلیقہ کا لحاظ رکھیں گے ۔

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔