ہفتہ, نومبر 24, 2018

حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی مثالی زندگی کے دو نمونے


جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے تو مدینہ میں پہلے پہلے جہاں مسجد نبوی کی تعمیر کی وہیں  انصار اور مہاجرین کے بیچ مواخات یعنی آپسی بھائی چارہ قائم کیا، چنانچہ عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ جو مکہ سے آئے تھے، سعد بن ربیع  رضی اللہ عنہ کے بھائی بنا دئیے گئے جو مدینہ کے تھے۔اس نسبت سے دونوں دینی بھائی ٹھہرے، اب کیا تھا؟ سعد  رضی اللہ عنہ نے کہا، بھائی! میں مدینہ میں سب سے زیادہ مال دار آدمی ہوں۔ میرے دو باغ اور دو بیویاں ہیں۔ جو باغ تمہیں اچھا لگتا ہے ، تمہارے لیے چھوڑ دیتا ہوں اور جوبیوی تم کو پسند آتی ہے ،میں اسے طلاق دے کر تمھیں سونپ دیتا ہوں۔ ابن عوف  رضی اللہ عنہ نے جواب دیا،  بارک اللہ لک فی أھلک ومالک دلونی علی السوق.اﷲ تمہارے اہل و عیال اور مال و دولت میں خوب برکت دے ۔ مجھےبازار کا راستہ  بتا دو، یہاں قریبی بازار کون سا ہے؟ سعد  رضی اللہ عنہ نے کہا، بازار قینقاع۔ صبح سویرے عبدالرحمان  رضی اللہ عنہ نے بازارکارخ کیا۔ کچھ گھی اور پنیر لے کر  بیچنے لگے،  اسی طرح تجارت کرتے کچھ دیر گزری تھی کہ ان کا شمار مدینہ کے متمول افراد میں ہونے لگا، اس قدر غلہ اور سامان تجارت ہو گیا کہ اسے ڈھونے کے لیے کئی سو اونٹوں کی ضرورت پڑتی۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ: میں کوئی پتھر بھی اٹھاتا تو میرے لیےسونا چاندی بن جاتا تھا۔ ایک دن خدمت نبوی میں حاضر ہوئے تو ان کے کپڑوں پر زعفران کا داغ لگا تھا۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، خیر تو ہے؟ انھوں نے بتایا: یا رسول اللہ میں نے شادی کر لی ہے ۔
آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، بیوی کو مہر میں کیا دیا ہے؟ عبدالرحمان  رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: کھجور کی ایک گٹھلی کے ہم وزن سونا، ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أولم ولوبشاۃ ولیمہ ضرور کرو،چاہے ایک بکری ہی  سہی۔یہ ہے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی زندگی کا ایک واقعہ جسے میں نے آپ کے سامنے اس لیے پیش کیا ہے تاکہ ہم اس کی روشنی میں اپنے مسلم سماج کی دو خطرناک بیماریوں کا صحیح علاج ڈھونڈ سکیں۔مسلم سماج کی پہلی بیماری ہے: بيکاری ،کام چوری، تن آسانی اور دوسروں کے لقموں پر پلنے کی عادت۔

اور دوسری بیماری ہے شادی بیاہ میں فضول خرچی، اسراف، جہیز کی لعنت، جس کی وجہ سے شادی  رحمت بننے کی بجائے زحمت بن گئی ہے۔

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ مکہ سے آئے تھے،  ساری جائیداد چھوڑ کے آئے تھے، نہتے تھے، دستگیری کے محتاج تھے، اور بہتر سے بہتر آفر بھی مل رہا تھا، بیٹھے بیٹھے بیوی ہوجاتی ، دولت مل جاتی اورشرافت کی زندگی جی لیتے، لیکن انہوں نے اس آفر کو لاد مار دیا، اپنے بھائی کو دعا دی اور محنت کرکے کمانے میں لگ گئے،  یہی ہے ایک مسلمان کا شیوہ۔ اس دھرتی پر انسانيت کی سب سے افضل جماعت انبياءعليہم السلام ہيں، ان پاکيزہ نفوس نے اپنے ہاتھ کی کمائی پر گذربسر کيا،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بچپن ميں چند سکوں کے عوض اہل مکہ کی بکرياں چرائی اور بڑے ہوئے تو نبوت سے پہلے تجارت کی ۔آپ نے اپنے چچا ابوطالب کے ساتھ تجارتی سفر کيا ۔ حضرت خديجہ ؓ کا تجارتی مال لےکر شام گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدينہ ميں باضابطہ ايک منڈی کھولی ۔جس کی ديکھ ريکھ کرنے کے لئے مستقل وہاں جايا کرتے تھے۔

 
آپ نے فرمايا : جو اپنے قوت بازو سے کما کر کھا ليتے ہوں وہ سب سے زيادہ پاکيزہ  روزی ہے ۔ اور آپ نے سچی تجارت کرنے والوں کے متعلق فرماياالتاجر الصدوق الأمين مع النبيين والصديقين والشھداء (ترمذیسچا امانت دار تاجر قيامت کے دن نبيوں ،صديقوں اور شہيدوں کے ساتھ اٹھايا جائے گا ۔ سبحان اللہ ۔ يہ ہے اسلام کی عظمت کہ دنيا کماؤاور جنت بناؤ، دنيا ميں روزی ملی اور آخرت ميں جنت ملی بلکہ انبياء وشہداءکی رفاقت بھی نصيب ہوئی۔اسلام ميں کوئی بھی پيشہ معيوب نہيں ہے بشرطيکہ جائز ہو،۔تاريخ بتاتی ہے کہ انبياء کرام اور علمائے امت ميں کوئی لوہار تھا، کوئی بڑھئی تھا، کوئی درزی تھا، کوئی بزاز تھا، کوئی موچی تھا اور کوئی کسان تھا  امام اعظم ابوحنيفہ رحمہ اللہ کپڑے کی تجارت کرتے تھے ، امام بخاری رحمہ اللہ بھی کپڑوں کی تجارت کرتے تھے، امام قدوری رحمہ اللہ برتنوں کی تجارت کرتے تھے ۔آج مسلمانوں کی اکثريت اکثر کاموں کو اپنی شان کے خلاف سمجھتی ہے۔ سبزياں بيچ نہيں سکتے، غلے کا کارو بار کر نہيں سکتے، منڈيوں ميں سامان لے کر جا نہيں سکتے ۔خدارا ہميں بتاؤ اگرسارے انبياء نے بکرياں چرائی تو کيا ان کی شان ميں کمی آگئی ؟ حضرت يحيی عليہ السلام نے موچی کا کام کيا تو کيا ان کا مقام گھٹ گيا ؟ حضرت ابراہيم عليه السلام حضرت ابوبکرصديق رضى الله عنه ، امام اعظم ابوحنيفہ رحمہ اللہ اورامام بخاری رحمہ اللہ نے کپڑے کی تجارت کی، بزازی کا کام کيا توکيا ان کی عظمت کو بٹا لگ گيا ؟ نہيں اور ہرگز نہيں ۔ بلکہ وہ آسمان عظمت کے روشن ستارہ تھے اور رہيں گے ۔ ليکن کيا ہم اس قسم کا پيشہ اختيار کرنے والوں کو کمتر جان کر انبياء کرام اور صحابہ کی سنت پر تيشہ زنی نہيں کر رہے ہيں ؟ نہ جانے مسلم سماج ميں اس طرح کا تصور کہا ں سے آگيا کہ فلاںکام ہمارے لائق نہيں تو فلاں پيشہ غيرقوموں کا ہے ؟ نتيجہ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے اندربيکاری اور کام چوری آگئی۔آج بھی ہماری عظمت لوٹ سکتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ہم دوسروں کے لقمہ پر پلنا چھوڑ دیں، بیکاری چھوڑ دیں، محنت کریں، کاروبار کی طرف دھیان دیں، کاروبار کو آگے بڑھانے کے لیے پلاننگ کریں، آمدنی کم ہو لیکن پھر بھی محنت جاری رکھیں، دکان ہے تو صبح سویرے کھولیں، کاروبار میں جھوٹ نہ بولیں، دھوکہ نہ دیں، عجیب طریقے سے ہمارا کام آگے بڑھے گا۔

دوسری خطرناک بیماری جو ہمارے مسلم سماج میں پائی جاتی ہے وہ ہے شادی بیاہ میں فضول خرچی، اسراف، جہیز کی لعنت، جس کی وجہ سے شادی  رحمت بننے کی بجائے زحمت بن گئی ہے۔  حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کتنی سادگی سے شادی کرتے ہیں کہ مدینہ کی چھوٹی سی بستی میں شادی کرلیتے ہیں، لیکن تاجدار مدینہ کو خبر دینا ضروری نہیں سمجھتے، اور جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہیں تو بتانا بھی ضروری نہیں سمجھتے یہاں تک کہ کچھ زردی دیکھ کر پوچھا کہ کیا تم نے شادی کرلی ہے تو بتایا کہ ہاں یا رسول اللہ، آپ نے یہ سن کر انہیں طعنہ نہیں دیا کہ تم نے شادی کرلی اور پوچھا بھی نہیں، بلکہ صرف اتنا مشورہ دیا کہ ولیمہ کرلو اگرچہ ایک بکری ہی سہی۔ جی ہاں! یہ ہے شرعی شادی، ایسی ہی شادیاں ہوتی تھیں، تب شادی رحمت تھی، زحمت نہیں، انہوں نے اپنے حبیب سے سن رکھا تھا: أعظم النکاح برکۃ أیسرہ مؤنۃ برکت کے اعتبار سے سب سے بہتر شادی وہ ہے جس میں کم سے کم خرچ ہو۔

یہ جلیل  القدر تابعی امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ ہیں جو مدینہ کے تھے، جن کے علم  کی مدینہ میں شہرت تھی، ان کی ایک نیک سیرت بیٹی تھی، بادشاہ  وقت عبدالملک بن مروان  نے  اپنے  بیٹے ولید کے لیے ان سے رشتہ مانگا تھا، لیکن سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے شادی کرنے سے انکار کردیا جس کی وجہ سے عبدالملک بن مروان نے ان پر زیادتی بھی کی ۔  اور ایک نہایت غریب  لڑکے سے اس کی شادی کردی ، جس کا قصہ یہ ہے کہ عبداللہ بن وداعہ نام کا ایک طالب علم امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ کے درس میں حاضر ہوا کرتا تھا۔ چند روز غائب رہا،پھر ایک دن جب سعید بن مسیب رحمہ اللہ کے درس میں حاضر ہوا تو انہوں نے غائب ہونے کی وجہ دریافت کی ، اس نے کہا کہ میری اہلیہ کا انتقال ہوگیا تھا جس کے باعث میں چند دنوں حاضر نہ ہو سکا، امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ نےاس سے تنہائی میں دریافت کیا کہ کیا تم نے شادی کرلی ۔اس نے کہا : مجھ غریب سے کون شادی کرے گا۔ امام سعید بن مسیب نے اپنی فاضلہ بیٹی کی اسی طالب علم سے شادی کردی،  پھر اسی دن شام میں اپنی بیٹی کو لیے اپنے داماد  کے گھر پہنچ  گئے ، اور دروازے پر دستک دی ، دروازہ کھولا گیا تو سعید بن مسیب رحمہ اللہ تھے ، انہوں نے کہا کہ میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ رات تم تنہا گذارو، یہ لو تیری بیوی ہے۔ یہ بیٹی کوئی معمولی بیٹی نہیں تھی، ا س قد رعلمی بصیرت رکھتی تھی کہ جب شوہر شب زفاف منانے کے بعد صبح  سویرے سعید بن المسیب کے پاس پڑھنے کے لیے جانے کا ارادہ کیا تو بیوی نے کہا: آپ یہیں بیٹھیں، سعید بن مسیب کا پورا علم لے کر  آئی  ہوں، میں آپ کو سعید بن مسیب رحمہ اللہ کا علم سکھاؤں گی۔حالاں کہ اس وقت مدینہ میں ان سے بڑا عالم کوئی نہیں تھا، اور بعض صحابہ کی موجودگی میں وہ  درس  دیا کرتے  تھے، اور ان کی بیٹی نے ان کے سارے علم کو حاصل کرلیا تھا ، اللہ اکبر یہی  وہ  فاضلہ خاتون  ہیں، جن کے یہ الفاظ سونے کے پانی  سے لکھے جانے کہ قابل ہیں، کہتی ہیں:جس قدر میں اپنے شوہر کی عزت کرتی  اور ان سے ڈرتی ہوں اس قدر تم  میں کا کوئی  بادشاہ  کی بھی عزت نہیں کرتا  اور ڈرتا  ہوگا۔سبحان اللہ! یہ تھا معیار ان کے بیچ شادی کا۔ لیکن آج شادی  کے حوالہ سے مسلمانوں میں پایا جانے والا بگاڑ اب ساری حدوں کو پار کرتا جارہا ہے، پانی اب سرسے اونچا ہوچکا ہے، اس سلسلہ میں فوری انسدادی تدابیر اختیار نہ کی جائیں تو مسلم سماج تباہی کے دہانے پر پہنچ سکتا ہے۔ جہیز کی لعنت کے سبب ملت کی ہزاروں بیٹیاں جوانی کی عمریں پار کررہی ہیں، ہزاروں غریب خاندان جہیز نہ دے سکنے کے سبب زندگی کے سکون سے محروم ہیں، جس گھر میں جوان بیٹیاں موجود ہیں، وہاں کے سرپرستوں کی رات کی نیندیں اُڑ چکی ہیں، بہت سی غربت کی ماری بچیاں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ فرار ہورہی ہیں اور اپنے دین وایمان کا سودا کررہی ہیں، بعض لڑکیاں شادی میں تاخیر ہونے کی وجہ سے مایوس ہوکر خود کشی کرلیتی ہیں، جہیز کم لانے کی جرم میں سیکڑوں نئی نویلی دلہنوں کو جلایا جاچکا ہے، شادی مشکل ہونے کی وجہ سے زنا آسان ہو گیا ہے، سماج میں فحاشی اور بے حیائی پھیلتی جا رہی ہے۔

میرے بھائیو! جہیز کا مطالبہ در اصل مہذب انداز میں بھیک مانگنا ہے۔ جہیز حرام ہے، اور ہمارے نبی نے فرمایا: جو گوشت حرام مال سے پلے اس کے لیے جہنم بہتر ہے، جہیز رشوت خوری ہے اور ہمارے نبی نے فرمایا: رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں ملعون ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ جہیز کا بائکاٹ کیا جائے، جہیز لینے والوں سے تعلق کاٹ لیا جائے، ان کی شادیاں میں شرکت نہ کی جائے، ان کا نکاح نہ پڑھایا جائے، ہمارے نوجوان عہد کریں کہ سادگی سے شادی کریں گے، شادی میں دین واخلاق کو بنیاد بنائیں گے۔ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کا دعوی کام نہیں چلے گا، اسلام کی تعلیمات کو زندگی میں اتارنا ہوگا۔ جہیز کی لعنت کی وجہ سے ہم لڑکیوں کو ان کے حق وراثت سے بھی محروم کر رہے ہیں جو ہمارے سماج کا ایک تیسرا ناسور ہے۔

لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا مردوں کے لیے اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت، اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔ جی ہاں! جیسے اللہ نے لڑکوں کو حق دیا ہے ویسے ہی لڑکیوں کو دیا ہے، آپ کون ہوتے ہیں یہ حصہ دبا دینے والے۔

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔