جمعرات, نومبر 15, 2018

بچوں کے ساتھ اللہ کے رسول ﷺ کا معاملہ کیسا ہوتا تھا ؟

اللہ کے رسول ﷺ ساری مخلوق کے لیے رحمت بناکر بھیجے گیے تھے، آپ کا معاملہ سماج کے ہر طبقہ کے ساتھ نہایت عمدہ ہوتا تھا، آپ افضل رسول تھے، آپ بہادر جرنیل تھے،  آپ بہترین شوہر تھے، آپ شفیق باپ تھے، یہاں تک کہ بچوں کے ساتھ بھی آپ کا معاملہ شفقت و رحمت اور مہربانی پر مبنی ہوتا تھا۔
آج  ہم آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کے دریچے سے بچوں کے ساتھ آپ کے کریمانہ اخلاق کے چند نمونے پیش کر یں گے جن سے بچوں کے ساتھ آپ کی شفقت اور محبت کا بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اپنے بیٹے ابراہیم کے ساتھ:
جب آپ ﷺ کے گھر ابراہیم کی پیدائش  ہوئی اور ابو رافع نے آکر آپ کو اس کی خبر دی تو آپ ﷺ نے خوشی سے اسے ایک غلام عنایت فرمایا۔ (الطبقات الكبرى  1 / 135 ) جب صبح ہوئی تو اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے گھر آنے والے اس نئے مہمان کی صحابہ کرام کو بشارت دی، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:  ولد لي الليلة غلام فسميته باسم أبي إبراهيم (صحيح مسلم  4 / 1807 )   آج کی رات مجھے ایک لڑکا پیدا ہوا ہے میں نے اس کا نام اپنے باپ کے نام پر ابراہیم رکھا ہے۔
انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کےساتھ ابوسیف کے گھر گئے جو لوہاری کا پیشہ اختیار کرتے تھے اور ان کی بیوی ام سیف (عرب کی روایت کے مطابق) ابراہیم کو دودھ پلا رہی تھی، اللہ کے رسول ﷺ نے ابراہیم کو لیا اسے بوسہ دیا اور چوما۔ پھر دوسری مرتبہ ہم آپ کے ساتھ ابراہیم کے پاس گئے یہ وہ وقت تھا کہ حضرت ابراہیم جان کنی کے عالم میں تھے۔ یہ منظر دیکھ کر رحمتِ عالم ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔
اس وقت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ!ﷺکیا  آپ بھی روتے ہیں؟  آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ اے عوف کے بیٹے!یہ میرا رونا ایک شفقت کا رونا ہے۔ اس کے بعد پھر دوبارہ جب آپ کی مبارک آنکھوں سے آنسو بہنےلگے  تو آپ کی زبان مبارک پریہ کلمات جاری ہوگئے:اِنَّ الْعَیْنَ تَدْمَعُ وَ الْقَلْبَ یَحْزَنُ وَلَا نَقُوْلُ اِلاَّ مَا یَرْضٰی رَبُّنَا وَاِنَّا بِفِرَاقِکَ یَا اِبْرَاہِیْمُ لَمَحْزُوْنُوْنَ‘‘ آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمزدہ ہے مگر ہم وہی بات زبان سے نکالتے ہیں جس سے ہمارا رب خوش ہو جائے اور بلاشبہ اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی سے بہت زیادہ غمگین ہیں۔ (رواه البخاری:1303، مسلم :2315).
اور صحیح مسلم کی روایت میں انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: والله ما رأيت أحدًا كان أرحم بالعيال من رسول الله صلى الله عليه وسلم (رواه مسلم 2316).  اللہ کی قسم! میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے زیادہ اپنے اہل وعیال پر رحم وشفقت کرنے والا کسی اور کو نہیں دیکھا۔
اپنے نواسے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے ساتھ
ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ کہ ایک دن حسن یا حسین رضی اللہ عنہما  آپ کے پیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے آپ کے شکم مبارک پر پیشاب کرنا شروع کردیا، آپ ﷺ نے فرمایا: لا تزرموا ابنِي أو لا تستعجِلوه فتركه حتىقضى بولَه فدعا بماءٍ فصبَّه عليه (مجمع الزوائد: 1/290)
 میرے بیٹے کو پیشاب کرلینے دو۔ جلدی مت کرو، چنانچہ آپ نے اسے چھوڑ دیا حتی کہ پیشاب سے فارغ ہوگیا، پھر اس کے بعد پانی منگوایا اوراس پر چھینٹ مار دی ۔ 
سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم حسن بن علی رضی الله عنہما کے لیے اپنی زبان باہر نکالتے، جب بچہ زبان کی سرخی دیکھتا تو وہ خوش ہو جاتا ۔ (السلسلة الصحيحة 1 / 110)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے نکل کر ہمارے پاس تشریف لائے۔ آپ کے ساتھ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما بھی تھے، ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک کندھے پر اور دوسرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے کندھے پر تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اِن سے پیار کرتے اور کبھی اُن سے۔ چنانچہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! کیا آپ کو ان سے محبت ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَن اَحَبَّہُمَا فَقَد اَحَبَّنِی ، وَمَن اَبغَضَہُمَا فَقَد اَبغَضَنِی (الصحيحة: 2895)  جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی ۔ اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا ۔ 
ایک موقع سے آپ نے فرمایا ہُمَا رَیحَانَتَایَ مِنَ الدُّنیَا۔  بے شک حسن اور حسین رضی اللہ عنہما  دنیا میں میرے دوپھول ہیں۔ ( صحیح بخاری: 5994)
سنن ابو داود کی روایت ہے حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ  کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اس دوران حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما نمودار ہوئے ، انہوں نے سرخ رنگ کی قمیصیں پہنی ہوئی تھیں اور وہ ان میں بار بار پھسل رہے تھے ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے اترے، اپنا خطبہ روک دیا، انہیں اٹھایا اور اپنی گود میں بٹھا لیا ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اٹھائے ہوئے منبر پر چڑھے ۔ اس کے بعد فرمایا : اللہ تعالی نے سچ فرمایا ہے کہ

إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ بے شک تمھارے اموال اور تمھاری اولاد آزمائش ہیں ۔“  میں نے انہیں دیکھا تو مجھ سے رہا نہ جا سکا ۔  پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خطبہ مکمل فرمایا ۔ ( سنن ابوداؤد: 1109) عبداللہ بن شداد اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ظہر یا عصر کی نماز کے لیے تشریف لائے، آپ نے حسن یا حسین رضی اللہ عنھما کو اٹھا رکھا تھا، آپ آگے بڑھے، انہیں انہیں سامنے رکھ دیا اور اور نماز پڑھانے لگے، نماز کے بیچ آپ نے بہت لمبا سجدہ کیا، میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ بچہ آپ کی پشت مبارک پر ہے، اور آپ سجدے کی حالت میں ہیں،  میں دوبارہ سجدے میں لوٹ گیا، جب رسول ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے اثنائے نماز بہت لمبا سجدہ کیا۔ حتی کہ ہمیں اندیشہ ہوا کہ کوئی  معاملہ تو پیش نہیں آگیا  یا  آپ پر وحی  تو نازل نہیں ہو رہی ہے؟  آپ نے فرمایا: ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، بس میرا نواسا میری گردن پر  بیٹھ گیا تھا، میں نےاسے اپنی ضرورت پوری کرنے سے پہلے ہٹانا مناسب نہیں سمجھا ۔ (سنن النسائی: 1140).

اپنی نواسی امامہ بنت ابوالعاص کے ساتھ :
اللہ کے رسول ﷺ اپنی نواسی  امامہ رضی اللہ عنہا پر جو زینب کی بیٹی تھیں بہت شفقت فرماتے تھے،  بسااوقات اسے لے کر مسجد چلے جاتے، اسے اٹھا کر آپ نماز پڑھتے تھے، جب سجدہ کرتے تو زمین پر بٹھا دیتےاور کھڑے ہوتے تواپنے کندھے پر  اٹھا لیتے تھے۔ (صحیح البخاری:516، صحیح مسلم:542).
صحابہ کے بچوں اور بچیوں کے ساتھ :
بلکہ صحابہ کے بچوں اور بچیوں کے ساتھ بھی آپ بڑی شفقت اور پیار کا معاملہ فرماتے تھے۔ جب صحابہ کے بچے پیدا ہوتے تو وہ آپ کی خدمت میں لاتے تھے، آپ اسے گود میں لیتے، اسے بوسہ دیتے اور اس کے لیے برکت کی دعائیں فرماتے تھے۔ صحیح البخاری کی روایت ہے حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے ایک لڑکا ہوا، میں اسے لے کر اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں آیا، چنانچہ آپ نے اس کا نام ابراہیم رکھا، کھجور کو چباکر اس کی گھٹی کی، اور اس کے لیے برکت کی دعا فرمائی، پھر میرے حوالے کردیا۔
ام خالد کے ساتھ:
 ام خالد جلیل القدر صحابی خالد بن سعید بن العاص کی بیٹی ہیں، ان کی ولادت سرزمین حبشہ میں ہوئی، جب وہاں سے حضرت خالد رضی اللہ عنہ لوٹ کر آئے توایک دن  آپ کی خدمت میں تشریف لائے،  اپنے ساتھ اپنی بیٹی ام خالد کو بھی لے کرآئے تھے۔ اس بچی  ام خالد کے ساتھ اللہ کے رسول ﷺ نے جومعاملہ کیا اسے خود انہوں نے بیان کیا ہےچنانچہ صحیح البخاری کی روایت ہے ۔ وہ خود فرماتی ہیں: میں اپنے باپ کے ساتھ اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آئی، میں نے زرد رنگ کی قمیص زیب تن کر رکھی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا: " سِنَهْ سِنَهْ " (حدیث کے راوی) عبداللہ  کہتے ہیں کہ حبشی زبان میں خوبصورت کو " سِنَهْ سِنَهْ "  کہاجاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میں مہر نبوت سے کھیلنے لگی، میرے باپ نے مجھے ڈانٹا، تو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: " أَبْلِي وَأَخْلِقي، ثُمَّ أَبْلِي وأَخْلِقي، ثُمَّ أَبْلِي وَأَخْلِقي ". یہ کپڑا تمہارے بدن پر لمبی مدت تک رہے اور تمہیں لمبی زندگی ملے۔ یہ بات آپ نے تین مرتبہ فرمایا۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ ایک عرصہ تک باحیات رہیں۔ (صحیح البخاری: 3071)
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ: 
صحیح مسلم کی روایت ہے جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :  صليتُ مع رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ صلاةَ الأولى . ثم خرج إلى أهلِه وخرجتُ معَه . فاستقبلَه ولدانٌ . فجعل يمسحُ خدَّيْ أحدهم واحدًا واحدًا . قال : وأما أنا فمسح خدِّي . قال فوجدتُ لِيَدِه بردًا أو ريحًا كأنما أخرجها من جؤنةِ عطارٍ (صحيح مسلم:  2329)
میں نےرسول اللہ ﷺ کے ساتھ  ظہرکی نماز پڑھی، پھر آپ  اپنے گھر تشریف لے جانے لگےتو میں بھی آپ کے ساتھ نکلا، چند بچے آپ کے سامنے آئے، آپ نے ہر بچے کے رخسار پر ہاتھ پھیرا،  میرے رخسار پر بھی ہاتھ پھیرا، میں نے آپ کے ہاتھ میں ایسی ٹھنڈک اور خوشبو محسوس کی گویا عطار کے ڈبے سے آپ نے ہاتھ نکالا ہو۔
ابو عمیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ:
بسااوقات آپ ﷺ بچوں سے کھیلتے اور ان سے ہنسی مذاق کرتے تھے: انس رضی اللہ عنہ کے ایک ماں شریک بھائی تھے، ابو عمیر رضی اللہ عنہ، وہ چھوٹے بچے تھے، ان کے پاس ایک پرندہ تھا، جس سے وہ کھیلا کرتے تھے،اچانک وہ پرندہ مر گیا،  انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب بھی آپ ﷺ ہمارے گھر تشریف لاتے تو فرماتے: «يا أبا عمير، ما فعل النُغير (رواه البخاری:6203، ومسلم: 2150). اے ابو عمیر! تیرے نغیر کا کیا ہوا؟ 

محمود بن الربیع  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ:
کبھی کبھار اللہ کے رسول ﷺ بچوں سے  اپنے پیار کا اظہار کرنے کے لیے ان کے منہ پر کلی پھینکتے ۔صحیح البخاری کی روایت ہے ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے منہ میں پانی ڈالا اور اپنے منہ سے پانچ سال کے بچے کے منہ پر کلی پھینکا، ایسا آپ نے پیار اور محبت کے اظہار کے لیے کیا۔ یہ صحابی محمود بن الربیع رضی اللہ عنہ ہیں، چنانچہ وہ بڑے ہونے کے بعد لوگوں سے کہا کرتے تھے: عَقَلْتُ من النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم مَجَّةً مَجَّها في وجْهِي، وأنَا ابنُ خمسِ سِنِينَ، من دَلْوٍ .( صحيح البخاري: 77مجھے اچھی طرح سمجھ  ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے برتن سے پانی لے کر میرے چہرے پر کلی پھینکا تھا جبکہ میں اس وقت پانچ سال کا تھا۔  
بچے کو اس کا حق دیا:
اللہ کے رسول ﷺ کی بچوں پر ایسی شفقت تھی کہ آپ یہ بھی گوارہ نہیں کرتے تھے کہ بچوں کا حق مار کر بڑوں کا خیال کرتے ہوئے ان کو  دے دیا جائے۔ایک مرتبہ کا واقعہ ہے ، سہل بن سعد رضی اللہ عنہ واقعہ کے راوی ہیں ،  اللہ کے رسول ﷺ کے پاس پینے کی کوئی چیز پیش کی گئی۔ آپ نے اس سے نوش فرمایا،  آپ کے دائیں جانب ایک بچہ تھا، اورآٓپ کے بائیں جانب عمر رسیدہ افرادتھے،  آپ ﷺ نے اس بچے سے فرمایا: کیا تم اجازت دیتے ہوکہ میں ان کو (پہلے)  دوں؟ بچے نے کہا: اللہ کی قسم میں آپ کی طرف سے ملے حصے پر کسی اور کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اس کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ (صحیح البخاری:2605، صحیح مسلم:2030). اس حدیث میں اس بات کا اشارہ پایا جاتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ بچوں کا اہتمام کرتے تھے، انہیں ان کا حق دینے کی تاکید کرتے تھےاور اپنا حق حاصل کرنے کے لیے ان میں  جرأت کا جذبہ پیدا کرتے تھے۔
 یہودی لڑکے  کے ساتھ : 
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکا آپ ﷺ کی خدمت  کرتا تھا، ایک مرتبہ  وہ بیمار ہوگیا، آپ اس کی تیمارداری کے لیے اس کے گھر تشریف لے گئے، آپ اس کے سر کے پاس بیٹھے، اور فرمایا: اسلام قبول کرلو۔ لڑکا اپنے باپ کی طرف دیکھنے لگا جو اس کے پاس تھا، باپ نے کہا: ابوالقاسم کی بات مان لو۔ چنانچہ اس نے اسلام قبول کرلیا۔اللہ کے نبی ﷺ وہاں سے نکلے تو آپ فرما رہے تھے: «الحمد لله الذي أنقذه من النار» (صحیح البخاری:1356). اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میرے ذریعہ اسے جہنم سے بچا لیا۔
 بچیوں کی اہمیت:
زمانہ جاہلیت میں لوگ بچیوں کی پیدائش کو عار سمجھتے تھے، لیکن نبی ﷺ نے بچیوں کو ان کا حق دیا، ان کا احترام کیا، اور ان کی تربیت وتعلیم پر خصوصی انعامات کی بشارت سنائی  بلکہ ان کے حسن تربیت کو جنت میں داخلے کا موجب گردانا۔آپ ﷺ نے فرمایا:
«من عال جاريتين حتى تبلغا، جاء يوم القيامة أنا وهو - وضم أصابعه-» (صحیح مسلم:2631). 
جس نے دو بچیوں کو بلوغت تک پوسا پالا، جب وہ قیامت کے دن آئے گا تو میں اور وہ یوں ہوں گا۔ پھر آپ نے اپنی انگلیوں کو ملایا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس ایک عورت آئی، اس کے ساتھ دو بیٹیاں تھیں، مجھ سے کچھ مانگا، میرے پاس صرف ایک کھجور تھی، میں نے اسے دے دیا، اس نے اسے آدھا آدھا کرکے دونوں بیٹیوں میں بانٹ دیا، اور خود نہ کھائی، پھر کھڑی ہوئی اور چلی گئی، اللہ کے رسول ﷺ جب تشریف لائے تو میں نے ان سے اس کا ذکر کیا، آپ ﷺ نے فرمایا:
من ابتلي من هذه البنات بشيء فأحسن إليهن كن له ستراً من النار  ( صحیح البخاری: 1418، صحیح مسلم: 2629)
جسے ان بیٹیوں کی وجہ سے کسی طریقے سے آزمایا جائے اور وہ ان کے ساتھ اچھا معاملہ کرے تو یہ ( کل قیامت کے دن) جہنم سے پردہ بنیں گی۔

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔