ہفتہ, دسمبر 28, 2013

تین بیماریاں اورتین علاج

جس طرح جسم انسانی کوبیماری لاحق ہوتی ہے تواس کی تشخیص اورعلاج کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کیاجاتاہے تاکہ جسم انسانی صحیح سالم اورتندرست رہ سکے ،اسی طرح قومیں اورملتیں بھی بیماریوں کا شکار ہوتی ہیں، آج امت مسلمہ کے بعض افرادکے دلوںمیں مختلف طرح کی بیماریاں سرایت کرچکی ہیں ان کاپتہ لگانابہت ضروری ہے تاکہ ان کامناسب علاج ڈھونڈا جاسکے ،اگربیماری کا سراغ لگانے اوراس کے علاج کی تشخیص کرنے میں ہم سے کوتاہی ہوئی تو یہی بیماری نہایت خطرناک صورت اختیار کرسکتی ہے۔بیماری کے علاج سے چشم پوشی برتنا ہلاکت اورتباہی کا پیش خیمہ ہے ،اس لیے بیماریوں کا جائزہ لینا اوران کا علاج تشخیص کرنا بہت ضروری ہے ۔سردست ہم تین بیماریوں کا ذکر کریں گے اورپھر ان کاتین علاج بھی بیان کریں گے ۔

عقیدہ کے اثر ات کی کمی:

ہم سب خودکو مسلمان کہتے ہیں ،کلمہ شہادت کا اقرار کرتے ہیں ،اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعوی کرتے ہیں،لیکن اگرغورکیاجائے تویہ ایمان محض زبانی جمع خرچ ہے ،دعوی کی حد تک ہے ،ہماراعمل اس کے خلاف ہے ،ایمان ہمارے نزدیک ایک نظریاتی چیز بن کررہ چکی ہے ،ایمان کا اثرہماری زندگی میں دکھائی نہیں دیتا ۔ ولاءاوربراءکے مسئلے کو ہی لیجئے ہمیں چاہےے تھا کہ عقیدہ کی بنیاد پر دوستی کریں اورعقیدہ کی بنیاد پر ہی ہماری دشمنی ہو۔ لیکن عملی زندگی میں معاملہ اس کے بالکل اپوزٹ دکھائی دیتا ہے ،ہم اللہ کا انکار کرنے والوں سے دوستی رکھتے ہیں اوراللہ پر ایمان رکھنے والوں سے دشمنی رکھتے ہیں ،ہم نیک لوگوں سے دشمنی رکھتے ہیں،اوربرے لوگوں سے دوستی کرتے ہیں،اگر کسی کے اندرصحیح ایمان اورصحیح عقیدہ نہیں تواُس کے اندرکوئی بھلائی نہیں ،اُس کا موازنہ صحیح ایمان رکھنے والے سے نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ اس کو آئیڈیل بناکر پیش کیا جائے ۔عقیدہ کے مسائل میں سے قضا اورقدر کے مسئلہ پربھی غورکرکے دیکھ لیجئے ،تقدیر کے مسئلہ پر ایما ن رکھنے سے ہمیں یہ یقین ہوتا ہے کہ اللہ نے مخلوق کی تقدیرلکھ دی ہے ،ہر چیز کا علم اس کے پاس ہے ،اوراُسی کے مطابق سب کچھ ہوتا ہے ،اس عقیدہ پر ایمان رکھنے سے آدمی اللہ کے ہر فیصلے سے ہروقت راضی رہتا ہے کہ اللہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے ،جونہیں چاہتا وہ نہیں ہوسکتا ،اس کے فیصلے کو کوئی ٹال نہیں سکتا ۔ تقدیر پر ایمان کمزورہونے کی وجہ سے آدمی کسی بھی معاملے میں پریشان ہوجاتا ہے ، روزی روٹی کا مسئلہ ہو ،کسی طرح کی پریشانی آجائے ،تو انسان اس وقت آپے سے باہر ہوجاتا ہے ۔اناپ شناپ بکنے لگتا ہے ،کفریہ کلمات تک بولنے کی جرأت کرجاتا ہے ،کیاہمارا عقیدہ نہیں کہ یہ سب اللہ کافیصلہ ہے ۔اوراسی کے مطابق ہورہا ہے ،توپھرہمیں اللہ کے فیصلے سے راضی رہناچاہیے تھا کہ اس نے جب ہمارے لیے یہ فیصلہ کیا ہے توآخر ہمیں اعتراض کیوں ہے ؟

جذباتیت :

ہم جذباتی مسلمان ہیں ،ہماری اکثریت کے اندرسنجیدگی بہت کم ہوتی ہے ،ہم بہت جلد جذباتیت کے شکار ہوجاتے ہیں ،جذبات میں آکر جو چاہتے ہیں کرگذرتے ہیں پھر بعد میں اس کا نتیجہ بھگتنا پڑتا ہے ۔حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے ہمیں سنجیدگی کا سبق ملتا ہے ۔کبھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جذباتیت کا اظہار نہیں کیا۔ مکہ کی تیرہ سالہ زندگی میں دیکھئے کیسے آپ اورآپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین صبر وشکیبائی اورتحمل وبردباری کے پیکر بنے رہتے ہیں ،مدینہ کی دس سالہ زندگی میں بھی جذباتیت سے کوسوں دور رہتے ہیں ،پلاننگ کرتے ہیں ،گہرائی سے معاملے کی جانچ کرتے ہیں ،حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہیں ،پھر اقدام کرتے ہیں ۔جبکہ ہماری جذباتیت کا یہ حال ہے کہ اگر کوئی شاتم رسول اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو ہمارے بیچ جو سب سے بڑا فاسق اورفاجرہوتا ہے وہ سراپا احتجاج بن جاتا ہے اورمجرم کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے مطالبہ کے نام سے ایسی ایسی حرکتیں کرتا ہے جس کی اسلام قطعاً اجازت نہیں دیتا ۔ظاہر ہے جس کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی محبت ہوگی وہ قطعا دہشت گردی نہیں مچائے گا ،املاک کو تباہ وبرباد نہ کرے گا بلکہ اس کی زندگی میں اللہ اوراس کے رسول کے احکام کی بالادستی ہوگی ۔ اسی طرح آپ مسلم معاشرے میں کتنے ایسے لوگوں کو دیکھیں گے کہ جنہوں نے کبھی مسجد کا منہ تک نہ دیکھا ہوگا ،جب مسلکی اختلافات پر گفتگو ہورہی ہوگی تواس میں پل پڑیں گے اور اپنے مسلک کو برترثابت کرنے کے لیے جذباتی باتیں کریں گے اور آپ کوباورکرانا چاہیں گے کہ وہ بڑے دیندار اورایمانی غیرت رکھنے والے ہیں۔یہ تو ایسی ہی بات ہوئی کہ ايك مریض جس کا سر کٹا ہوا ہے ڈاکٹرکے پاس آکر کھانسی کے علاج کامطالبہ شروع کردے ،ظاہرہے کہ ایسا انسان عقل کا کورا ہی ہوگا ،غرضیکہ اسلام جذباتی مذہب نہیں بلکہ عمل پرمبنی نظام حیات ہے جو انسان کوایمان کے فوراً بعدعمل کاحکم دیتا اوراسے ایما ن کا لازمی عنصر ٹھہراتا ہے ۔

نفس کی غلامی :

انسان آج اپنی چاہت کو آگے رکھنا چاہتا ہے ،اپنی خواہش کے سامنے ہر ایک کی خواہش کو قربان ہوتا دیکھنا چاہتا ہے ،اپنے آپ کوسپر پاور ثابت کرنا چاہتا ہے ۔اوراپنا مفاد حاصل کرنے کے لیے دوسروں کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتا ۔ کسی کی غیبت کرنے سے نہیں چوکتا ،کسی کی عیب جوئی سے باز نہیں آتا ،خواہ مخواہ کسی کی کمی نکالنے میں لگارہتا ہے ۔ اگر کوئی اس کو سمجھائے اوراس کی بری حرکت پرٹوکے تو یہ ضرورکہے گا کہ میرے لیے دعا کیجئے ،لیکن کرے گا وہی جو اسکے نفس کی چاہت ہوگی ۔ وہ نفس کی غلامی میں لگا ہوگا تاہم اللہ سے بڑی بڑی امیدیں باندھے ہوگا ۔حالانکہ اسلام پہلی فرصت میں نفس کی غلامی سے انسان کو آزاد کرتا ہے ، نفس کی غلامی ترک کرنے اوراللہ اوراسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا قلادہ گردن میں ڈالنے کے بعد ہی ایک انسان مسلمان بنتا ہے ۔

بیماریوں كا علاج

امت کی مختلف بیماریوںمیں سے مذکورہ تین بیماریاں ہیں جس کی شکار آج ہماری اکثریت ہے ،اب آئیے ہم ان تین بیماریوں کے علاج کی تشخیص کرتے ہیں لیکن اس سے قبل ذراسنجیدہ ہوکر دل کو ٹٹولیں اورمن سے پوچھیں کہ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ تنہائی میں رہے ہوں،کسی برائی کا خیال آپ کے دل میں پیدا ہواہو ،اپنے نفس پر قابونہ پاسکے ہوں اور اس برائی کا ارتکاب کرگذرے ہوں....؟ اگر ایسا کچھ ہوا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ ایمان کی کمزوری کی بین دلیل ہے ۔ اورایمان کی کمزوری کی وجہ سے ہی معاشرے میں اس طرح کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں ۔اب آئیے علاج کی طرف :

اچانک موت کے آنے سے ڈریں :

موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں ،موت جب آتی ہے تو بتا کرنہیں آتی ،کبھی انسان دنیاکی سرمستیوںمیں لگاہوتا ہے اوراچانک موت کے منہ میں چلاجاتاہے،جب موت کا وقت معلوم نہیں اورہماری زندگی برف کے جیسے پگھل رہی ہے تو پھر ہمیں عمل کی طرف دھیان دینا چاہیے کہ موت کے بعد پھر عمل کاموقع نہیں،موت دیکھنے کے بعد تمنا کریں گے ،آرزوکریں گے : رب ارجعون لعلی أعمل صالحا فیما ترکت "اے میرے رب، مجھے اسی دنیا میں واپس بھیج دیجیے جسے میں چھوڑ آیا ہوں ،امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا"سدھرجاؤں گا ، اب تیری نافرمانی نہیں کروں گا،تیرے حکموں کو پامال نہیں کروں گا ،ہروقت تیرے اشارے پر ناچوں گا،کہاجاے گا:
 کلا إنھا کلمة ھو قائلہا (سورہ المؤمنون 99 ۔100)
" ہرگز نہیں، یہ بس ایک بات ہے جو وہ بک رہا ہے"،مہلت جاتی رہی ،عمل کا وقت نکل چکا ،اب خون کے آنسو روؤ، سرپیٹو،کوئی فائدہ نہیں ۔ ذراتصورکیجئے کہ ہمارے رب نے ہم سب کے لیے اس دارفانی کو امتحان ہال بنایاہے اورسوال بھی آوٹ کردیاہے،سوالات کو چھپا کرنہیں رکھا جوکچھ پوچھا جانے والا ہے اسے کھول کھول کربتادیا....ہمارے بچے سکول میں بھی اپنے کورس کا امتحان دیتے ہیں تو انہیں جوابات بتائے نہیں جاتے ،جبکہ یہاں جوابات بھی بتا دئیے گئے ،توپھر ہمیں سوچناہے کہ کیاپنجوقتہ نمازوں کی پابندی ہورہی ہے ؟کیا ہم فجر کی نمازبا جماعت ادا کر پارہے ہیں ؟کیاہم قرآن کریم کی تلاوت کر رہے ہیں ؟کیاہم اللہ کی نافرمانی سے بچ رہے ہیں ؟کیاہماری زندگی اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے مطابق گذررہی ہے ۔ابھی سوچناہے ،اوراپناجائزہ لیناہے کہ موت اچانک آنے والی ہے ۔

فوری سزاسے ڈریں :

جس وقت ہم اللہ کی نظروں کے سامنے اس کی نافرمانی کررہے ہوتے اوراس کے احکامات کو پامال کررہے ہوتے ہیں،اس کے لیے ممکن تھا کہ فورا ہمیں اس کی سزا دے دے ،زمین کو حکم دے اورزمین پھٹ پڑے اورہمیں نگل جائے ،یاہمارے پردے کو فاش کردے اورلوگوںمیں ہماری بے عزتی ہو ،لیکن وہ غفور ہے بہت زیادہ معاف کرنے والا ہے،حلیم ہے ،بہت زیادہ بردبار ہے، صبورہے ،بہت زیادہ صبر کرنے والا ہے ،اسی کے سامنے اس کی نافرمانی کی جرأت کی ،لیکن اس نے ہمیں فورا سزا نہیں دیا ، بلکہ اس نے ہمارے عیوب پر پردہ ڈال دیا۔ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر خود سے پوچھیں کہ ہم نے تنہائی میں لوگوں کی نگاہوں سے چھپ کر گناہوں کے کتنے کام کیا ہے ،لیکن اس کا صبر اوراس کی بردباری دیکھئے کہ اس نے اب تک ہمیں سزانہیں دی ، اب تک ہم بچے ہوئے ہیں ۔ تاہم اس کا نظام ہے کہ جوقومیں اس کے احکام کو پامال کرتی ہیں دیریا سویر کسی نہ کسی صورت میں انہیں اس کا انجام بھگتنا پڑتا ہے،اللہ تعالی کا فرمان ہے :
أفأمن أھل القری أن یأتیھم بأسنا بیاتا وھم نائمون ،أوأمن أھل القری أن یأتیھم بأسنا ضحی وھم یلعبون، أفأمنوا مکر اللہ فلایأمن مکر اللہ الا القوم الخاسروں۔ ( سورة الأعراف آیت نمبر 98 ۔99 )
”کیاپھر بھی ان بستیوں کے رہنے والے اِس بات سے بے فکر ہوگئے ہیں کہ ان پرہمارا عذاب رات کے وقت آپڑے جس وقت وہ سوتے ہوں،اورکیا ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہوگئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے آپڑے ،جس وقت کہ وہ اپنے کھیلوںمیں مشغول ہوں،کیا وہ اللہ کی پکڑ سے بے فکر ہوگئے ،اللہ کی پکڑ سے اس کے علاوہ اورکوئی بے فکر نہیں ہوتا مگرجس کی شامت آگئی ہو ۔“
اورسنن ترمذی کی روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
إن اللہ لیملی الظالم حتی اذا أخذہ لم یفلتہ (سنن ترمذى)
"اللہ تعالی ظالم کو مہلت دیتا ہے یہاں تک کہ جب پکڑتا ہے تو اس کے ہوش ٹھکانے لگ جاتے ہیں "۔

پریشان حالوں سے سبق لیں:

آج عالم اسلام کے مختلف ممالک میں مسلمان کیسی ناگفتہ بہ صورتحال سے گذر رہے ہیںہمیںالیکٹرونک اورپرنٹ میڈیا کے ذریعہ اس کی اطلاع ملتی رہتی ہے ۔سوریا ہو، مصر ہو ،فلسطین ہو ،بورما ہو ....جہاں پر ہر طرح سے لوگ پریشان ہیں ،شام میں شامی پناہ گزیں مسلمان سردی اوربرف باری کی وجہ سے مررہے ہیں، سردی سے متاثر ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ بچوں کی اموات ہورہی ہیں ۔ اُن کے مقابلہ میں اپنی حالت دیکھیں تو ہم نہایت امن وامان سے ہیں ،ہمیں صحت وتندرستی حاصل ہے ،سکون وراحت میسر ہے اوربے نیازی وفارغ البالی حاصل ہے ۔ اگر اللہ چاہتا تو ہمیں بھی انہیں حالات سے دوچار کر سکتا تھا لیکن اللہ نے ہمیں امن وامان اورعافیت سے رکھا جس پرہمیں اللہ کا بیحد شکر گذار ہونا چاہیے ۔

( اس مضمون كے بنيادى نكات شیخ حسین یعقوب کے لکچر سے مستفاد  ہیں )

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔