جمعرات, دسمبر 26, 2013

ایک غیرمسلم کی چند غلط فہمیوں کا ازالہ

سوال:

زمین پر سب سے پہلے کون سا دھرم تھا ؟ ايک بچہ كس دھرم پر پیدا ہوتاہے ؟  عیسی علیہ السلام اور محمد  صلىالله عليہ وسلم  دونوں ایک ہی دھرم کے رسول ہیں تو پھر الگ الگ کیوں ہوئے ؟مسلمان کے لیے جمعہ کی نماز اہم کیوں ہے ؟ غیرمسلم مکہ اور مدینہ میں کیوں نہیں داخل ہوسکتا ؟  اگر میں مسلمان ہوجاؤں،قرآن پڑھنے کی خواہش ہواور عربی نہ آتی ہو تو کیا قرآن ہندی زبان میں دستیاب ہے ؟  (دشینت سینگ)

جواب :

سب سے پہلے ہم آپ کے نیک جذبات کی قدر کرتے ہیں کہ آپ کے ذہن میں جو سوالات تھے انہیں آپ نے ہمارے سامنے رکھا ،تاکہ ان کا ازالہ ہوسکے ۔ اس کے لیے ہم آپ کو  THANKSکہتے ہیں ۔ آپ کے سوالات کئی حصوں پر مشتمل ہیں ۔تو آئیے ایک ایک کرکے ہم ان کے جوابات ديتے ہیں ۔امید کہ ہماری باتوں پر دھیان دیں گے ۔

آپ کہتے ہیں کہ زمین پر سب سے پہلا دھرم کونسا ہے ؟

اس نکتہ کو جاننے سے پہلے ذرا پیچھے ہٹ کر غور کرلیں کہ اِس دنیا کو بنانے والا کون ہے ؟اس نے اس دنیا کو کیوں بنایا ؟ اور کیا بنانے کے بعد انسان کو آزاد چھوڑدیا کہ جیسے چاہے جیون بتائے ؟ یہ سب باتیں جب ذہن میں آجائیں گی تو فورا ً  آپ کو سمجھ میں آجائے گا کہ اس دھرتی پر سب سے پہلا دھرم کونسا ہے ؟
 ہم اور آپ اللہ ، گوڈ اور بھگوان ضرور کہتے ہیں پر بہت کم لوگ ہیں جو اسے پہچانتے بھی ہیں ۔ ہم اسے نہ پہچاننے کے کارن ہی الگ الگ دھرموں میں بٹے ہوئے ہیں، قرآن جو فائنل اتھارٹی ہے ،اللہ کا کلام ہے،جو آج تک بالکل محفوظ ہے،اس میں" الاخلاص" نام کی ایک سورہ میں اللہ کا تعارف یوں کرایا گیا ہے :
قل ھو اللہ احد اللہ الصمد لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احدا
 اس چھوٹی سی سورہ میں اللہ کے موٹے موٹے پانچ گون بتائے گئے ہیں (۱) سب سے پہلے وہ ایک ہے یعنی اکیلاہے ۔ دوسرا: اس کو کسی چیز کی ضرورت نہیں پڑتی، تیسرا : وہ کسی ماں کے پیٹ سے پیدا نہیں ہوا ۔ چوتھا : اس کے پاس بال بچے نہیں ہیں ۔ پانچواں : اس کا کوئی ساجھی دار نہیں ہے ۔ یہ پانچوں گون اُس اللہ کے ہیں جو عرش پر مستوى ہے ، جو ساری کائنات کا خالق اور مالک ہے ، جو ساری کائنات پرحكومت كررہا ہے ، جسے نہ نیند آتی ہےاور نہ اونگھ ۔
 اللہ نے اس کائنات کو بنانے کے بعد اس کے ایک چھوٹے سے حصے دھرتی پر انسان کا ایک جوڑا پیداکیا ۔اوراس کو اس دھرتی پر examکے طورپر بسایا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ايك کمپنی کوئی سامان بناتی ہے تو اس کے استعمال کرنے کا طریقہ بھی بتاتی ہے ۔اس لیے کہ جو کوئی چیز بناتا ہے وہی ا سکے استعمال کا صحیح طریقہ بتا سکتا ہے ۔ ویسے ہی اللہ نے انسان کو بنایا تو اسے دنیا میں بسنے کا طریقہ بھی بتادیا ۔الٹ ٹپ نہیں چھوڑا کہ جیسے چاہو جیون بِتاؤ،جیون بِتانے کا طریقہ کیسے بتایا؟ اِس کائنات کے کریئٹر کے تعلق سے یہ تو نہیں سمجھا جاسکتا کہ اِتنی بڑی ذات کسی انسان کے روپ میں آئے۔یا خود اسے دھرتی پر اترنے کی ضرورت پڑے ۔ سچى بات یہ ہے کہ اللہ نے انسان کوصحیح راستہ دکھانے کے لیے ہردور، ہر زمانہ ، ہر دیش اور ہرجگہ اپنے رشی منیوں کوبھیجا جن کو قرآن اور بائبل پرافیٹ، رسول یا میسینجر کہتا ہے ۔ولکل قوم ھاد "ہر قوم میں کوئی نہ کوئی ڈرانے والا ضرور آیا"۔ وہ انسا ن ہوتے تھے ، قوم کے پاک لوگوں میں سے ہوتے تھے ،اوران کو اپنے میسیج کی تائید کے لیے کچھ چمتکاریاں بھی دی جاتی تھیں جنہیں ہم معجزہ کہتے ہیں ۔ وہ سب ایک اللہ کی پوجا کی طرف لوگوں کو بلاتے رہے ،یہی وہ پہلا دھرم ہے جو زمین پر انسانوں کے لیے بھیجا گیا ۔ اِس دھرم کو عربی میں اسلام کہتے ہیں ،یہاں آپ کے پہلے سوال کا جواب مل گیا کہ دھرتی پرالگ الگ دھرم نہیں بھیجا گیا بلکہ ایک ہی دھرم بھیجا گیا۔اور سب سے پہلا اورآخری دھرم اسلام ہی ہے، اسی دھرم کے پرچار کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار میسینجر آئے۔ جو لوگوں کو ایک اللہ کی پوجا کی طرف بلاتے رہے ۔

دشینت صاحب کا دوسرا سوال یہ ہے کہ بچہ کس دھرم پر پیدا ہوتا ہے ؟

 جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے دل میں صرف ایک اللہ کا تصور ہوتا ہے ،اسی لیے اگر آپ چھوٹے بچے سے پوچھیے ،چاہے وہ کسی بھی دهرم میں پیدا ہوا ہو : اللہ کہاں ہے ؟ تو وہ فورا اشارہ کرے گا ، اوپر کی طرف کہ اللہ آسمان پر ہے - کیونکہ بچے کی فطرت میں  داخل ہے کہ اللہ ایک ہے ،اسی کی پوجا ہونی چاہیے ۔لیکن بچہ جیسا ماحول پاتا ہے اسی ماحول میں خود کو ڈھالتا جاتاہے ۔یہ بات قرآن میں یوں کہی گئی ہے: فطرة اللہ التی فطر الناس علیھا یہ اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ۔ اور محمد صلى اللہ عليہ وسلم نے اس کو یوں واضح فرمایا: کل مولود یولد علی الفطرة فابواہ یھودانہ او یمجسانہ اوینصرانہ ہربچہ اسلام پر پیدا ہوتا ہے ،اس کے بعد اس کے والدین اُس کو یہودی بنادیتے ہیں ،یا مجوسی بنادیتے ہیں یا عیسائی بنادیتے ہیں ۔

آپ کا تیسرا سوال یہ ہے کہ جب عیسی علیہ السلام اور محمد صلى الله عليہ وسلم دونوں ایک ہی دھرم کے رسول ہیں تو پھر الگ الگ کیوں ہوئے ؟  

عیسی علیہ السلام اور محمد صلىالله عليہ وسلم ہی نہیں بلکہ اِس دھرتی پر جتنے بھی سندیشٹا آئے اُن سب کا دھرم ’اسلام ‘ ہی تھا اور ابھی ہم نے بتایا ہے کہ جوبھی سندیشٹا آئے انسان ہی ہوتے تھے ،پر اُن کو کچھ چمتکاریاں دی جاتی تھیں تاکہ لوگ اُن چمتکاریوں کو دیکھ کراُن پر Faith کریں۔لیکن لوگوں نے جب اُنکو عقیدت بھری نظر وں سے دیکھا تو سوچنے لگے کہ یہ تو بڑے نیک لوگ ہیں،اِن کے ہاتھ پر چمتکاریاں بھی ظاہر ہوتی ہیں ۔اِن کے اندر ضرور ایشوری گون ہے ؟ اِس طرح کچھ لوگوں نے اُن کو سن آف گاڈ مان لیا جیسا کہ آج عیسائی دھرم ہے جو عیسی علیہ السلام کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ۔ کچھ لوگوں نے سمجھا کہ لگتا ہے کہ یہ ایشور کے روپ میں آئے ہیں ۔اِس لیے اِن کی پوجا ایشور کی پوجا ہے ۔ اِس طرح لو گ اوپر والے ”اللہ “ کو بھول گئے اور جولوگوں کو صحیح راستہ دکھانے والے تھے انہیں کے نام سے دھرم بنالیا بلکہ ایسے ہی لوگوں کی پوجاشروع کردی ۔
یہ میسینجرس تو ایسے ہی تھے جیسے ایک ڈاکیہ ہوتاہے کہ آپ کے پاس آپ کے گھر سے Letter آئے توڈاکیہ آپ کو دینے آتا ہے اور آپ لیٹر لے کر اسے پڑھتے ہیں اور جوکچھ لکھا ہوتا ہے اس کے مطابق عمل کرتے ہیں ۔اگر لیٹر کو کھول کر نہ پڑھیں اور ڈاکیہ کوہی سب کچھ سمجھ لیں تو اِسے عقلمندی نہیں کہی جاسکتی ۔ بالکل ایسا ہی معاملہ میسینجروں کے ساتھ ہوا ۔ لوگوں نے اپنے اپنے دور کے میسینجروں کو ہی سب کچھ سمجھ لیا اور اُنہیں کے ناموں سے دھرم بناڈالا ۔آج اِس دھرتی پر اِتنے جو دھرم دیکھ رہے ہیں یہ دراصل دھارمک لوگوں کی شان میں غلو کرنے کا ہی نتیجہ ہے - اِس طرح آپ کو سمجھ میں آگیا ہوگا کہ جب شروع میں دھرم ایک تھا تو آج انيک کیوں ؟
اِس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ جب لوگوں نے الگ الگ دھرم بنا لیے تو اللہ تعالی نے اُن کو اُن کی حالت پر چھوڑ دیا ، اللہ جو بڑا کریم اور رحمن ورحيم ہے وہ انسانوں کی اِن حالتوں کو جان رہا تھا ۔چنانچہ ساتویں صدی عیسوی میں جب ایک ملک کا دوسرے ملکوں سے تعلق بڑھنے لگا ،دوسری زبانوں کو سیکھنے کا چلن عام ہوگیا۔اور انسان ذہنی بلوغت کی اس منزل پر پہنچ گیا جہاں سے اُس کا علمی فکری اور سائنسی ارتقا شروع ہونے والا تھا۔ایسے وقت میں  اللہ پاک نے عرب کی دھرتی مکہ میں جو پوری دینا کا سینٹر ہے ، آخری نبی محمد صلى اللہ عليہ وسلم کو بھیجا اور فائنل اتھارٹی کے روپ میں اُن پر قرآن اُتارا ۔ اوراِسی کے ساتھ دین کے مکمل ہونے کا اعلان کردیا۔
یہاں پر د وچیزوں کی ضرورت تھی ایک قرآن کی حفاظت جو تھیوری تھا اور دوسرے محمد صلىالله عليہ وسلمکی زندگی کی حفاظت جو لوگوں کے لیے پریکٹیکل لائف کی حیثیت رکھتی تھی ۔
قرآن کو دیکھیے تو وہ ہر طرح کے شک وشبہ سے بالاتر کتا ب ہے اور قاری کو کتاب کھولتے ہی یہ یقین دلایا گیا ہے کہ ذلک الکتاب لاریب فیہ (سورہ بقرہ آیت نمبر 2 ) یعنی یہ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب ہے ۔اسمیں کوئی شک نہیں ۔ دنیا کی یہ واحد کتاب ہے جو اپنا آغاز اِتنے پُرزور دعوی سے کرتی ہے کہ اے قاری تم جو کتاب پڑھنے جارہے ہو اس میں کسی طرح کا شک وشبہ نہیں ۔پھر اِ س کی عجیب طرح سے حفاظت کا بھی بندوبست کیاگیا ،جیسے جیسے قرآن اُترتا اسے لکھ دیا جاتا تھا ۔ پھر اُسے یاد بھی کرلیا جاتاتھا ۔اِس طرح محمد  صلىالله عليہ وسلم کے زمانے میں ہی پورا قرآن لکھاجاچکا تھا ۔ اورآج تک قرآن کے ایک لفظ میں بھی کوئی ردوبدل نہ ہوسکا ہے اورنہ رہتی دنیا تک ہوسکتا ہے،چاہے آپ دنیا کے کسی بھی کونہ میں جائیں آپ کو قرآن ایک ہی ملے گا جس میں ایک لفظ کا بھی ہیر پھیر نہ پائیں گے ۔
پھرمحمد صلىالله عليہ وسلمکی زندگی کاایک ایک لمحہ،ازپیدائش تاوفات بالکل محفوظ ہے ۔بلکہ آپ نے جو کچھ کہا تھا اور جو کچھ کیا تھا وہ اصل میں قرآن کا Explain ہی تھا اسی کو حدیث کہتے ہیں جو آج Authentic روپ میں بالکل محفوظ ہے ۔ اس طرح آج ایک آدمی قرآن اور حدیث کے ذریعہ اپنے رب کی طرف سے اتارے گئے قانون کوپورے اطمینان اور یقین کے ساتھ اپنا سکتا ہے ۔

دشینت جى ! کہتے ہیں مسلمان کے لیے جمعہ کی نماز کیوں اہم ہے ؟

ایک آدمی جب اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ آج سے میں عہد کرتا ہوں کہ صرف ایک اللہ کی پوجا کروں گا اورمیری یہ پوجا یا عبادت آخری نبی محمد صلى اللہ عليہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہوگی ،تو یہ کہنے کے بعد ہی اُس پر کچھ ذمہ داریاں آجاتی ہیں کہ جوکچھ بولا ہے اُس کے مطابق کرکے دکھائے ۔ اِس طرح اُس پر پانچ وقت کی نمازیں فرض ہوجاتی ہیں ،اُن میں سے ہفتہ میں ایک جمعہ کی نماز بھی فرض ہے ۔ اورمسلمان کے نزدیک جمعہ کے دن کی زیادہ اہمیت اس لیے ہے کہ اسے ہفتے کی عید کہا گیا ہے۔اورمسلمانوں کے ہاں عید بھی دوگانہ نماز کے ذریعہ ادا کی جاتی ہے اس لیے اس کی فضیلت بتائی گئی ہے ۔ اُسی طرح محمد صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ کا دن سارے دنوں کا سردار ہے ،اسی دن پہلے انسان آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا ۔اسی دن آدم کو زمین پر اُتاراگیا،اِسی دن اُن کی وفات ہوئی اور اسی دن قیامت بھی ہوگی۔انہیں اسباب کی بنیاد پر جمعہ کی نماز کودوسری نمازوں کی بنسبت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔

دشینت صاحب کا ايك سوال یہ ہے کہ غیرمسلم مکہ اور مدینہ میں کیوں نہیں داخل ہوسکتے ؟

 اِ س کا مختصر جواب یہ ہے کہ آپ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بھی کچھ جگہیں ایسی ہوتی ہیں جہاں سب کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ خود آپ کے آفس کى بعض جگہوں پر لکھا ہوتا ہوگا no entry ۔ پردھان منتری کے آفس میں سب داخل نہیں ہوسکتے ۔ وہاں داخل ہونے کے لیے اجازت نامہ چاہیے ۔ بالکل اسی طرح کعبہ میں داخل ہونے کے لیے پرمٹ یا پاسپورٹ چاہیے وہ پرمٹ یا پاسپورٹ کیا ہے ؟ " لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ " اگر آپ آج ہی یہ لفظ دل میں اس کے معنی کو اتارتے ہوئے بول لیتے ہیں تو کورٹ آپ کو ایک پرمٹ دے گا جسے آپ سعودی ایمبسی میں پیش کریں گے اورآپ کے لیے مکہ جانے کا ویزابآسانی نکل جائے گا ۔ پاسپورٹ پر نام بھی چینج کرنے کی ضرورت نہ ہوگی ۔

دشینت صاحب کہتے ہیں اگر میں مسلمان ہوجاوں،قرآن پڑھنے کی خواہش ہواور عربی نہ آتی ہو تو کیا قرآن ہندی زبان میں دستیاب ہے ؟

دشینت جى! آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ مسلمان ہونے کے بعدآپ کو قرآن پڑھنے کی ضرورت ہوگی نہیں ایسی بات نہیں ہے ،قرآن آپ کا ہے ،ہم سب کے پیدا کرنے والے کی طرف سے ہمارے نام ایک تحفہ ہے ،ابھی آپ اُس کا مطا لعہ کرسکتے ہیں اورقرآن کا Translation ہر زبان میں پایا جاتا ہے۔ہندی زبان میں بھی ترجمہ قرآن دستياب ہے ،لیکن سوال یہ ہے کہ ہم مسلمان کیوں بنیں ؟ یہ اس لیے کہ آج ہمارے پیدا کرنے والے کا اُتارا ہوا طریقہ صرف قرآن اور محمد صلى اللہ عليہ وسلم کے ذریعہ ہی حاصل ہوسکتا ہے ۔ آج ہردھرم میں انسانوں کی پوجا ہورہی ہے ، صرف اسلام ایک ایسا دھرم ہے جہاں انسان اپنے رب کی پوجا کرتا ہے ۔جی ہاں اپنے رب کی ،مسلمانوں کے رب کی نہیں ،اسلام ایسا نظام پیش کرتا ہے کہ ساری دنیا کے لوگ ایک ہوجائیں -  وہ کیسے ؟ اسلام کا کہنا ہے کہ دنیا کے سارے انسان ایک ہی اللہ کی مخلوق ہیں،اس لیے سب کے سب اُس کے بندے اور داس ہیں ۔اُسی طرح اسلام سارے انسانوں کو پہلے انسان آدم وحوا کی اولاد قرار دے کر انہیں آپس میں بھائی بھائی بنا دیتا ہے ۔ جن میں نہ کوئی چھوٹا ہے نہ بڑا ، نہ اونچا ہے نہ نیچا ۔غرضیکہ اسلام ہر انسان کا دھرم ہے ،محمد صلى اللہ عليہ وسلم ہرانسان کے لیے آئے ہیں، اورقرآن ہرانسان کی مذہبی کتاب ہے - اس لیے اسلام قبول کرنا دھرم بدلنا نہیں یا مسلمانوں کا دھرم اپنانا نہیں بلکہ اپنے پیدا کرنے والے اللہ کے اتارے ہوئے قانون کی پیروی ہے ۔ جس کو اپنائے بغیر انسان مرنے کے بعد نجات نہیں پاسکتا ۔ قرآن کہتا ہے (سورہ آل عمران سورہ نمبر۳آیت نمر 19) ان الدین عنداللہ الاسلام " بیشک اللہ کے نزدیک صحیح دھرم اسلام ہی ہے" ۔دوسری جگہ قرآن کہتا ہے (سورہ آل عمران سورہ نمبر3 آیت نمبر85 ) ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو فی الآخرة من الخاسرین " جوکوئی اسلام کے علاوہ کوئی اور دھوم اپنائے گا وہ اُس سے قبول نہ کیا جائے گا اور وہ مرنے کے بعد گھاٹا اُٹھانے والوں میں سے ہوگا" ۔
اخیر میں ہم آپ سے یہ گذارش کریں گے کہ مسئلے کی نزاکت کو سمجھیں ،اپنے خالق ومالک کی طرف پلٹیں اوراصل معبودکی پہچان کریں،آپ ایسی گاڑی پر سوار ہیں جواکسیڈنٹ کرجانے والی ہے،اگرکوئی آپ کو اس کی پیشگی اطلاع دے دیتا ہے تو آپ اس کے شکرگذارہوں گے اورفورااس گاڑی سے اترجائیں گے کہ مباداجان چلی جائے ۔ بالکل یہی حال آپ کی مذہبی گاڑی کا ہے ،اس لیے سوچئے سمجھئے اوربلاتاخیر بروقت فیصلہ لیجئے ۔   

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔