بدھ, اکتوبر 09, 2013

سیدنا ابراہیم عليه السلام کی زندگی سے چند اسباق


ابراہیم علیہ السلام کی زندگی سے سبق کیوں؟
بادی النظر میں کسی کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوسکتا ہے کہ جب گذشتہ شریعتیں منسوخ ہوچکیں اورآج جن وانس کی نجات شریعت محمدی کی تابعداری پر موقوف ہے توپھررحمت عالم صلى الله عليه وسلم کی زندگی سے سبق حاصل کرنے کی بجائے ابراہیم عليه السلام کی زندگی سے سبق حاصل کرنا کیوں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے خود حضرت ابراہیم عليه السلام کی زندگی کو رحمت عالم صلى الله عليه وسلم کے بعد پوری انسانیت کے لیے اسوہ ونمونہ بنا دیا ہے ۔ [دیکھیے النحل(123 (الممتحنة 4)( البقرہ 130)]
چنانچہ آج خانہ کعبہ، مقام ابراہیم، حج، قربانی، صفا ومردہ کی سعی ، آب زمزم اوررمی جمرات امت مسلمہ کے لیے ابراہیمی یادگار ہيں۔
پھرآج ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں اس کی اکثریت گو علمی ، تمدنی اورمادی اعتبار سے ترقی کے بام عروج پر پہنچ چکی ہے تاہم ابراہیمی دور کی ساری روایتیں آج بھی ان میں کوٹ کوٹ کر پائی جارہی ہیں۔ بت پرستی، شمس پرستی ، قمرپرستی ،قبرپرستی ، رجال پرستی ، بادشاہ پرستی اور نہ جانے کون کون سی پرستیاں آج بھی انسانی سماج میں رائج ہیں۔ ظاہر ہے آج معاشرے کی اصلاح کے لیے اب کوئی نبی آنے والا ہے اور نہ رسول بلکہ نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ،اور یہ ذمہ داری امت محمدیہ کے ہرفرد پر عائد ہوتی ہے کہ اسلام کے آفاقی پیغام کو ساری انسانیت تک پہنچائے۔ تو آئیے ایسے وقت جبکہ ہم ابراہیمی سنت کو زندہ کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں ‘ابراہیم ں کی دعوتی زندگی سے کچھ سبق سیکھیں اوراسوہ ابراہیمی کی روشنی میں دعوت کے ممکنہ اسالیب کی جانکاری حاصل کریں ۔
سیدنا ابراہیم عليه السلام کی دعوتی زندگی سے چند اسباق
ذیل کے سطور میں پیش خدمت ہے ابراہیم عليه السلام کی داعیانہ زندگی سے چند دروس :

اسلام وراثتی مذہب نہیں

ابراہیم عليه السلام کی زندگی سے سب سے پہلا سبق یہ ملتا ہے کہ اسلام وراثتی مذہب نہیں، وراثت میں زمین اور جائیداد مل سکتی ہے لیکن اسلام نہیں ملتا بلکہ اسے اپنی محنت سے حاصل کیا جاتا ہے islam is by choice, not by chance
کیونکہ اسلام نسبت کا نام نہیں بلکہ دل کے یقین کانام ہے ، یہی وجہ ہے کہ اکثر انبیائے کرام کفر وشرک کے ما حول میں پیدا ہوئے جن میں ایک ابراہیم عليه السلام بھی ہیں جو عراق کے شہر بابل میں آزرنامی بت گر وبت فروش پروہت کے گھر پیدا ہوے۔ گویاغیرمسلم گھرانے میں پیدا ہونا کوئی عیب کی بات نہیں اور نہ داعی بننے کے لیے مسلم گھرانے میںپیدا ہونا ضروری ہے۔جولوگ مسلم گھرانے میں پیدا ہونے کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہوے نومسلموں کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں انہیں اپنے رویہ پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔ ہم تو اتفاقی مسلمان ہیں ،بغیر کسی محنت کے ہمیں یہ دین مل گیا جبکہ ہمارے ان بھائیوں نے حقیقت کی کھوج کی ، معاشرے کے طعنے سہے اوراس راہ میں مختلف قسم کی قربانیاں پیش کیں‘تب انہیں یہ آفاقی دین حاصل ہوسکا ہے۔

دعوت کے اولیں مخاطب نوجوان ہیں

ابرہیم عليه السلام کی زندگی سے ہمیں دوسرا سبق یہ ملتا ہے کہ دعوت کی ذمہ داری کے اولیں مخاطب ہمارے نوجوان ہيں، اللہ تعالی نے اصحاب کہف کی بابت فرمایا: اِنَّہُم فِتیَة آمَنُوا بِرَبِّہِم (الکھف 13) ”و ہ چند نوجوان تھے جو اپنے ربّ پر ایمان لے آئے تھے“ ۔ اور ابراہیم عليه السلام جب بتوں کو پاش پاش کرکے نکلے اور قوم نے بتو ں کواوندھے منہ گراہوا دیکھا تو پکار اٹھے سَمِعنَا فَتًی یَذکُرُہُم یُقَالُ لَہُ ِبرَاہيمُ (الانبیاء60) ” ہم نے ایک نوجوان کو ان کا ذکر کرتے سنا تھا جس کا نام ابراہیم ہے۔“۔
مذکورہ دونوں آیات میں نوجوانوں کا کردار واضح کیا گیا ہے ، اورحقیقت یہ ہے کہ کسی بھی تحریک کی کامیابی میںاس کے نوجوانوں کا بڑا رول ہوتاہے ، اسلام بھی اقصائے عالم میں نوجوانوں کے عزم راسخ ،یقیں محکم ،عمل پیہم اور اعلی کردارکی بدولت پھیلا ۔کم عمری میںاسامہ بن زید کا سپہ سالاربننا ، زید بن ثابت کا جامع قرآن ہونا، مصعب بن عمیر کا پہلا سفیربننا،بلال حبشی کا موذن رسول ہونا اور سلمان فارسی کامتلاشی حق بننا اسلام میں نوجوانوں کے گرانقدر کردار کوواضح کرتاہے ۔ اسی طرح عقبہ بن نافع ،طارق بن زیاد،موسی بن نصیراور محمدبن قاسم جیسے اسلام کے جیالے اورسورما نوجوان ہی تو تھے جنہوں نے گلش اسلام کی آبیاری کی اورچہاردانگ عالم میں اسلام کا جھنڈا لہرایا ۔
عصرحاضرمیں اسلام دشمن عناصر نے اس نکتہ کو بخوبی سمجھا ہے اوراپنے اہداف کی تکمیل کے لیے نوجوانوں کوتیار کررہے ہیں جبکہ آج قوم مسلم نوجوانوں کے تئیں اپنی ذمہ داریوں سے لاپرواہ ہے،نتیجہ ظاہر ہے ہمارے نوجوان پست ہمت ،کاہل اور اورکام چور بنتے جا رہے ہیں ، ان کی قوت فکر وعمل سلب ہوتی جا رہی ہے ،ابراہیم عليه السلام نے عین شباب میں دعوت کی ذمہ داری اٹھائی تھی ،آج بھی وقت کا تقاضا ہے کہ ہمارے نوجوان دین کی دعوت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اس طوفان بلاخیز میں اسلام کی سچی اور خالص تعلیمات انسانیت تک پہنچائیں۔ جب تک ہمارے نوجوان کوہساروں کا سا عزم لے کر میدان عمل میں نہ اتریں گے تب تک ہم اپنی عظمت رفتہ کی بازیافت نہیں کرسکتے۔ امید کہ میری آواز صدا بحرا ثابت نہ ہو گی اور نوجوانان اسلام ان گذارشات پر کان دھریں گے ۔

معاشرے سے سمجھوتہ کرنا داعی کی شان نہیں

کفروشرک سے اٹے سماج میں ابراہیم عليه السلام نے آنکھیں کھولی تھیں،باپ پروہت تھا، باپ نے اپنے بیٹے کے لیے اسی گدی کا خواب دیکھا رہا ہوگا، اور آپ کے لیے بھی بہت آسان تھا کہ سماج کے دیرینہ روش پرچل پڑیں لیکن کیا ابراہیم عليه السلام سماج میں ضم ہوگیے ؟ نہیں بلکہ معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا ،اور دعوت کا آغاز اپنے پروہت باپ سے کرتے ہوئے گویا ہوئے : ”ابوجان! آپ ایسی چیز کی عبادت کیوں کررہے ہیں جو نہ سن سکیں ، نہ دیکھ سکیں اور نہ آپ کو کوئی فائدہ پہنچا سکیں ....“ (مریم 42-43) ابراہیم عليه السلام نے باپ کے ادب واحترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے نہایت شفقت اور پیار سے سمجھایا تھا لیکن باپ نے ایک نہ سنی اوردھمکی دی تو قوم سے مخاطب ہوکرگویا ہوئے: مَا ہَذِہِ التَّمَاثِیلُ الَّتِی انتُم لَہَا عَاکِفُون (الانبیاء52) ”یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو ‘کیا ہیں“ ۔ ان کا صرف یہی جواب تھا کہ وَجَدنَا آبَاءنَا لَہَا عَابِدِینَ ”(الانبیاء53) ہم نے اپنے باپ دادا کو انہیں کی پوجا کرتے ہوئے پا یااس لیے ہم بھی کررہے ہیں “۔
آج بھی جہالت اور شرک وبدعت میں پھنسے مسلمانوں کو شرک وبدعت سے روکا جاتا ہے تو فورا جواب دیتے ہیں کہ ہم انہیں کیسے ترک کردیں جبکہ ہمارے آباؤ اجداد بھی یہی کچھ کرتے آرہے ہیں ۔ آپ نے فرمایا: لَقَد کُنتُم ا نتُم وَآبَاکُم فِی ضَلَالٍ مُّبِینٍ﴿ (الانبیاء54) ”تم اور تمہارے آباو اجداد کھلی گمراہی میں تھے یعنی ہمارا اعتراض جو تم پر ہے وہی تمہارے اگلوں پر ہے ، ایک گمراہی میں تمہارے اگلے مبتلا ہوں اور تم بھی اس میں مبتلا ہوجاؤ تو وہ بھلائی بننے سے رہی ۔
جب بت پرست باپ اور قوم پر آپ کی دعوت کا اثر ظاہر نہ ہوا توچاند، ستاروں اور سورج کی پوجا کرنے والوں کوسمجھانے کے لیے اک دوسرا منطقی انداز میں اپنایا : رات میں ستارہ کو نکلا ہوا دیکھا توان کے جم غفیرکے سامنے گویا ہوئے ” یہ میرا رب ہے“ لیکن جب ستارہ ڈوب گیا توکہا : ”یہ میرا رب نہیں ہوسکتا “۔ کل ہوکر چاند کو نکلا دیکھا تو کہا” یہ میرا رب ہے“ ،لیکن جب چاند بھی ڈوب گیا تو کہا کہ ”یہ میرا رب نہیں ہوسکتا “۔ صبح میں سورج کو نکلتا ہوا دیکھا تو کہا : ”یہ لگتا ہے میرا رب ہوگا کیونکہ یہ بہت بڑا ہے “لیکن جب شام میں وہ بھی غروب ہوگیا تو کہا : ”یہ بھی میرا رب نہیں ہوسکتا “۔ (الانعام 76-79) ابراہیم علیہ السلام اصل میں قوم کو بتانا چاہتے تھے کہ جو چھپتا ہو ظاہر ہوتا ہو، جو ڈوبتا ہو پھر طلوع ہوتا ہو ۔۔ وہ معبود کیسے ہوسکتا ہے

آنکھ والا تیری قدرت کا تماشہ دیکھے
دیدہ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے

داعی کفر کی شب دیجور سے مایوس نہیں ہوتا بلکہ منصوبہ بندی کرتا ہے

ابراہیم عليه السلام نے اپنے باپ اور قوم کو حکمت کے ساتھ اور منطقی اندازمیں سمجھایا لیکن جب ان پر آپ کی بات کا کوئی اثر نہ ہوا تو مایوس ہونے کی بجائے دعوت کے اسلوب کوبدلا اور مدعو کی عقل کو اپیل کرنے والا دوسرازوداثرطریقہ اپنایاجس کی کیفیت یہ تھی کہ مندر کے سارے بتوں کو کلہاری سے پاش پاش کردیا اور بڑے بت کو چھوڑکراس کی گردن میں کلہاری لٹکادی۔ مقصد کفارومشرکین کی عبادتگاہوں کو منہدم کرنا نہیں تھا بلکہ ان کے ذہن کی پرتیں کھولنا تھا چنانچہ جب چہ میگوئیاں شروع ہوئیں اور ابراہیم عليه السلام کو بحیثیت ملزم پیش کیا گیا اور آپ سے دریافت کیا گیا کہ ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ لغو حرکت تم نے کی ہے ؟ اس پر آپ نے جواب دیا ”بلکہ اس کام کو ان کے بڑے بت نے کیا ہے تم اپنے ان معبودوں سے ہی پوچھ لو اگر یہ بولتے چالتے ہوں“ اس تحکمانہ جواب نے ان کو تھوڑی دیر کے لیے لاجواب کردیا پھربول اٹھے :” تم تو جانتے ہی ہو کہ وہ بولتے نہیں ہیں “ ۔ اب ابراہیم عليه السلام کو خاصا موقع مل گیا ، اپنے صبروبردباری کے باوجود ذرا تلخ لہجے میں ان سے مخاطب ہوئے :
” افسوس کہ تم ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں کچھ نفع پہنچاسکیں نہ نقصان ، تُف ہے تم پر اور ان پر جن کی تم اللہ کے سوا پوجا کرتے ہو ، کیا تمہیں اتنی سی عقل بھی نہیں “۔ (الانبیاء67)
یہاں داعیان دین کو یہ سبق ملتاہے کہ جب مدعو ان کی بات پر دھیان نہ دے رہاہوتو مایوس ہونے کی بجائے ایسی پلاننگ کرنی چاہیے جو پہلے سے زیادہ زودا ثر ہو۔
ابراہیم عليه السلام کی دعوتی منصوبہ بندی میں بادشاہ وقت نمرود تک اللہ کا پیغام پہنچانا بھی تھا ‘ جوالوہیت کا مدعی تھا اور رعونت وانانیت اسکے رگ وپے میں پیوست تھی ، آپ نے مناظرانہ اسلوب اختیار کرتے ہوئے بادشاہ کو دعوت دی تو اس نے وجود باری تعالی پر دلیل مانگی چنانچہ آپ نے فرمایا: میرا رب تو وہ ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے ، نمرود نے جواباً کہا : یہ تو میں بھی کرسکتا ہوں ، یہ کہہ کر دو شخصوں کو بلوایا ‘ جو واجب القتل تھے ،ایک کوقتل کردیا اور دوسرے کو رہا کردیا ۔ ابراہیم علیہ السلام نے اس کی کندذہنی اورلچرپن دیکھ کر اس کی دلیل کا تجزیہ کرنے کی بجائے دوسری دلیل پیش کردی جو ظاہر پرستوں کے لیے صورة ً بھی مشابہت نہیں رکھتی تھی،آپ نے کہا: میرا رب سورج کو مشرق سے نکا لتا ہے اب تو اسے مغرب سے نکال دے ۔ اس کا ظاہری ٹوٹا پھوٹا جواب بھی اس سے نہ بن سکا اور وہ بے زبان ہوکر بغلیں جھانکنے لگا ۔
یہاں داعی کے لیے یہ سبق ہے کہ اگراس کا مخالف یا حریف ضداورہٹ دھرمی پر اترآئے توداعی کوچاہیے کہ الفاظ کے پیچوں میں پھنسنے کی بجائے واضح اورمبرھن دلیل پیش کرے ،نمردونے لچرپن میں ایسی بودی دلیل پیش کی تھی ورنہ یہ لغوی ،شرعی یا عقلی کسی اعتبار سے مردہ یا زندہ کرنانہیں تھا اس لیے ابراہیم عليه السلام نے اس کی دلیل کا تجزیہ کرنے کی بجائے دوسری واضح دلیل پیش کردی کہ ماشاءاللہ جب تم زندہ اور مردہ کرسکتے ہوتو سورج کو پچھم سے نکال کرتو دکھادو۔اسی کو بلاغت کی اصطلاح میں افحام یعنی عاجز کردینا کہتے ہیں۔

راہ حق کے سپاہیوں کی آزمائش ہوتی ہے

ابراہیم عليه السلام کی زندگی سے ایک سبق یہ ملتا ہے کہ راہ حق کے سپاہیوں کی آزمائش بھی ہوتی ہے ، جتنا ایمان مضبوط ہوگا اسی کے تناسب سے آزمائش بھی ہوگی ۔ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم فرماتے ہیں: اشَدُّ النَّاسِ بَلاءً الانبِیَاءُ ثُمَّ الصَّالِحُونَ ثُمَّ الامثَلُ فَالامثَلُ (ترمذی ) ”لوگوںمیں سب سے زیادہ سخت آزمائش انبیاءکی ہوتی ہے،پھر صالحین کی،پھر ان کے بعد درجہ بدرجہ دوسرے بند گان خدا کی ہوتی ہے“ ۔
حضرت ابراہیم عليه السلام گھر سے بے گھر کر دئیے گئے ، قوم کی سازش سے آگ میں ڈالے گئے۔ مختلف ممالک کا دورہ کرتے ہوئے جب اپنی بیوی سارہ کے ہمراہ مصر پہنچے تو وہاں کے ظالم بادشاہ نے اپنی عادت کے مطابق سارہ پر بدنیتی سے ہاتھ رکھنا چاہا۔ دین کی خدمت کے لیے پوری زندگی وقف کردی تھی پھربھی تمنا کے باوجود بڑھاپے تک اولاد کی نعمت سے محروم رہے ۔ کبرسنی میں ہاجرہ کے بطن سے اسماعیل پیدا ہوئے تو آزمائشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ، حکم ہوا کہ اپنی بیوی ہاجرہ اور او راپنے لخت جگر اسماعیل کو مکہ کے لق ودق ریگستان میں رکھ آئیے جہاں انسان تو کجا چرند وپرند کا بھی بسیرا نہ تھا ۔ پھر قرآن کے بیان کے مطابق جب اسماعیل عليه السلام چلنا پھرنا سیکھ گئے توایک بڑی آزمائش یہ ہوئی کہ خواب میں حکم دیا گیا کہ اپنے نورچشم اسماعیل کو اللہ کی راہ میں قربان کردیجئے ۔ غرضیکہ ابراہیم عليه السلام کی زندگی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ دعوت کی راہ میں پھولوں کی سیج نہیں بچھائی جاتی بلکہ پریشانیاں آتی ہیں ،مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اللہ والوں کی وقتی طور پر آزمائش ہوتی ہے البتہ اس کا نتیجہ ہمیشہ اچھا ہی ہوتا ہے ۔ خود،ابراہیم عليه السلام کی زندگی میں ہمیں یہ نمونہ کئی جگہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔چنانچہ آتش نمرود آپ کے لیے گل گلزار بن گئی ۔ بدطینت بادشاہ نے تین بار بدنیتی سے سارہ ؑ کی طرف ہاتھ اٹھایااورتینوں باراس کے ہاتھ پاؤں اینٹھنے لگے ، بالآخر ظالم بادشاہ سے نجات ملی اور ہاجرہ خدمت کے لیے آپ کے حوالے کر دی گئیں،اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک اسماعیل اور ان کی ماں ہاجرہ کو مکہ کی بے آہ وگیاہ سرزمین پر بسا آئے تو اللہ پاک نے ان کے لیے ”آب زمزم“ نامی چشمہ جاری کیا جو چارہزار سال سے اب تک ہر مرض وغرض کے لیے کافی ہے۔ جب ابراہیم عليه السلام تعمیل حکم میں اسماعیل عليه السلام کی حلقوم پر چھری پھیرنے لگے توآواز آئی:” اے ابراہیم تونے خواب کو سچ کر دکھایا“ اور جانور کی قربانی کی شکل میں اسے رہتی دنیا تک کے لیے یاد گار بنا دیا۔

ثبات قدمی کے لیے ہجرت ناگزیرہے

ابراہیم عليه السلام جب اپنے باپ ، اور اپنی قوم سے بالکل ناامید ہوگئے اور دعوت کے لیے آبائی سرزمین سازگار نہ رہی تو سیدہ سارہ اورحضرت لوط عليه السلام کے ہمراہ سرزمین بابل کوالوداع کہتے ہوئے شام جاتے ہیں،وہاں سے حران،پھر فلسطین،پھر مصرپہنچتے ہیں ، اس کے بعدمکہ کی وادیوں میں کئی مرتبہ آپ کی آمد ہوتی ہے۔ اس طرح آپ کی پوری زندگی ہجرت اور سفر میں گذرتی ہے ۔اس سے عام مسلمانوں کو بالخصوص نومسلموں کو یہ پیغام ملتا ہے کہ جس سرزمین پر اسلامی احکام کی بجا آوری میںرکاوٹ پیدا ہورہی ہو وہاں سے ہجرت کرکے ایسے مسلم معاشرہ میں منتقل ہوجاناچاہیے جہاں امن وامان سے دینی احکام کی بجاآوری کرسکیں اور خاطرخوا طریقے سے اہل خانہ اوربچوں کی تربیت ہوسکے ۔علامہ البانی رحمه الله نے سلسلة الاحادیث الصحیحة میں اس موضوع پربڑی تفصیل سے گفتگو کی ہے آپ فرماتے ہیں :
”اس حدیث سے بعض احکام مستنبط ہوتے ہیں .... نومسلموں کو چاہیے کہ وہ مشرکین سے مفارقت اختیار کرکے مسلمانوں کی آبادی کی طرف ہجرت کرجائیں، اس سلسلے میں بے شمار احادیث آئی ہیں جن کا مفاد دراصل نومسلموں کو غیرمسلموں سے علیحدگی اختیار کرنے پر ابھارنا ہے چنانچہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: أنا برءی من کل مسلم یقیم بین أظھرالمشرکین ....”میں ہر اس مسلمان سے براءت کا اظہار کرتا ہوں جو مشرکوں کے درمیان قیام پذیر ہے“ ۔ بعض احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آپ عليه السلام نے بعض لوگوںسے بیعت لیتے وقت یہ شرط رکھی تھی کہ وہ مشرکوں سے علیحدگی اختیار کرلیں گے ۔ اسی طرح اللہ کے رسول عليه السلام کا فرمان ہے لایقبل اللہ من مشرک بعدما اسلم عملاً او یفارق المشرکین الی المسلمین ”جو مشرک اسلام قبول کرلے اس کا عمل اللہ پاک اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک وہ مشرکو ں کے بیچ سے ہجرت نہ کرلے“ ۔
اس قبیل کی بے شمار احادیث آئی ہیں جن کی تخریج میں نے ارواءالغلیل 5/29۔33 میں کردی ہے اسی طرح حدیث نمبر636 میں بھی اس کی تفصیل گذرچکی ہے۔
اس کے بعد علامہ البانی رحمه الله عصر حاضر میں نومسلموں کی ہجرت سے بے اعتنائی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
" بڑے افسوس کی بات ہے کہ عصر حاضر میں جولوگ اسلام قبول کرتے ہیں الحمدللہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود غیرمسلموں سے مفارقت کے اس حکم کی بالکل پرواہ نہیں کرتے سوائے چند لوگوں کے ۔ میں سمجھتاہوں کہ اس کی دو وجہ ہوسکتی ہے(۱) آسائش دنیاکی لالچ : جولوگ اپنے اپنے آبائی وطن میں روحانیت سے خالی پرتعیش زندگی گذار رہے ہوتے ہیں‘ ایسے لوگوں کے لیے بالعموم مسلم علاقوں کی طرف منتقل ہونا مشکل ہوتا ہے۔(۲) دوسری وجہ جو اہم ہے کہ اکثر لوگ ہجرت کے حکم سے ناواقف ہیں، اس میں وہ معذور سمجھے جائیں گے کیونکہ انہوں نے اس قبیل کی باتیں نہ ان داعیان دین سے سنی ہيں جن کی مترجم باتیں ان کی زبان میں عام ہورہی ہیں، نہ ان کی زبان بولنے والے داعیوں سے ‘جو ان کے پاس دعوت کے لیے جاتے ہیں کیونکہ ان میں سے اکثرلوگ فقہی بصیرت نہیں رکھتے ہوتے.... “ ( سلسلة الاحادیث الصحیحة )
بہرکیف ابراہیم عليه السلام کی زندگی میں ان نومسلموں اور مسلمانوں کے لیے بہترین پیغام ہے جو غیرمسلم آبادیوں میں رہنے کی وجہ سے اسلامی شعائر کی کماحقہ ادائیگی نہ کرسکتے ہوں‘وہ ہجرت کرکے مسلمانوں کی آبادی میں آجائیں ۔

توکل اسباب کے منافی نہیں

ابراہیم علیہ السلام کی زندگی توکل واعتماد کا عظیم شاہکار تھی ،اللہ کی ذات پر ایسا یقین واعتماد کہ دہکتی ہوئی آگ میں منجنیق کے ذریعہ ڈال دیا جارہا ہے لیکن آپ كيچہرے پر ذرا برابر شکن نہیں آتاہے اور مسلسل زبان پر یہ الفاظ جاری ہیں ”حسبی اللہ ونعم الوکیل “ اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ بہترین کارسازہے “ ۔ پھر مائی ہاجرہ اپنے شیرخوار بچے کے ہمراہ بسائی جارہی ہیں جہاں آب ودانہ تو درکنار دور دور تک سبزی کا بھی نام ونشان نہیں ہے ۔ لیکن پھربھی اللہ کے حکم کا واسطہ سنتے ہی کمال توکل سے فرماتی ہیں ”تب تو اللہ ہمیں ضائع نہ کرے گا“ سبحان اللہ ! کیسے بچائے گا ؟ بچانے کی نوعیت کیسی ہوگی ؟ کیا بھیجے گا ؟ یہ سب اہم نہیں ہے البتہ یہ ہے کہ جب حکم اللہ کا ہے تو وہ ہمیں ہرگز ضائع نہیں کرے گا ۔سچ فرمایااللہ پاک نے : ومن یتوکل علی اللہ فھو حسبہ (سورة الطلاق ۳) جو شخص اللہ پر اعتماد کرے گا اللہ اس کے لیے کافی ہوگا ۔ چنانچہ اللہ تعالی نے ہرجگہ ان کی داد رسی فرمائی اور کسی جگہ اس خاندان کو ضائع نہیں کیا ۔
ابراہیم عليه السلام کی زندگی سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ توکل اسباب کے منافی نہیں ،چنانچہ آپ نے دعوت کے لیے مختلف ممالک کی طرف ہجرت کی،قوم کو دعوت دینے کے لیے متنوع اسالیب اختیار کیا ،اولاد نہ ہونے پر دوسری شادی کی ۔وغیرہ
کچھ لوگوں نے ابراہیم عليه السلام کی زندگی سے چند واقعات اخذ کرکے انہیں ترک اسباب کے لیے دلیل بنایا ہے جبکہ ان کی زندگی میں ترک اسباب کا کہیں وجود نہیں ملتا ۔
یہ جوکہاجاتا ہے کہ ابراہیم عليه السلام کے آگ میں ڈالے جانے کے بعد جبریل امین نے آپ سے پوچھا کہ کیا آپ کو میری ضرورت ہے ؟ توابراہیم عليه السلام نے جواب دیا:” تیری مدد کی ضرورت نہیں البتہ اللہ کی مدد ضروردرکار ہے“
اس سلسلے میں علامہ یوسف القرضاوی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
” اولاً یہ روایت صحیح سند سے ثابت نہیں اور اگر صحیح مان بھی لیا جائے تو بدیہی بات ہے کہ یہاں اسباب بالکل منقطع ہوچکے تھے اور محض اللہ تعالی کا سہارا باقی رہ گیا تھا ،اس لیے جبریل امین کو درمیان میں لانے کی قطعی ضرورت نہ رہی تھی ،اللہ تعالی کا خلیل کی حالت سے آگاہ ہونا جبریل کو درمیانی بنانے سے بے نیاز کررہا تھا ، پھرخلیل اللہ آگ میں ڈالے جانے کے بعد سے مسلسل یہ کہے جا رہے تھے حسبی اللہ ونعم الوکیل ”اللہ میرے لیے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے “ (التوکل ، یوسف القرضاوی)
ترک اسباب پر حضرت ابراہیم عليه السلام کے اس قصے کو بھی دلیل بنایا جاتا ہے کہ آپ عليه السلام اپنی بیوی ہاجرہ عليها السلام اور شیرخوار بچے اسماعیل عليه السلام کو مکہ کی بے آب وگیاہ سرزمین میں بسا آئے تھے تو اس کا جواب یہ ہے  کہ :
یہ کام اللہ کے حکم اور اس کی وحی کی بنیاد پر تھا اور جو کام اللہ کے حکم اور اس کی وحی کی بنیاد پر ہو بندہ اس کی تعمیل کا مکلف ہے گوکہ اس کی حکمت سمجھ میں نہ آرہی ہو ۔ اسی لیے آج اگر کوئی آدمی اپنی بیوی اور شیرخوار بچے کو کسی غیراًباد جگہ پر اللہ کے بھروسے بسا آئے تو وہ زیادتی کرنے والا ٹھہرے گا۔ (التوکل : یوسف القرضاوی)

توریہ جائز ہے

توریہ ایسے ذو معنی بات کو کہتے ہیں جس کا ظاہری مفہوم کچھ ہو جبکہ بولنے والا کچھ اور مراد لے رہا ہو اور اس کا اصول یہ ہے کہ اگر مقصود اچھا ہو اور توریہ کے بغیر حاصل نہ ہوسکتا ہو تو ایسا کرنا جائز ہے،مثلاً کوئی کہے کہ میرے جیب میں ایک بھی روپئے نہیں، اس سے سننے والا سمجھے کہ اس کے پاس مال نہیں ہے جبکہ اس کا قصد ہو کہ اس کے پاس روپے نہیں البتہ دینار ہیں ۔چنانچہ ضرورت کے لیے توریہ جائز ہے اور بغیر ضرورت مکروہ ہے۔ کیونکہ اس میں جھوٹ کی مشابہت ہے۔ابراہیم عليه السلام نے بھی تین جگہ پر توریہ کا استعمال کیا تھا(1) انی سقیم (میں بیمار ہوں) یعنی دلی طورپر بتوں کو دیکھ کربیمار ہوں۔(2) بل فعلہ کبیرھم ھذا (بلکہ بڑے بت نے ایسا کیا ہے) اس تحکمانہ انداز سے ان کی آنکھوں کی پرتیں کھولنا مقصودتھا۔(3) ھذہ اختی (یہ میری بہن ہے) یعنی اسلام کے ناطے میری بہن ہے ۔ علامہ انور شاہ کشمیري رحمه الله فرماتے ہیں ” علمائے کرام کا اتفاق ہے کہ یہ تینوں توریہ کے قبیل سے ہیں کذب صریح نہیں “ ۔ (العرف الشذی 3/387)

ابراہیم عليه السلام کی زندگی سے معاشرتی سبق

معاشرتی زندگی میں ایک مسلمان کی کیا ذمہ داریاں ہیں ، اہل خانہ کی کن خطوط پر تربیت ہونی چاہیے ،تربیت اولاد میں والدین کا کیا رول ہوناچاہیے، اولاد پر والدین کے حقوق کا معیار کیا ہے ؟ اس سلسلے میں ابراہیم عليه السلام کی پاکیزہ معاشرتی زندگی سے چند نمایاں نقوش پیش خدمت ہیں۔

اولاد سے محروم لوگ مایوس نہ ہوں

ابراہیم عليه السلام کی زندگی سے اولاد کی نعمت سے محروم لوگوں کے لیے سبق ہے کہ جس نبی نے اپنی پوری زندگی دین کی خدمت کے لیے وقف کردی تھی وہی خواہش کے باوجود اولاد کی نعمت سے محروم رہا تھا ،ناامیدی کی عمرکوپہنچ چکے تھے لیکن اللہ کی رحمت سے مایوس نہ تھے چنانچہ دوسری شادی کی اور اللہ کے دربار میں ہاتھ اٹھایا: رَبِّ هَب لِی مِنَ الصَّالِحِینَ (الصافات 100)”اے میرے رب ! مجھے نیک اولاد عطا فرما“ ۔ دل سے نکلی ہوئی دعا قبول ہوتی ہے اورہاجرہ عليها السلام کے بطن سے اسماعیل عليه السلام آنکھوں کی ٹھنڈک بن کر گھر کو روشن کرتے ہیں ۔ پھر سن رسیدہ بیوی سارہ عليها السلام کے بطن سے بھی اسحاق عليه السلام پیدا ہوئے۔ کہتے ہیں کہ ابراہیم عليه السلام کے آٹھ صلبی بیٹے تھے ۔ (فتح القدیر )

اہل خانہ کی اصلاح پہلے ہونی چاہیے

ابراہیم عليه السلام نے جب دعوت واصلاح کا بیڑا اٹھایا تو قوم کو دعوت دینے سے پہلے اپنے بت پرست باپ تک اسلام کا پیغام پہنچایا ،جیساکہ اللہ تعالی نے محمد صلى الله عليه وسلم کوبھی حکم دیا ”اپنے قریبی رشتہ داروںکوڈرائیے “ (الشعراء214) اسی چنانچہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے سب سے پہلے اپنے قریب ترین لوگوں تک اسلام کی دعوت پہنچائی جس سے داعیان دین کو یہ سبق ملتا ہے کہ دعوت کا آغاز اپنے گھر کی اصلاح سے ہوناچاہیے۔

کافر والدین کے ساتھ حسن سلوک

ابراہیم عليه السلام اخیر وقت تک اپنے باپ کا خیال کرتے رہے ، یہاں تک کہ ان کے لیے دعا بھی کی (ابراہیم :41) لیکن جب آپ پر ظاہر ہوگیا کہ ان کا باپ اللہ کا دشمن ہے توان سے اظہار براءت کردی (التوبة 114) جس سے پتہ چلتا ہے کہ والدین گوکہ کافر ہوں ان کے ساتھ نرمی اور حسن سلوک کا معاملہ ہونا چاہیے ۔ البتہ اگر وہ کفروشرک پر آمادہ کرنا چاہیں یا اسلام کے دشمن بن جائیں تو ان سے اظہار برات لازمی ہے ۔

اہل خانہ اور اولاد کی تربیت

ابراہیم عليه السلام کی زندگی میں اہل خانہ کی تربیت کا بہترین نمونہ ملتا ہے ، وہ ہاجرہ عليها السلام جو کل تک ظالم بادشاہ مصر کے پاس تھیں ،لیکن جب آپ کے پاس آتی ہیں تو توکل واعتمادکا پیکر بن جاتی ہيں جس کا ظہور اس وقت ہوا جبکہ ابراہیم عليه السلام بیوی ہاجرہ اور شیرخواربچے اسماعیل عليه السلام کو بے آب وگیاہ سرزمین میں بساکر چلنے لگے جہاں ہوکا عالم تھا۔ پکار رہی ہیں :” ابراہیم ! مجھے اورننھے اسماعیل کوچھوڑ کرکہاں جارہے ہو؟ “کچھ جواب نہیں مل رہا ہے ، بالآخر پوچھتی ہیں:”کیا اللہ کا حکم ہے ؟“ اثبات میں جواب ملتے ہی بے ساختہ بول اٹھتی ہیں:”تب تو اللہ مجھے ضائع نہ کرے گا“۔ سبحان اللہ ! تصور کیجیے کیسی تربیت کی تھی ابراہیم عليه السلام نے ہاجرہ عليها السلام کی کہ خود کو گویاموت کے منہ میں دیکھ رہی ہیں ، پھر بھی اللہ پر پورا یقین ہے کہ وہ انہیں ضائع نہ کرے گا ۔ اسی طرح ننھے اسماعیل عليه السلام کی قربانی اورفدائیت دیکھیے کہ جب ابراہیم عليه السلام تین روز تک لگاتار اسماعیل عليه السلام کوخواب میں ذبح کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اورلخت جگرسے مشورہ لینے آتے ہیں تو ننھااسماعیل پیکر تسلیم بناجواب دیتا ہے﴾ یَا اَبَتِ افعَل مَا تُومَرُ سَتَجِدُنِی ان شَاء اللَّہُ مِنَ الصَّابِرِینَ﴿ (الصافات102) ”ابوجان! آپ کو جس کام کا حکم ملا ہے کر گذریے ان شاءاللہ آپ مجھے صبرکرنے والوں میںسے پائیں گے“۔

یہ فیضان نظرتھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھایا کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی

غرضیکہ ابراہیم عليه السلام نے اہل خانہ کی تربیت پربہت زور دیا چنانچہ ایک طرف اگر آپ نے اپنی اولاد کو دین حق پرثابت قدم رہنے کی وصیت کی (البقرة 132) تو دوسری طرف نہایت عاجزی وگریہ وزاری کے ساتھ اللہ پاک سے اپنی اولاد کے لیے دعائیں کیں:
٭اے ہمارے پروردگار ! میں نے اپنی کچھ اولاد اس بے کھیتی کے جنگل میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے ، اے ہمارے پروردگار ! یہ اس لیے کہ وہ نماز قائم کریں ، پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرما تاکہ یہ شکر گزاری کریں “ (ابراہیم 37)
٭”اے میرے پروردگار ! اس شہر کو امن والا بنادے اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا....“۔ (ابراہیم 35)
٭”اے میرے پالنہار! مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولاد سے بھی ، اے ہمارے رب میری دعا قبول فرما “
٭ا ”اے میرے رب ، اس شہر کو امن کا شہر بنا دے اور اس کے باشندو ں میں سے جو اللہ اور آخرت کو مانیں ، انھیں ہر قسم کے پھلوں کا رزق دے۔“ (البقرة 126)
٭ ” اے رب، ہم دونوں کو اپنا مسلم ،مطیع ، فرمان بنا ، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا، جو تیری مسلم ہو “۔ (البقرة 128) ٭” اے رب ، ان لوگوں میں خود انھیں کی قوم سے ایک ایسا رسول اٹھائیو ، جو انھیں تیری آیات سنائے ، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے۔ “(البقرة 129)
ان پرسوزدعاؤں میں ابراہیم ںنے اپنی اولاد کو تادم حیات دین اسلام پر قائم رہنے کی وصیت کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے دعا بھی کی کہ مجھے اور میری اولاد کو شرک وبت پرستی سے بچائیو۔ انہیں نماز قائم کرنے کی توفیق دیجیو ۔ انہیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرمائیو ، اور سرزمین مکہ کو امن وامان کا گہوارہ بنا دیجیو۔جس سے ایک داعی اور مربی کو یہ پیغام ملتا ہے کہ اولاد کی ایمان اور صلاح وتقوی پر تربیت کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ پاک سے توفیق اور ہدایت کا سوال کیا جائے ۔ پھرآپ نے سرزمین مکہ کے لیے رب دو جہاں سے دعا کرتے وقت زندگی کے دو لازمی عناصرسائکلوجی اور فیسیولوجی (Physiologi) کومدنظر رکھا،یعنی اک امن وامان اور دوسرے خوشحالی ۔ یہاں تک کہ آپ نے اپنی ساری دعاؤں پر امن وامان کو مقدم کیا کہ اے اللہ اس شہر کو امن وامان والا بنادے ‘ یہ اسلیے کہ امن کے بغیر زندگی کی ساری سہولتیں سونی پڑجاتی ہیں ،تمام آسائشوں اور اسباب زندگی کی فراہمی کے باوجود ہر وقت خوف ودہشت کا ماحول بپا رہتا ہے جیسا کہ آج عصر حاضرمیں اکثر ممالک کا حال ہے ۔

محبت اولاد اور اطاعت والدین کا معیار

محبت اولاد کا معیار کیا ہونا چاہیے اور اطاعت والدین کے تقاضے کیا ہیں یہ دونوں نمونے ہمیں ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں بحسن وخوبی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ ابراہیم علیہ السلام کو ئی فرشتہ نہ تھے بلکہ انسان تھے ،ان کے پاس وہی دل تھا جو عام انسانوں کے پاس ہوتا ہے جس میں اولاد کی محبت ہوتی ہے ،پھر اولاد بھی عام اولادوں کے جیسے نہ تھی بلکہ بڑی تمناؤں کے بعد جگر کا ٹگڑا بنی تھی ،اس پر مستزاد یہ کہ اسماعیل علیہ السلام ایسے نودمیدہ گنچے تھے جس میں اپنے تو اپنے بیگانے بھی نقددل وجان گنوا بیٹھتے ہیں،اس کے باوجود اللہ کے حکم کے سامنے اولاد کی محبت ہیچ ثابت ہوتی ہے اور ایثار وقربانی کا اعلی نمونہ پیش کرنے کے لیے ہرجگہ تیار رہتے ہیں،اسی طرح اسماعیل علیہ السلام بھی باپ کے اشارے پر اپنی جان کانذرانہ پیش کرنے کے لیے بلا پس وپیش تیار ہوجاتے ہیں جس سے ایک طرف محبت اولاد کے معیار کا اندازہ ہوتا ہے تو دوسری طرف باپ کی اطاعت وفرماں برداری کااعلی شاہکار دیکھنے کو ملتا ہے ۔اور یہ دو حقیقتیں دراصل اسلامی تعلیمات کا خلاصہ ہیں جنہیں حقوق اللہ اور حقوق الباد کا نام دیا جاتا ہے ۔ یعنی اللہ کی خالص عبادت اور اس کے لیے فداکاری کا مظاہرہ اور والدین کی اطاعت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا اہتمام ۔گویا ابراہیم علیہ السلام نے امت محمدیہ کے ہر فرد کوو یہ پیغام دیا کہ اولاد کی محبت ، اللہ کی محبت پر غالب نہیں آنی چاہیے۔محبت اولاد میں کبھی بھی حقوق الہی پامال نہیں ہونے چاہئیں۔ جبکہ دوسری طرف اسماعیل علیہ السلام نے ساری کائنات کے لیے یہ نمونہ چھوڑا کہ والدین کی اطاعت ہرحال میں لازمی اور ناگزیر ہے،الا یہ کہ والدین کی بات رکھنے میں شریعت کی مخالفت لازم آتی ہو۔ اس لیے قربانی کرنے والی اولاد اور والدین سے گذارش ہے کہ ابراہیمی سنت کو تازہ کرنے سے پہلے بحیثیت اولاداور بحیثیت والدین اپنے دل کا جائزہ لیں کہ ہم کہا ں ہیں؟ کیا کر رہے ہیں؟ اور کیا کرنا چاہیے ۔

والدین کے کہنے پربیوی کو طلاق دینا

ابراہیم عليه السلام اسماعیل عليه السلام اور ہاجرہ عليها السلام کو مکہ کی بے آب وگیاہ سرزمین پر بسا کر چلے گئے تو یہاں قبیلہ جرہم کے کچھ لوگ آبسے ،پھر اسماعیل عليه السلام نے انہیں کی ایک لڑکی سے شادی کی،پھرہاجرہ ؑ بھی فوت پاگئیں ، ادھر حضرت ابراہیم عليه السلام کو خیال ہوا کہ اپنا ترکہ دیکھنا چاہئے چنانچہ وہ مکہ تشریف لے گئے لیکن حضرت اسماعیل عليه السلام سے ملاقات نہ ہوئی، بہو سے حالات دریافت کئے، اس نے تنگ دستی کی شکایت کی،چنانچہ آپ رضي الله عنه نے وصیت کی کہ اسماعیل آئیں تو کہنا اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں۔اس وصیت کا مطلب حضرت اسماعیل عليه السلام سمجھ گئے بیوی کو طلاق دیدی اور ایک دوسری عورت سے شادی کرلی ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا والدین کے کہنے پر بیوی کو طلاق دی جا سکتی ہے ۔ تووالدین کا اپنے بیٹے سے یہ کہنا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے ، دو حالتوں سے خالی نہیں :
(۱) والدین سبب بتائيں مثلاً کہيں کہ میں نے اسے کسی غیر سے عشق ومحبت کی باتیں کرتے دیکھا ہے بشرطیکہ والدین سنجیدہ طبیعت کے ہوں اور نیک ہوں تو ایسی صورت میں والدین کی بات مانی جائے گی ۔
(۲) اگر والدین ”بہو بیٹے “کی آپسی محبت سے غیرت کھا کرطلاق دینے کا حکم دیں ،جیسا کہ اکثر ایسا ہوتا ہے تو کسی صورت میں ان کی بات نہیں مانی جائے گی ، البتہ والدین کی اطاعت اور ان کے ساتھ حسن سلوک ضروری ہوگا ۔ اس لیے ابراہیم عليه السلام کا یہ عمل ہر باپ کے لیے حجت نہیں بن سکتا ،ایسا کرنے سے پہلے باپ کو ابراہیم عليه السلام کا نمونہ بننا پڑے گا ،یہی وجہ ہے کہ ایک شخص امام احمد بن حنبل رحمه الله کے پاس آکر عرض کیا کہ کیا باپ کے کہنے پر بیٹا اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے ؟ آپ نے جواب دیا : نہیں ،اس نے کہا : عمرفاروق رضي الله عنه نے اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر رضي الله عنه کو حکم دیاتھا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دیں تو اللہ کے رسول صلى الله عليه نے عمر رضي الله عنه کی بات کو نافذ کردیا تھا ۔ آپ نے دوٹوک جواب دیا : پہلے کوئی عمر بن کر تو دکھا ئے ۔
ابراہیم علیہ السلام کی زندگی سے متعلقہ چند مسائل

سب سے پہلے
(1) کعبہ کی تعمیر :اہل علم کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ سب سے پہلے خانہ کعبہ کی تعمیرکس نے کی ؟ جمہور اہل علم کی رائے ہے کہ حضرت ابراہیم عليه السلام اور حضرت اسماعیل عليه السلام نے سب سے پہلے کعبہ کی تعمیر فرمائی جبکہ دیگر اہل علم کا قول ہے کہ ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کعبہ کی تعمیر عمل میں آچکی تھی،البتہ پہلے بانی کون ہیں اس سلسلے میں اختلاف ہے بعض نے کہا کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کے لیے کعبہ کو بنابنایا اس سرزمین پر رکھ دیا تھا ،بعض نے کہا کہ آدم علیہ السلام سے قبل فرشتوں نے اس کی تعمیر کی تھی جبکہ بعض کہتے ہیں کہ شیث بن آدم عليه السلام نے سب سے پہلے اس کی تعمیر کی،بہرکیف یہ مسئلہ معرکة الآراءہے البتہ ابراہیم علیہ السلام کو بانی کعبہ کہنے والوں کے دلائل زیادہ قوی ہیں ۔
(2) لقب پانے والے : سب سے پہلے لقب پانے والے ابراہیم عليه السلام ہیں جن کو فرشتوں کی ضیافت میں ایک بچھڑا ذبح کرکے پیش کرنے کی وجہ سے ” ابوالضیفان“ کالقب ملا ۔
(3) ختنہ کرانے والے : ابراہیم عليه السلام نے سب سے پہلے80سال کی عمر میں ختنہ کرایا۔اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ان ابراہیم علیہ السلام اختتن بعد ان مرت علیہ ثمانون سنة واختتن بالقدوم ” حضرت ابراہیم عليه السلام نے اسی سال کی عمر میں آلہ ختان کے ذریعہ اپنا ختنہ کیا ۔ ( بخاری ومسلم)

ذبیح کون تھے ؟

علمائے محققین کے بقول ذبیح حضرت اسماعیل عليه السلام تھے نہ کہ اسحاق عليه السلام ، قرآن کریم سے اسی کی تائید ہوتی ہے کیونکہ اللہ پاک نے سورہ الصافات (99۔102 ) میں قصہ ذبح کا تذکرہ کرنے کے بعد اسحاق عليه السلام کی ولادت کی بشارت دی ہے۔ خود موجودہ بائبل نے بھی ذبیح کی صفت ”اکلوتا فرزند “ (پیدائش 1۔22۔2) ذکر کی ہے اورظاہر ہے کہ اسماعیل عليه السلام ہی اس وقت اکلوتے فرزند تھے۔ پھر ذبیح کی صفت ”حلیم “ (بردبار ) بتائی گئی ہے جوقصہ ذبح سے مطابقت رکھتا ہے جبکہ اسحاق کی صفت ”علیم “ (الذاریات 28) بتائی گئی ہے ۔
اس سلسلے میں علامہ ابن قیم رحمه الله فرماتے ہیں ”صحیح قول کے مطابق ذبیح اسماعیل ہیں ، یہی رائے علمائے صحابہ وتابعین اور ان کے بعد کے لوگوں کا ہے اوراسحاق عليه السلام کے ذبیح ہونے کا قول بیس وجوہات سے باطل ہے ،میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ كو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ قول اہل کتاب سے ماخوذ ہے جبکہ ان کی کتاب سے بھی اس کی تردید ہوتی ہے کیونکہ اس میں آیا ہے کہ اللہ تعالی نے ابراہیم کو اپنے اکلوتے فرزند کو ذبح کرنے کا حکم دیا اوراہل کتاب کے ساتھ سارے مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ اسماعیل ہی ان کے اکلوتے فرزندتھے“ (زاد المعاد 1/72) (تفصیل کے لیے دیکھیں : ٭ اکلوتا فرزند ذبیح ‘ اسحاق یا اسماعیل عبدالستار غوری ،لاہور
٭ الرائی الصحیح فی من ھو الذبیح مولانا حمید الدین فراہی جس کا اردو ترجمہ مولانا امین احسن اصلاحی نے ” ذبیح کون ہے ؟ “کے عنوان سے کیا ہے )
چھپکلی کومارنے کا حکم :
صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جب ابراہیم عليه السلام کو آگ میں ڈالا گیا ‘ اس وقت چھپکلی آگ پر پھونک مار رہی تھی ، چنانچہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے اسے مارنے کا حکم دیا ۔ (بخاری مسلم )
خانہ کعبہ میں کسی بھی نبی کی میت مدفون نہیں ہے

تاریخ مکہ اور اخبار مکہ پر تصنیف شدہ بعض کتابوں میں بتایا گیاہے کہ مسجد حرام کی فلاں فلاں جگہ میں فلاں فلاں انبیاء مدفون ہیں،اور اسماعیل عليه السلام کی قبربھی وہیں ہے حالانکہ یہ سب قطعی بے ثبوت ہیں ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ اپنی معروف کتاب "تحذیرالساجد عن اتخاذ القبورمساجد" میں تحریرفرماتے ہیں:-
”حضرت اسماعیل عليه السلام وغیرہ انبیائے کرام کے مسجد حرام میں مدفون ہونے کی بات کسی مرفوع حدیث سے ثابت نہیں ہے- حدیث کی مستند کتابوں صحاح ستہ ،مسند احمد اورمعاجم طبرانی وغیرہ مشہور دواوین حدیث میں کسی میں اس کے متعلق کوئی حدیث وارد نہیں ہے – یہ بہت سے محققین کے نزدیک کسی حدیث کے ضعیف بلکہ موضوع ہونے کی علامت ہے ،اس سلسلہ میں بعض آثاراور روایات جن کو ازرقی نے " اخبارمکہ " میں ذکرکیا ہے وہ سب واہی تباہی سندوں سے مروی ہیں “۔ (تحذیرالساجد 75)
( تفصیل کے لیے شيخ محفوظ الرحمن فیضی صاحب کی کتاب : ”مسجد حرام میں بعض انبیاءکے مدفون ہونے کی مزعومہ روایات کا تنقیدی وتحقیقی جائزہ “ کا مطالعہ کریں )

ابراہیم عليه السلام کی مجاہدانہ اور داعیانہ زندگی سے مستفاد یہ تھے چند دروس جنہیں سپرد قلم کرنے کامقصد اس کے علاوہ اورکچھ نہیں کہ ہم ان پاکیزہ دروس کواپنی عملی زندگی کے لیے مشعل راہ بنائیں، اللہ پاک ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔