سوال:
طلاق کا صحیح طریقہ کیا ہے ؟ (ظفراللہ خاں ۔ صباحیہ ،کویت)
طلاق کا صحیح طریقہ کیا ہے ؟ (ظفراللہ خاں ۔ صباحیہ ،کویت)
جواب:
طلاق اللہ پاک کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے ناپسند یدہ چیز ہے ۔اسلام میں شادی کو مربوط ازدواجی تعلق اور’مضبوط عہدوپیمان‘ سے تعبیرکیا گیا ہے، جب زوجین میں ناچاقی پیداہوجائے اور اصلاح کی ساری تدابیرناکام رہیں تو طلاق آخری علاج کے طورپر جائز قرار دی گئی ہے ۔ چنانچہ اختلاف کی صورت میں اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ شوہر بیوی کو سمجھائے ،شوہر کے حقوق یاد دلائے ، علیحدگی کی صورت میں بچوں کے مستقبل سے ڈرائے،اور نصیحت کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرے ،اگر سدھرجاتی ہے تو ٹھیک ورنہ بستر الگ کر دیا جاے ،یہ طریقہ سمجھدار عورت کی اصلاح کے لیے نہایت کارگر ہے ۔اگر اس سے بھی نہ سمجھے تو فہمائش کے لیے تادیبی طورپر اس کی ہلکی سی پٹائی کی جاسکتی ہے لیکن یہ پٹائی وحشیانہ نہ ہونی چاہیے۔ اگر اس صورت میں بھی اصلاح ممکن نہ ہوسکے تو طرفین کی طرف سے دو آدمی دونوں میں صلح کرانے کی کوشش کریں گے ۔ (سورہ نساء34۔35)
طلاق اللہ پاک کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے ناپسند یدہ چیز ہے ۔اسلام میں شادی کو مربوط ازدواجی تعلق اور’مضبوط عہدوپیمان‘ سے تعبیرکیا گیا ہے، جب زوجین میں ناچاقی پیداہوجائے اور اصلاح کی ساری تدابیرناکام رہیں تو طلاق آخری علاج کے طورپر جائز قرار دی گئی ہے ۔ چنانچہ اختلاف کی صورت میں اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ شوہر بیوی کو سمجھائے ،شوہر کے حقوق یاد دلائے ، علیحدگی کی صورت میں بچوں کے مستقبل سے ڈرائے،اور نصیحت کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرے ،اگر سدھرجاتی ہے تو ٹھیک ورنہ بستر الگ کر دیا جاے ،یہ طریقہ سمجھدار عورت کی اصلاح کے لیے نہایت کارگر ہے ۔اگر اس سے بھی نہ سمجھے تو فہمائش کے لیے تادیبی طورپر اس کی ہلکی سی پٹائی کی جاسکتی ہے لیکن یہ پٹائی وحشیانہ نہ ہونی چاہیے۔ اگر اس صورت میں بھی اصلاح ممکن نہ ہوسکے تو طرفین کی طرف سے دو آدمی دونوں میں صلح کرانے کی کوشش کریں گے ۔ (سورہ نساء34۔35)
اگر یہ چاروں مراحل ناکام ثابت ہوں تو اب جدائی کے علاوہ دوسری کو ئی معقول شکل باقی نہ رہی تاکہ دونوں اپنا اپنا راستہ طے کرلیں ۔ ایسی صورت میں طلاق کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایسے طہر میں جس میں بیوی سے وظیفہ زوجیت ادا نہ کیاہو‘ایک طلاق دے اور تین مہینہ تک انتظار کا موقع دے ۔اس بیچ اسے ساتھ ہی رکھنا ہے ، اسے طلاق رجعی کہتے ہیں،اگر اس دوران رجوع نہیں کیا تو عورت اس سے خود بخود علیٰحدہ ہوگئی ،اب رجوع کے لیے تجدید نکاح کرنی ہوگی۔اس کے بعد بھی دوسری مرتبہ طلاق دے کرعدت میں رجوع کرسکتا ہے البتہ عدت گزرنے کے بعد تجدیدنکاح ضروری ہوگی ۔ تیسری مرتبہ بھی اگر طلاق دے دی تو اب رجوع کی اجازت نہیں ۔اللہ تعالی نے فرمایا:
الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فاِمسَاک بِمَعرُوفٍ اَوتَسرِیح باحسَانٍ (سورة البقرة 229)”یے طلاقیں دو مرتبہ ہیں پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی سے چھوڑ دینا ہے “۔
البتہ ایک ہی مجلس میں بیک وقت تین طلاقیں دینا شریعت کی پامالی اوراس کے ساتھ کھلواڑ کرناہے ،تاہم طلاق ایک ہی شمار کی جائے گی ۔(صحیح مسلم)
0 تبصرہ:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔