أَوَمَن كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي
النَّاسِ كَمَن مَّثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا كَذَٰلِكَ
زُيِّنَ لِلْكَافِرِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿الأنعام:
122﴾
ترجمہ:
”کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم
نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زندگی
کی راہ طے کرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح
ان سے نہ نکلتا ہو؟ کافروں کے لیے تو اسی طرح ان کے اعمال خوشنما بنا دیے گئے ہیں“
۔
تشریح:
زیر نظر آیت کریمہ میں اللہ پاک نے کافراورمومن کی مثال بیان کرتے ہوئے
کافرکومردہ اورمومن کو زندہ قراردیاہے ۔ جو اللہ کی ذات کا عرفان نہیں رکھتے ، توحید
کی نعمت سے محروم ہیں ایسے لوگ گو زمین پر چلتے پھرتے ہیں،کھاتے پیتے ہیں ، ہنستے کھیلتے
ہیں، دنیا کے ظاہری امورکا گہرا
علم رکھتے ہیں ، چاندستاروں تک کی
تسخیر کررہے ہیں‘ لیکن اس کے باوجود ان کے پاس زندگی نہیں ہے،
وہ زندگی کی نعمت سے محروم ہیں،ان کی زندگی چوپایوں
کی سی ہے بلکہ چوپايوں سے
بھی بدتر ہیں۔ (الفرقان 44) ایک انسان زندگی اسی وقت حاصل کرسکتا ہے جب وہ اللہ کی
ذات کا عرفان حاصل کرلے اورخالص ایک اللہ کے سامنے اپنی پیشانی خم کردے ۔گویاکہ اللہ
اوراس کے رسول کی صحیح معرفت ہی اصل زندگی ہے ۔اللہ پاک نے فرمایا:
” اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جبکہ رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے“۔ (الانفال 24) ۔
اسی لیے اللہ پاک نے قرآن کریم میں متعدد
مقامات پر وحی کو روح سے تعبیر کیا ہے جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا:
” اور اسی طرح (اے محمد ) ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمہاری طرف وحی کی ہے(جوقرآن ہے ) “۔(سورة الشوری 52)
اللہ پاک نے اس آیت میں وحی کو
روح کا نام دیاہے کیونکہ اسی کے ذریعہ زندگی ملتی ہے۔آج اس دنیا میں کتنے ایسے لوگ
ہیں جن کے پاس قابلیت ہے، دولت اورشہرت ہے لیکن وہ زندہ ہوکر بھی مردہ ہیں کہ وہ اسلام
کی نعمت سے محروم ہیں جو اصل زندگی ہے ۔ اسی لیے جن لوگوں کو اللہ پاک ہدایت نصیب فرماتا
ہے اصل میں انہیں نئی زندگی ملتی ہے ۔اورجن کویہ نئی زندگی مل گئی ان کی خوش نصیبی
کا کیا کہنا کہ وہ مردوں کی صفوں سے نکل گئے ، اب انہیں اسلام کاایساچمکتا ہوا نور
مل چکا ہے جس کی روشنی میں وہ زندگی کی راہ طے کرتے ہیں ۔آخر ایسے لوگوں کا مقابلہ
ان گم گشتہ راہوں سے کیسے ہوسکتا ہے جو جہالت وضلالت کی تاریکی میں پڑے ہوئے ہیں ۔
اللہ پاک نے فرمایا:
”اِن دونوں فریقوں(مومن وکافر) کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی اندھا بہرا ہو اور دوسرا دیکھنے اور سننے والا ہو ، کیا یہ دونوں یکساں ہو سکتے ہیں؟ کیا تم (اِس مثال سے) کوئی سبق نہیں لیتے؟“ (سورة ھود : 24)
جی ہاں! جس طرح اندھا بہرا دیکھنے اورسننے
والے کے جیسے نہیں ہوسکتا اسی طرح جسے اللہ پاک نے ہدایت نصیب فرمادی، اسے شعوری زندگی
مل ہوچکی ہے ، اب ایسا مومن ضلالت وگمراہی کی تاریکیوںمیں ٹامک ٹوئیے مارنے والوں کے
جیسے کیسے ہوسکتا ہے ؟ ۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ شیطان نے کفارومشرکین کے اعمال کو ان
کے سامنے خوشنما بنادیاہے جس کی وجہ سے وہ اس وہم میں مبتلا ہوچکے ہیں کہ ہمارے اعمال
اہل ایمان سے اچھے ہیں ۔
0 تبصرہ:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔