تالیف:
فؤاد
بن عبدالرحمن بن محمدخوجہ
اختصار
وترجمہ
صفات
عالم محمد زبير تيمى
بلاشبہ اللہ Iنے
ساری مخلوق کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ، اللہ تعالی نے فرمایا: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا
لِيَعْبُدُونِ ﴿الذاريات 56﴾
” ہم
نے جنوں اورانسانوں کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا “ ۔
چنانچہ عبادت
،دعا،رجوع الی اللہ ، طلبِ مغفرت اورطلبِ رزق جیسے امور اللہ کے لیے ہی خاص ہیں، یہ
چیزیں محض اللہ سے مانگی جاسکتی ہیں ،اللہ کے علاوہ کسی اورسے ان چیزوں کا سوال
جائز نہیں۔ دعا میں اللہ کے علاوہ کسی اورکی طرف التفات نہیں کیا جاسکتا ،نہ کسی
رسول کی طرف نہ کسی قریبی فرشتے کی طرف،
چہ جائیکہ کسی نیک اورصالح ولی کی طرف التفات کیا جائے ۔ اللہ تعالی نے
فرمایا:
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّـهَ هُوَ
الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۖ وَقَالَ الْمَسِيحُ
يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّـهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۖ إِنَّهُ مَن
يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ
النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ﴿
سورة المائدہ 72 ﴾
”بے شک وہ لوگ کافر ہوگئے جن کا قول ہے کہ مسیح ابن
مریم ہی اللہ ہے حالانکہ خود مسیح نے ان سے کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل! اللہ ہی کی
عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا رب ہے، یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک
کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے، اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے اور
گنہگاروں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا“۔ (المائدہ 72)
تمام انبیائے کرام
نے اپنی قوموں کواس بات کی طرف دعوت دی کہ عبادت ،دعا اور عبادت کے جملہ اقسام میں
اللہ تعالی کو یکتا مانا جائے، تمام انبیاءنے لوگوں کو توحید خالص کی طرف بلایاجو
شرک کی آلائشوں سے بالکل پاک وصاف دعوت تھی ۔
شرک محض یہ نہیں ہے
کہ کسی کو وسیلہ بنایاجائے، بتوں کی پوجا کی جائے ،انہیں اللہ اوربندے کے درمیان
واسطہ سمجھاجائے جیسا کہ کفارقریش کا عمل تھا اور جیسا کہ آجکل بعض لوگ سمجھتے ہیں
بلکہ شرک غیراللہ کی مطلق عبادت کانام ہے،اسی طرح اللہ کی قربت چاہنے کے لیے یا اس
سے دعا کرنے کے لیے یا اس سے کچھ سوال کرنے کے لیے اپنے اوراللہ کے درمیان کسی کو
واسطہ بنانا اوریہ عقیدہ رکھنا کہ فلاں ولی کا اللہ کے پاس بڑا مقام ہے اوران کی
چلتی ہے ‘یہ سب شرک میں داخل ہے اورسراسر غیراللہ کی عبادت ہے ۔
اللہ تعالی نے
فرمایا:
أَلَا لِلَّـهِ
الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ
اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا
إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّـهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ
يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا
يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ ﴿الزمر
٣﴾
”خبردار!
اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خالص عبادت کرنا ہے اور جن لوگوں نے اس کے سوا اولیاء بنا
رکھے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ (بزرگ) اللہ
کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرا دیں، یہ لوگ جس بارے میں اختلاف کر رہے ہیں
اس کا (سچا) فیصلہ اللہ (خود) کرے گا۔ جھوٹے اور ناشکرے (لوگوں) کو اللہ تعالیٰ
راہ نہیں دکھاتا“۔ (الزمر 3)
ایک مسلمان کے لیے
نہایت افسوس اورشرم کی بات ہے کہ آج عوام الناس اورگمراہ فرقوں میں بیشمار شرکیہ
اعمال وافعال پھیلے ہوئے ہیں جیسے غیراللہ سے دعا کرنا ،غیراللہ کے لیے جانورذبح
کرنا ، بعض صالحین کی محبت میں غلوکرنا حتی کہ انہیں رب کے درجے تک پہنچا دینا ، ان
قبروں کے اردگرد طواف کرنا جن کے مکینوں کے تئیں خیراوربھلائی کا عقیدہ رکھاجاتا
ہے ۔ غیراللہ سے روزی طلب کرنا، مردے کو وسیلہ بنانا یاایسے لوگوں کووسیلہ بنانا
جن کے تعلق سے لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ ولی صالح ہیں ،اللہ تک ان کی پہنچ ہے
،وہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کردیں گے یا وہ دنیوی واخروی ضرورت پوری کردیں گے ۔
کچھ لوگ یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ کچھ ایسے اولیاءہیں جومشکل کشا
اور حاجت روا ہیں جو نفع ونقصان کے مالک ہیں، اورکائنات کے کچھ نظاموںمیں بعض
مخلوق کا عمل دخل ہے جن میں ان کے اثر سے تبدیلی واقع ہوتی ہے ۔ کچھ لوگوں کا یہ
عقیدہ بھی ہے کہ بعض مخلوق کو رزق کے اختیارات حاصل ہیں کہ وہ جس پر چاہیں اس کا
دروازہ کھول دیں اورجس سے چاہیں روک لیں ۔کچھ لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرآن کریم
تحریف کا شکار ہوچکا ہے یا وہ ناقص ہے یا اس کی بعض آیات کسی سبب سے چھپا لی گئی
ہیں ۔
کچھ لوگ یہ عقیدہ
رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی کے احکام وفرامین اس زمانے کے لیے موزوں نہیں، ایک زمانہ
پہلے کے لوگوں کے لیے مناسب رہے ہوں گے ،اب یہ قصہ پارینہ بن چکے ہیں ، کچھ لوگ
کفارکی دوستی اختیار کرتے ہیں اورمسلمانوں کے خلاف ان کی مدد کرتے ہیں ۔بلکہ تمنا
کرتے ہیں خواہ دل ہی دل سہی ،کہ مسلمانوں پران کو غلبہ حاصل ہوجائے اورحجت یہ پیش کرتے ہیں کہ
وہ علم والے اور امانت دار ہیں ۔ یہ سب شرک اورکھلی گمراہی ہے جس کی اللہ نے کوئی
دلیل نہیں اتاری ہے ۔
غرضیکہ عقیدہ کو
ہرطرح کی آلائشوں سے پاک وصاف رکھنا ہر مسلمان کی واجبی ذمہ داری ہے ، یہ امت اس
وقت تک فتحیاب نہیں ہوسکتی اوراس کا پرچم بلند نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کا عقیدہ
صحیح اورسالم نہ ہو اورہم جس چیز کے ذریعہ اپنے عقیدہ کی حفاظت کرسکتے ہیں وہ ان
احکام کی تابعداری ہے جو اللہ نے ہماری طر ف اتاری ہے ،انہیں کو مضبوطی سے تھامنے
سے ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت مل سکتی ہے جسے اللہ نے ہمارے لیے پسند فرمایاہے ۔
لہذا جوشخص اپنے عقیدہ کی اصلاح کرنا چاہتا ہو اسے چاہیے کہ اللہ کی کتاب اور سنت
صحیحہ کولازم پکڑے اور سلف صالحین یعنی صحابہ وتابعین اوران کے نقش قدم پر چلنے
والوں کے منہج کو اپنائے ۔ نیز اہل ھوی
کی طرف چنداں التفات نہ کرے جنہوں نے مال کے حرص اورمنصب کی لالچ میں خودکو زمین
پر اللہ کا خلیفہ نصب کررکھاہے اورخالق اورمخلوق کے بیچ واسطہ بن بیٹھے ہیں۔ اللہ
تعالی نے فرمایا:
وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا
وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا ﴿67﴾ رَبَّنَا آتِهِمْ
ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيرًا ﴿68﴾
(الأحزاب )
اور کہیں گے
"اے رب ہمارے، ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے
ہمیں راہِ راست سے بے راہ کر دیا (67) اے رب، ان کو دوہرا عذاب دے اور ان پر سخت
لعنت کر" (68)
عمل صالح کے ذریعہ
اللہ کی قربت حاصل کرنا جس کی طرف اللہ نے اپنی کتاب میں رہنمائی فرمائی ہے اوران چیزوں سے رک جانا جن سے
اللہ نے ہمیں منع کیا ہے، اس سے لوگوں کے احوال درست ہوتے ہیں انہیں اپنے خالق کی
قربت حاصل ہوتی ہے بلکہ اسی سے توحید اورایمان کا اثبات ہوتا ہے اوریہ اسلامی
عقیدے کا امین وپاسبان ہے ۔
اللہ
کا اپنی ذات کی حمدوثنااوراپنی ذات سے ہر
عیب کی نفی
سب سے بہتر چیز جس
سے ہم اس کتاب کا آغاز کرتے ہیں وہ اللہ کی حمدوثنااوراس کی تعریف وتوصیف ہے اورسب
سے بہتر تعریف خود اس کا اپنی ذات کی تعریف کرنا ہے پھر اس کی ذات کے متعلق
فرشتوں، نبیوں اور اللہ کے نیک بندوں کی تعریف کا درجہ آتا ہے ۔
امام مسلم رحمہ
اللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے عثمان بن ابی شیبہ اوراسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا
(اسحاق نے
أخبرنا
اورعثمان نے
حدثنا
کے لفظ سے) بیان کیا کہ مجھ سے جریر نے بیان کیا ،جریرنے کہا کہ مجھ سے اعمش نے
بیان کیا ،اعمش نے کہا کہ مجھ سے ابووائل نے بیان کیا ،ابووائل نے کہاکہ مجھ سے
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:
لیس أحد أحب الیہ المدح من اللہ ، من أجل ذلک
مدح نفسہ ، ولیس أحد أغیرمن اللہ من أجل ذلک حرم الفواحش۔
”کسی کو اپنی تعریف
کرنا اتنا پسند نہیں ہے جتنا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے ( کیونکہ وہ تعریف کے لائق ہے
اور سب میں عیب موجود ہے) اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی خود تعریف کی۔ اور اللہ
سے زیادہ غیرت مند کوئی نہیں ہے ،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فواحش کو حرام قرار دیا
ہے۔ “
توحید
باری تعالی اور عبادت ودعامیں اسے یکتا ماننا
دعا اللہ ہی سے مانگی جاسکتی ہے اورعبادت محض
اللہ ہی کی ہوسکتی ہے ،اور تمام انبیاءنے اپنی قوموں کو عبادت میں اللہ تعالی کو
ایک جاننے کی طرف دعوت دی اور عبادت ہویا دعاہویا پناہ حاصل کرنا ، یہ سب اللہ کے
علاوہ کسی اورسے جائز نہیں ہے ۔
سیدناابوہریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
” اللہ تعالی فرماتا
ہے : آد م کی اولادنے مجھے جھٹلایاحالانکہ اس کے لیے ایسا کرنا مناسب نہیں تھا
،آدم کی اولادنے مجھے گالی دی حالانکہ اس کے لیے ایسا کرنا مناسب نہیں تھا ،اس کا
مجھے جھٹلانایہ ہے کہ وہ کہتا ہے : میں اسے دوبارہ اپنے پاس لوٹا نہیں سکتا جیسا
کہ میں نے اسے پیدا کیا ہے،اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے :اللہ نے
اپنا بیٹا بنایا ہے حالانکہ میں بے نیاز ہوں نہ کسی کو جنم دیا ہوں اورنہ کسی سے
جنم لیا ہوں اورمیرا ہمسرکوئی نہیں ہے “۔
(اس
حدیث کو امام بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے)
امام ابن قیم رحمہ
اللہ کلمہ توحید لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے متعلق فرماتے ہیں:
”اسی
کی خاطر میزان نصب کیا گیا،نامہ اعمال تیار کیے گئے ، جنت اورجہنم کا بازار قائم
کیا گیا ،اسی کے ذریعہ مخلوق مومن
اورکافر ،نیک اوربد دو حصوںمیں منقسم ہوئی اورملت قائم ہوئی، اسی کی خاطرجہاد کے
لیے تلواریں بے نیام ہوئیں،توحید تمام بندوں پر اللہ کا سب سے بڑا حق ہے “۔
جس نے دعا اور
عبادت میں اللہ کے علاوہ کسی کوشریک ٹھہرایا، چاہے کوئی بھی ہو اوریہ عقیدہ رکھا
کہ فلاں ولی اللہ کے ساتھ نفع پہنچا نے اورنقصان کو دورکرنے کا اختیار رکھتا ہے تو
اس نے اسلام کے دائرے سے خارج کرنے والے امورمیں سے ایک امر کا ارتکاب کیا ۔
شرک
اوراس کے اسباب پر تنبیہ
جس کسی نے اللہ کے
ساتھ کسی غیر کو دعا اورعبادت میں شریک ٹھہرایا چاہے وہ کوئی بھی ہو اوراللہ کے
پاس اس کا رتبہ کتنابھی بڑا ہو اس کا عمل اس کے چہرے پر مار دیاجائے گا ۔اوراللہ
تعالی مشرک کے گناہوں کو معاف نہیں کرسکتا گوکہ ہمیشہ رات میں شب بیداری کرتا
اوردن میں روزے رکھتاہو ۔ اس میں اس بات کی بھی وضاحت ہے کہ سارے انبیاءکی دعوت
شرک کی تردید اور خالص ایک اللہ کے لیے عبادت کے جملہ اقسام کو خاص کرنے کی طرف
تھی ۔
شرک یہ ہے کہ بندہ
وہ اعمال جواللہ کے لیے خاص ہیں اوراللہ کے ماسوا کوئی غیران کا مستحق نہیں جیسے
عبادت ، دعا ،فیصلہ اور حکم مانناوغیرہ انہیں کسی غیر کے لیے انجام دے۔
سیدنا انس بن مالک
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
”اللہ تعالی اس شخص سے (مخاطب ہوکر)کہے گا جسے بروز
قیامت سب سے ہلکا عذاب دیاجائے گا : اگرزمین کی ساری چیزیں تیرے لیے ہوجائیں توکیا
تو اس عذاب سے بچنے کے لیے اسے فدیہ میں دے دے گا ،وہ کہے گا : ہاں یارب،(یہ سن کر
) اللہ تعالی فرمائے گا: ”میں نے تم سے اس سے بھی آسان کام کا مطالبہ کیاتھا جبکہ
تو آدم کے صلب میں تھا کہ میرے ساتھ کسی کو شریک مت بنانا ،لیکن تو نے میرے ساتھ
شرک کرنے پر اصرار کیا ۔ “(بخاری ومسلم )
جس نے اللہ کے ساتھ
کسی غیر کو عبادت یا دعا میں شریک ٹھہرایا،اس نے اسلام کے دائرہ سے نکال دینے والے
امور میں سے ایک امر کا ارتکاب کیا ۔
آسمان
وزمین کی کنجیاں ،جملہ امورکی تدبیر ،اورعلم غیب محض اللہ کے ہاتھ میں ہے
آسمان وزمین کی
کنجیاں اللہ کے ہاتھ میں ہیں ،وہی تنہا کائنات پر تصرف کررہا ہے ، چھوٹے بڑے
،ظاہری وباطنی سارے امورکی تدبیر وہی کررہا ہے ،اورکائنات کی تخلیق میں نیزحیوانات ونباتات
کوعدم سے وجودمیں لانے میں اس کا کوئی معاون اوردست راست نہیں ۔
اللہ تعالی کو
مشیئت کاملہ حاصل ہے ،زمین اورآسمان میں کوئی بھی چیز اس کے علم، اس کی قدرت اوراس
کی مشیئت کے بغیرواقع نہیں ہوتی ۔ کائنات میں جو امورپیدا ہورہے ہیں اورجو کائناتی
تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں ،انہیں وہی جانتا ہے اورجیسے چاہتا ہے ان میں تصرف کرتا
ہے اوران کے پیچھے اس کی حکمت بالغہ پوشیدہ ہے ۔
وہی غیب کا علم
رکھتا ہے ،وہ ظاہر اورپوشیدہ سب کو جانتا ہے ،وہ ماکا ن ومایکون کی خبر رکھتا ہے ،جو ہوا، جو ہورہاہے ،جو ہونے والاہے،جو
نہیں ہوا، اگرہوگاتو کیسے ہوگا؟ وہ ان سارے امورکا علم رکھتا ہے ۔
سیدنا ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ عزوجل
فرماتا ہے :
یو ذینی ابن آدم
یسب الدھر وأنا الدھر بیدی الأ مر، أ قلب اللیل والنھار (رواہ البخاری
)
”اولادِآدم مجھے اذیت پہنچاتی ہے ،زمانے کو گالی دیتی
ہے حالانکہ زمانہ میں ہی ہوں ،میرے ہاتھ میں سارا معاملہ ہے،رات ودن کو الٹ پھیر
کرتا ہوں۔ “ (بخاری )
امورِکائنات کی
تدبیر کا حق اللہ کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں چاہے وہ کوئی بھی ہو ،اس کائنات میں
اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا ،اگرکوئی یہ عقیدہ رکھے کہ بعض ایسے
اولیاءہیں جن کو کائنات کے امورمیں تصرف کرنے کا حق حاصل ہے مثلاً بارش
برسانا،زلزے اور آتش فشانی برپا کرنا ،وغیرہ تواس نے اسلام سے خارج کردینے والے
امورمیں سے ایک امر کا ارتکاب کیا ۔
مغفرت
اور شفاعت
گناہوں کی معافی
اللہ کے ہاتھ میں ہے اور کسی کو اللہ کی اجازت کے بغیر شفاعت کا حق حاصل نہیں چاہے
وہ صلاح وتقوی اور قربت الہی میں اعلی مقام کیوں نہ رکھتا ہو۔اللہ کے علاوہ کوئی
گناہوں کو معاف نہیں کرسکتا ،اورگناہوں کی معافی کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے چاہے
تو اپنے فضل وکرم سے بخش دے اورچاہے تو انصاف کے تقاضا کے تحت سزادے ۔
سارے انبیاءعلیہم
السلام نے اپنی قوموں کو اس بات کی طرف بلایا کہ اللہ سے ہی اپنے گناہوں کی معافی
مانگیں ،اورصبح وشام بغیر کسی واسطہ اور ذریعہ کے براہ راست اسی سے مغفرت اور عفو
کے خواستگار ہوں۔
شفاعت اللہ کے ہاتھ میں ہے اپنے بندوںميں سے جس
پر چاہتا ہے انعام فرماتا ہے جیسے فرشتے ،انبیاءاور نیک بندے ۔ اوربروزقیامت کسی
کو کسی کے لیے شفاعت کا مطلقاً کوئی حق حاصل نہیں ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالی
اسے سفارش کی اجازت دے دے ،حتی کہ انبیاءعلیہم السلام بھی اسی وقت سفارش کرسکیں گے
جب ان کو سفارش کرنے کی اجازت ملے گی ۔
سیدنا انس بن مالک
رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالی فرماتا ہے : اے اولادِ آدم ! جب تک تو
مجھے پکارتا رہے گا اورمجھ سے ہی آس لگائے رکھے گا میں تیرے گناہوں کو معاف کرتا
رہوں گا اورمجھے ان گناہوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ اے ابن آدم ! اگر تیرے گناہوں
کا (ڈھیر) آسمان کے بادلوں کو چھونے لگے پھر تم مجھ سے بخشش مانگے تومیں تجھے بخش
دوں گا ۔اے ابن آدم ! اگر توساری زمین خطاؤں سے بھر کر اس حال میں میرے دربار میں
آجائے کہ تونے میرے ساتھ میں کسی کو شریک نہیں ٹھہرایاتو میں زمین بھر بخشش کے
ساتھ تیرا استقبال کروں گا ۔“
( اس
حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا اورکہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے
)
امام بخاری رحمة
اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں یہ حدیث روایت
کی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:
”حضرت ابراہیم علیہ السلام قیامت کے دن اپنے باپ آزر
کو اس حال میں دیکھیں گے کہ اس کے منہ پر سیاہی اور گرد و غبار جما ہو گا،چنانچہ
حضرت ابراہیم علیہ السلام کہیں گے:”میں نے دنیا میں تمہیں کہا نہیں تھا کہ میری
نافرمانی نہ کرو؟“ آزر کہے گا:”ٹھیک ہے! آج میں تمہاری نافرمانی نہیں کرو ں گا۔“
حضرت ابراہیم علیہ السلام (اپنے رب سے درخواست کریں گے) ”اے میرے رب ! تو نے مجھ
سے وعدہ کیا تھا کہ تجھے قیامت کے روز رسوا نہیں کروں گا ،لیکن اس سے زیادہ رسوائی اور کیا ہو گی کہ
میرا باپ تیری رحمت سے محروم ہے۔“ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا:"میں نے جنت
کافروں پر حرام کر دی ہے۔" پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا "اے
ابراہیم!تمہارے دونوں پاؤں کے نیچے کیا ہے؟”حضرت ابراہیم علیہ السلام دیکھیں گے کہ
غلاظت میں لت پت ایک بجو ہے جسے (فرشتے) پاؤں سے پکڑ کر جہنم میں ڈال دیں گے۔“
جس نے کسی مردے سے
یا کسی ولی سے یاکسی بھی غیراللہ سے مغفرت یا شفاعت طلب کی تو اس نے اسلام سے خارج
کردینے والے امورمیں سے ایک امر کا ارتکاب کیا ۔
رزق
صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے
رزق صرف اللہ کے
ہاتھ میں ہے اور آسمان وزمین کے خزانوں کا مالک صرف وہی ہے ، مخلوق کو ‘چاہے کوئی
بھی ہو‘ بندوں کے درمیان تقسیم ِرزق کا وکیل نہیں بنایا گیا ،اورطلب رزق کے لیے
کوشش اورمحنت کرنا توکل کے منافی نہیں
،اللہ تعالی جسے چاہتا ہے ،جیسے چاہتا ہے ، جتنا چاہتا ہے اورجب چاہتا ہے رزق دیتا
ہے ،اللہ تعالی ہی روزی دینے والاہے ، اسی نے بندوں کے بیچ رزق کی تقسیم کی ہے، اوررزق‘
مال اوراولاد میں محصور نہیں بلکہ اللہ پر ایمان سب سے بڑا، سب سے اچھا اورکامل
ترین رزق ہے ،اسی طرح عافیت رزق ہے ، عمل صالح رزق ہے ، صلہ رحمی رزق ہے ، بارش
رزق ہے اور پھل رزق ہے ۔
ایک حدیث قدسی میں
اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے :
”جو
چیز تجھے جنت کے قریب کرسکتی ہے اس کا میں نے تجھے حکم دے دیا ہے ،اورجو چیزتجھے
جہنم کے قریب کرسکتی ہے اس سے میں نے روک دیاہے ۔ یقینا روح القدس نے میرے دل میں
یہ بات ڈالی ہے کہ کوئی بھی جان اس وقت تک فوت نہیں ہوگا جب تک کہ وہ اپنی روزی
پوری نہ کرلے ،اورسارا رزق کھا نہ لے ، تو تم اللہ کا تقوی اختیار کرتے ہوئے روزی
کا حصول اچھی طرح کرو، اورتم میں سے کسی کو روزی کا لیٹ اورکم ہوجانا اس بات پر نہ
ابھارے کہ تم اللہ کی نافرمانی کرکے روزی حاصل کرنے لگو ، کیونکہ جو کچھ اللہ کے
پاس ہے وہ اللہ تعالی کی اطاعت اورفرمانبرداری کے ذریعہ ہی حاصل ہوسکتا ہے ۔
“
(اس حدیث کو امام البانی نے الصحیحة میں بروایت
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کیا ہے
،سند کے رجال ثقہ ہیں اوربخاری ومسلم کے راویوںمیں سے ہیں)
انس بن مالک رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:
”اللہ نے مادررحم پر فرشتے کو مسلط کررکھا ہے ،فرشتہ
کہتا ہے :اے میرے رب ! نطفہ ہوچکا ہے ،اے میرے رب علقہ (گوشت کا لوتھڑا) ہوچکا ہے
،اے میرے رب مضغہ ( بشکل بوٹی ) ہوچکا ہے، جب اللہ تعالی بندے کی تخلیق کا فیصلہ
کرنا چاہتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں : میرے رب مردہوگا یا عورت ہوگی ۔بدبخت ہوگا یا
نیک بخت ہوگا ،رزق کیا ہوگا ، عمر کتنی ہوگی ۔ یہ سب اس وقت لکھ دیاجاتا ہے جبکہ
وہ شکم مادرمیں ہوتا ہے ۔“
(اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح
میں بروایت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کیا ہے )
جس نے یہ عقیدہ
رکھا کہ اللہ کے علاوہ کسی غیر کی نوازش سے رزق آتا ہے یا رزق کی تقسیم میں کسی
مخلوق کا دخل ہے تو اس نے ایسے عمل کا ارتکاب کیاجس سے انسان دائرہ اسلام سے خارج
ہوجاتا ہے ۔
قرآن
کریم کلام الہی ہے اورمنزل من اللہ ہے اور ہرطرح کی تحریف وتغیر سےمحفوظ ہے
قرآن کریم اللہ کی
جانب سے نازل شدہ ہے ،ہر طرح کی تحریف وتبدیلی اورزیادتی وکمی سے پاک ہے ،یہ بالکل
محفوظ کتاب ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ نے لے رکھی ہے ،باطل نہ سامنے سے
اس پر آ سکتا ہے نہ پیچھے سے، یہ ایک حکیم و حمید کی نازل کردہ کتاب ہے، قرآن کریم
میں جو احکامات وارد ہوئے ہیں اورخبریں آئی ہیں وہ سب برحق ہیں ۔
قرآن کریم کلام
الہی اور وحی ہے جسے اللہ نے اپنے خاتم النبیین محمد ﷺپر نازل کیا ،مصحف میں
لکھاہوا ہے ،تواترکے ساتھ ہم تک پہنچا ہے ،جس کی تلاوت عبادت کی نیت سے کی جاتی ہے
اوربشکل معجزہ ایک چیلنج ہے “۔
اللہ تعالی نے فضول
کاروں کے کھلواڑ اور مکاروں کے مکر وفریب سے اس کی حفاظت وصیانت کی ضمانت لی
ہے،قرآن کریم آسمانی کتابوںمیں سب سے آخری کتا ب ہے ، اس سے پہلے کی کتابوں کی
تصدیق کرنے والی ہے اوران پر محافظ اورنگہبان ہے،اور قرآن میں وہ ساری تعلیمات
موجود ہیں جن میں انسانوں کی خیر وبھلائی پائی جاتی ہے ۔
سیدنا جابر رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
” قرآن کریم سفارشی
ہے اور اس کی سفارش قبول کی جانے والی ہے ،وہ گواہ ہے اورتصدیق کرنے والا ہے،جس نے
اس کو اپنے سامنے رکھا وہ اسے جنت کی طرف لے جائے گا اورجس نے اسے پیچھے کیا وہ
اسے جہنم کی طرف لے جائے گا “۔
( اس
حدیث کو امام بیہقی اورطبرانی وغیرہ نے روایت کیا ہے اورعلامہ البانی نے اسے صحیح
کہا ہے )
قرآن کریم کے فضائل
بیشمار اور لامحدودہیں، سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : انَّ
لِلّٰہِ اَهلِینَ مِنَ النَّاسِ ” بے شک لوگوں میں سے کچھ لوگ اللہ تعالی کے
خاص بندے ہیں ۔“ صحابہ كرام نے کہا : اللہ کے رسول ! وہ کون ہیں ؟ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا : هم اَهلُ
القُرآنِ اَهلُ اللّٰہِ وَخَاصَّتُہُ ” قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والے اللہ
تعالی کے دوست اور اس کے خاص بندے ہیں ۔“
( صحیح الجامع 2165)
اورسیدنا ابوامامہ
الباہلی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : اِقرَوُا القُرآنَ فَاِنَّہُ یَا تِی
یَومَ القِیَامَةِ شَفِیعًا لِأَصحَابِہ
(
صحیح مسلم : 1337)
” تم قرآن پڑھتے رہا کرو کیونکہ یہ قیامت کے دن اپنے
پڑھنے والوں ( اور اس پرعمل کرنے والوں ) کیلئے شفاعت کرے گا ۔
“
اورابوہریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مااجتمع قوم فی بیت
من بیوت اللہ یتلون کتاب اللہ ویتدارسونہ فیما بینھم الا نزلت علیھم السکینة
وغشیتھم الرحمة وحفتھم الملائکة وذکرھم اللہ فیمن عندہ ( صحیح مسلم
)
”جو
لوگ اللہ کے گھروںمیں سے کسی گھر میں اکٹھا ہوتے ہیں ،کتاب الہی کی تلاوت کرتے ہیں
اورآپس میں اسے سنتے سناتے ہیں تو ان پر سکینت اترتی ہے ،رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے
، اوراللہ تعالی اپنے قریبی فرشتوں کے پاس ان کا ذکر کرتا ہے “۔ (صحیح مسلم
)
جس نے اس بات کا
عقید ہ رکھا کہ قرآن کریم ناقص ہے یا وہ تحریف کا شکار ہوچکا ہے یا قرآن کا کوئی
متبادل پایا جاتا ہے تو اس نے ایسے عمل کا ارتکاب کیاجس سے انسان دائرہ اسلام سے
خارج ہوجاتا ہے ۔
قرآن
کریم میں دعا اللہ تعالی کے لیے خالص ہے
قرآن کریم میں وارد
دعاخالص اللہ وحدہ لاشریک لہ کا حق ہے،اورقرآن کریم میں واردشدہ تمام دعائیں جو
انبیاءنے یا اللہ کے نیک بندوں نے مانگیں شرک سے خالی تھیں اوران میں براہ راست
اللہ سے دعا کی گئی تھی ۔اس طرح
اللہ تعالی سے دعا بغیر کسی واسطے کے براہ راست ہونی چاہیے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
ینزل ربنا تبارک
وتعالی کل لیلة الی السماءالدنیا حین یبقی ثلث اللیل الآخر یقول : من یدعونی فأستجیب
لہ ، من یسألنی فأعطیہ ، من یستغفرنی فأغفرلہ (رواہ البخاری ومسلم)
”ہمارا
رب تبارک وتعالی ہرشب سہہ پہر میں سمائے دنیا پر نزول فرماتا ہے اورکہتا ہے : کون
ہے جو مجھے پکارے میں اس کی پکار قبول کروں، کون ہے جومجھ سے سوال کرے میں اسے عطا
کروں، کون ہے جو مجھ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرے میں اس کے گناہوں کو معاف
کردوں“۔ (بخاری، مسلم)
اس طرح اللہ کے
علاوہ کسی انسان ،فرشتہ ،مردے ،حجر،شجر یا قبر سے ان چیزوں کا سوال کرنا جائز نہیں
جو اللہ کے ساتھ خاص ہيں جیسے روزی دینا اورشفا دینا وغیرہ ۔
لہذا جس نے غیراللہ
کو پکارا اورمردے سے استغاثہ کیا چاہے وہ کوئی بھی ہو اوریہ گمان رکھا کہ وہ اس کی
دعا قبول کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں یا وہ اللہ اوراس کے بیچ میں واسطہ اورذریعہ
ہیں اس نے اسلام سے خارج كردينے والے عمل
کا ارتکاب کیا ۔
فرمانروائی
صرف اللہ تعالیٰ ہی کوحاصل ہے
فرمانروائی محض
اللہ تعالی کے لیے ہے ، اللہ کے نازل کردہ احکام کے ذریعہ فیصلہ کرنا شریعت کى اساس
ہے ، اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے ذریعہ ہی لوگوں کے احوال درست ہو سکتے ہیں ،
اورانبیاءورسل علیہم السلام نے اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ کیا ، اورانسان کو وضعی قوانین جوانسانوں کے بنائے
ہوئے ہیں فائدہ نہیں پہنچاسکتے ۔
شریح بن ھانی اپنے
باپ ہانی سے روایت کرتے ہیں کہ جب ان کے باپ اپنی قوم کے ہمراہ اللہ کے رسول صلى
الله عليہ وسلم کی خدمت میں تشریف لائے
اورقوم کے لوگوں کو سنا کہ انہیں ابوالحکم سے پکار رہے ہیں تو اللہ کے رسول صلى
الله عليہ وسلم نے ان کو بلایا اورکہا : ” اللہ تعالی ہی حکم ہے اورفیصلہ اسی کا
ہے توتم نے کنیت ابوالحکم کیوں رکھی ہے؟‘ ‘۔
انہوں نے کہا : جب
میری قوم کسی معاملے میں اختلاف کربیٹھتی تومیرے پاس آتی میں ان کے بیچ فیصلہ
کردیتا تو فریقین راضی ہوجاتے تھے، اللہ کے رسول صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا:
”کیاہی اچھی بات ہے، تیرے پاس کوئی اولاد ہے؟ انہوں نے کہا : میرے پاس شریح ،مسلم
اورعبداللہ (تین لڑکے ہیں ) ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ان میں بڑالڑکا کون
ہے ؟ میں نے کہا : شریح ،آپ نے فرمایا: ”تم ابوشریح ہو “ ۔
(
اس
حدیث کو امام ابوداؤد اورامام نسائی نے روایت کیا ہے اورعلامہ البانی نے صحیح کہا
ہے )
جس نے شرعی حکم کو
ترک کیا یہ گمان کرتے ہوئے کہ وضعی حکم اللہ کے حکم سے بہتر ہے یا اللہ تعالی کا
حکم موجودہ زمانے کے لیے مناسب نہیں ،تواس نے اسلام سے خارج كردینے والے عمل کا
ارتکاب کیا ۔
ولاءاور
براءاور کفار سے دوستی کا حکم
ولاءکا معنی :جو
لوگ اللہ،اس کے رسول ،صحابہ اورموحدمومنوں سے محبت کرتے ہیں ان سے دلی محبت رکھنا
اور ان کی مدداورنصرت کرنا۔
براءکا مفہوم
:کفارومشرکین، منافقین اورفاسقوںمیں سے جولوگ اللہ، اس کے رسول، صحابہ اورموحد
مومنوں سے بغض رکھتے ہیں ان سے بغض رکھنا اوردل سے ان کو ناپسند کرنا ۔
نعمان بن بشیر ؓ سے
روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”مومنوں کی مثال باہمی محبت ،رحم دلی اور ہمدردی میں
ایک جسم کی طرح ہے جس کا ایک عضو بیمارپڑجائے تو بخار اور بے خوابی کی وجہ سے سارا
جسم پریشان رہتا ہے “۔ (بخاری ومسلم )
کفار سے دوستی رکھنا اورمسلمانوں سے کنارہ کشی
اختیار کرنا جائز نہیں ،کیونکہ کفارکسی مومن کے معاملہ میں نہ قرابت کا پاس رکھتے
ہیں اور نہ کسی عہد کی ذمہ داری کالحاظ رکھتے ہیں،ان کی ہمیشہ یہی خواہش ہوتی ہے
کہ کیسے مسلمانوں کو ان کے دین سے پھیر دیں ۔ اہل ایمان ہی آپس میں ایک دوسرے کے
حقیقی دوست ہوسکتے ہیں، کلمہ توحید اسی وقت صحیح ہوگا جب کہ ایسے شخص سے دوستی کی
جائے جو دوستی کا مستحق ہے اورایسے شخص سے دشمنی کی جائے جو دشمنی کا مستحق ہے ۔
جس نے کسی کافرسے کسی مسلمان کے خلاف دوستی کی اوراسے حلال سمجھا اس نے دائرہ
اسلام سے خارج کردینے والے عمل کا ارتکاب کیا ۔
واجبات
اور مستحبات سے متعلقہ فضائل اعمال
اللہ تعالی نے
انبياء ورسل اورمومن بندوں کو گفتاروکردار کے فضائل كى ترغيب دى ہے،نيز خیروبھلائی
کے کاموں،اورہر اس کام پر ابھارا ہے جس سے دنیااورآخرت میں انسان کو نفع اورفائدہ
حاصل ہو، اور واقعہ يہ ہے كہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کےاسوه حسنہ کی روشنی میں
اعمال صالحہ کی انجام دہی ایک ایسا مضبوط قلعہ ہے جس سے خالص عقیدے کی حفاظت ہوتی
ہے ۔
اللہ کے رسول صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بادروا بالأعمال الصالحة فتناً کقطع اللیل
المظلم، یصبح الرجل مومنا ویمسی کافراً ویمسی مومنا ویصبح کافرا،یبیع دینہ بعرض من
الدنیا (رواہ مسلم )
”نیک اعمال کی انجام دہی میں جلدی کرو، ایسے فتنوں کے
پیدا ہونے سے پہلے جو اندھیری رات کے ٹکڑوں کے مانندظاہر ہوں گے جن میں ایک آدمی
صبح میں مومن ہوگا اورشام میں کافرہوجائے گا ، شام میں مومن ہوگا اورصبح میں کافر
ہوجائے گا ،اپنے دین کو دنیا کے چند سکوں کے عوض بیچ دے گا “۔ (صحیح مسلم
)
انفاق
فی سبیل اللہ اورصدقہ کی ترغیب
صدقات وخیرات ان
اعمال صالحہ میں سے ایک ہیں جن کی شارع نے ترغیب دلائی ہے،اورخرچ کرنے والوں کے
لیے بے پناہ اجروثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چنانچہ اسکی اسی
اہمیت وفضیلت، باہمی کفالت کے ہمہ گیر اثرات اور گناہوں کی مغفرت کا موجب ہونے کی
بنیادپر ہم نے اسے ایک مستقل باب میں جگہ دی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آیا اورعرض کیا : اے اللہ
کے رسول ! کونسا صدقہ زیادہ اجروثواب کا باعث ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
ان تصدق وانت صحیح
شحیح، تخشی الفقر وتامل الغنی ولاتمھل حتی اذا بلغت الحلقوم قلت : لفلان کذا وفلان
کذا وقدکان لفلان (متفق علیہ )
" ایسی حالت میں صدقہ کرو کہ تم تندرست
اورصحتمند
ہو، مال کی حرص رکھتے ہو، فقروفاقہ کا ڈر ہو اور مالداری کی خواہش ہو، اور تم دیر
نہ کرو حتی کہ جب جان حلق میں اٹک جائے تو کہنے لگو: اتنا فلاں کودے دو اور اتنا
فلاں کو ، حالانکہ وہ فلاں کا ہوچکا" (بخاری ومسلم)
اللہ تعالی نے فرمایا:
برے
گفتاروکردار سے مومنوں کوباز رہنے كا حكم
سیدناابوہریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: مانھیتکم
عنہ، فاجتنبوہ وما أمرتکم بہ فأتوا منہ مااستطعتم ، فانما أھلک الذین من قبلکم
کثرة مسائلھم واختلافھم علی أنبیاءھم (رواہ البخاری ومسلم)
”میں نے تم کو جس کام سے روک دیا ہے اس سے بچو، اورجس
کام کا حکم دیاہے اپنی استطاعت کے مطابق اسے انجام دو، کیونکہ تم سے پہلے لوگ
بکثرت سوال کرنے اوراپنے انبیاءپراختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے ۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ایک
دوسرے سے حسد نہ کرو اور خرید وفروخت کے معاملے میں بڑھ چڑھ کربولی نہ لگاؤ، آپس
میں بغض وعناد نہ رکھو ، نااتفاقی اور بے رخی اختیار نہ کرو،
تم میں سے کوئی دوسرے کے خرید وفروخت میں کوئی دخل نہ دے ، اور اپنا معاملہ نہ
کرے، اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو، یاد رکھو مسلمان باہم بھائی
بھائی ہوتے ہیں ، کوئی ایک دوسرے پر ظلم نہ کرے، اپنے بھائی کو بے یار ومددگار نہ
چھوڑے اس سے کوئی جھوٹی بات نہ کرے ، اپنے بھائی کو حقیر اور کمتر نہ جانے ، پھر
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینہ مبارک کی طرف تین بار اشارہ کرتے ہوئے بیان
فرمایاکہ تقوی تو یہاں ہے ، برا ہونے کے لیے بس اتنی سی بات ہی کافی ہے کہ کوئی
بھی آدمی اپنے مسلمان بھائی کو حقیر خیال کرے ، مسلمانوں کی جان ومال اور عزت
وآبرو ایک دوسرے کے لیے حرام ہے “۔ ( مسلم )
کسی
متعین کی تکفیر
کسی متعین شخص کی
تکفیر علماءکا کام ہے ،کسی کو کافر قرار دینا اور ملت سے خارج کرنانہایت خطرناک
معاملہ ہے ،کسی شخص کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ اسے دائرہ اسلام سے خارج کردے اوراس
پر کفرکا حکم لگائے ،تاہم اسے نصیحت کی جائے گی ،اس کے سامنے حق بیان کیاجائے گا ،
اس کے سامنے دلائل واضح کئے جائیں گے
،شبہات دورکئے جائیں گے ،اگر وہ حق کو قبول کرکے توبہ کرلیتا ہے تواللہ تعالی توبہ
کرنے والے کی توبہ قبول کرتا ہے ،البتہ اگر وہ اپنے کفر اورشرک پر مصر ہے اوراپنی
ضلالت وگمراہی جاری رکھتا ہے تواس کا معاملہ حاکم یااس کے نائب کے سرہے ۔
اوراگر کسی مسلمان
کا عقیدہ ہرطرح کے خلل سے پاک وصاف ہے تو وہ موحد مسلم ہے ،اب اس سے محبت کرنا،اس
کی نصرت واعانت کرنا اورنیکی اورتقوی کے کام میں اس کا تعاون کرنا ، اور اچھے
طریقے سے اسے نصیحت کرنا ضروری ہے ۔اگر کوئی ایسا حکم پیش کرے جو مسلمانوں کی
جماعت کے خلاف ہو جس میں کتاب وسنت کی دلیل اورحجت پائی جاتی ہو ایسی صورت میں بھی
اس سے دشمنی کرنا اور اسے بدنام کرنا حرام ہے ۔ ہاں اگر کوئی بدعت ایجاد کی اوراسے
عوام الناس میں فروغ دینے کی کوشش کررہا ہے تو یہاں پر اسے ڈرانا اور اس سے لوگوں کو
متنبہ کرنا ضروری ہے ۔
اگر مسلمانوں کا
کسی اجتہادی مسئلہ میں اختلاف ہوجائے تو مناسب نہیں کہ ایک دوسرے کو ’فاسق ‘،
’بدعتی ‘ اورصحیح منہج سے منحرف ‘ ہونے کا طعنہ دیں اورعوام الناس کے بیچ ایک
دوسرے پر الزام تراشیاں شروع کردیں ، بلکہ ان پر واجب ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کی
خیرخواہی کریں ، واضح دلائل کے ذریعہ شبہات کا ازالہ کریں اور باطل دلائل کی تردید
کرکے حق کو بیان کرنے کی بھرپور کوشش کریں :
سیدنا عبداللہ بن
عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أیمارجل
قال لأخیہ : یاکافر ، فقد باءبھا أحدھما
”جس نے اپنے کسی بھائی سے’اے کافر ‘ کہا تو ان
میں سے کوئی ایک کافرہوگیا ۔ ( صحیح بخاری بروایت عبداللہ بن عمر
)
اوراللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر ( بخاری )
” کسی مسلمان کو
گالی دینا فسق ہے اوراس سے قتال کرنا کفر ہے “ ۔(صحيح بخارى)
حضرت ابن عمر رضی
اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ویلکم أو ویحکم لاترجعوا بعدی کفاراً یضرب
بعضکم رقاب بعض (متفق علیہ)
”تیری
ہلاکت ہو، میرے بعد کافروں کے جیسے مت ہوجانا کہ تم ایک دوسرے کی گردن قلم کرنے
لگو “ ۔ (بخاری ومسلم )
اے اللہ ! ہمیں حق
کو حق دکھلادے اوراس کی اتباع کرنے کی توفیق عنایت فرمایااورباطل کو باطل دکھلادے
اوراس سے بچنے کی توفیق عنایت فرما۔
0 تبصرہ:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔