0
سیرت
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس مبارک بزم میں میں اپنی بات شروع کروں گا ایک
تبصرہ سے ، تبصرہ سنئیے :
”آپ تاریخ کے ایک منفرد انسان ہیں جو آخری حالت تک کامیاب رہے ،مذہبی سطح پر بھی اوردنیاوی سطح پر بھی ….“
یہ
تبصرہ ایک عیسائی سائنس داں کا ہے، جو مسلمان نہیں غیرمسلم ہے، جس کا نام ہے ڈاکٹر
مائیکل ایچ ہارٹ ….اس نے اپنی کتاب The 100 میں انسانی زندگی پر اثر ڈالنے والے
دنیا کے سو لوگوں کا ذکر کیا ہے، اوراُن میں پہلے نمبر پر جس عظیم انسان کو رکھا
ہے اُنہیں کے بارے میں یہ تبصرہ ہے ۔
کون ہیں وہ ….جن کو ایک عیسائی ….دنیا کا سب سے عظیم انسان مانتا ہے….؟ ان کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے …. یہ وہ انسان ہیں جن کے جیسے زمین پر کوئی پیدا نہ ہوا، تئیس سال کی مدت میں پورے عرب کو بدل کررکھ دیا ،جن کی دعوت دنیا کے کونے کونے تک پہنچی ، پہنچ رہی ہےاورپہنچتی رہے گی ۔ آئیے ہم اس عظیم انسان کو جانتے ہیں ۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم 20 اپریل571 عیسوی میں عرب کے شہر مکہ میں پیدا ہوئے ، پیدا ہونے سے پہلے باپ مرچکے تھے ،چھ سال کے ہوئے تو ماں بھی چل بسیں ،آٹھ سال کے ہوئے تو داد ا کا سایہ بھی سر سے اُٹھ گیا،جس کی وجہ سے پڑھ لکھ نہ سکے ،لیکن بچپن سے ہی اچھی طبیعت کے مالک تھے ، بُرائیوں سے آپ کو نفرت تھی، اچھے کام سے پیار تھا، اِسی لیے لوگوں نے آپ کو صادق "سچا" اورامين "امانت دار" کا لقب دے رکھا تھا ۔
چالیس سال کے ہوئے تو جبریل علیہ السلام کے ذریعہ اللہ نے آپ صلى الله عليه وسلم پر قرآن اُتارا ۔ آپ نے لوگوں کو جب ایک اللہ کی طرف بلایا تو سماج والے آپ کے دشمن ہوگئے ،گالیاں دیں ، پتھرمارا، راستے میں کانٹیں بچھائیں، آپ پر ایمان لانے والوں کو ایک دن اوردو دن نہیں بلکہ لگاتار تیرہ سال تک بھیانک تکلیفیں دیں، یہاں تک کہ انہیں اپنے وطن سے نکالا، مدینہ میں پناہ لیا، پھر بھی دشمنوں کی دشمنی میں کمی نہ آئی، آٹھ سال تک اُن کے خلاف لڑائی ٹھانے رہے، لیکن آپ نے اُن سارى تکلیفوں کو برداشت کیا، حالانکہ قوم کے لوگ آپ کو اپنا بادشاہ بنا لینے کو تیار تھے، دولت کے ڈھیر اُن کے قدموں میں ڈالنے کے لیے تیار تھے، شرط یہ تھی کہ وہ لوگوں کو ایک اللہ کی طرف بُلانا چھوڑ دیں ۔
پھرایک دن وہ بھی آیا کہ آپ اپنے وطن پر قبضہ کرچکے تھے، جہاں سے آپ کو نکالا گیا تھا، سار ے دشمن آپ کے قبضہ میں تھے، اگر آپ چاہتے تو ہر ایک سے ایک ایک کرکے بدلہ لے سکتے تھے ، لیکن قربان جائیے نبی رحمت صلى الله عليه وسلم پر کہ آپ نے سب کی معافی کا عام اعلان کردیا…. جانتے ہیں اِس عام معافی کا اثر کیا ہوا ؟ لوگ سوچنے پر مجبورہوئے کہ جس انسان کو ہم نے اکیس سال تک ستایا ، ٹارچرکیا، اورجینا دوبھر کردیا….اگر مال کا لالچی ہوتا ….اگر بادشاہت کی چاہت رکھنے والا ہوتا تو کب نا ہمارا صفایا کردیا ہوتا …. وہ مفاد پرست نہیں، وہ ہماراخیرخواہ ہے ۔ اِس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مکہ فتح ہونے کے وقت مسلمانوں کی تعداد دس ہزار تھی تو دو سال کے بعد مسلمانوں کی تعداد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لیے نکلتے ہیں توایک لاکھ اورچوالیس ہزار ہوجارہی ہے ۔
کون ہیں وہ ….جن کو ایک عیسائی ….دنیا کا سب سے عظیم انسان مانتا ہے….؟ ان کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے …. یہ وہ انسان ہیں جن کے جیسے زمین پر کوئی پیدا نہ ہوا، تئیس سال کی مدت میں پورے عرب کو بدل کررکھ دیا ،جن کی دعوت دنیا کے کونے کونے تک پہنچی ، پہنچ رہی ہےاورپہنچتی رہے گی ۔ آئیے ہم اس عظیم انسان کو جانتے ہیں ۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم 20 اپریل571 عیسوی میں عرب کے شہر مکہ میں پیدا ہوئے ، پیدا ہونے سے پہلے باپ مرچکے تھے ،چھ سال کے ہوئے تو ماں بھی چل بسیں ،آٹھ سال کے ہوئے تو داد ا کا سایہ بھی سر سے اُٹھ گیا،جس کی وجہ سے پڑھ لکھ نہ سکے ،لیکن بچپن سے ہی اچھی طبیعت کے مالک تھے ، بُرائیوں سے آپ کو نفرت تھی، اچھے کام سے پیار تھا، اِسی لیے لوگوں نے آپ کو صادق "سچا" اورامين "امانت دار" کا لقب دے رکھا تھا ۔
چالیس سال کے ہوئے تو جبریل علیہ السلام کے ذریعہ اللہ نے آپ صلى الله عليه وسلم پر قرآن اُتارا ۔ آپ نے لوگوں کو جب ایک اللہ کی طرف بلایا تو سماج والے آپ کے دشمن ہوگئے ،گالیاں دیں ، پتھرمارا، راستے میں کانٹیں بچھائیں، آپ پر ایمان لانے والوں کو ایک دن اوردو دن نہیں بلکہ لگاتار تیرہ سال تک بھیانک تکلیفیں دیں، یہاں تک کہ انہیں اپنے وطن سے نکالا، مدینہ میں پناہ لیا، پھر بھی دشمنوں کی دشمنی میں کمی نہ آئی، آٹھ سال تک اُن کے خلاف لڑائی ٹھانے رہے، لیکن آپ نے اُن سارى تکلیفوں کو برداشت کیا، حالانکہ قوم کے لوگ آپ کو اپنا بادشاہ بنا لینے کو تیار تھے، دولت کے ڈھیر اُن کے قدموں میں ڈالنے کے لیے تیار تھے، شرط یہ تھی کہ وہ لوگوں کو ایک اللہ کی طرف بُلانا چھوڑ دیں ۔
پھرایک دن وہ بھی آیا کہ آپ اپنے وطن پر قبضہ کرچکے تھے، جہاں سے آپ کو نکالا گیا تھا، سار ے دشمن آپ کے قبضہ میں تھے، اگر آپ چاہتے تو ہر ایک سے ایک ایک کرکے بدلہ لے سکتے تھے ، لیکن قربان جائیے نبی رحمت صلى الله عليه وسلم پر کہ آپ نے سب کی معافی کا عام اعلان کردیا…. جانتے ہیں اِس عام معافی کا اثر کیا ہوا ؟ لوگ سوچنے پر مجبورہوئے کہ جس انسان کو ہم نے اکیس سال تک ستایا ، ٹارچرکیا، اورجینا دوبھر کردیا….اگر مال کا لالچی ہوتا ….اگر بادشاہت کی چاہت رکھنے والا ہوتا تو کب نا ہمارا صفایا کردیا ہوتا …. وہ مفاد پرست نہیں، وہ ہماراخیرخواہ ہے ۔ اِس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مکہ فتح ہونے کے وقت مسلمانوں کی تعداد دس ہزار تھی تو دو سال کے بعد مسلمانوں کی تعداد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لیے نکلتے ہیں توایک لاکھ اورچوالیس ہزار ہوجارہی ہے ۔
دوستو! بزرگو! اور
ساتھیو! ہردورمیں انسان کیوں گمراہ ہوا ہے؟ اپنے گرووں اورنبیوں کے اندر کچھ
خوبیوں کو دیکھ کر ….اُنہیں اللہ کا درجہ دے دیا ….بھگوان اورگاڈ بنا ڈالا…. ہم
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ آپ کے ہاتھ کے اشارے سے چاند
دوٹکڑے ہوجاتے ہیں ۔ قرآن جیسی معجزانہ کتاب پیش کرتے ہیں حالانکہ آپ پڑھے لکھے
نہیں ہیں، جو خود چیلنج دیتی ہے ساری انسانیت کو …. کہ سارے انسان اورجن مل کراُس
کے جیسا ایک کلام بھی پیش نہیں کرسکتے ۔ اورتاریخ گواہ ہے کہ آج تک انسان قرآن کے
اسلوب میں دوسرا کلام نہ بنا سکا ہے اورنہ صبح قيامت تک بنا سکتا ہے ۔ ذرا
غورکیجئے ….ان واضح معجزات کے ہوتے ہوئے کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حق نہیں تھا
کہ ان کی پوجا کی جاتی ….؟ یا وہ اپنے معبود ہونے کا دعوی کرتے؟ اگر وہ ایسا دعوی
کرتے تو ….وہ دنیا جس نے رام کو ایشور بنادیا، جس نے کرشن کو بھگوان کہنے میں
جھجھک محسوس نہ کیا….جس نے مہاتما بدھ کو عبادت کا حقدار مان لیا، جس نے عیسی علیہ
السلام کو اللہ کا بیٹا مان لیا وہ ایسے عظیم انسان کو ایشور ماننے سے کبھی جھجھک
محسوس نہ کرسکتے تھے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ ایسا دعوی کیسے کر سکتے تھے جبکہ وہ اِسی
کو ختم کرنے کے لیے آئے تھے، ایک اللہ کی طرف بلانے آئے تھے، آپ تو واضح لفظوں میں
کہتے ہیں :
”اے لوگو! میں ایک انسان ہوں، تمہیں جیسا “۔
عزيز
قارى ! یہ ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو ساری انسانیت کے لیے بھیجے گئے، جن کے
آنے کی گواہی ساری مذہبی کتابوں نے دی ،جنہوں نے ایک اللہ کی طرف لوگوں کو بلایا، جنہوں
نے مساوات کی تعلیم دی، اوررنگ ونسل کے بھید بھاؤکو مٹایا، جنہوں نے دنيا كوزندگی
گذارنے کا ایک نظام دیا ،اورجن کی تعلیم کی بنیاد پر ہرزمانے میں ایک پرسکون سماج كى
تشكيل عمل میں آ سكتى ہے ۔
توآئیے اخیرمیں ہم سب عہد کرتے ہیں کہ اپنے نبی کی تعلیم کواپنی آنکھوں کا سرمہ بنائیں گے ۔اورجب تک جان میں جان باقی ہے ان کی عزت کا دفاع کرتے رہیں گے ۔
توآئیے اخیرمیں ہم سب عہد کرتے ہیں کہ اپنے نبی کی تعلیم کواپنی آنکھوں کا سرمہ بنائیں گے ۔اورجب تک جان میں جان باقی ہے ان کی عزت کا دفاع کرتے رہیں گے ۔
0 تبصرہ:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔