بدھ, فروری 06, 2013

ابرص، گنجا اور اندھا كى کہاني


پيارے بچو! آپ کے ابّو امّی کبھی کبھی آپ کو قصے کہانياں ضرور سناتے ہوں گے۔ آئيے آج ہم بھی آپ کو ايک قصہ سناتے ہيں، يہ وہ قصہ ہے جسے پيارے نبی محمد صلي الله عليه وسلم نے ايک دن اپنے ساتھيوں کی مجلس ميں بيان کيا تھا پہلے زمانہ ميں تين آدمی تھے :
1. ابرص:(سفيد داغوں والا، جس کے جسم پرسفيدی ہو)
2. گنجا : (جس کے سرپر بال نہ ہو )
3. اندھا : (جس كوآنكھ سے دكهائي نہ ديتا ہو)
اللہ پاک نے ان تينوں کو آزمانے کا ارادہ فرمايا، چنانچہ اللہ پاک نے ان تينوں کے پاس فرشتہ بھيجا، فرشتہ سب سے پہلے سفيد داغوں والے کے پاس آيا اور اس سے پوچھا : ”تجھے کونسی چيز سب سے زيادہ محبوب ہے ؟ “
اس نے جواب ديا : ” اچھا رنگ خوبصورت جسم اور يہ سفيد داغ مجھ سے دور ہوجائے جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے گھن کھاتے ہيں “
فرشتے نے اس کے سرپر ہاتھ پھيرا تو اللہ کے حکم سے اس کی گھن کھانے والی بيماری دور ہو گئی اور اسے خوبصورت رنگ دے ديا گيا ۔ فرشتے نے اس سے پھر پوچھا: تجھے کونسا مال زيادہ پسند ہے ؟ اس نے کہا : ”اونٹ “
چنانچہ اسے آٹھ دس مہينے کی گابھن اونٹنی دے دی گئی اور فرشتے نے اسے دعا دی کہ اللہ تعالی تيرے ليے اس ميں برکت عطا فرمائے ۔ پھر وہ فرشتہ گنجے کے پاس آيا : اس نے گنجے سے پوچھا : ”تجھے کونسی چيز سب سے زيادہ پسند ہے ؟ “
 اس نے کہا : ”ميری خواہش يہ ہے کہ ميرا گنجاپن دور ہو جائے اور ميرے سرميں خوبصورت بال اگ آئيں“ ۔
فرشتے نے اس کے سرپر ہاتھ پھيرا جس سے اس کا گنجاپن دور ہو گيا اور اسے اللہ تعالی کی طرف سے خوبصورت بال عطا کر دئيے گيے ۔ پھر فرشتے نے گنجے سے بھی پوچھا کہ : ”تجھے کون سا مال سب سے زيادہ پسند ہے ؟“ اس نے کہا : ”گائے “۔ چنانچہ فرشتے نے اسے ايک گابھن گائے ديا اور دعا دی کہ ”اللہ تعالی تيرے ليے اس ميں برکت عطا فرمائے “ اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس آيا : اور پوچھا : ”تجھے کونسی چيز سب سے زيادہ پسند ہے ؟“
اندھے کو کيا چاہئے ؟ دو آنکھ ۔ اس نے کہا: ”ميری خواہش يہ ہے کہ اللہ تعالی ميری بينائی لوٹا دے تاکہ لوگوں کو ديکھ  سکوں “ ۔ چنانچہ اللہ تعالی نے اس کی بينائی لوٹا دی ۔ فرشتے نے اس سے پوچھا : ”تجھے کون سا مال زيادہ پسند ہے ؟ “
اس نے کہا :” بکرياں“ ۔ چنانچہ اسے ايک بکری دے دی گئی
اس طرح ابرص ، گنجے اور اندھے تينوں کے جانوروں نے خوب بچے ديئے ، سفيد داغوں والے کے ہاں ايک وادی اونٹوں کی ہوگئی ۔ گنجے کے ہاں ايک وادی گايوں کی ہوگئی، اور اندھے کے ہاں ايک وادی بکريوں کی ہو گئی ۔
پيارے بچو! جانتے ہيں اس کے بعد کيا ہوا ؟ اللہ پاک جب ديتا ہے تو اس کی چاہت ہوتی ہے کہ بندہ اس کے ديئے ہوئے مال ميں سے غريبوں مسکينوں اور لاچاروں کی بھی مدد کرے۔ آئيے ہم باقی قصہ سنتے ہيں
اللہ تعالی نے ايک عرصہ کے بعد اسی فرشتہ کو ابرص ، گنجے اور اندھے کے پاس بھيجا تاکہ اس کی آزمائش کرے چنانچہ فرشتہ سب سے پہلے سفيد داغوں والے کے پاس اسی کی پہلی شکل ميں آيا : اور کہا
” ميں مسکين آدمی ہوں ، سفر ميں ميرے وسائل ختم ہوگئے ہيں ، آج ميرے وطن پہنچنے کا کوئی وسيلہ نہيں سوائے اللہ کے اور پھر تيرے، اس ليے ميں تجھ سے اللہ کے نام پرايک اونٹ کا سوال کرتا ہوں، وہ اللہ جس نے تجھے اچھا رنگ ، خوبصورت جسم اور مال عطا کيا ہے “
اس نے جواب ديا : ميرے ذمہ پہلے ہی بہت سے حقوق ہيں مجھ سے تيری مدد نہيں ہو سکتی ۔ يہ سن کر فرشتے نے اس سے کہا : ”ميں تجھے پہچانتا ہوں، کيا تو وہی نا ہے جس کے جسموں پر سفيد داغ تھے لوگ تجھ سے گھن کھاتے تھے، تو فقير تھا، اللہ نے تجھے مال سے نواز ديا.... “؟
اس نے کہا: ”بھئی ! يہ مال تو مجھے باپ دادا سے ورثے ميں ملا ہے “
فرشتے نے کہا : ” اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تجھے ويسا ہی کردے جيسا کہ تو تھا ۔ اب فرشتہ گنجے کے پاس اس کی پہلی شکل وصورت ميں آيا اور اس سے بھی وہی کہا کہ ” ميں مسکين آدمی ہوں ، سفر ميں ميرے وسائل ختم ہوگئے ہيں، اس ليے ميں تجھ سے اللہ کے نام پرايک ايک گائے کا سوال کرتا ہوں، وہ اللہ جس نے تجھے خوبصورت بال عطا کيا ہے “
گنجانے وہی جواب ديا جو ابرص (سفيد داغوں والا) نے ديا تھا کہ ميرے پاس پہلے ہی سے بہت سارے حق والے ہيں فرشتے نے اسے احساس دلايا کہ کبھی تو گنجا تھا، لاچار تھا، آج اللہ نے تجھے نعمت دے دی تو اپنی پہلی حالت کو بھول گيا “
 اس نے کہا : ” يہ مال تو مجھے ميرے باپ دادا سے ورثے ميں ملا ہے “
فرشتے نے اسے بھی بددعا دی کہ” اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تعالی تجھے ويسا ہی کردے جيسا تو پہلے تھا “۔
فرشتہ پھر اندھے کے پاس اس کی پہلی شکل ميں آيا، اوراس سے کہا : ”ميں مسکين اور مسافر آدمی ہوں ميرے وسائل سفر ختم ہوگئے ہيں، اب ميرے ليے وطن پہنچنا، اللہ کی مدد پھر تيری مالی اعانت کے بغير ممکن نہيں، اس ليے ميں تجھ سے اس ذات کے نام سے، جس نے تيری بينائی تجھ پر لوٹادی، ايک بکری کا سوال کرتا ہوں تاکہ اس کے ذريعہ سے ميں منزل مقصود تک پہنچ جاؤں “
اندھے نے کہا: بلاشبہ ميں اندھا تھا، اللہ تعالی نے ميری بينائی بحال کردی ۔ تيرے سامنے بکريوں کا ريوڑ ہے، ان ميں جو چاہے لے لے اور جو چاہے چھوڑ دے “
يہ سن کر فرشتے نے اسے کہا : ” اپنا مال اپنے پاس ہی رکھ ، تيرا امتحان مقصود تھا، جس ميں توکامياب رہا ، اور اللہ تجھ سے راضی ہوگيا اور تيرے دونوں ساتھی ناکام رہے اوراللہ تعالی ان دونوں سے ناراض ہوگيا“ ۔
بچو! ديکھا آپ نے کہ کيسے اللہ تعالی نے سفيد داغ والے کا داغ ختم کرديا اور اسے ايک گابھن اونٹ ديا جس سے اس کے پاس اونٹ ہی اونٹ ہوگيے، ليکن جب اس نے اللہ پاک کے احسان کو بھلا ديا تواللہ پاک نے اس سے وہ نعمت چھين لی اور جيسا وہ پہلے تھا ويسا ہی بناديا۔ اور گنجے کا گنجاپن دور کرکے اُسے ايک گائے ديا جس سے اس کے پاس ايک وادی گائيں ہوگئيں ليکن جب اس نے بھی ناشکری کی تو اللہ پاک نے اس سے بھی اپنی نعمت چھين لی ليکن جب اندھے نے اللہ کی نعمت کو ياد رکھا تواللہ تعالی اس سے خوش ہوا اور اس کی نعمت کو بدستور بحال رکھا ۔

پيارے بچو! اس قصے سے ہميں سبق ملتا ہے کہ فقيروں کو بہانا بناکردروازے سے بھگانا نہيں چاہيے بلکہ جو ميسر ہو ضرور دينا چاہئے ، کيا خبر کہ کل اللہ پاک ہميں بھی ويسا ہی بنا دے ۔

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔