جمعرات, فروری 04, 2010

لذت آہ سحرگا ہی

عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ينزل ربنا تبارك وتعالى إلى السماء الدنيا حين يبقى ثلث الليل الآخر ، فيقول : من يدعوني فأستجيب له ، من يسألني فأعطيه ، من يستغفرني فأغفر له . ( متفق عليه ) 

ترجمہ :
”اللہ تبارک وتعالی ہر شب جب رات کا سہ پہر باقی رہتا ہے تو سماء دنیا پر اُترتا ہے ، اور پکارتا ہے ،کون ہے جو دعا کرے کہ ہم اس کی دعا قبول کریں ، کون ہے جو ہم سے مانگے اور ہم اُسے عطا کریں ، کون ہے جو ہم سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرے اور ہم اس کے گناہوں کو معاف کردیں“ ۔ بخاری ومسلم

تشریح :
اگر کسی شہر میں وزیر کا اعلان ہوتا ہے کہ وہ شب میں فلاں وقت سے فلاں وقت تک حاضر ہونے والا ہے جس میں وہ ہم وطنوں کے حاجات کی تکمیل کرے گا اور اُن کے مشکلات حل کرے گا ۔ اگر آپ اس شہر کے باشندہ ہوں تو خدارا مجھے بتائیں کیا آپ وقت مقررہ پر وزیر سے ملنے نہ پہنچ جائیں گے ، کیا آپ کے اندر وزیر سے ملنے کی کھلبلی نہ مچی ہوگی ؟
جی ہاں! ضرور ۔ حالانکہ یہ پکار موقع محل کے اعتبار سے بسااوقات ہوتی ہے ، اور وہ بھی عام نہیں ہوتی ،جبکہ دوسری پکار ہرروز ہوتی ہے ، اور ہرخاص وعام کے لےے ہوتی ہے ، یہ پکار ہمارے رب ذوالجلال کی پکار ہے جو رات کے سہ پہر میں سماءدنیا پر ہوتی ہے ۔ پیش نظر حدیث میں اِسی پکار کی خبر دی گئی ہے ، ظاہر ہے یہ کسی ادیب ، کسی فلسفی ، یا کسی نجومی کے الفاظ نہیں بلکہ اس دانائے راز پیغامبر کے الفاظ ہیں جن کے نطق سے وحی کے مقدس پھول جھڑا کرتے تھے ۔اب ہمیں جواب دیجےے ! کہ کیا ایسا نہیں ہے کہ جب شہر میں وزیر کی پکار ہوتی ہے تو ہم راتوں کی نیند قربان کرکے اس کی خدمت میں وقت سے پہلے پہنچ جاتے ہیں جبکہ وہ ہمارے کسی چیز کا مالک نہیں لیکن روزانہ جب ہمارے خالق ومالک کی پکار ہوتی ہے تو ہم خواب خرگوش میں پڑے رہتے ہیں حالانکہ ہماری سعادت ، ہماری شقاوت، ہماری تونگری، ہماری تنگ دستی ، ہماری زندگی اور ہماری موت اُسی کے ہاتھ میں ہے ۔ جب بات یہ ٹھہری تو ہم اپنے رب کی پکار پر لبیک کہیں ، ابھی رمضان کا آخری عشرہ باقی ہے ، رات کے سہ پہر میں بیدار ہوکر اپنے رب کے سامنے گرگرائیں ، روئیں ،اور مغفرت کے طلبگار ہوں، اللہ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہونے اور اس کی قربت حاصل کرنے سے بہتر سعادت آخر کیا ہوسکتی ہے ، اےسے وقت میں جبکہ سحر کی بھینی بھینی ہوائیں چل رہی ہوں ، نسیم صبح کے جھونکے عطربیزیاں کررہے ہوں ، ہرسوسناٹا چھایا ہوا ہو ایسے پُرلطف وقت میں رب کریم کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور گرگرانے کی لذت کا کیا کہنا اور پھرایسے وقت میں شب بیداری کامیابی کی کنجی ، محبت الہی کا سبب ، دنیوی واخروی مصالح کے حصول کا ذریعہ اور کمال شخصیت کا راز ہے ، علامہ اقبال نے کہا تھا
 عطار ہو رومی ہورازی ہو غزالی ہو
 کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحرگا ہی
اس ليے خالق دوجہاں سے شب بیداری کی توفیق کا سوال کرتے ہوئے دعا کریں کہ
پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے

 رونا میرا وضو ہو نالہ میری دعا ہو

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔