جمعرات, جنوری 07, 2010

دامن عفت داغدار نہ ہوجائے


آج ہرطرف بے پردگی اور عريانيت کی نمائش ہو رہی ہے اباحيت پسندی، جنسی انارکی اورمردوزن کا بے باکانہ اختلاط عام ہے۔  ايسے پُرفتن دورميں ايک مومن صادق بالخصوص اہل خانہ سے دور تارک وطن کواپنی عزت وآبرو کے حفاظت کی سخت ضرورت ہے ۔     
اس مناسبت سے ہم آپ کی خدمت ميں اللہ والوں کی عفت وپاک دامنی کی ايک جھلک پيش کريں گے، وہ اللہ والے جو چند لمحوں کے شہوات کو ٹھکرا کر دائمی نعمتوں سے مالا مال ہوئے،  وہ اللہ والے جن کے حسن وجمال پر فريفتہ دوشيزائيں ان کی محفل سے عابدہ وزاہدہ بن کر نکليں، وہ اللہ والے جنہوں نے حوروں کی طلب ميں حسن کی پريوں کو بے نيازی سے لات مار ديا۔ واقعہ يہ ہے کہ اللہ والوں کی زندگی کے سنہرے واقعات تفريح طبع يا تسلی کے ليے بيان نہيں کيے جاتے بلکہ ان ميں لوگوں کے ليے پندو نصيحت اورعبرت کا پيغام ہوتا ہے ۔ توآئيے! ايسی ہی عفت شعار نفوس قدسيہ کے چند واقعات پڑھتے ہيں تاکہ ان کے تناظرميں ہم اپنے ايمان کا جائزہ لے سکيں کہ ہماری عملی زندگی ميں ان واقعات کا کس قدرعمل دخل ہے۔

عفت يوسفی:

سب سے پہلے ہم آپ کی خدمت ميں يوسف عليه السلام كى عفت كاقصہ پيش کرنا چاہيں گے جس ميں ديارِغيرميں رہنے والوں کے ليے درس ہے، عبرت ہے ، نصيحت ہے ۔ حضرت يوسف عليہ السلام اپنے والد حضرت يعقوب ؑکے زيرشفقت پل رہے تھے، ان کے گيارہ بھائی ان کی طرف باپ کے شدت ميلان کو ديکھ  کران سے خار کھانے لگے ۔  چنانچہ ايک دن منصوبہ بند طريقے سے 11 بھائی حضرت يوسف عليہ السلام کوايک جنگل ميں لے گيے اورگہرے کنويں ميں ڈال ديا تاکہ : نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ليکن جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے، کنواں کے پاس سے ايک قافلہ کا گذرہوا،  شدت پياس سے بے تاب قافلہ جب کنويں کے پاس آکرکنويں ميں اپنا ڈول ڈالاتوايک خوبرونوجوان کو پاکر ان کے خوشی کی انتہا نہ رہی ۔ انہيں فروخت کے ليے بازارِ مصرميں لائے، حسن وجمال اورشرافت وکمال کا پيکربچہ عزيزمصر کے حصہ آيا، عزيز مصر لاولد تھا، انہيں خوشی خوشی گھرلايا اوربيوی کو ان کے ساتھ اچھابرتاؤ اورنيک سلوک کی تاکيد کی۔ يوسف عليه السلام عزيز مصر کے گھر پرورش پا رہے تھے، ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور تسکين قلب کا سامان تھے، مرورايام کے ساتھ  حضرت يوسف عليه السلام جوان ہوئے، حسن وجمال ميں مزيد نکھار آيا تو عزيز مصر کی بيوی زليخہ ان پر فريفتہ ہوگئی، شيطان نے زليخہ کو يوسف کے ساتھ  بد کاری کرنے پر آمادہ کيا، جب بدی کی گود ميں سُلانے کے تمام حربے نا کام ہوئے تواس نے عزيز مصر کے باہر نکلتے ہی ايک منصوبہ بند حکمت عملی اپنائی تاکہ اپنے مقصد ميں کامياب ہوسکے ۔ جانتے ہيں کيا کيا؟  گھر کے سارے دروازوں کو اچھی طرح سے بند کرديا اور زيب وزينت سے آراستہ ہوکر صريح الفاظ ميں يوسف عليه السلام کو فحش کاری کی دعوت دی :
 ”اس عورت نے جس کے گھر ميں يوسف عليه السلام تھے، يوسف عليه السلام کو بہلانا پھسلانا شروع کيا کہ وہ اپنے نفس کی نگرانی چھوڑ دے اور دروازے بند کرکے کہنے لگی : لو! آجاؤ “ (يوسف 23) 
يوسف عليه السلام جوانی کے دہليز پرقدم رکھ  چکے تھے اورجوانی ظاہرہے ديوانی ہوتی ہے۔ غيرشادی شدہ تھے اوراس مدت ميں انسان کے اندر بے راہ روی کے امکا نات زيادہ ہوتے ہيں، ديارغيرميں تھے، اہل خانہ کی صحبت سے محروم تھے،  اور زرخريد غلام بھی تھے۔ اور سب سے بڑی بات يہ کہ بادشاہ لاولد تھاجس سے يوسف عليه السلام کے دل ميں طبعی طورپراقبال مندی کی کلياں کھلتی رہی ہوں گی۔ دوسری جانب زليخہ ملکہ مصرہے، حسن وجمال کی پری ہے، سج دھج کر آفت برسا رہی ہے اوردھمکی آميز کلمات بھی استعمال کررہی ہے ۔ ليکن پھربھی يوسف عليه السلام عفت وحيا کے پيکر بن جاتے ہيں، زليخا کی زينت وزيبائش کی کوئی پرواہ نہيں کرتے، اس کے مرتبے اور حسن وجمال کی طرف دھيان نہيں ديتے بلکہ اللہ تعالی کی نگرانی اور اس کی مراقبت کو ذہن ميں تازہ رکھتے ہوئے کہتے ہيں:
 ” اللہ کی پناہ ! وہ ميرا رب ہے، اس نے مجھے بہت اچھی طرح رکھا ہے، بے انصافی کرنے والوں کا بھلا نہيں ہوتا “ (يوسف 23) 
يعنی اللہ کی پناہ اس بات سے کہ ميں تيری دعوت گناہ پرلبيک کہوں گو کہ تونے سارے دروازے بند کرديا ہے تاہم اللہ کے دروازے کو بند نہ کرسکی ہے جو آنکھوں کی خيانت اور دلوں کے بھيد سے بھی آگاہ ہے۔ جب يوسف عليه السلام نے ديکھا کہ زليخہ اپنی آتش شہوت کو بجھانے کے ليے مصر ہے اور مزيد پيش قدمی کر رہی ہے تو وہ باہر نکلنے کے ليے دروازے کی طرف دوڑے، حسن يوسف پرفريفتہ عورت بھی تيزی سے دوڑی اور ان کے قميض کو زور سے پکڑا جس سے قميض پھٹ گيا۔ اسی اثناءعزيز مصرپہنچ جاتا ہے، چہرے کی کيفيت تاڑ کراُس پر حيرت واستعجاب کا سماں بندھ  جاتا ہے، اس کے سمند غيرت کو تازيانہ لگتا ہے.... ليکن ماجرا کيا ہے ؟ پتہ نہيں....اس کی شريک حيات نے خيانت کی يا اس خوبرو نوجوان نے ؟ .... قبل اس کے کہ حقيقت دريافت کرے، زليخہ پيکرِ عصمت بن جاتی ہے، شہوت کے شيش محل کو چکنا چور ہوتا ديکھ  کر تمام ترملزم حضرت يوسف عليه السلام کو قرار ديتی ہے اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ  سزا کی تجويز بھی کرتی ہے: 
”جوشخص تيری بيوی کے ساتھ  بُرا ارادہ کرے، بس اس کی سزا يہی ہے کہ اسے قيد کرديا جائے يا اور کوئی درد ناک سزا دی جائے “۔
 تفصيل کا موقع نہيں کہنا يہ ہے کہ باوجود اس کے کہ يوسف عليه السلام کی پاک دامنی ظاہر ہوگئی تھی، عزيزمصر نے چند مصلحتوں کی خاطر آپ کو حوالہ  زنداں کرديا۔ ايک زمانہ بعد بادشاہ کے ايک خواب کی تعبير بتانے پر بادشاہ نے انہيں اپنے دربار ميں پيش ہونے کا حکم دياليکن يوسف عليه السلام نے نکلنے سے پہلے اپنے کردار کی رفعت اور پاک دامنی کے اثبات کا مطالبہ کيا کہ مجھ  پرعائد کيے گيے الزام کی حقيقت کوپہلے واضح کيا جائے۔ چنانچہ زليخہ گويا ہوئی :
 ”ميں نے ہی اسے ورغلايا تھا اور يقيناً وہ سچوں ميں سے ہے“ (يوسف 51) 
اس طرح جب يوسف عليه السلام کی پاک دامنی نکھرکرسامنے آجاتی ہے تواب جيل سے نکلتے ہيں اور بادشاہ کے دربارميں پہنچتے ہيں چنانچہ بادشاہ آپ کی قدرکرتا ہے اور وزيرخزانہ کے منصب پرفائز کرديتا ہے۔

جی ہاں ! ايسا ہی بدلہ ملا کرتا ہے عفت شعاروں اور پاک دامنوں کو .... عفت وعصمت کی راہ ميں ايک شخص نے جس قدر بھی پريشانيا ں جھيلی ہو ايک دن اس پر اللہ کی رحمت ضرور سايہ فگن ہوتی ہے۔ دوستو! عزت وآبروايک گنج گرانمايہ ہے، جب دامن عصمت پردھبہ لگ جاتاہے تو سب سے پہلے ايک شخص اللہ کی نظر سے گرجاتاہے پھراہل دنيا اسے حقير سمجھنے لگتے ہيں اور اس کی جگہ نسائی ہوتی ہے ۔ لہذا وقتی لذت اور عارضی خواہش کے پيچھے اپنی عزت کو داغدار نہ کريں اورابن سماک رحمه الله کی يہ وصيت ہمہ وقت ياد رکھيں:
”اگرچاہوتوميں تجھے تيری بيماری سے باخبرکردوں اور ا گر چا ہو تو اس بيماری کی دوا بتادوں: تيری بيماری تيری خواہشات ہيں اوراس بيماری کی دوا خواہشات پر کنٹرول رکھنا ہے“ ۔

ميں مسلمان ہوچکا ہوں:

حضرت ابومرثد غنوی  مشہورصحابی ہيں، اسلام سے قبل عناق نام کی ايک عورت کے ساتھ ان کی شناسائی تھی، ہجرتِ مدينہ کے بعد ايک بار آپ مکہ تشريف لے گيے تھے ،آپ جس نخلستان سے گذر رہے تھے، اتفاقا اسی نخلستان سے عناق بھی گذر رہی تھی، رات کا وقت تھا، چاندنی رات تھی،  ہرطرف سناٹا چھايا ہوا تھا ۔ عناق، ابومرثد پر نظرپڑتے ہی خوشی سے لوٹنے لگی، کہا: خوش آمديد،ايک عرصہ کے بعد تم سے ملاقات ہوئی ہے، خوب گذرے گی آج کی رات.... ذرا غور کےجيے !ايک حسين وجميل عورت خود کو پيش کر رہی ہے جہاں هو کا عالم ہے اور اسلام سے قبل شناسائی بھی ہے ۔ ليکن اس کی دعوتِ گناہ پرکيسے دھيان دياجائے جبکہ اسلام کو گلے لگا چکے ہيں، پوری بے نيازی سے جواب ملتا ہے : ” ميں مسلمان ہوچکا ہوں، اسلام ميں زنا کی سخت مذمت ہے، اس ليے مجھ  سے اس فعل کی قطعی اميد نہ رکھو....“ ۔

 سيل اشک رواں ہوگيا:

ربيع بن خثيم مشہورتابعی ہيں، عنفوان شباب ہی سے ان کی عفت وپاکدامنی کے چرچے تھے، جس کے باعث بدچلن نوجوان ان سے خار کھاتے تھے۔ نوجوانوں نے ايک مرتبہ کسی حسين وجميل بازاری عورت کو ان کی عفت کا امتحان لينے کے ليے ان کے پيچھے لگاديا، عورت مسجد کے دروازے پر انتظار کرتی رہی، جب مسجد سے نکلے تو وہ کچھ  پوچھنے کے انداز ميں آپ سے قريب ہوئی اور اپنے چہرے سے پردہ اٹھايا، ناز وادا سے بھانپ گيے کہ يہ عورت بدطينت ہے ۔ اوردفعتا آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگيے۔ عورت نے رونے کا سبب پوچھا، توآپ نے فرمايا:
 ”اس حسين چہرے پر رو رہا ہوں جو گمراہی کے راستے پر لے جانے والا ہے اور آخرت ميں يہی چہرہ  بوسيدہ کھوپڑی نظرآئے گا“ ۔ يہ جواب سنتے ہی عورت کے بدن پر رعشہ طاری ہوگيا، فورا فعل بد سے تائب ہوئی اور زمانے کی عابدہ وزاہدہ بن گئی ۔

اللہ کی نگرانی کا احساس:

بنواسرائيل ميں کفل نام کا ايک شخص تھا،  وہ بُرائيوں کے ارتکاب ميں بے باک تھا، ايک مرتبہ کسی عورت کوشديد ضرورت لاحق ہوئی تو کفل نے اسے 60 دينار اس شرط پرديا کہ وہ اس کے ساتھ بد فعلی کرے گا ۔ جب کفل نے خاتون کے ساتھ  بد فعلی کا ارادہ کيا تو وہ کانپ اٹھی اور اس کی آنکھيں بہنے لگيں ۔ کفل نے پوچھا: کيوں رو رہی ہو ؟ خاتون نے جواب ديا :” اس ليے کہ ميں نے يہ کام کبھی نہيں کيا، آج ضرورت نے ہميں اس کام پر مجبورکيا ہے“ ۔ کفل بيحد پشيمان ہوا، اس نے کہا : تواللہ کے ڈر سے رو رہی ہے حالاں کہ اللہ کا ڈر رکھنے کا زيادہ حقدارميں ہو ں،  بخدا ميں آج کے بعد کبھی اللہ کی نافرمانی نہ کروں گا اور ہاں جو کچھ رقم ميں نے تجھے دی ہے وہ تيری ہے ۔ اسی رات کفل کی موت ہوگئی، صبح لوگوں نے ديکھا کہ اس کے دروازے پر لکھا ہوا ہے :
 اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَد غَفَرَلِلکِفل
 ”اللہ تعالی نے کفل کی بخشش فرمادی “۔
لوگوں کو اس کے معاملے پر بڑا تعجب ہوا کہ ايسے نافرمان انسان کی مغفرت کيسے ہوگئی ۔ (سنن ترمذی )

مشک کی خوشبو پھوٹنے لگی:

بسااوقات ايک شخص کو عفت اختيار کرنے کی وجہ سے تکاليف وشدائد کا آلہ کاربننا پڑتاہے ليکن اس کے ذريعہ اللہ تعالی بندے کے ايمان کی آزمائش کرتا ہے، اگر اس نے صبروشکيبائی کا دامن تھامے ہوئے عفت وپاک دامنی اختيار کی تواللہ تعالی اسے دنياہی ميں بہتر بدلہ عطاکرتا ہے اورآخرت ميں انعامات ربانی کا حقدارتو ہوگا ہی ....تاريخ ميں ايک نام ابوبکر مسکی آتا ہے ۔ مسک کے معنی خوشبو کے ہوتے ہيں کيوں کہ ہميشہ ان کے بدن سے خوشبو پھوٹتی رہتی تھی۔ ايک مرتبہ ان سے کسی نے پوچھا : ”کيا بات ہے کہ ہميشہ آپ کے بدن سے خوشبو پھوٹتی رہتی ہے ؟“ آپ نے جواب ديا: بخدا ميں نے کئی سال سے مشک استعمال نہيں کيا تاہم ميں تجھے اس خوشبو کی حقيقت بتائے ديتا ہوں ”ايک مرتبہ کا واقعہ ہے ايک عورت نے حيلہ بہانا کرکے مجھے اپنے گھر ميں داخل کرليا اور دروازہ بند کرکے لگاوٹ ومحبت کی باتيں کرتی ہوئی فحش کاری کی دعوت دينے لگی ، ميں بہت پريشان ہوا ، بھاگنے کے سارے راستے مسدود تھے ۔ ميرے ذہن ميں ايک ترکيب سوجھی : ميں نے عورت سے کہا : مجھے طہارت کی ضرورت ہے، چنانچہ عورت نے مجھے بيت الخلا کا راستہ بتا ديا : ميں جب اندر داخل ہوا توبيت الخلاء سے فضلات اٹھايا اور پورے بدن پرمَل ليا ، پھراسی شکل ميں عورت کے پاس پہنچا ۔ جب اس نے مجھے اس حالت ميں ديکھا تو حيرت زدہ رہ گئی اور پاگل سمجھ  کر مجھے باہر نکال ديا ۔ ميں فوراً گھر لوٹا اور غسل کرکے کپڑے بدل ليا ۔ جب ميں رات ميں سويا تو خواب ميں ديکھتا ہوں کہ ايک آدمی مجھے کہہ رہا ہے تونے ايسا کام کيا کہ ويسا تيرے علاوہ کسی نے نہيں کيا ، ہم ضرور تيری بو کو دنيا وآخرت دونوں جگہ معطر رکھيں گے ۔ جب ميں صبح بيدا ر ہوا تو مشک کی بو ميرے جسم سے پھوٹ رہی تھی اور اب تک وہ سلسلہ جاری ہے“ ۔

سبحان اللہ ! کيا مقام ہے عفت کا کہ آخرت سے پہلے دنيا ہی ميں اس کا بہترين بدلہ مل رہا ہے ....توپھروقتی لذت کے پيچھے سرپٹ دوڑنے سے کيا فائدہ جس کا انجام ہے ذہنی تناؤ .... دل کی تنگی.... قلق واضطراب.... اور شقاوت وبدبختی۔ سعادت‘ عشق ومحبت کی داستانوں ميں نہيں، رقص وسرود کی محفلوں ميں نہيں، آلات جديدہ کے فحش پروگراموں ميں نہيں، اگر سعادت ہے تو عفت وعصمت ميں، ذکرالہی ميں، اطاعت الہی ميں ۔
توآئيے! ہم عفت وعصمت کوبحال رکھنے کے ليے اپنی ايمانی تربيت کريں، ہمارا تعلق اپنے خالق ومالک سے مضبوط ہو، ہمارے ذہن ودماغ ميں ہميشہ رچا بسا رہے کہ اللہ تعالی ہمارے ظاہر وباطن سے آگاہ ہے ، وہ آنکھوں کی خيانت اور سينوں کی پوشيدہ باتوں کو خوب جانتا ہے ۔ نفلی روزوں کا اہتمام، قرآن کريم کی تلاوت، نيک لوگوں کی صحبت اور عفت شعاروں کی زندگی کا مطالعہ کرکے ہم بآسانی اپنی عفت وعصمت کی حفاظت کر سکتے ہيں ۔



0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔