پیر, جنوری 04, 2010

اچهے لوگوں كے ساته رہائش گاہ اختيار كريں




آپ ترک وطن کی زندگی گزار رہے ہيں جہاں آپ کو امن وراحت کی سانس لےنے کے ليے مامون رہائش گاہ کی ضرورت ہے۔آپ کی رہائش گاہ ايسی ہونی چاہيےجس ميں رہنے والے نيک اور صالح ہوں، حسن اخلاق کے پيکر ہوں، جنہيں آپ مساجد ميں پائيں گے، دينی مجالس ميں پائيں گے، چہرے کی نورانيت سے پہچانيں گے،اس کے برعکس اگر آپ نے ايسی رہائش گاہ اختيار کی جہاں لوگ بُرائيوں کے رسيا ہيں توشدہ شدہ آپ بھی ان کے ماحول ميں ڈھل جائيں گے اور آپ کو اس کاشعوربھی نہ ہوگا کيوں کہ انسانی زندگی پرصحبت کے نہايت گہرے اثرات پڑتے ہيں نيک لوگوں کی صحبت سے انسان نيک بنتا ہے اور بُرے لوگوں کی صحبت سے بُرا بنتا ہے۔ اسی حقيقت کو اللہ کے رسول صلي الله عليه وسلم نے يوں بيان کيا ہے ”انسان اپنے دوست کے طريقوں پر ہوتا ہے اس ليے ہر آدمی کو غور کر لينا چاہيے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے “ (ترمذی) ايک دوسری جگہ اللہ کے رسول صلي الله عليه وسلم نے اچھے اور بُرے دوست کی کيفيت کو ايک بليغ تمثيل ميں يوں بيان کيا ہے :” اچھے اور بُرے ہم نشيں کی مثال عطرفروش اور لوہار کی بھٹی کی سی ہے اگر عطرفروش کی صحبت اختيار کروگے تو وہ تمہيں کوئی عطر تحفةً دے سکتا ہے يا پھر تم خود ہی اس سے کوئی عطر خريد سکتے ہو، يا پھر کم ازکم وہاں کی عمدہ خوشبو سے تو ضرور محظوظ ہوگے اور بھٹی دھونکنے والا يا تو تمہارے کپڑے جلا دے گا يا تم اس سے ناخوشگوار بُو پاو گے “ (بخاری ومسلم )ديکھا آپ نے ....کتنے اچھوتے انداز اور عمدہ پيرائے ميں اللہ کے رسول صلي الله عليه وسلم نے نيک وبد دوست کی تمثيل بيان کی ہے۔ نيک اور صالح ہم نشيں کو عطر فروش سے تشبيہ دی گئی کيوں کہ نيک دوست يا تو وہ چيز سکھاتا ہے جو دين ودنيا دونوں کے ليے سود مند ہوتی ہے يا نصيحت وخير خواہی سے نوازتا ہے، يا کسی گناہ سے ڈراتا ہے، يا اطاعت کی ترغيب ديتا ہے، اگر کچھ  بھی نہيں تو اس کی ہمنشينی بُرائيوں اور معاصی کے ارتکاب سے ضرور روک ديتی ہے جبکہ بُرے دوست کو لوہار کی بھٹی سے تشبيہ دی گئی کيوں کہ بُرا دوست ياتو معاصی کا آلہ  کار بنا ديتا ہے يا نيکيوں کی راہ ميں مزاحم بنتا ہے۔ اسی ليے اسلام نے دوستی کا معيار ايمان و تقوی قرار ديا ہے۔ اللہ کے رسول صلي الله عليه وسلم فرماتے ہيں:
’’ تم مومن ہی کو دوست بناؤ اور تمہارا کھانا صرف پرہيز گار ہی کھائے “ ۔ (ترمذی) لہذا آپ کو ايسے نيک دوست کی تلاش کرنی چاہيے جو ديارِ غير ميں آپ کے احساس اجنبيت کو دور کر سکے، اہل خانہ سے جدائی کا متبادل بنے، خير کی طرف راغب کرے اور شر سے دور رکھے۔ ميرے پاس ايک صاحب آتے ہيں جو وطن سے آئے تھے تو دين سے ان کا کوئی تعلق نہيں تھا بلکہ بے شمار بُرائيوں ميں لت پت تھے ليکن يہاں آنے کے بعد نيک ساتھيوں کی صحبت ملی تو ماشاء اللہ ابھی پنج وقتہ نمازوں کے پابند ہيں، دينی غيرت و حميت رکھتے ہيں اور دعوت وتبليغ ميں ہمہ تن سرگرم رہتے ہيں ۔ ايک سروے کے مطابق ہمارے ہاں ipc ميں حلقہ بگوش اسلام ہونے والوں کی اکثريت ايسے اشخاص کی ہوتی ہے جو حسن اخلاق اور نيک برتاو سے متاثر ہوکر اسلام کو گلے لگاتے ہيں۔ آئے دن ايسی پاکيزہ طبيعتيں اپنے ساتھ  کسی غيرمسلم کو لے کر آتی ہيں اور جب يہ شخص کلمہ  شہادت پڑھ کر اپنے رب کاہورہا ہوتا ہے اوراسے حياتِ نو مل رہی ہوتی ہے تو اس وقت ہمارے ساتھی کی دلی کيفيت ديکھنے کو بنتی ہے، کتنے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتے ہيں ۔ جی ہاں ! اِسی کوکہاجاتاہے خوشی کے آنسو،  جس کا منظرديکھنا ہے تو آپ بنفس نفيس ipcکی کسی شاخ ميں جاکر ديکھ سکتے ہيں، ظاہرہے يہ صحبت صالح ہی کاثمرہ اور اس کی برکت ہے کہ تن مردہ کو زندگی مل جاتی اورہدايت نصيب ہوتی ہے اس کے برعکس صحبت بد کے نتيجہ ميں ايک شخص بسا اوقات مجرموں کی صف ميں لاکھڑا کياجاتا ہے۔ ہم ہفتہ ميں ايک بار کويت کے مرکزی جيل کا دورہ کرتے ہيں جہاں کچھ  لوگ ايسے بھی ملتے ہيں جو مجرم نہيں تھے تاہم مجرموں کے ساتھ  رہائش پزير تھے بالآخر تفتيش ميں پھنس گيے اور آج سالوں سے بيوی بچوں سے دور جيل کی کوٹھريوں ميں سزا بھگت رہے ہيں۔ ايسے لوگ اپنا درد  دل سناتے ہوئے کہتے ہيں کہ بھئی ميں نے تو غلطی نہيں کی تھی، آخر مجھے يرغمال کيوں بنايا گيا....! ؟ ايسے لوگوں کی غلطی محض يہ ہے کہ انہوں نے بُرے لوگوں کی صحبت اختيارکی حالاں کہ اگرجرائم پيشہ لوگوں کے ساتھ نشست و برخاست نہ کرتے تو ہرگز ايسی نوبت نہ آتی۔ لہذا ہم سب کے ليے اس ميں درس ہے، عبرت ہے، نصيحت ہے کہ نيک لوگوں کی صحبت اختيار کريں اور بُرے لوگوں کی صحبت سے بال بال پرہيزکريں ۔

اگرآپ کفيل کے گھرميں ہيں:

اگر آپ کفيل کے گھرميں ہيں تو مندرجہ ذيل چند امور کا خيال رکھيں:

٭ ممکنہ حد تک کفيل کے اوامر کی اطاعت کريں، کويتی معاشرہ کے عادات و روايات کا پاس ولحاظ رکھيں، مرد وزن کے اختلاط اور بُرے ساتھيوں کے ساتھ  نشست و برخاست سے بالکليہ احتراز کريں ۔

٭ بڑوں کا احترام کريں، چھوٹوں کے ساتھ محبت سے پيش آئيں، مہمانوں کی آمد پر ان کا پُرتپاک استقبال کريں اورچہرے پرہروقت مسکراہٹ کھلا رکھيں۔

٭ گھرکے جملہ املاک کی حفاظت کريں اور انہيں استعمال کرنے سے پہلے افراد خانہ سے اجازت حاصل کرليں-

٭ گھرميں جب اہل خانہ تنہا ہوں يا ان کے آرام کرنے کا وقت ہو توگھرميں داخل ہونے سے پہلے دروازے پر دستک دينا نہ بھوليں۔  نظريں چُرا کر اندرون خانہ جھانکنا اسلامی تعليمات کے منافی ہے گوکہ دروازے کھلے ہوں۔

٭ کسی بھی شحض کو گھرميں داخل ہونے کی قطعااجازت نہ ديں الا يہ کہ اہل خانہ موجود ہوں اور وقت مناسب ہو۔

ديارِغير کے اصول وقوانين کا پاس ولحاظ کريں:

آپ نے رزق حلال کی طلب ميں اپنے محبوب وطن کو خيرباد کيا ہے اور ايسے ملک ميں تشريف لائے ہيں جہاں کی تہذيب و ثقافت الگ ہے، جہاں کے اصول وقوانين مختلف ہيں، جہاں مختلف ملکوں، تہذيبوں اور زبانوں کا گہوارہ پايا جاتا ہے۔  کوئی ضروری نہيں کہ سارے لوگ آپ کے معيارپر پورا اتريں اورآپ کی ہر فکر سے ہم آہنگ ہوں، لہذا ہرايک سے معاملہ کرتے وقت ان کے مزاج وطبائع، ملکی خصائص اورطبعی رجحانات کو سامنے رکھيں۔ ديارِغير کے اصول وقوانين کا پاس ولحاظ کريں اورايسے کاموں اور پيشوں سے بالکل دور رہيں جوحکومت کے آئين کے خلاف ہوں اورآپ قانونی گرفت ميں آسکتے ہوں۔

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔