ہفتہ, فروری 04, 2017

کینسر اور اسلامی تعلیمات


آج ہم ایک ایسی خطرناک بیماری کے بارے میں بات کریں گے جو انسانی سماج کی مایوس کن اور لاعلاج بیماری سمجھی جاتی ہے، یہ وہ خطرناک بیماری ہے جسے ہم کینسر کے نام سے جانتے ہیں۔ چار فروری کو پوری دنیا کینسر کا عالمی دن مناتی ہے، اس دن کینسر کے اسباب، اس کی خطرناکی اور اس سے بچنے کے وسائل پر گفتگو کی جاتی ہے، مختلف کانفرنسیز، ورکشاپس، مباحثے اور پروگرامز منعقد ہوتے اور تجاویز پاس کی جاتی ہیں۔ کینسر کیوں ہوتاہے، کینسر کے اسباب کیا ہیں، اس حوالے سے میڈیکل سائنس کی کیا پیش رفت ہے، ان نکات پر ہم گفتگو نہیں کریں گے بلکہ کچھ شرعی تعلیمات  پیش کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ جو لوگ اس بیماری سے محفوظ ہیں ان کے لیے سودمند ہوسکیں اور جو لوگ اس کے شکار ہیں ان کے لیے مشعل راہ بن سکیں۔
کینسر کے مختلف اسباب میں سے ایک سبب ہے موٹاپے پر دھیان نہ دینا اور کھانے پینے میں اعتدال کو ملحوظ نہ رکھنا، اسی لیے اسلام نے ورزش پر ابھارا اور پنجوقتہ نمازیں ورزش کا بہترین ذریعہ ہیں، اسی طرح کم خوری کی تاکید کی، سنن ترمذی کی روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما ملأ آدميٌّ وعاءً شرًّا من بطنٍ، بحسبِ ابنِ آدمَ أكلاتٍ يُقمنَ صُلبَهُ، فإن كان لا محالةَ : فثلُث لطعامِه، وثُلُثٌ  لشرابِه وثُلُثٌ لنفَسِه ( سنن الترمذي: 2380)
سگریٹ نوشی، نشہ آور اشیاء کا استعمال کرنا بھی کینسر کا سبب بنتا ہے، اسی لیے اسلام نے نشہ لانے والی ہر شے کو بالکلیہ حرام ٹھہرایا، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے قاعدہ یہ بتایا کہ
 كلُّ مُسكِرٍ خَمرٌ . وَكُلُّ خَمرٍ حرامٌ  (صحیح مسلم: 2003)
ما يُصيبُ المُسلِمَ، مِن نَصَبٍ ولا وَصَبٍ، ولا هَمٍّ ولا حُزْنٍ ولا أذًى ولا غَمٍّ، حتى الشَّوْكَةِ يُشاكُها، إلا كَفَّرَ اللهُ بِها مِن خَطاياهُ ( صحیح البخاری: 5641)
أَبشِري يا أمَّ العلاءِ ! فإنَّ مرضَ المسلمِ يُذهِبُ اللهُ به خطاياه كما تُذهِبُ النَّارُ  خبَثَ الذَّهبِ والفضةِ .( صحیح الترغیب: 3427)
 إنَّ عِظمَ الجزاءِ مع عِظمِ البلاءِ ، وإنَّ اللهَ إذا أحبَّ قومًا ابتَلاهم ، (سنن الترمذي: 2396
 من يُرِدِ اللَّهُ بِه خيرًا يُصِبْ مِنهُ (صحیح البخاری: 5645  (
" إن شئتِ صبرتِ ولكِ الجنةُ . " ( صحیح البخاری: 5652، صحیح مسلم: 2576)
 يودُّ أَهلُ العافيةِ يومَ القيامةِ حينَ يعطى أَهلُ البلاءِ الثَّوابَ لو أنَّ جلودَهم كانت قُرِضَت في الدُّنيا بالمقاريضِ (صحيح الترمذي: 2402)
 "انسان جن برتنوں کو بھرتا ہے ان میں پیٹ سے زیادہ برا کوئی برتن نہیں، آدم کی اولاد کے لیے چند لقمے کافی ہیں جن سے وہ اپنی پیٹھ سیدھی رکھ سکے، اگر کھانا ہی چاہتا ہے تو ایک تہائی میں کھانا کھائے ایک تہائی میں پانی پئیے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے رہنے دے"۔
 "ہر نشہ آور شے شراب ہے اور ہر شراب حرام ہے"۔
غرضیکہ صحتمند اور متوازن عذا کا استعمال نہ کرنا، جسمانی ورزش (exercise) پر دھیان نہ دینا۔ ماحولیاتی آلودگی، اپنوں سے دوری اور ڈپریشن کینسر کا اہم سبب ہے ۔
البتہ جو بھائی یا بہن کینسر کے شکار ہوچکے ہیں، انہیں میڈٰکل علاج کے ساتھ شرعی علاج پر بھی دھیان دینا چاہیے، کیونکہ طبی دواؤں کا اثر کبھی ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا لیکن شرعی علاج کا فائدہ بہرحال مل کر رہتا ہے، چاہے جس انداز سے ملے۔ ذیل کے سطور میں اس حوالے سے چند باتیں پیش خدمت ہیں:
روحانی علاج:
اللہ کی ذات سے شفا کا پختہ یقین:
کیونکہ ایمان کا شفا سے گہرا تعلق ہے، ابراہیم علیہ السلام کی زبانی اللہ تعالی نے فرمایا:
وإذا مرضت فهو يشفين  (سورة الشعراء:80)
"جب میں بیمار ہوتا ہوں تو مجھے وہی شفا دیتا ہے"۔
اس آیت کریمہ میں پورے یقین واعتماد سے ساتھ ابراہیم علیہ السلام کہہ رہے ہیں کہ شفا دینے والی ذات صرف اللہ رب العالمین کی ہے، اس کے علاوہ دنیا کی کوئی ذات شفا نہیں دے سکتی۔ مریض کا جتنا ایمان مضبوط ہوگا اسی کے تناسب سے اس کی بیماری میں کمی آئے گی۔ بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد ہی نہیں بلکہ بیماری کا شکار ہونے سے پہلے بھی بندے کو اللہ کی ذات پر توکل رکھنا چاہیے۔
روحانی علاج میں دوسری چیز دعا ہے، اللہ سے شفا کی دعا کرنا مزمن بیماریوں سے شفایابی کا بہترین وسیلہ ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
 وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمنون : آية 60 )
"تمہارا رب کہتا ہے: مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا"۔ اس طرح جب بندے کا ایمان مضبوط ہوتا ہے پھر دل سے دعا نکلتی ہے تو ایک بندے کو دھیرے دھیرے قوت اور صحت حاصل ہونے لگتی ہے۔
روحانی علاج میں تیسری چیز جھاڑ پھونک کا اہتمام کرنا ہے، اور جھاڑ پھونک میں تین شرطوں کا پایا جانا نہایت ناگزیرہے۔ دم عربی زبان میں ہو یا ایسے کلمات سے ہو جس کا مفہوم سمجھ میں آتا ہو، کلام الہی سے ہو، یا اللہ تعالی کے اسماء وصفات سے ہو اور یہ عقیدہ رکھا جائے کہ جھاڑ پھونک بذات خود اثر انداز نہیں ہوتے بلکہ شفا دینے میں محض اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے آئیڈیل ہیں جنہوں نے مختلف بیماریوں میں جھاڑ پھونک کیا ہے۔ صحیح مسلم کی روایت میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں کوئی بیمار ہوتا تو آپ اس پر معوذات پڑھ کر دم کرتے تھے، جب آپ مرض الموت میں تھے اور تکلیف زیادہ ہوگئی تو میں یہ سورتیں پڑھ کر آپ کے ہاتھوں کو آپ کے جسم پر پھیرتی تھی۔ اس نیت سے کہ آپ کا ہاتھ میرے ہاتھ سے زیادہ برکت والا تھا۔
 روحانی علاج میں تیسری چیز صدقہ وخیرات کا اہتمام کرنا ہے۔ مریض کے لیے بالخصوص ایسا مریض جس کی بیماری لاعلاج ہو صدقہ اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دَاوُوا مَرضاكُمْ بِالصَّدقة  ( صحیح الجامع: 3358)
"صدقہ کے ذریعہ اپنے مریضوں کا علاج کرو"۔ 
اللہ والوں نے ہردور میں اپنی مصیبت اور بیماری سے نجات کے لیے صدقہ و خیرات کیا ہے اور انہیں اس کے جسمانی اور روحانی فائدے بھی حاصل ہوئے ہیں۔ اس لیےاگر آپ نے ہر طرح کے علاج کا تجربہ کرلیا ہے اورعلاج کرتے کرتے  تھک چکے ہیں تو اب صدقہ کے ذریعہ بھی علاج کا تجربہ کریں۔ آپ نے یوں تو بہت صدقہ کیا ہوگا، لیکن ابھی اس نیت سے صدقہ کریں کہ اللہ پاک ہمیں فلاں بیماری سے نجات دے یا ہمارے رشتے دار کو فلاں بیماری سے عافیت عطا فرما۔ اللہ نے چاہا تو اس کا اثر ضرور دیکھیں گے۔
علاج کی دوسری قسم نفسیاتی علاج ہے۔ مریض کی عیادت کے لیے جانا، اس کے پاس بیٹھنا اور اس کے غم کو ہلکا کرنے کی کوشش کرنا عجیب طریقے سے بیماری میں کمی لانے کا سبب بنتا ہے۔ مریض اپنے قریبی رشتے داروں کی دیکھ ریکھ اور نگہداشت کا محتاج ہوتا ہے، اور جب لوگ اس کے پاس عیادت کے لیے جاتے اور اس کے غم میں شریک ہوتے ہیں تو اس کی بیماری ہلکی ہونے لگتی ہے۔ اور اسلام نے بیماروں کی عیادت پر ابھارا ہے اور بیمار پرسی کی بیحد اہمیت بیان کی ہے۔  اسی لیے ایک کمزور حدیث میں آتا ہے جس کا معنی صحیح ہے کہ "جب تم کسی مریض کے پاس جاؤ تو کچھ درازیٔ زندگی کی بات کرکے اس کا غم دور کرو  کیونکہ یہ گفتگو تقدیر کو رد نہ کرے گی البتہ اس کا دل خوش ہوجائے گا". (سلسلة الأحاديث الضعيفة :184)
اخیر میں ان بھائیوں اور بہنوں کے نام میرا پیغام ہوگا جو کینسر یا اس جیسی کسی دوسری مایوس کن بیماری میں مبتلا ہیں، دنیا سے ان کی امیدیں کٹ چکی ہیں، موت کو قریب دیکھ رہے ہیں، بیماری کی شختی تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی ہے، ایسے بھائیوں اور بہنوں سے ہم کہیں گے کہ آپ اس بیماری میں اللہ اور اس کے رسول کی بشارت قبول کیجیے، کوئی بھی بیماری ایک بندہ مومن کے لیے بھلائی ہی لاتی ہے۔ صحیح بخاري کی روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 "مسلمان کو کوئی بھی بیماری، تکلیف، تھکاوٹ، غم، پریشانی یا ایذا وغیرہ لاحق ہو یہاں تک کہ کانٹا بھی چبھ جائے تو اس کے بدلے اللہ تعالی اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے"۔
 اور سنن ابی داؤد کی روایت ہے، ام العلاء رضي الله عنها بیان کرتی ہیں کہ  اللہ کے رسول میری بیماری کی حالت میں میری عیادت کے لیے آئے تو آپ نے مجھ سے فرمایا:
 "ام علاء تمہیں بشارت ہو، کیونکہ مسلمان کی بیماری کے سبب اللہ تعالی اس کے گناہوں کو ویسے ہی ختم کردیتا ہے جیسے آگ سونا اور چاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے"۔
 کینسر کا مریض تو اللہ کا محبوب ہوتا ہے کیونکہ ہمارے آقا نے فرمایا:
يعنی جتنی بڑی مصيبت ہوگی اُتنا ہی بڑا ثواب ملے گا اور اللہ تعالی بندے سے جس قدر محبت کرتا ہے اسی قدر اسے آزماتا ہے۔
اس لیے ہميں سمجھ لينا چاہيے کہ اللہ تعالی ہم سے محبت کرتا ہے اور ہميں آزماکراپنا مقرب بنانا چاہتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے مصيبت ميں گرفتار کرديتا ہے۔"
 گويا کہ آپ کا مصيبت سے دوچار ہونا آپ کے لئے نيک فال ہے، حب الہی کی علامت ہے۔ بلکہ اس کے بدلے آپ کے لیے جنت کی بشارت ہے۔ کیا آپ نے اس مرگی کی شکار خاتون کا قصہ نہیں سنا جس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر اپنی بیماری کی شکایت کرتے ہوئے دعا کی درخواست کی تھی توآپ نے اسے فرمایا:
"اگر تم صبر کرو تو تمہارے لیے جنت ہے"۔
اور صبر کرنے والوں کو بے حساب اجروثواب دیا جائے گا۔ اللہ تعالی نے فرمایا: إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِساب۔
مریض بھائی اور بہن! اس دھرتی پر پیدا ہونے والے لوگوں میں سب سے افضل انبیاء ہیں ان کو سب سے زیادہ آزمایا گیا، کیوں؟ اس لیے کہ آزمائش کے بعد ہی مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔ سنن ترمذی کی یہ حدیث سنئے: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! سب سے زیادہ آزمائش کس کی ہوتی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أشد الناس بلاء الأنبياء ثم الصالحون ثم الأمثل فالأمثل يبتلى الرجل على حسب دينه فإن كان في دينه صلباً اشتد به بلاؤه وإن كان في دينه رقة ابتلي على قدر دينه فما يبرح البلاء بالعبد حتى يتركه يمشي على الأرض وما عليه خطيئة۔ ( سنن الترمذی: 2398)  
فرمایا: انبیاء علیہم السلام کی، پھر جو ان سے قریب تر ہو، پھر جو ان سے قریب تر ہو، آدمی کو اس کے دین کے مطابق آزمایا جاتا ہے، لہذا اگر وہ اپنے دین میں پختہ ہو تو اس کی آزمائش بھی کڑی ہوتی ہے، اگر اس کے دین میں کمزوری ہو تو اسے اس کے دین کی بقدر آزمائش میں ڈالا جاتا ہے، اور آزمائش بندے کے ساتھ ہمیشہ رہتی ہے، یہاں تک کہ اس کو ایسا کرکے چھوڑتی ہے کہ وہ زمین پر ایسی حالت میں چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں رہتا۔
یاد رکھیں کہ مومن خوشی ہو یا غم ہو ہر حالت میں اپنے رب کے فیصلہ سے راضی رہتا ہے کیونکہ اس کا رب اس کے حق میں غلط فیصلہ کیسے کر سکتا ہے۔ آپ یہاں جن نعمتوں سے محروم ہیں یا جن آزمائشوں کے شکار ہیں کل قیامت کے دن ان کے بدلے ایسا اکرام دیکھیں گے کہ دنیا کے صحتمند لوگ اسے دیکھ کر ترسیں گے کہ کاش ہماری کھال بھی کیجیوں سے کاٹ دی گئی ہوتیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 "قیامت کے دن جب مصیبت زدہ ثواب سے نوازے جائیں گے (تو یہ دیکھ کر) صحت اور آرام والے خواہش کریں گے کہ کاش! دنیا میں ان کے چمڑے قینچیوں سے کاٹ دیے جاتے (تاکہ آج وہ بھی بڑے ثواب کے حقدار ہوتے)۔ ''
اس لیے صبر سے کام لیں، بکثرت  دعائیں کریں، فرائض و نوافل کا اہتمام کریں، قرآن کریم کی تلاوت کریں، اگر ممکن ہوسکتا ہو تو صدقہ و خیرات کریں اور ہر حالت میں اللہ تعالی سے حسن ظن رکھیں۔ و صل اللھم علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین۔ 

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔