پیر, دسمبر 09, 2013

نفلى نمازيں محبت الہى كا گرُ ہيں

نمازمومن کے لیے ایسے ہی ہے جیسے مچھلی کے لیے پانی اوردودھ پیتے بچے کے لیے ماں کی گود کہ اگر مچھلی کو پانی سے نکال کر خشکی پر ڈال دیاجائے تو تڑپنے لگے گی اوردودھ پیتے بچے کو اگر ماں کی گود سے اٹھاکر زمین پر ڈال دیاجائے تو چلانے لگے گا ۔ بعینہ نماز مومن کے لیے سکون ،سلامتی اورطمانینت کی چیز ہے -
آج ہمارا سکون غارت محض اس لیے ہوتا جارہا ہے کہ ہمارا رابطہ اپنے رب سے کٹ چکا ہے یا رابطے کا صحیح حق ادا نہیں ہوپا رہا ہے ۔ اللہ پاک نے پنجوقتہ نمازوں کا کورس اسی لیے دیا تاکہ ہمارے اندر سکون وطمانینت آئے .
ہم میں سے کون ایساآدمی ہے جویہ نہ چاہتا ہو کہ وہ اللہ کا محبوب بنے، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس کو جنت میں جگہ نصیب ہو؟ اسکے درجات بلند ہوں،اسکے گناہ مٹادئیے جائیں؟ اوراسکے گھر میں برکت ہی برکت ہو….ظاہر ہے کہ یہ خواہش تو ہم سب کی ہوگی ….لیکن سوال یہ ہے کہ یہ خواہش پوری ہوتو کیسے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ہماری انہیں خواہشات کی تکمیل کے لیے اللہ پاک نے فرض نمازوں کے علاوہ بیشمار نفلی نمازیں رکھی ہیں جن کا  اہتمام کرکے ہم ان انعامات کے حقدار بن سکتے ہیں۔ان میں سے کچھ دائمی سنتیں ہیں،جیسے فرض نمازوں سے پہلے اور بعد کی سنتیں، نماز وتر، اور نماز چاشت، اسی طرح، عمومی نفل نماز یں ہیں، جیسے تہجد اورکچھ ایسی نمازیں ہیں جو کسی سبب کے پیدا ہونے سے ادا کی جاتی ہیں ۔ یہ سب نماز نفل میں ہی شامل ہیں.
فرائض سے پہلے اوربعدکی مؤکدہ سنتوں کی تعدادبارہ رکعات ہے ،سنن نسائی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ان بارہ رکعات کی صراحت  آئی ہے، ظہر سے پہلے چار رکعات  مغرب کے بعد دو رکعات  عشاء کے بعد دو رکعت اور فجر سے پہلے دو رکعات.  ان بارہ رکعات کا فائدہ کیاہے؟ صحیح مسلم میں حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
 ما من عبد مسلم یصلی لله کل یوم ثنتی عشرة رکعة تطوعا غیرفریضة إلا بنی الله له بیتا فی الجنة أو بنی له بیت فی الجنة.
 ” جو مسلمان بندہ ہر دن اللہ تعالی کی رضا کےليے بارہ رکعات نفل (جو کہ فرض نہیں ) ادا کرتا ہے ، اللہ تعالی اس کے ليے جنت میں ایک گھر بنا دیتا ہے ۔ یا اس کے ليے جنت میں ایک گھر بنا دیا جاتا ہے 
یہ حدیث بیان کرکے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :
ما ترکتھن منذ سمعتھن من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
 یعنی ” میں نے جب سے ان بارہ رکعات کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے تب سے اب تک یہ نمازیں ہم سے نہیں چھوٹی ہیں۔“بلکہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بعد سلسلہ وار آنے والے تین راویوں کا بھی یہی کہنا ہے ، عنبسہ بن ابی سفیان، عمروبن اوس، نعمان بن سالم ….یہ تینوں کہتے ہیں : ”جب سے میں نے یہ حدیث سنی ہے تب سے اب تک ان بارہ رکعات کو ترک نہیں کیا“۔ یہ ہیں حدیث کے چار رواة جو حدیث کو سنتے ہیں تو اسے اپنی عملی زندگی میں جگہ دیتے ہوئے گواہی دیتے ہیں کہ جب سے یہ حدیث سنی ہے تب سے یہ بارہ رکعتیں ہم سے نہ چھوٹ پائی ہیں ۔
محترم قارئین !آپ نے بھی یہ حدیث سن لی ہے تو پھر آئیے عہد کیجئے کہ ان بارہ رکعتوں کی پابندی کریں گے اور کسی بھی حالت میں انہیں پامال نہ ہونے دیں گے ۔
دائمی سنتوں میں نمازِ وتر بھی ہے جس کی بہت اہمیت ہے، نمازِ عشاء کے بعد طلوعِ فجر تک نمازِ وتر کا وقت ہے، اس کی اتنی اہمیت ہے کہ سفر میں بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اہتمام کیا ہے، اسی لیے بعض علماء نے اسے واجب بھی کہا ہے ۔
دائمی سنتوں میں تیسری قسم نمازِ چاشت ہے، جسے اشراق کی نماز اوراوابین کی نماز بھی کہتے ہیں ، اس کی بھی بہت اہمیت ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کہ ہر انسان کے جسم میں تین سو ساٹھ جوڑ ہیں، اس پر لازم ہے کہ وہ ہر جوڑ کی جانب سے ایک صدقہ کرے. (ابوداؤد، احمد ) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ویجزی من ذلک رکعتان یرکعھما من الضحی اور ان سب سے چاشت کی دو رکعات ہی کافی ہو جاتی ہیں ).مسلم)
سنن ترمذی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 
من صلى الفجر في جماعة، ثم جلس يذكر الله حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين، كانت له كأجر حجة وعمرة تامة، تامة، تامة
 "جس شخص نے نمازِ فجر باجماعت ادا کی ، پھر طلوعِ آفتاب تک بیٹھا اللہ کا ذکر کرتا رہا ، پھر دو رکعتیں پڑھیں، تو اسے یقینی طور پر مکمل حج وعمرہ کا ثواب ملے گا 
نفل نمازوں میں کچھ نمازیں ایسی ہیں جو کسی سبب کی بناء پر مشروع کی گئیں ہیں اورکسی سبب سے متعلق ہیں، مثال کے طور پرمسجد میں داخل ہونے کے بعد بیٹھنا چاہتے ہوں تو دو رکعت ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہےجسے ہم تحیة المسجد کے نام سے جانتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إذا دخل أحدكم المسجد فليركع ركعتين قبل أن يجلس  (رواه مسلم)
 "جب تم میں کا کوئی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت ضرور پڑھ لے".
جب بارش نہ ہو اورقحط کے آثار ظاہر ہونے لگیں تو سنت کا طریقہ یہ ہے کہ لوگ باہر کھلے میدان میں نکلیں، اذان اوراقامت کہے بغیر دو رکعت نماز جماعت سے ادا فرمائیں، اورامام نماز کے بعد خطبہ دے ۔ خطبہ کے بعد امام اور مقتدی سب دعا کرے، اسے نمازاستسقاء کہتے ہیں یعنی بارش طلب کرنے کے لیے نماز۔
دو یا دوسے زائد مباح کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو اللہ سے ان میں بہترکام کے لیے یکسوئی حاصل کرنے کے لیے دو رکعات نماز ادا کی جاتی ہے اورنماز کے بعد ایک مسنون دعا کی جاتی ہے اس نماز کو نماز استخارہ کہتے ہیں۔
جوشخص قرآن کی تلاوت کررہا ہو اورسجدے کے مقامات سے گذرے تو پڑھنے والے اور سننے والے کےليے سجدہ تلاوت سنت مؤکدہ ہے -
اسی طرح اگرکسی مسلمان کو جب کوئی نعمت نصیب ہو،  یا اس سے کوئی آفت ٹل جائے تو اس کےليے مستحب ہے کہ وہ اللہ تعالی کےليے سجدہ شکر بجا لائے ۔
محترم قارئین ! یہ چند نمازیں ہیں جو نفل نمازوں سے تعلق رکھتی ہیں ایک بندہ ان کا اہتمام کرتا ہے تاکہ اللہ کی خوشنودی حاصل ہوسکے اورکل قیامت کے دن جب فرائض میں کوتا ہی ہو تو یہ نمازیں ان کی تلافی کرسکیں ۔

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔