بدھ, جولائی 03, 2013

ماہ شعبان میں زیادہ سے زیادہ روزہ رکھنے کا عہد کریں


ابھی ہم ماہ شعبان سے گذررہے ہیں جو ہجری تقویم کے اعتبار سے آٹھواں مہینہ ہے ،چونکہ یہ مہینہ رمضان کی تمہید ہے اس کے بعد رمضان کا مہینہ آتا ہے تو زیادہ مناسب تھا کہ اس مہینے میں روزہ جیسی عبادت کا اہتمام ہو ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے رول ماڈل ہیں،آپ کا اسوہ شعبان میں یہ تھا کہ آپ زیادہ سے زیادہ اس مہینے میں روزے کا اہتمام کرتے تھے ۔ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے چلے جاتے یہاں تک کہ ہم سمجھتے کہ آپ روزہ رکھنا نہ چھوڑیں گے اورآپ روزہ چھوڑتے چلے جاتے یہاں تک کہ ہم سمجھتے کہ آپ روزہ نہیں رکھیں گے ومارأیتہ استکمل صیام شھر الا رمضان وما رأ یتہ اکثر صیاما منہ فی شعبان میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ رمضان کے سوا کسی مہینے کا مکمل روزہ رکھا ہو ،اورمیں نے آپ کو شعبان کے مقابلہ میں زیادہ روزہ رکھتے کسی مہینے میں نہیں دیکھا ۔
 اورمسنداحمد کی ایک طویل حدیث میں حضرت انس رضى الله عنه سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کان أحب الصوم الیہ فی شعبان اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان میں روزہ رکھنا زیادہ پسندیدہ تھا ۔ بلکہ حضرت انس ایک دوسری روایت میں فرماتے ہیں : ماکان صلی اللہ علیہ وسلم یحرص علی صیام قط مثل حرصہ علی صیام رمضان یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جس قدر شعبان کے روزوںکا اہتمام فرماتے تھے اس قدر دوسرے روزوںکا اہتمام نہیں کرتے تھے ۔
ان احادیث سے پتہ یہ چلتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے اکثر دنوں کا روزہ رکھتے تھے ،اوراس کے روزے کا بہت اہتمام کرتے تھے ۔ سوال یہ ہے کہ شعبان کے روزے کاآپ اس قدر جو اہتمام فرماتے تھے اس کی بنیادی حکمت کیا تھی ….؟ اس نکتے کو بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کردیاہے ۔
امام نسائی اورابوداود نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ،وہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول! میں آپ کو نہیں دیکھتا کہ آپ کسی بھی مہینہ میں اِتنا زیادہ روزہ رکھتے ہوں جتنا آپ شعبان میں رکھتے ہیں ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ذاک شھر یغفل الناس عنہ بین رجب ورمضان وھو شہر ترفع فیہ الاعمال الی رب العالمین فأحب أن یرفع عملی وأنا صائم ”یہ رجب اوررمضان کے بیچ وہ مہینہ ہے جس سے لوگ غفلت کا شکار ہیں ،یہی وہ مہینہ ہے جس میں اللہ کے پاس اعمال پیش کئے جاتے ہیں ، لہذا میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ جب میرا عمل اللہ کے پاس پیش کیا جائے تو میں روزے سے ہوں ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں زیادہ سے زیادہ روزہ رکھتے تھے اس کی دو حکمت تھی
پہلی حکمت یہ کہ اس مہینے میں لوگ غفلت کے شکارہوتے ہیں ،اوریہ بات واضح ہے کہ جس وقت لوگ غفلت میں ہوں اس وقت کی عبادت کا اجروثواب زیادہ ہوتا ہے ۔ اسی لیے تہجد کی نماز کی اہمیت ہے کہ اس وقت لوگ غفلت میں ہوتے ہیں ۔ اورغفلت میں کسی عمل کا کرنا طبیعت پر شاق گذرتا ہے ،کیونکہ کسی کام کے کرنے والے اگر زیادہ ہوں تو ان کی ادائیگی آسان ہوجاتی ہے جبکہ اگر اس کام کے کرنے والے کم ہوں تو اس کی ادائیگی میں پریشانی ہوتی ہے ۔ چنانچہ اجروثواب بھی اسی کے تناسب سے رکھا گیا ۔ اس مہینے میں غفلت کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ کچھ لوگ رجب میں بدعات وخرافات میں لگ جاتے ہیں ،اورجب شعبان آتا ہے تو سست پڑجاتے ہیں ۔
دوسری حکمت یہ کہ اس مہینے میں بندوں کے اعمال اللہ کے پاس پیش کیے جاتے ہیں اور اللہ کی رضامندی حاصل کرنے اور عمل کے قبول ہونے میں روزہ کی بہت اہمیت ہے ۔ کیونکہ اس میں تواضع ہوتا ہے ،انکساری ہوتی ہے اور فروتنی پائی جاتی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ روزے رکھتے تھے اور لوگوں کی غفلت کا فائدہ اٹھاتے تھے حالانکہ آپ وہ نبی ہیں جن کے اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے گئے تھے ۔اب آپ تصور کرسکتے ہیں کہ شعبان کے اس مہینے میں ہمیں اللہ کے نبی کو اسوہ بنانے کی کس قدر ضرورت ہے ۔
اس لیے آئیے ہم سب ماہ شعبان کی قدر کریں اوراس میں زیادہ سے زیادہ روزہ رکھنے کا عہد کریں ۔


0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔