ہردور اور ہرسماج میں لوگوں کا
معیارزندگی ایک طرح کا نہیں رہا، کوئی امیرہے تو کوئی غریب ہے، کوئی خوشحال ہے
توکوئی تنگ دست ہے، دونوں طرح کے لوگ ہردورمیں پائے گيے ہیں،تاکہ ان میں سے ایک
طبقہ دوسرے طبقہ کے کام آسکے، ہرایک کی ضرورت دوسرے سے پوری ہوتی رہے ۔ سورہ انعام
آیت نمبر165میں اللہ پاک نے فرمایا:
ورفع بعضکم فوق بعض درجات لیبلوکم فیما آتاکم "
اورایک کا دوسرے پر رتبہ بڑھا یا تاکہ تم کو آزمائے ان چیزوں میں جو تم کو
دی ہے ۔" فرض کریں کہ اگر سارے لوگ ایک ہی معیارکے ہوتے تو لوگوں کا زندگی
گذارنا مشکل ہوتا، ایک کی مصلحت دوسرے سے قطعاً حاصل نہ ہوسکتی تھی ۔ اس طرح سماج
میں فساد پیدا ہوتا اور
قوموں اورملکوں کی تباہی ہوتی ۔
لیکن معاشرے كے کمزور اوربدحال طبقہ کے ساتھ معاملہ کیسا ہو،جب انسانوں نے اس
نکتے پر اپنی محدودعقل سے سوچنا شروع کیا توایک نظریہ پیدا ہوا روس میں سوشلزم کے
نام سے ،اس نے سوچا کہ کیوں نا سب کا معیار زندگی ایک ہی کردیا جائے، کہ پیداوار
پر عوام کی مشترکہ ملکیت ہو، اورسب کو برابر کا حصہ ملے، کمائی کسی شخص کی نجی
ملکیت نہ ہو ،اس نظام نے فرد سے مال کی ملکیت کا سارا اختیار چھین لیا، چوں کہ یہ ایک غیرفطری نظام تھا کہ ہرانسان اپنی کمائی کا اثر دیکھنا چاہتا
ہے،ظاہر ہے کہ جب آپ کمانے والوں سے نجی ملکیت چھین لیں گے توان کے اندر سے
خوداعتمادی جاتی رہے گی، ان کے اندر اپنے مال کو ترقی دینے کی فکر نہ رہے گی، ان
کی زندگی کا جوش اور حوصلہ ٹھنڈا پڑجائے
گا، اورہوا بھی یہی ؟ چند
سالوں کے بعد ہی یہ نظام اپنی موت مرگیا ۔ اوردنیامیں اس کا نام ونشان بھی نہ رہا
۔ اس نظام کے مقابلہ میں ایک
دوسرا نظام آیا جس کا نام دنیانے سرمایہ دارانہ نظام یعنیCapitalism رکھا، اس
نظام نے فرد کو پیداوار کا مالک کل بنا دیاجس میں دوسروں کا ذرہ برابر بھی حق نہیں
رکھا گیا۔ یہی وہ نظام ہے جو پوری دنیا میں آج رائج ہے، اس نظام کی بدولت چند
لوگوں کی مٹھی میں دنیا کی دولت گھوم رہی ہے، لوگ جائز وناجائز کی پرواہ کيے بغیر
پیسے اکٹھا کررہے ہیں، یہاں ایک طبقہ مالدار سے مالدار تر ہوتاجارہاہے تودوسرا
طبقہ غریب سے غریب تر ہوتا جا
رہا ہے۔ کیوں کہ اس میں غریبوں کا خون چوسا جارہا
ہے، غریبوں کا اس میں بالکل خیال ہی نہیں رکھا گیا، چنانچہ آج دنیا اس نظام سے بھی
اوب چکی ہے اوراِس کے خلاف دنیا کے کونے کونے میں آئے دن احتجاج ہورہا ہے۔
ان دونوں کے بیچ اسلام نے جو تیسرا نظام دیا وہ نہایت معقول، معتدل اورانسانی طبیعت سے ہم آہنگ نظام ہے، اسلام نے نہ تو انسان کی اپنی کمائی کو حکومت کی دولت ٹھہرایا کہ سب کواس میں برابر کا حق ملے اورنہ انسان کو اپنی کمائی پر یوں اختیا رکلی دی کہ وہ اس پر سانپ بن کر بیٹھ جائے ۔اسلام نے فطری نظام یہ دیا کہ انسان اپنی محنت سے جو کچھ کماتا ہے وہ اسی کی ملکیت ہے لیکن سماج میں معاشی اعتبار سے جولوگ پچھڑگيے ہیں، ان کوہم نظرانداز نہ کریں، ہمارے مال میں سماج کے غریبوں اورفقیروں کا بھی حق ہے، اس طرح اسلام نے غریبوں کونہ تو نظر اندازکیا اورنہ مالداروں کے مال میں انہیں برابر کا حقدار ٹھہرایا، ہاں !مالداروں کو غریبوں پر خرچ کرنے کا حکم دیا، اوران کے مالوں میں غریبوں کا واجبی حق ٹھہرایا، اللہ پاک نے فرمایا:
ان دونوں کے بیچ اسلام نے جو تیسرا نظام دیا وہ نہایت معقول، معتدل اورانسانی طبیعت سے ہم آہنگ نظام ہے، اسلام نے نہ تو انسان کی اپنی کمائی کو حکومت کی دولت ٹھہرایا کہ سب کواس میں برابر کا حق ملے اورنہ انسان کو اپنی کمائی پر یوں اختیا رکلی دی کہ وہ اس پر سانپ بن کر بیٹھ جائے ۔اسلام نے فطری نظام یہ دیا کہ انسان اپنی محنت سے جو کچھ کماتا ہے وہ اسی کی ملکیت ہے لیکن سماج میں معاشی اعتبار سے جولوگ پچھڑگيے ہیں، ان کوہم نظرانداز نہ کریں، ہمارے مال میں سماج کے غریبوں اورفقیروں کا بھی حق ہے، اس طرح اسلام نے غریبوں کونہ تو نظر اندازکیا اورنہ مالداروں کے مال میں انہیں برابر کا حقدار ٹھہرایا، ہاں !مالداروں کو غریبوں پر خرچ کرنے کا حکم دیا، اوران کے مالوں میں غریبوں کا واجبی حق ٹھہرایا، اللہ پاک نے فرمایا:
وآتوھم من مال اللہ الذی آتاکم (سورة النور 33)
"اوراللہ کے مال میں سے تم انہیں دو جو اس نے تمہیں عطا کی
ہے" ۔ اگر ہمارا مال نصاب کو پہنچ جارہا ہے تونمازاور روزے کے جیسے ہم پر
ضروری ہے کہ اپنے مال میں سے ایک معمولی مقدار غریبوں کے لیے بھی نکالیں …. اسی کو
اسلام کی اصطلاح میں زکاة کہاجاتا ہے ۔
0 تبصرہ:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔