بدھ, اکتوبر 05, 2011

میں مسلمان کیوں ہوا ؟

کناڈا کے ایک متعصب عیسائی گھرانے میں پیدا ہونے والے ٹونی کے قبول اسلام کی داستان جس نے مسلمانوں کو عیسائی بنانا چاہا تھا تاہم اللہ تعالی نے اسے اسلام کی ہدایت دے دی ۔

میری پیدائش ایک دیندارعیسائی گھرانے میں ہوئی، اس گھرانے کے بیشتر افراد چرچ کی خدمت میں کام کرتے تھے، جس کے باعث چرچ سے ان کا اچھا تعلق بندھا ہوا تھا ۔ میرے اہل خانہ کی حد تک میرے باپ ایک طویل عرصہ تک خادم کنیسہ رہے، میری ساری بہنوں نے عیسائی اسکول میں تعلیم حاصل کی، اور میری ایک بہن نے ایک عیسائی مبلغ سے شادی بھی کی ہے ۔

ریڈیوپر اسلام کی غلط تصویرکشی:

سب سے پہلے میں نے اسلام کی بابت اپنی گاڑی کی ریڈیوں پر سنا، اس وقت میں16سال کی عمر کا تھا، پروگرامر مسلمانوں سے متعلق بات کرتے اور ان کا تعارف کراتے ہوئے یہ کہہ رہا تھا :
مسلمان ایسی قوم ہے جو چاند کی پوجا کرتی ہے اور وہ اپنے نبی محمد کی پوجا کرتی ہے، اسی طرح اس کالے پتھر کی بھی پوجا کرتی ہے جو سعودی عرب میں پایا جاتا ہے جسے کعبہ کہتے ہیں ۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اس نے اسلام کوقدامت پسند مذہب قرار دیا اور کہا کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو دہشت گردوقدامت پسند بناتا ہے ۔ کمزو روں کی مدد نہیں کرتا بلکہ اس سے سختی سے پیش آتا ہے اور نہ بڑوں کی تعظیم کرنا سکھاتا ہے، نہ چھوٹوں پر شفقت کی تعلیم دیتا ہے، اور نہ مریض ویتیم کی مدد کرتا ہے، اسلام میں خاتون کو بھی کوئی حق حاصل نہیں ۔
پھر پروگرامر نے دعوی کیا کہ وہ مذہب اسلام کا ماہر ہے اور اس نے19سال کا عرصہ اسے سیکھنے میں لگایا ہے ۔
اس پروگرام کو سننے کے بعد میری رائے یہ بنی کہ اسلام وہ مذہب ہے جس میں محض طاقت ور کو زندہ رہنے کا حق ہے اور اس میں طاقت ور کمزور کو نگل جاتا ہے ۔
اسی وقت میرے دل میں یہ فکر پیدا ہوئی کہ میں ۔۔۔بنوں اور تاکہ مسلمانوں کو عیسائیت کی طرف دعوت دوں ۔ اسی وقت سے میں انجیل پڑھنے لگا اور مسیحیت کا گہرائی سے مطالعہ شروع کردیا ۔ جب میں 21 سال کی عمر کا ہوا تو اس کی طرف زیادہ سے زیادہ دھیان دینے لگا ۔

 11 ستمبر کا حادثہ:

جب 11 ستمبر کا واقعہ پیش آیا تو میں مسلمانوں کو اسلام سے عیسائیت کی طرف منتقل کرنے کے ليے کمرکس کے ان کی مدد کرنے لگا،  کیوں کہ میڈیا ان کو اس شکل میں منظرعام پر لاتی تھی کہ خون کی ہولی کھیلنے کے پیاسے ہیں اور دماغی توازن کھو چکے ہیں وہ محض اپنے معبودوں کے تقرب کے ليے معصوم جانوں کو ذبح کرنا جانتے ہیں ۔
اس وقت کناڈا میں ہرمیدان میں مسلمانوں کے خلاف بدنامی، اہانت، اور تذلیل آمیز رویہ اپنایا جا رہا تھا، ہر مسلمان مسلم ہونے کے باعث گردن زدنی کا مستحق تھا،  سڑکوں سے گزرتے ہوئے لوگ ان پر تھوکتے تھے، اور بیشتر لوگ 11ستمبر کے مسئلے کو لے کر مسلمانوں سے انتقام لینا چاہتے تھے ۔
میرے اردگرد کے اکثر لوگ  مسلمانوں کو ناپسند کرتے تھے تاہم میں ان کی مدد کرنے کا متمنی رہتا، اسی وجہ سے 11ستمبر کا واقعہ میرے ليے ایک طرح سے حوصلہ افزا ثابت ہواکہ میں اسلام کو جانوں اور عیسائیت پر مہارت حاصل کروں تاکہ مسلمانوں سے بحث کرسکوں اور ان کے سوالات کا جواب دے سکوں، یہيں سے میں نے پہلے سے زیادہ د لچسی سے نہایت گہرائی کے ساتھ انجیل کا مطالعہ شروع کردیا ۔ اس وقت میرے سامنے ایک ایسی حقیت کا انکشاف ہوا جو میرے ليے انوکھی بات تھی وہ یہ کہ انجیل میں حقیقت تثلیث کا کہیں وجود نہیں، انجیل میں اللہ ایک ہے، تین نہیں ۔ میں نے پایا کہ اکثر مقامات پر یہ ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ ایک  ہے ۔
میں کسی صورت میں باور نہیں کرسکا کہ عیسی علیہ السلام اللہ ہیں یا اللہ کے بیٹا ہیں کیوں کہ خود عیسائیوں میں اس مسئلے سے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن عیسی علیہ السلام نے انجیل میں خود کہا ہے کہ اللہ ان سے بڑا ہے اور انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ انسان ہیں ، رب کی مدد کے بغیر ان کے اندر کچھ بھی کرنے کی طاقت نہیں، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کے سارے معجزات اللہ پاک کی طرف سے تھے نہ کہ خودآپ کی طرف سے ۔
میرے تعجب میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب کہ میں نے انجیل میں یہ پایا کہ انبیاء اللہ تعالی کے ليے نماز پڑھتے تھے اور سجدہ کرتے تھے، یہ بات پیدائش 173میں مذکور ہے:
 " ابراہیم سجدہ کے ليے چہرہ کے بل جھک گئے "
مجھے سب سے زیادہ تعجب اس بات پرہوا کہ حضرت عیسی علیہ السلام اسی طریقہ سے نماز پڑھتے تھے:
”تب یسوع ان سے تھوڑی دور جاکر زمین پر منہ کے بل گرا اور دعا کی “  ( متی 26 - 39 )
مجھے اس بات پرتعجب تھا کہ سارے انبیاء مسلمانوں کے طریقہ کے مطابق نماز پڑھتے تھے جبکہ میں نے چرچ میں نماز کا طریقہ یہ سیکھا تھا کہ اپنا ہاتھ اپنے چہرے کے آمنے سامنے رکھوں اور آسمان کی طرف دیکھوں، میں سوچنا کہ آخر ایسا کیسے ہوگا آخر عیسائی لوگ انبیاء کے طریقے کے مطابق نماز کیو ں نہیں پڑھتے ؟ ۔

بکہ اور مکہ کہاں ہے:

میں نے انجیل میں یہ عبارت بھی دیکھی جس سے متحیر رہ گیا:
” وہ لوگ اپنے دل میں نغموں کے ساتھ  جو تیری ہیکل میں آتے ہیں بہت مسرور ہیں ‘ یہ لوگ وادی بکہ ‘جسے خدا نے جھرنے جیسا بنایا ہے (سے ) گذرتے ہیں“ ۔(زبور84 5۔6 )
میں چرچ میں اپنے استاذ کے پاس گیا اور ان سے پوچھا کہ بکہ کہا ں ہے ؟ انہوں نے مجھے بتایا کہ اس کی جگہ کو کوئی نہیں جانتا تاہم وہ صحرائی جگہ پر واقع ہے ۔
اخیر میں مجھے اس بات کا پتہ چل گیا کہ یہ سرزمین دراصل مکہ ہے جس کا مسلمان ہر سال حج کرتے ہیں چنانچہ میرے اندر یہ ولولہ پیدا ہوا کہ مسلمانوں کے بکہ کی طرف حج کرنے اور عیسائیوں کے نہ کرنے کے اسباب کاسراغ لگا سکوں۔
میں نے انجیل ہی میں ایک دوسرا فقرہ دیکھا جس میں دوسرے نبی کے آنے کا ذکرہے:
 ” موسیٰ نے کہا:  خدا وند سینائی سے ان لوگوں پر شعیر سے چمکتی   ہوئی روشنی کی طرح ، فاران پہاڑ سے چمکتی ہوئی روشنی کی طرح اور انگنت فرشتوں کے ساتھ اور اپنے بغل میں ليے ہوئے زورآور سپاہیوں کے ساتھ آیا “ (استثناء3   32)
فاران یہ موجودہ سعودی عرب ہے اورجن صحابہ کے ہمراہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کو فتح کیا ان کی تعداد دس ہزار تھی۔
اسی طرح انجیل میں عیسیٰ علیہ السلام نے ذکر کیا ہے :
”اسی وجہ سے میں تم سے جو کہتا ہوں وہ یہ کہ خدائی باد شاہت تم سے چھین لی جائے گی ، اس خدائی باد شاہت کو خدا کی مرضی کے مطابق کام کرنے والوں کو دی جائے گی “          (متی ۱۲ - ۳۴)
 جب میں نے ان بشارتوں پر غور کیا تو پایا کہ یہ بشارتیں صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب پر منطبق ہوتی ہیں ۔

ترجمہ قرآن کا مطالعہ:

 میں مسجد گیا تاکہ قرآن کریم کا ایک نسخہ خرید سکوں، وہاں میری ملاقات امام مسجد سے ہوئی جوصومالیہ کے تھے، انہوں نے مجھے مفت میں انگریزی ترجمہ قرآن کا ایک نسخہ دیا۔ اس سے پہلے میرا یہ عقیدہ تھا کہ قرآن کریم کی کوئی اہمیت نہیں، غلطیوں سے پُر ہے ، جسے ساتویں صدی میں ایک عربی نے لکھا تھا ۔ جب میں قرآن پڑھنا شروع کیا تو مجھے چار عظیم آیتوں نے بہت متاثر کیا
٭آیت الکرسی (اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم....) اللہ (وہ معبود برحق ہے کہ) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ زندہ ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔ کون ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس سے (کسی کی) سفارش کر سکے۔ جو کچھ لوگوں کے روبرو ہو رہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہو چکا ہے اسے سب معلوم ہے۔ اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز پر دسترس حاصل نہیں کر سکتے ہاں جس قدر وہ چاہتا ہے (اسی قدر معلوم کرا دیتا ہے) اس کی بادشاہی (اور علم) آسمان اور زمین سب پر حاوی ہے۔ اور اسے ان کی حفاظت کچھ بھی دشوار نہیں اور وہ بڑا عالی رتبہ اور جلیل القدر ہے (بقرہ : 255)
٭ لا اکراہ فی الدین .... دین (اسلام) میں زبردستی نہیں ہے (بقرہ: 256)
٭وقالوا کونوا ھودا او نصاری ”کہتے ہیں کہ يہود ونصاری بن جاؤتو ہدایت پاؤگے ، تم کہوبلکہ صحيح راہ پر ملت ابراہیمی والے ہیں اور ابراہیم خالص اللہ کے پرستار تھے اور مشرک نہ تھے ۔ ۔ (بقرہ: 135۔ 136)
٭ماکان ابراہیم يھودیا ولا نصرانیا....”ابراہیم (عليہ السلام) تو نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی تھے بلکہ وہ تو یک طرفہ خالص مسلمان تھے اور شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھے “۔             (آل عمران 67)
یہ مبارک آیتیں میری زندگی میں تبدیلی لانے کا نقطہ آغاز بنیں، ملت ابراہیمی کیا ہے ؟ ابراہیم علیہ السلام کا راستہ کیا تھا ؟ وہ یکسو مسلم کیسے تھے ؟
ان آیات نے میرے سابقہ سارے شبہات دور کردیے جو انجیل کے مطالعہ کرنے سے میرے ذہن ودماغ میں پیدا ہوئے تھے، اب میں سمجھ گیا تھا کہ ابراہیم علیہ السلام کا راستہ وہی ہے جسے لے کر آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم آئے تھے، پھر مطالعہ کے بعد مجھے پورا اطمینان حاصل ہوگیا کہ اسلام ہر طرح کے عیب ونقص سے پاک ہے اور جو کچھ اسلام کی بابت مغربی میڈیا بیان کرتی ہے وہ سب افواہ ہے ۔
اسی کے بعد میں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا اورامام مسجد کے پاس جاکر ان سے عرض کیا: میں نے زندگی کے بیشتر اوقات عیسائیت میں گزارے ، الف سے یا تک انجیل پڑھی اور اس کی تحقیق کی، ایسا ہی میں نے قرآن کے ساتھ  کیا کہ میں اسے بھی الف سے یا تک پڑھ گیا، میں نے دونوں میں آسمان وزمین کافرق پایا، میں نے پایا کہ قرآن کریم ایسی کتا ب ہے جس کی نظیر پیش نہیں کی جا سکتی، یہ آسمان والے کی کتاب ہے اہل زمین کے نام ، اور اس میں ذرہ برابر تحریف واقع نہیں ہوئی ہے لہذا میں چاہتاہوں کہ ابھی مسلمان بنوں ، چنانچہ میں نے مسجد میں اسلام قبول کرلیا ۔
میں نے فیصلہ کیا کہ اپنانام نہ بدلوں اور بدستور ٹونی برن ہی رہنے دو ں کیوں کہ صحابہ کرام نے قبول اسلام کے بعد اپنا نام نہیں بدلا سوائے دو حالتوں کے
٭ اگر نام میں شرک کی بُوپائی جاتی ہو ۔
٭اگر نام بُرا یا قبیح ہو ۔
میرے اسلام قبول کيے دو سال ہوچکے ہیں، فی الحال کویت میں مقیم ہو ں تاکہ دینی تعلیمات سے بہرہ ور ہوسکوں اور عربی زبان بھی سیکھ  سکوں، مزید یہ کہ ipc کے شعبہ انگریزی میں بحیثیت داعی کام کررہا ہوں، میں نےipc کواس کے غیرمسلموں میں دعوت کے تئیں طویل تجربات کی وجہ سے اختیار کیا ہے تاکہ يہاں رہ کر غیرمسلموں میں دعوت سے متعلق تجربات حاصل کرسکوں، میں چاہتا ہوں کہ اپنی پوری زندگی دین اسلام کے پیغام کوپوری دنیا میں پھیلانے کے ليے وقف کردوں۔
حالیہ دنوں میں نے اپنا ایک نیٹ کھولا ہے جس پر تعارف اسلام سے متعلق مواد دستیاب ہے ،اس کا پتہ يوں ہے:
www.ashadu.com

اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ وہ ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت دے اور دین پر ثابت قدم رکھے ۔ آمین   

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔