بدھ, جون 08, 2011

پریشانیوں سے بد دل نہ ہوں


 اس دنيا ميں کون ايسا انسان ہے جسے تکليف نہ آتی ہو؟ جسے رنج وغم لاحق نہ ہوتا ہو ؟ يہ تو دنيا کی ريت ہے ، يہاں رہنا ہے تو کبھی خوشی تو کبھی غم، کبھی پريشانی تو کبھی بدحالی ، کبھی سکھ تو کبھی چين يہ انسان کے ساتھ لازم ملزوم ہے 
 گو سراپا عيش وعشرت ہے سراب زندگی
   اشک بھی رکھتا ہے دامن ميں سحاب زندگی

دنيا مسائل ہی کا نام ہے ، اس سرائے فانی ميں کون ايسا انسان ہے جو ہميشہ خوش وخرم رہتا ہو، کون ايسا گھر ہے جہاں ماتم نہ ہو، مصيبتيں،  پريشانياں، آفتيں، آلام ومصائب زندگی کا اٹوٹ حصہ ہيں ۔اگر يہ مصيبتيں کسی فاسق وفاجر پر آتی ہيں تو يہ اس کے کالے کرتوت کا نتيجہ ہوتی ہيں، اور اگر کسی بندہ مومن پر آتی ہيں تو يہ اس کے ايمان کی علامت ہوتی ہے ، اللہ تعالی بندے سے جس قدر محبت کرتا ہے اسی قدر اسے آزماتا ہے ۔
لہذا ہميں غور کرکے ديکھنا چاہيے کہ اگر ہم پر کسی طرح کی مصيبت آئی ہوئی ہے، ملازمت سے محروم ہيں، یا کفیل سے پریشان ہیں، یا تنخواہ معمولی ہے جس سے ضروریا ت  کی تکمیل نہیں ہوپاتی ، ياسالوں سے بيمار ہيں ،ياجسم وجان سے مجبور ہيں جبکہ ہمارا تعلق اپنے خالق ومالک سے مضبوط ہے تو ہميں سمجھ لينا چاہيے کہ اللہ تعالی ہم سے محبت کرتا ہے اور ہميں آزماکراپنا مقرب بنانا چاہتا ہے ۔ ذرا سنئے کچھ بشارتيں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ فیض ترجمان سے :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا :
 ”اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے مصيبت ميں گرفتا رکرديتا ہے“ ۔
 گويا کہ بندہ مومن کامصيبت سے دوچار ہونا اس کے ليے نيک فال ہے، حب الہی کی علامت ہے ، سزا يا عذاب نہيں ۔ آپ انے يہ بھی فرمايا:
”اللہ تعالی جب اپنے بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تواس کے گناہوں کی سزا دنيا ميں ہی دے ديتا ہے، اور جب اللہ تعالی اپنے بندے کے ساتھ شرکا ارادہ فرماتاہے تواس کے گناہ کی سزا روک ليتا ہے، اس کا پورا پورا بدلہ قيامت کے دن دے گا ۔
ايک حدیث میں آتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا :
فما يبرح البلاء علی العبد حتی يترکہ يمشی علی الارض ما عليہ خطيئة
”مصيبت آدمی کے ساتھ لگی رہتی ہے يہاں تک کہ وہ زمين پر چلتا پھرتا ہے اور اس کے اوپر گناہ نہيں ہوتا“۔
ان احاديث پر غور کيجيے اور اندازہ لگائيے کہ جو لوگ ايمان رکھتے ہوئے مصيبت سے دوچار ہيں وہ درحقيقت خوش نصيب ہيں، خوش بخت ہيں، وہ اللہ کے مقرب بندے ہيں، ہميں ان احاديث سے يہ بھی معلوم ہواکہ بندہ جس قدر ايمان کا پکا ہوتا ہے اسی قدر اس کی آزمائش بھی ہوتی ہے ۔ کيوں کہ مصائب گناہوں کومٹاتے ہيں اور بندہ مومن چوں کہ اللہ تعالی کا محبوب ہوتا ہے اس ليے اللہ تعالی چاہتا ہے کہ بندے کو گناہوں سے پاک و صاف کرديا جائے تاکہ وہ آخرت کی رسوائی سے بچ سکے ۔
يہ احاديث ايسے لوگوں کے ليے تازيانہ عبرت ہيں جو مصيبت ميں پريشان ہوجاتے ہيں، ہاتھ پير مارنے لگتے ہيں، اول فول بکنے لگتے ہيں ، اللہ تعالی سے شکوی شکايت کرنے لگتے ہيں ، بلکہ بسا اوقات کفر يہ کلمات تک بول جاتے ہيں ۔ حالاں کہ ہونا يہ چاہيے کہ مصيبت زدہ صبر سے کام لے ،پريشانيوں کو انگيز کرے، اللہ کے فيصلے پر راضی برضا رہے ، اور يہ يقين کرے کہ اللہ تعالی اپنے بندے کے ليے ہر حال ميں اچھا ہی چاہتا ہے۔ پھر اسے یہ بھی تو سوچنا چاہيے کہ اگر وہ کسی مصیبت میں پھنسا ہوا ہے تو اس پر اللہ کی نعمتیں بھی بے شمار ہیں۔ اگر بندہ اللہ تعالی کی ان بے بہا نعمتوں میں سے کسی ایک نعمت کی اہمیت سمجھ لے تو اس کی ساری مصیبتیں ہیچ ٹھہریں گی۔
 ایک مرتبہ ابن سماک خلیفہ ہارون رشید رحمه الله کے پاس آئے اورانہیں دل پذیر نصیحت کی ،نصیحت سن کر ہارون رشید آبدیدہ ہوگئے ۔ اسی اثنا خلیفہ نے پینے کے ليے پانی منگوایا ، ابن سماک نے عرض کیا : امیرالمومنین ! اگر آپ پیاس سے بے تا ب ہوں اور آپ کو دنیا اوراس کی ساری چیزیں ایک گلاس پانی کے بدلے چکانا پڑے تو کیا آپ جھجھک محسوس کریں گے ؟
ہارون رشید نے کہا : جی نہیں ۔
ابن سماک نے کہا : اللہ برکت دے ، پانی پی لیجئے
ہارون رشید جب پانی پی چکے تو ابن سماک نے کہا : امیرالمومنین ! ابھی آپ نے جو پانی نوش فرمایا ہے اگر وہ پیشاب کے راستے میں رُک جائے اور اسے باہر کرنے کے ليے دنیا اوراس کے اندر کی ساری چیزیں چکانا پڑے تو کیا آپ اس کے ليے تیار ہوجائیں گے ؟
ہارون رشید نے کہا : ہاں بالکل ۔
تب ابن سماک نے کہا : فما تصنع بشیء شربة ماء خیر منہ تو آخر اس بادشاہت سے کیا فائدہ جس سے بہتر ایک گھونٹ پانی ہو ؟۔
اس واقعے سے بتانا مقصود یہ ہے کہ اللہ رب العالمین کی نعمتوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہيے ، ایک گھونٹ پانی کی اس قدر اہمیت ہے کہ انسان اس کے ليے ملک وسلطنت تک کی پرواہ نہیں کرتا، تو آخر وہ انسان جو سرتا پا نعمتوں میں ڈوبا ہوا ہے اُسے کیوں کر زیب دیتا ہے کہ وہ اللہ کی ناشکری کرے ۔
ہمارے حبیب نے نعمتوں کے عرفان کے ليے ایک اصول یہ بتایا کہ :
أنظروا إلی من ھو أسفل منکم ولا تنظروا إلی من ھو فوقکم فإنہ أجدر أن لا تزدروا نعمة اللہ علیکم.
 "اپنے سے نیچے والوں کی طرف دیکھو ،اپنے سے اوپر والوں کی طرف مت دیکھو کیوں کہ یہ زیادہ بہتر ہے کہ اللہ کی نعمتوں کو ہیچ نہ سمجھو"
کہتے ہیں کہ کسی مرد صالح کے پاس ایک شخص نے اپنے فقروقافہ کی شکایت کی تو اس مرد صالح نے اس سے کہا : کیا تجھے یہ بات خوش کرے گی کہ تو اندھا ہو اور تیرے پاس دس ہزار درہم ہو ؟ اس نے کہا : نہیں ۔ پوچھا : کیا تجھے یہ بات خوش کرے گی کہ توگونگا ہو اور تیرے پاس دس ہزار درہم ہو ؟ اس نے کہا : نہیں ۔ پوچھا : کیا تجھے یہ بات خوش کرے گی کہ تیرے دونوں ہاتھ اور دونوں پیر کٹے ہوں اور تیرے پاس دس ہزار درہم ہو ؟ اس نے کہا : نہیں ۔ پوچھا : کیا تجھے یہ بات خوش کرے گی کہ تو پاگل اور دیوانہ ہو اور تیرے پاس دس ہزار درہم ہو ؟ اس نے کہا : نہیں ۔
تب اس مرد صالح نے کہا :
 أما تستحیی أن تشکو مولاک ولہ عندک عروض بخمسین الفاً
"کیا تجھے اپنے مالک سے شکایت کرنے میں شرم نہیں آتی جبکہ تیرے پاس پچاس ہزار کا سامان موجود ہے" ۔

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔