بدھ, مئی 04, 2011

کویتی معاشرہ میں دینی رجحانات کی چند جھلکیاں


عنوان سے ظاہر ہے کہ آج ہم ”دیارِغیر“ کے کالم میں کویتی معاشرے میں دینی روایات کی ایک جھلک پیش کرناچاہتے ہیں تاہم اس سے کسی کو یہ مغالطہ نہ ہو نے پاے کہ ہم اہل کویت کی جھوٹی تعریف کرکے خاکم بدہن ان کا منظورعقیدت بننا چاہتے ہیں۔ میری ایسی کوئی سوچ ہرگز نہیں ہے۔ البتہ جہاں اسلامی اقدار وروایات کی بہت حد تک پابندی ہو رہی ہو اور وہاں کچھ  ایسی خوبیاں ہوں جن سے ہمارا دامن خالی ہے تو ضرورت پڑتی ہے کہ اُنہیں اجاگر کیا جائے تاکہ ہم بھی انہیں اپنے ليے مشعل راہ بناسکیں ۔ ہم نے برصغیرپاک وہندکے دینی روایات کا جائزہ لیا، وہاں کے رسم ورواج پر نظر ڈالی پھرکویتی معاشرے پرنگاہ پڑی تو بیشمار دینی روایات میں مغائر ت پائی،
واقعہ یہ ہے کہ ہم جس سرزمین سے تعلق رکھتے ہیں اس معاشرہ پر ہندوتہذیب کی نمایاں چھاپ نظرآتی ہے، یہ المیہ ہے کہ ہم نے برصغیر پاک وہند پرصدیوں تک حکومت کی تاہم  ہم تو برادران وطن پراسلامی تہذیب کی کوئی چھاپ نہ چھوڑ سکے البتہ ہم ان کے رنگ میں ضرور رنگ گيے۔ اسی ليے اب تک ہم عقائد ،عبادات، معاملات، اور معاشرت ومعیشت کے مختلف ابواب میں ہندو رسم و رواج کی جکڑ بندیوں میں الجھے ہوئے ہیں۔  ہاں! ابھی ہم جس ملک میں وقتی طورپر بودو باش رکھتے ہیں، یہ ایک مسلم ملک ہے جہاں مغربی تہذیب کی دراندازی کے باوجود جگہ جگہ پر اسلامی معاشرہ کی جھلکیاں نظرآتی ہیں۔ يہاں کے باشند گان بالعموم اسلامی اقدار وروایات کاپاس ولحاظ کرتے ہیں اس اعتراف کے ساتھ کہ دیگرممالک کے جیسے یہ ملک بھی بُرائیوں سے خائی نہیں تاہم  خُذمَا صَفَا وَدَع مَاکَدِرَ کے تحت اس کالم میں چند دینی خوبیاں سپرد قلم کی جا ئیں گی،سردست پہلی خوبی پرنظرڈالیں۔

 دعوتی تڑپ:

کویتی معاشرہ میں دعوت کا بے پناہ رجحان پایا جاتا ہے، اہل کویت غیرمسلموں کو اسلام کا پیغام پہنچانے کے ليے بے چین رہتے ہیں، اس کی واضح مثال کویت میں IPC کی مختلف شاخوں کا وجود اور سن تاسیس سے اب تک ۵۴ ہزار سے زائد مردوخواتین کا اسلام قبول کرنا ہے۔ اس میں اہل کویت کے مادی تعاون کے ساتھ  ساتھ  ان کامعنوی تعاون بھی شامل رہا ہے۔ آج بھی کویتی گھروں میں کام کرنے والے مردوخواتین اپنے کفیل کی دعوت پر ہی اسلام کو گلے لگا رہے ہیں ۔ IPC کی ہر شاخ میں ایک آدمی محض دعوتی پیکج کے ليے کال اٹھانے پرمامور ہوتا ہے جو پتہ نوٹ کرکے ڈرائیور کے حوالے کردیتا ہے اور ڈرائیور مطلوبہ پتہ پر دعوتی پیکج پہنچا آتا ہے،  دعوتی پیکج پڑھنے کے بعد اسلام کی جانکاری کی مزید چاہت ہوتی ہے تو کفیل اسے IPC کی کسی شاخ میں لاتا ہے چنانچہ اس کی زبان میں بات کرنے والا داعی اسے اسلام سمجھاتاہے، اگر شرح صدر حاصل ہوگیا تو اسی وقت کلمہ شہادت کی گواہی دے کر اسلام کو گلے لگالیتا ہے۔  پھراس کے فائل کھول ديے جاتے ہیں جس میں قبول اسلام کا قصہ اور اس سے متعلق بنیادی معلومات درج کی جاتی ہیں۔ اورکفیل کی اجازت سے ہفتہ واری تربیتی کلاسیز میں آکراسلام سیکھنا شروع کردیتا ہے۔ ان سارے مراحل میں ظاہر ہے کفیل کا پورا تعاون حاصل ہوتا ہے۔ راقم سطور تقریبا 5 سال سے IPC میں کام کررہاہے، اس بیچ کویتیوں کے دعوتی جذبہ کو دیکھ  کر بڑا رشک آیا۔  کتنے لوگ یہاں آکرمختلف دعوتی پیکج لے کر جاتے ہیں اور غیرمسلم عاملوں میں تقسیم کرتے رہتے ہیں ۔

”بوحمد” نام کے ایک کویتی عرصہ سے ہمارے پاس آتے ہیں، ان کا معمول سابن گیا ہے کہ سرراہ چلتے غیرمسلم سے پیارومحبت سے بات کرکے IPC میں داخل کرکے اسے دعاة کے پاس بیٹھا دیتے ہیں یا کم ازکم اسے دعوتی پیکج ضرور دیتے ہیں ۔

مدارس وجامعات کے مختلف شعبوں میں زیرتعلیم کویتی بچے پکنک کے پروگرام کے ليے کبھی کبھی IPC آتے ہیں، جب ان کے سامنے IPC کی دعوتی کارکردگی پیش کی جاتی ہے تو ان کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی ۔ اپنے گھروں میں کام کرنے والے مردوخواتین کے ليے دعوتی پیکج ضرور لے کر جاتے ہیں۔  

ایک مرتبہ کا واقعہ ہے راقم سطور اپنی آفس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک کویتی فوجی وردی زیب تن کيے IPC میں داخل ہوا،  اپنے ساتھ  اس نے انگریزی زبان میں بھگوت گیتا لے رکھا تھا، گفتگو کے دوران اس نے بتایا کہ مجھے ہندودھرم کی مذہبی کتابیں ہندوستان کی مختلف زبانوں میں چاہيے، منگوانے میں جو اخراجات آئیں گے وہ میں دے رہا ہوں،  میں نے عرض کیا : آپ ہندو دھرم کی کتابیں لے کر کیا کریں گے، جبکہ آپ مخاطب کی زبان نہیں جانتے۔ اس نے کہا :اسلام کی تائید میں جو اشلوک ان کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں، ان پر نمبراورصفحہ کے ساتھ نشان لگا لیتا ہوں۔ اورجب کوئی غیرمسلم ملتا ہے تو اُسے دعوتی کتابوں کے ساتھ  ساتھ  یہ نشان زدہ اشلوک بھی پڑھاتا ہوں۔ تاکہ اسے یقین ہوجائے کہ ہم اسے کسی نئی چیز کی طرف دعوت نہیں دے رہے ہیں بلکہ اسی کی امانت اس کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔  فوجی ہونے کے باجود ایسا دعوتی جذبہ دیکھ  کر میں عش عش کرتا رہ گیا، اپنے نفس کا محاسبہ کرنے لگا کہ محکمہ فوجداری کا ایک فرد جب دعوت کے ليے اس حدتک سوچتا ہے تو ہمیں کس قدرسوچنا چاہيے۔
جی ہاں یہ اور اس طرح کے دیگر کویتی معاشرے کے واقعات جہاں ہمارے ليے قابل رشک ہیں وہیں ہماری غیرت کوبھی للکارتے ہيں کہ آج جن غیرمسلموں کے ساتھ ہماری نشست وبرخواست ہورہی ہے، اورجن کی زبان سے ہم واقف ہیں ان کے تئیں ہم نے اپنی ذمہ داری کس حد تک نبھائی، کل قیامت کے دن اگروہ دربارالہی میں ہمارے خلاف شکوی کریں گے کہ فلاں ہمارا پڑوسی تھالیکن ایک دن بھی ہم تک اسلام کا پیغام نہیں پہنچایا تو آخرہم کیا جواب دے سکیں گے ....؟ آج غیرمسلموں کواسلام کا پیغام پہنچانا تو درکنار بعض مسلم بھائی ایسے ہیں جو غیرمسلموں کو اسلامیات کا مطالعہ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو یہ سوچ کراس کے ہاتھ  سے کتاب چھین لیتے ہیں کہ اسلامی کتاب غیرمسلم کو نہیں پڑھناچاہيے۔ ایسے کئی واقعات راقم سطورکے سامنے پیش آئے ہیں ۔ بلکہ کچھ  لوگ تو اس سے بھی آگے بڑھ  کر ریاستی زبانوں میں اسلامی کتابیں دیکھ  کر بپھر جاتے ہیں-
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے میں نے ایک ہندی زبان جاننے والے ایک مسلم بھائی کو ہندی زبان میں اسلامیات پرایک، کتاب دی، کتاب کا نام پڑھتے ہی طیش میں آکر کتاب نیچے پھینک دیا اور برجستہ کہا:       
تم نے اسلام کی بات ہندی زبان میں لکھی ہے ....؟
وہ صاحب اس اندازمیں پیش آئے اورایسا لب ولہجہ اپنایا کہ گویا میں ہندی میں کتاب لکھ  کران کی نگاہ میں مجرم ٹھہرا تھا.... میں یہ نہیں کہتا کہ سارے لوگ ایسی ذہنیت رکھتے ہیں بلکہ اس سے بتانامقصود یہ ہے کہ آج تک ہمارے معاشرے میں اس طرح کے لوگ پاے جاتے ہیں جواسلام کوآبائی میراث سمجھتے ہیں جبکہ آخری نبی کی بعثت ساری انسانیت کے ليے ہوئی تھی:
 ” ہم نے آپ کو سارے جہاں کے ليے رحمت بناکر بھیجا ہے “(انبیاء 107) 


0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔