بدھ, نومبر 10, 2010

شوہر کا بیوی سے دوری کی مدت


سوال :

 ایک شوہر اپنی بیوی سے کتنے دنوں تک دور رہ سکتا ہے ؟ (محمد شریف ۔ کویت )

جواب : 

شوہر کے لیے جائز ہے کہ کام کرنے کے مقصد سے یا تعلیم حاصل کرنے کے مقصد سے یا دوسری شرعی مصلحت کے تحت اپنی بیوی سے دوری اختیار کرے ، جس کی مدت چھ مہینہ ہے ، اور بعض علماءنے کہا کہ چار مہینہ ہے۔ اگر اس مدت سے زیادہ رہنے کی نوبت آجائے تو بیوی سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہوگا۔
اس سلسلے میں مصنف عبد الرزاق میں آیا ہے کہ عمر فاروق ص ایک مرتبہ رعایا کی خبرگیری کے لیے رات میں دیہاتوں کا چکر لگا رہے تھے کہ ایک عورت کو چند اشعار پڑھتے ہوئے سنا جس میں شوہر کی جدائی کا اظہار کیا گیا تھا ۔

معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ اس کا شوہر حکومت کی طرف سے کسی مہم پر گیا ہواہے ، اسی وقت آپ نے گھر آکراپنی بیٹی حفصہ سے اس سلسلے میں بات کی کہ ایک عورت اپنے شوہر سے دوری کتنے دنوں تک برداشت کرسکتی ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ چار مہینہ : چنانچہ عمر فاروق صنے یہ نظام نافذ کردیا کہ کوئی بھی حکومت کا اہلکار چار مہینے سے زیادہ اپنی بیوی سے دور نہیں رہ سکتا۔

جبکہ فقہ کی کتاب ”المغنی“میں آیا ہے کہ سیدنا عمرفاروق ص نے مجاہدین کے لیے چھ مہینے کا وقت مقررکیا تھا، ایک مہینہ چلیں گے چار مہینہ ٹھریں گے پھر ایک مہینہ میں چل کر لوٹیں گے۔

اس سلسلے میں اصولی بات علامہ محمدبن صالح العثیمین نے عرض کردی ہے آپ فرماتے ہیں:

” اگر شوہر کو بیوی کے تئیں بالکل اطمینان ہے ، اور محفوظ جگہ پررہائش پذیر ہے ، تو چھ مہینہ تک اس سے دور رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں البتہ اگر اپنے حق کا مطالبہ کرے اور شوہر سے طلب کرے کہ وہ آجائے تو اسے چاہئے کہ چھ مہینہ سے زائد اپنی بیوی سے دور نہ رہے۔ الا یہ کہ کوئی عذر ہو جیسے بیماری کا علاج کرا رہا ہے یا اس جیسے دوسرے اعذار۔ اس لیے کہ ضرورت کے خاص احکام ہوتے ہیں ، بہرکیف اس سلسلے میں حق بیوی کا ہے ، اگر اس نے دور رہنے کی اجازت دے دی ہے ، اور وہ محفوظ جگہ پر ہے تو دور رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ گرچہ زیادہ دنوں تک ہی شوہر کیوں نہ غائب رہے“۔ (فتاوی العلماء فی عشرة النساء 106)

البتہ شوہر کو بھی چاہیے کہ وہ مال ودولت جمع کرنے کے دھن میں اپنی بیوی کی نفسیات کو نظر انداز نہ کرے، اس سے ہمیشہ بات کرتا رہے ، اُسے تنہا نہ رہنے دے ، ایسی جگہ پر رکھے جہاں اس کے محرم رہتے ہوں۔ اور جب کبھی موقع ملے سفر پر چلا جائے آخر پیسہ کس کے لیے کما رہا ہے۔

آخری بات یہ کہنا چاہیں گے کہ اگر بیوی کی اجازت سے آپ باہر رہ رہے ہیں توخود اپنی اور اپنی بیوی کی دینی تربیت بہت ضروری ہے ، دینی تربیت سے مراد روحانی غذاحاصل کرنا ہے اگر ایک شخص بیوی سے دور رہ کر نماز کی پابندی کرتا ہے ، نفلی روزوں کا اہتمام کرتاہے ، صبح وشام کے اذکار پر دھیان رکھتا ہے۔ قرآن کریم کی روزانہ تلاوت کرتا ہے چاہے ایک صفحہ ہی کیوں نہ ہو .... تو وہ بیوی سے دور رہ کر بھی یک گونہ سکون پائے گا .... اگر نہیں تو ہمیشہ ذہنی الجھن ، پریشانی ، اور قلق واضطراب کا شکار رہے گا .... اس کے ساتھ ساتھ برائیوں میں بھی پھنستا جائے گا۔ یہی حال بیوی کا بھی ہے .... اس لیے اگر آپ بیوی بچوں سے دور ہیں توپریشانیوں کے علاج اور ذہنی سکون کے لیے روحانی غذا حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ اگرذہنی سکون کے لیے فحش فلموں کا سہارا لیا....جیسا کہ بعض لوگوںکا خیال ہے تو سمجھ لیں کہ اس سے سکون نہیں ملے گا بلکہ ٹینشن میں مزید اضافہ ہوگا ، ہمیشہ قلق واضطراب دامن گیر رہے گا، جسے سکون کی تلاش ہے وہ روحانی زندگی گزار کر دیکھ لے‘ زندگی میں کیسی تبدیلی آتی ہے۔

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔