جمعرات, ستمبر 10, 2009

کسب معاش مطلوب ہے


اس کالم ميں ہمارے مخاطب وہ تارکين وطن ہيں جنہوں نے تلاش معاش اور رزق حلال کی طلب ميں پرديسی  زندگی اختيار کی ہے اور کويت کی سرزمين ميں قدم رنجہ ہوئے ہيں۔

 اسلام ايک مکمل ضابطہء حيات ہے، وہ ہرشعبہ زندگی ميں ہماری رہنمائی کرتا ہے عقائد، عبادات، معاملات ، اخلاقيات، معاشرت ،معيشت، سياست اور تہذيب وتمدن ہرميدان ميں اسلام ہمارے ليے ايک بہترين رہبر کی حيثيت رکھتا ہے ۔ چنانچہ معاشيات کے باب ميں اسلام ہميں کسب معاش کے ہر جائز ذرائع اختيار کرنے کی اجازت ديتا ہے، کدوکاوش اور جہد مسلسل پر ابھارتاہے، بلکہ اللہ تعالی نے کسب معاش کےليے سفرکرنے والوں کا ذکر مجاہدين فی سبيل اللہ کے ساتھ کيا ہے ۔ ارشاد ہوا :
 اور کچھ دوسرے لوگ اللہ تعالی کے فضل (رزق)کی تلاش ميں سفرکريں گے اور کچھ لوگ اللہ تعالی کی راہ ميں جہاد بھی کريں گے - (سورة المزمل 20۔)
تب ہی تو اميرالمومنين حضرت عمر فاروق رضي الله عنه نے فرمايا:
 ” راہ خدا ميں جہاد کے بعد اگر کسی حالت ميں جان دينا مجھے سب سے زيادہ محبوب ہے تو وہ يہ ہے کہ ميں روزی کی تلاش ميں کسی پہاڑی دُرے سے گذر رہا ہوں اور وہاں مجھ کو موت آجائے “ (تفسيرابن کثير)
تاريخ اسلام کا ادنی طالب علم جانتا ہے کہ رحمت عالم صلى الله عليه وسلم نے جو روحانی جماعت تيار کی تھی اُن نفوس قدسيہ ميں ايک جماعت اگر کاشت کار تھی تو ايک طبقہ تاجروں اور بازاروں ميں کام کرنے والوں کا بھی تھا، خودرحمت عالم صلى الله عليه وسلم نے چند سکوں کے عوض اہل مکہ کی بکرياں چرائی اور تجارتی کار و بار ميں بڑھ چڑھ کر حصہ ليا جس سے يہ حقيقت نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ اسلام ميں صحت رکھتے ہوئے کسلمندی، کام چوری اور دوسروں کے لقموں پر پلنے کی کوئی گنجائش نہيں ہے ۔ ايک عربی شاعر نابغہ ذبيانی نے طلب رزق پر اُبھارتے ہوئے کہا تھا:
 اِذِ المَرأ لَم يطلب مَعَاشًا لِنَفسِہ
شَکَا الفَقراولَامَ الصَّدِ يقَ فأكثَرا
فَسِرفِی بِلَادِ اللّٰہِ وَألتَمِسِ الغِنی
تَعِش ذَا يسَارٍ أو تَمُوتُ فَتُعذَرَا
" اگر ايک آدمی اپنے ليے معاش کی طلب نہيں کرتاہے تووہ فقروفاقہ سے دوچار ہوگا يا احباب کی ملامت سنتا رہے گا، لہذا اللہ کی زمين ميں پھرکر روزی کی تلاش کرو تاکہ خوشحا ل بنکر زندگی گزار سکو يا مرجاؤ تو معذور سمجھے جاؤ"۔  
پرديسی بھائی !
آپ نے رزق حلال کی طلب ميں پرديسی زندگی اختيار کی ہے اس کے ليے ميں آپ کو تہہ دل سے مبارکباد پيش کرتا ہوں اور اللہ تعالی سے دعا  گو ہوں کہ وہ آپ کی اجنبيت کے احساس کوکم کردے اور کسب معاش کے تئيں لاحق ہونے والی پريشانيوں ميں آپ کی دست گيری فرمائے۔آمين
اللہ کا شکر بجا لائيں آپ کے کويت آنے اور برسرروزگار ہونے ميں محض آپ کی صلاحيت و لياقت کا دخل نہيں بلکہ ايسا اللہ رب العالمين کے فضل و کرم اور اُس کے احسان کے طفيل ہو سکا ہے۔ ورنہ آپ سے زيادہ قابليت و صلاحيت کے مالک معمولی ملازمت کررہے ہيں يا روزگار سے بالکل محروم ہيں ۔اِس ليے اس نوازش پر اللہ رب العالمين کا شکر بجا لائيں کہ اس نے آپ کوخود کفيل بنايا اور دوسروں سے بے نياز رکھا فأ لحمد علی ذلک، ڈيوٹی امانت ہے پرديسی بھائی ! اسلام ميں کوئی بھی پيشہ معيوب نہيں ہے بشرطيکہ جائز ہو لہذا آپ جس پيشہ سے منسلک ہوں خواہ وہ تجارت ہو يازراعت، صنعت و حرفت ہو يا کوئی ملازمت سب سے پہلے اپنے آپ کو اس کے تئيں مطمئن کريں۔ اور نہايت تندہی، لگن اوراخلاص کے ساتھ اپنی ذمہ داری نبھائيں ۔ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے:
 " بيشک اللہ تعالی پسند کرتا ہے کہ جب تم ميں سے کوئی شخص کوئی کام کرے تو اسے عمدہ طريقے سے انجام دے" ۔ (البيھقی وحسنہ الألبانی فی صحيح الجامع 1880) 
واضح ہوکہ کام ميں عمدگی اسی وقت پيدا ہوگی جبکہ آپ کے اندر اخلاص و للہيت پائی جائے، ديانت داری کا جذبہ ہو، اورذمہ داری کو امانت سمجھيں۔ اور امانتدار ملازم وہی ہوسکتا ہے جو وقت کا پابند ہو، بروقت ڈيوٹی پرپہنچ جاتا ہو، اس کے پاس کاموں کی ٹھوس پلاننگ اور منصوبہ بندی پائی جاتی ہو، روزانہ کے کاموں کی چارٹ بناکر ترتيب وار اپنے کاموں کو نمٹاتا ہو۔ نہايت لگن اور محنت سے کام کرتا ہو، ڈيوٹی کے اوقات ميں ذاتی کاموں کى طرف قطعا دھيان نہ ديتا ہو، اسی طرح وہ کمپنی، آفس يا کفيل کے سارے املاک کو امانت سمجھتا ہو.

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔