اللہ
تعالی نے ہم سب کو بے شمار، انگنت اور لامتناہی نعمتوں سے نواز رکھا ہے جن سے ہم
آئے دن فائدہ اٹھا رہے ہيں.... ان ساری نعمتوں ميں سب سے عظيم نعمت.... اسلام کے
بعد.... عقل ہے ، اسی عقل کی بنياد پر ہم نئی نئی چيزيں ايجاد کر رہے ہيں ، کبھی
ہم نے سوچا کہ يہ عقل کہاں سے آئی ؟ يہ علم کس نے عطا کيا ؟ اللہ تعالی نے آج سے
چودہ سو سال پہلے حرا کی پہلی وحی ميں يہ بات کہہ دی تھی وَعَلَّمَ الِانسَانَ مَا
لَم يعلَم " کہ انسان کو وہ سب کچھ سکھايا جس کا اُسے پہلے علم نہيں تھا ، يہ
اس ذات باری تعالی کا کرم واحسان ہے کہ اس نے ہميں وہ سکھايا جو ہم نہيں جانتے تھے
۔چنانچہ انسان اللہ تعالی کی عطا کردہ اِسی نعمتِ عقل کی بنياد پرآج نئی نئی چيزيں
ايجاد کر رہا ہے ۔ جن سے انسانی زندگی ميں آسانياں پيدا ہو رہی ہيں اور انسان زمين
پر موجود اللہ تعالی کی بے پناہ نعمتوں سے بھرپور لطف اندوز ہو رہا ہےذرا ....اير
کنڈيشن کی آسانی ديکھيے کہ ايک شخص سخت گرمی ميں بھی اپنے گھر ميں آرام وراحت کی
سانس ليتا ہوتا ہے ہيٹر
کی سہولت ديکھيے ....کہ آدمی کراکے کی ٹھنڈی ميں بھی اپنے روم کو گرم کيے رہتا ہے
۔فريج کی نعمت کوديکھيے ....کہ جس ميں انسان مہينوں تک خورد ونوش کے سامان محفوظ
رکھتا ہے، اسی طرح آمد ورفت کے ذرائع ميں آسانياں ....کہ انسان گھنٹوں ميں کہا ں
سے کہاں پہنچ جاتا ہے حالانکہ ايک وقت تھا کہ لوگ لمبی لمبی مسافت.... پيدل چل
کر.... طے کرتے تھے ۔ اُسی طرح آلات جديدہ کمپيوٹر،انٹرنيٹ ،اور ٹيليويزن کی
سہولتيں بھی ايک طرح کی نعمت ہے ....بشرطيکہ ....ان کا استعمال صحيح طريقے سے کيا
جائے
محترم
قارئين! انہيں ايجادات واختراعات ميں سے ايک نئی ايجاد.... موبائل فون بھی ہے ۔
جسکے بغير آج ہمارا جينا مشکل ہے ....موبائل فون کے دستياب ہونے کی وجہ سے لوگوں
کے اندر بہت ساری آسانياںپيدا ہو گئی ہيں ، اِس سے وقت اور مال ميں بچت ہوتی ہے ،
انسان سفر کی مشققتوں سے بچ جاتا ہے ، اپنے دوست يا قريبی رشتہ دار سے متعلق کوئی
بات پہنچی ، فوراً موبائل فون ڈائل کيا اور حالات کی جانکاری لے لی ، چاہے وہ دنيا
کے کسی بھی کونے ميں رہ رہا ہو ۔ حالانکہ ابھی دس بيس سال پہلے تک ہميں اپنے رشتے
داروں کے حالات جاننے کے ليے خطوں کا سہارا ليناپڑتا تھاجس کے ليے مہينوں انتظار
کرنے پڑتے تھے ، تب جاکر ہميں خط ملتا تھا اور حالات سے واقفيت ہوتی تھی ۔
الحمدللہ آج ايسی کوئی پريشانی نہ رہی بلکہ آج حال يہ ہے کہ ہر شخص کے ہاتھ ميں
موبائل فون دکھائی ديتا ہے ۔ الحمدللہ علی ہذہ النعمة
ليکن کبھی ہم نے سوچا کہ ان
ساری نعمتوں کے ملنے کے بعد ايک مسلمان کی دلی کيفيت کيسی ہونی چاہئے ؟.... ياد
رکھيں .... ہم سے ايک ايک نعمت کے بارے ميں کل قيامت کے دن پوچھا جانے والا ہے
لتسالن يومئذ عن النعيم .... تم سے قيامت کے دن نعمتوں کے بارے ميں ضرور سوال کيا
جائے گا ۔ يہ اے سی ....يہ ہيٹر.... يہ فريج .... يہ گاڑياں.... يہ ہوائی جہاز
.... يہ کمپيوٹر ....يہ انٹرنيٹ .... يہ ٹيليويزن .... اور يہ موبائل فون .... اِن
ساری سہولتوں کے بارے ميں ہم اللہ کے سامنے جوابدہ ہيں ۔ اس ليے بحيثيت مسلمان
ہميں سوچنا ہے .... غور کرنا ہے .... کہ ہم کس حد تک اِن نعمتوں کا استعمال اللہ
کے بتائے ہوئے طريقے کے مطابق کر رہے ہيں ۔اگر اِن نعمتوں کا استعمال اللہ تعالی
کی نافرمانی ميں ہوا ....تو کل قيامت کے دن اللہ کی گرفت بہت سخت ہوگی
محترم قارئين ! روز قيامت کی
جوابدہی سے اگر ہم بچنا چاہتے ہيں توہميں اِن ساری نعمتوں کو اللہ تعالی کی مرضی
کے مطابق استعمال کرنے ہونگے ۔....يہ تو ايک رہا....پھراسلام نے زندگی کے ہر شعبے
ميں ہماری رہنمائی کی ہے ،اور اِسکے آداب بتايا ہے ۔ايک مسلمان کو چاہئے کہ وہ
زندگی کے ہر شعبے ميں اُن آداب کی پاسداری کرے ، تو موبائل فون کے استعمال کرتے
وقت بھی ضرورت پڑتی ہے کہ اُس کے استعمال کے آداب کو ہم جانيں ۔ اب سوال يہ پيدا
ہوتاہے کہ موبائل فون سے متعلق آداب کيا ہيں ؟ تو ليجئے پيش خدمت ہےچند آداب-
٪اس سلسلے ميں سب سے پہلا
ادب يہ ہے کہ فون کرنے سے پہلے نمبرجانچ کر ليناچاہئے کہ واقعی يہ فلاں شخص کا نمبر ہے ، تاکہ ايسا نہ ہو کہ کسی دوسرے کا
نمبر ڈائل ہوجائے اور آپ اُس کے ليے ناگواری کا باعث بن جائيں اگر کبھی غير شعوری
طور پر ايسا ہوجاتا ہے تو نرم لہجے ميں ان سے معذرت کرلی جائے کہ ”معاف کيجئے گا ،
غلطی سے آپ کا نمبر ڈائل ہو گيا “۔
٪ فون کرتے وقت شرعی الفاظ
کا استعمال کيا جائے ، مثلاً جب بات کرنا شروع کريں تو کہيں السلام عليکم ، اسی طرح فون
اٹھانے والا بھی السلام عليکم کہے کيونکہ سلام ميں پہل کرنا بہتر ہے ۔ بالعموم لوگ
فون کرتے ہيں ، يا اٹھاتے ہيں تو کہتے ہيں ”ہلو “ ”ہلو“ يہ اسلامی ادب کے خلاف ہے
۔ اسلام نے ہميں يہ تعليم دی ہے کہ جب ہم کسی سے مليں تو کہيں السلام
عليکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ، اس حکم کا اطلاق بالمشافہ
ملاقات پر بھی ہوگا ، خط وکتابت پربھی ہوگا اور فون پر بھی ہوگا .... پھر ايک بات
يہ بھی ہے کہ” ہلو“ کہنے کی وجہ سے جہاں ايک طرف غيروں کی مشابہت لاز م آتی ہے
وہيں ايک آدمی بے پناہ اجروثواب سے محروم بھی ہو جاتا ہے ، امام بخاری نے الادب
المفرد ميںحضرت ابوہريرہ رضي الله عنه سے بيان کيا ہے کہ ايک آدمی اللہ کے رسول
صلى الله عليه وسلم کے پا س سے گذرا تو اس نے کہا السلا م عليکم آپ نے فرمايا :
اِسے دس نيکياںمليں ، .... دوسرا آدمی گذرا تو کہا : السلام عليکم ورحمة اللہ آپ
نے فرمايا : اِسے بيس نيکياںمليں، ....تيسرا آدمی گذرا تو اس نے کہا : السلام
عليکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ، آپ نے فرمايا : اِسے تيس نيکياںمليں ۔
محترم قارئين ! اس حديث کو
سامنے رکھ کر ذرا غور کريں کہ اگر ہم فون پر اسلامی طريقہ کو اپنائيں اور السلام
عليکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کہيں تويہاں ہم صرف فون کرنے پرتيس نيکيوں کے حقدار
ٹھہرتے ہيں ۔اب اِسی سے آپ اندازہ لگا سکتے ہيں کہ ايک آدمی ”ہلو “ کہنے کی وجہ سے
کتنی نيکيوں سے اپنے آپ کو محروم کر ليتا ہے ۔ پھرايک مسلمان کے ليے مناسب ہے کہ
وہ اپنی زندگی کے سارے معاملات ميں اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم اور آپ کے
اصحاب کو اپنااسوہ اور نمونہ بنائے ۔ سفيان ثوری رحمه الله نے بہت پتے کی بات کہی
ہے اِنِ
استَطَعتَ ان لا تُحِکَّ رَاسَکَ اِلا بِاثَرِ فَافعَل اگر
تمہارے ليے ممکن ہو سکے کہ کسی اثر کی بنياد پر ہی اپناسرکھجلاؤتو ايسا کر گذرو ۔
مفہوم يہ ہے کہ ايک مسلمان کا ہر عمل چاہے اس کا تعلق دنياوی امور سے ہی کيوں نہ
ہوسنت نبوی کا آئينہ دار ہونا چاہئے ........ ہاں! تو ميں آج سے اميد کرتا ہوں کہ
ہمارے جوسامعين فون پر ” ہلو“ کہنے کے عادی ہيں وہ اِس سے بچيں گے اور سلام کے
ذريعہ گفتگو کی شروعات کريں گے ۔
٪فون پر بات کرنے کا تيسرا
ادب يہ ہے کہ سلام کرنے کے بعد اپنا تعارف کراياجائے کہ....”
ميں فلاں بول رہا ہوں“ ....الا يہ کہ جس سے اس قدر شناسائی ہو کہ آواز فوراً پہچان
ميں آجاتی ہو.... ايسی جگہ تعارف کرانے کی ضرورت نہيں ۔ کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے
کہ جب کسی نے فون پر بات کريں گے تو پوچھنے لگتے ہيں کہ....” آپ نے مجھے پہچانا
؟“....اِس سے آدمی حرج ميں پڑجاتا ہے اگر کوئی صراحة کہہ ديا کہ....” نہيں“.... تو
ليجئے! اب خيريت نہيں رہی....اُسے کوسنا شروع کرديں گے....کہ آپ تو بڑے آدمی ہيں
....ہميں کيسے پہچانيں گے....حالانکہ ايسی کوئی بات نہيں ہوتی ۔ وہ بندہ دل کا صاف
ہوتا ہے ....اور يہ بات سن کر اُسے تکليف ہوجاتی ہے .... يہ کہنا بھی غلط ہے کہ
انہوں نے ميرا نمبر محفوظ نہيں رکھا ۔ ميں کہتاہوں ....حسن ظن سے کام ليں،....
ہوسکتا ہے اسکے سيٹ ميں جگہ خالی نہ ہو۔ پھراِس انداز ميں پوچھنابھی تو اسلامی اد
ب کے خلاف ہے ،،،،، نام بتانے ميں آخر کيا جاتا ہے ۔ بخاری ومسلم کی روايت ہے حضرت
جابربن عبداللہ رضي الله عنه کہتے ہيں کہ ميں اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کے
پاس آيا اور آپ کو آواز دی تو آپ نے فرمايا : کون....؟ ميں نے کہا: ”انا “ يعنی ميں
ہو ں ۔ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نکلے تو يہ کہہ رہے تھے ” انا انا “ ميں
ميں گوياکہ آپ نے اس طرح کے جواب کونا پسند فرمايا ۔ کيونکہ ”ميں “ کہنے سے کوئی
بات سمجھ ميں نہيں آتی ،آج بھی کتنے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب دروازے پر دستک
ديں گے اور آپ اُن سے پوچھيں کہ ....”کون“ ؟.... تو کہيں گے ....”ميں“....بھئی !
”ميں“ کہنے سے کيا سمجھ ميں آئے گا ....نام بتاو....لہذا فون کرنے والے کو چاہئے
کہ وہ سب سے پہلے اپنا نام بتائے تاکہ جس سے بات کررہا ہے وہ حرج ميں نہ پڑے اور
فوراً پہچان لے۔
٪فون پر بات کرنے کاچوتھاادب
يہ ہے کہ جس کو فون کر رہے ہوں اس کے احوال کی رعايت کريں ، ممکن ہے ايک آدمی اپنے کسی ذاتی کام ميں مشغول ہو، يا وہ ايسی جگہ
پر ہو جہاں فون اٹھانا اُس کے ليے مناسب نہ ہو.... ايسی صورت ميں اگر جواب نہ ملا
، يا جواب ميں جلد بازی پائی گئی ، يا گرم جوشی سے جواب نہ مل سکا.... توفون کرنے
والے کو چاہئے کہ وہ جسے فون کيا ہے اُس کے تئيں حسن ظن رکھے اور اس کے ليے عذر
تلاش کرے۔.... اُسی طرح جسے فون کيا گيا ہے اُس کے ليے بھی مناسب ہے کہ اگر وہ
ايسی جگہ موجود ہے جہاں فون کا جواب نہيں دے سکتا تو ياتو وہ موبائل کو سائلنٹ ميں
رکھ دے ،پھر بعد ميں عذر پيش کرتے ہوئے ری کال کرے .... يا وہ جلدی سے بتا دے کہ
وہ ايسی جگہ پرہے جہاں فون کا جواب نہيں دے سکتا ....يہ دل کی صفائی کا اچھا طريقہ
ہے ۔
پھرRing دينے ميں اعتدال وتوازن کو ملحوظ رکھناچاہئے ،
کتنے لوگ جواب نہ ملنے پر بار بارRing ديتے ہيں .... يہ نہيں سوچتے کہ ہمارا ساتھی
مريض تو نہيں ....کسی ضروری ميٹنگ ميں تو نہيں....بلکہ کچھ لوگ توجواب نہ ملنے پر
غصہ ہوجاتے ہيں....اورجلدبازی ميں اوٹ پٹانگ بول ديتے ہيں .... اس مناسبت سے مجھے
ايک واقعہ ياد آرہا ہے ....ميرے ايک قريب ترين ساتھی نے مجھے ايک مرتبہ فون کيا ۔
ميں اُس وقت نماز ميں تھا....اور ميرا موبائل سائلنٹ ميں تھا ، جب ميں نے نماز سے
فارغ ہوکر موبائل ديکھا تو اُس ميں 10مس کال تھے اور ايک ايس ايم ايس تھا جس ميں
لکھا تھا ” اگر آپ کو ميرا فون کرنا گراں گزرتا ہے تو اشارہ کرديں ۔ رب کعبہ کی
قسم ! ميں آپ کو کبھی فون نہ کروں گا “ ديکھا ! يہ جلد بازی کا نتيجہ ہے ....
انہوں نے فوراً خيال کيا کہ ميں جان بوجھ کر جواب نہيں دے رہا ہوں حالانکہ حقيقت
کچھ اور تھی ۔ ميں نماز ميں تھا ۔ لہذا جلدبازی ميں کوئی بات نہ کہنی چاہئے جس سے
بعدميں سبکی ہو ....
اُسی طرح جسے فون کر رہے ہوں
اُس کی طرف سے جواب نہ ملنے پرہميشہ حسن ظن رکھنا چاہئے۔
٪فون پر بات کرنے کا پانچواں
ادب يہ ہے کہ فون کرنے کے ليے مناسب وقت کا انتخاب کياجائے ، ہروقت ايک انسان فون کا جواب دينے کے ليے تيار نہيں رہتا ، کبھی اس
کی گھريلو مشغوليت ہوتی ہے ، کبھی وہ اپنے کام ميں مشغول ہوتا ہے ۔ بالخصوص ايسے
اشخاص سے بات کرتے وقت مناسب وقت کا خيال رکھنا بہت ضروری ہے جن کے اوقات بہت
قيمتی ہوتے ہيں۔ کتنے لوگ دير رات ميں فون کرتے ہيں جس وقت ايک آدمی سويا ہو تا
ہے.... ظاہر ہے اِس سے نيند خراب ہوتی ہے ۔ اور کچھ لوگوں کو ايسا عمل سخت ناگوار
گذرتا ہے ۔ لہذا فون کرنے کے ليے مناسب وقت کی رعايت بہت ضروری ہے ۔
٪ فون پربات کرنے کا چھٹا
ادب يہ ہے کہ فون کرنے کی مدت کا بھی تعين رکھنا چاہئے ۔ کتنے ايسے لوگ ہيں جو فون کرنے بيٹھتے ہيں تو گھنٹوں تک باتيں کرتے
رہتے ہيں ، ايک مسلمان زندگی کے کسی بھی شعبے ميں تفريط سے کام نہيں ليتا ۔ آج
پوری دنيا عالمی اقتصادی بحران سے جو دوچار ہے.... اُس کی ايک وجہ يہ بھی ہے کہ
سرمايہ دار طبقہ غيرضروری اشياءميں پانی کے جيسے اپنے پيسے بہا رہا ہے ۔ حالانکہ
اُسی کے گھرکے بازو ميں اس کا پڑوسی نان شبينہ کو ترس رہا ہوتا ہے ۔ فون کے
استعمال ميں بھی لوگ بےحد تفريط سے کام لے رہے ہيں ۔ فون پر ہمارے جتنے پيسے برباد
ہو رہے ہيں اگر اس ميں سے ہلکی سی کٹوتی کرليںتو ميں سمجھتا ہوں کتنے غريبو ں کا
بھلا ہو سکتا ہے ....بہرکيف عرض کرنا يہ ہے کہ فون پر ہذيان گوئی ، بيکار گفتگو،
اور ضياع وقت سے پرہيز کرنا چاہئے، فون ضرورت کے تحت استعمال کيا جائے ....اُسے
طفلِ تسلی نہ بنايا جائے
٪فون کے آداب ميں سے ساتواں
ادب يہ ہے کہ جب مسجد ميں داخل ہوں تو موبائل فون بند کرديں يا سائلنٹ ميں کرديں ۔ تاکہ فون کے رِنگ سے نمازيوں کی نماز متاثر نہ ہو ۔ اگر لاعلمی ميں
موبائل فون کھلا رہ گيا اور بحالت نماز کال آگئی تو فوراً موبائل بند کر دينا
چاہئے ۔ گرچہ آپ نماز ميں ہوں۔اس ميں کوئی حرج نہيں۔ بلکہ بند کرنا ضروری ہے
کيونکہ اس سے لوگوں کی نمازيں متاثر ہوتی ہے۔ کتنے لوگ فون آنے پر موبائل بند نہيں
کرتے اور مسجد ميں دوسروں کی نمازيں خراب کرتے رہتے ہيں ۔ ايسا کرنا بالکل غلط ہے
۔ اور جہالت کا آئينہ دار ہے اسی طرح وہ آدمی جو موبائل فون بند کرنا بھول گيا
اُسے معذور سمجھنا چاہئے اور خواہ مخواہ اس کے ساتھ سخت کلامی سے پيش نہيں
آناچاہئے ۔ کيا ہم ديکھتے نہيںسرکارِ دوعالم صلى الله عليه وسلم کا اسوہ
کياتھا....؟ ايک ديہاتی آتا ہے اور مسجد نبوی کے ايک کونہ ميں پيشاب کرنے بيٹھ
جاتا ہے ۔ صحابہ کرام اُسے ڈانٹتے ہيں تو اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم انہيں
منع کر ديتے ہيں پھر جب وہ پيشاب سے فارغ ہو جاتا ہے تو آپ ايک بالٹی پانی منگواتے
ہيں اورحکم ديتے ہيں کہ اُس گندگی کی جگہ پر بہا ديا جائے ۔ اُس کے بعد فر ماتے
ہيں فانما بعثتم ميسرين ولم تبعثوا معسرن "تم آسانی کرنے کے ليے بھيجے گئے ہو
سختی کر نے کے ليے بھيجے نہيں گئے ۔
٪فون کے آداب ميں سے آٹھواں ادب
يہ ہے کہ اگر آپ معززشخصيات کی مجلس ميں بيٹھے ہوں.... اور اُسی بيچ کال آجائے تو
مناسب يہ ہے کہ ايسی جگہ پر موبائل کو آہستہ سے سائلنٹ کر ديا جائے ۔ اور اگرکوئی ضروری کال ہوتو اجازت لے کر باہر نکل جائيں ، پھر بات
کريں ۔بڑوں کی مجلس ميں بيٹھے ہوئے فون کا جواب دينے لگنا مناسب نہيں ۔ ہاں! اگر
دوست واحباب کی مجلس ہو‘ تو مجلس کے اندر ہی بات کرنے کی گنجائش ہے بشرطيکہ اجازت
لے لی جائے ۔
٪فون کے آداب ميں سے نواں ادب
يہ ہے کہ بات ہلکی آواز ميں کرنی چاہئے ، بشرطيکہ سنی اور سمجھی جا سکتی ہو۔ کچھ
لوگ جب فون پربات کرتے ہيںتو اس قدر بلند آواز ميں بات کرتے ہيں کہ گويا وہ فون کے
ذريعہ نہيں بلکہ ڈاٹرکٹ اپنی بات ہندوستان يا پاکستان يا کويت ميں اُس شخص تک
پہنچانا چاہتے ہيں۔ حالانکہ فون پر درميانی آواز ميں بات کريں تو اچھی طرح سنی
جاسکتی ہے ۔جتنا زيادہ تيز آواز ميں بوليں گے اُتنی ہی بات سمجھ ميں نہيں آتی -
٪ فون کے آداب ميں سے دسواں ادب
يہ ہے کہ موبائل فون عام جگہوں پر نہ رکھے جائيں ، کيونکہ ہوسکتا ہے کہ کوئی دوسرا اُسے اٹھاکر استعمال کرنے لگے يا
بچے کسی ايسے شخص کو فون لگا ديں جنہيں فون نہيں کرنا چاہئے تھا ۔ يا ہوسکتا ہے کہ
اُس ميں کسی طرح کے راز کی بات ہو جسے دوسروں کا جاننا پسند نہ کرتے ہوں، يا ايسے
ايس ايم ايس يا فوٹوز ہو ں جو آپ کے اہل خانہ کے ہوں اور دوسرا غلط نظريہ سے اُسے
ديکھنے اور سوچنے لگے ۔ اِن سارے شبہات سے بچنے کا واحد طريقہ يہ ہے کہ موبائل فون
ہر جگہ نہ رکھا جائے ۔ اُسی طرح ايک شخص کو چاہئے کہ دوسرے کا موبائل فون اُس کی
اجازت کے بغير استعمال نہ کرے اور اگر اجازت ملنے پر استعمال کرتا بھی ہے تو اُسی
حد تک جس حد تک اُسے اجازت ملی ہے ۔
٪ فون کے آداب ميں سے گيارہواں
ادب يہ ہے کہ گھر ميں گارجين کے رہتے ہوئے نوجوان بچيوں کو فون اٹھانے نہ ديا
جائے، اِس سے بچيوں ميں بے راہ روی کے امکانات زيادہ ہوتے ہيں ۔ آپ جس قدر
بھی سوچيں کہ ہماری بچی عفت شعار ہے ليکن اِس کا کيا کريں گے کہ آج شيطان کے چيلے
ہر طرف دندناتے پھر رہے ہيں۔ عزت وآبرو کا خون ہو رہا ہے ۔ لہذاايسی صورت ميں ہم
کيسے مطمئن ہوسکتے ہيں....بلکہ مردوں کی موجودگی ميں عورتيں فون نہ اٹھائيں ۔ ہاں!
ضرورت کے تحت فون اٹھايا جا سکتا ہے اِس سے کسی کو اختلاف نہيں ليکن اِس تعلق سے
دھيان رکھنے کی بات يہ ہے کہ
عورتيں فون اٹھاتے وقت نرم لہجہ
ميں بات نہ کريں ايسا نہ ہو کہ بيمار دل انسان کسی طرح کا غلط خيال دل ميں بيٹھا لے ۔
ذرا غور کيجئے کہ اللہ تعالی نے نبی کی بيويوں کو حکم ديا کہ جب وہ دوسروں سے بات
کريں تو دبی زبان ميں بات نہ کريں: ان اتقيتن
فلاتخضعن بالقول فيطمع الذی فی قلبہ مرض وقلن قولاً معروفاً" اے نبی کی بيويو!.... اگر تم پرہيزگاری اختيار کرو تو نرم
لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل ميں روگ ہو ‘ وہ کوئی خيال کرے اور ہاں! قاعدے کے
مطابق کلام کرو ۔۔ حالانکہ انکے حال پرغورکرکے ديکھيے کہ وہ عہد نبوت ميں تھيں،
اور لوگوں کی ماو ں کی حيثيت رکھتی تھيں ، اُنکے تئيں کسی کے دل ميں غلط خيال بيٹھ
نہيں سکتا تھا.... اُس کے باوجود يہ حکم ديا جا رہا ہے ۔ اب اِسی سے آپ اندازہ
لگاسکتے ہيں کہ ہماری بہينيں اور بيٹياں اِس حکم کی کس قدر مخاطب ہو سکتی ہيں ۔
ہميں يہ باور کرنا چاہئے کہ شريعت دراصل فطرت کی آواز ہے....فطری طور پر عورت کی
آواز ميں دلکشی، نرمی، اور نزاکت پائی جاتی ہے .... اِسی ليے عورتوں کو يہ حکم ديا
گيا کہ مردوں سے گفتگو کرتے وقت ايسا لب ولہجہ اختيار کيا جائے جس ميں نزاکت اور
لطافت کی بجائے سختی اور روکھاپن ہو‘ تاکہ کسی بدباطن کے دل ميںبُرا خيال پيدا نہ
ہو۔
اُسی طرح سن شعور کو پہنچنے سے
پہلے بچوں کوبھی فون اٹھانے نہ ديا جائے ۔ اگر بچے ہوشيار بھی ہوں تب بھی انہيںپہلے فون اٹھانے کا طريقہ
سکھائيں ۔ اُسکے بعد انہيں اٹھانے کی اجازت ديں ۔ بسااوقات ايسا ہوتا ہے کہ آپ کسی
اہم ضرورت سے کسی کے ہاں فون کريں فون اٹھانے والا گھر کا بچہ ہوگا جو اپنے انداز
ميں بات کرتا ہوتا ہے ۔ منٹوں کے بعد بات سمجھ پاتا ہے اور کبھی وہ بھی نہيں سمجھ
پاتا ۔ ....کچھ خبيث طبيعت کے لوگ تو بچوں سے راز کی باتيں بھی معلوم کرنے لگتے
ہيں ۔ ظاہر ہے اِس کا واحد علاج يہ ہے کہ بالکل چھوٹے بچوں کو فون اٹھانے نہ ديا
جائے ۔
٪فون سے متعلق ايک آخری نکتہ نوٹ
کرنے کا يہ ہے کہ گفتگو کرنے والے کی بات کو ريکارڈ کرنا ياموبائل کی آواز سب کے
سامنے آن کردينا تاکہ دوسرے اسے سنيں ۔ غلط ہے بلکہ يہ ايک طرح کی خيانت ہے ۔ کتنے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب
انہيں کوئی فون کرتا ہے تو اس کی آواز کو رکارڈ کرنے لگتے ہيں يا آواز کھول ديتے
ہيں تاکہ حاضرين اس کی گفتگو سنيں ۔ايسا کرنا سراسر غلط ہے ۔ کوئی دانا ايسا نہيں
کرسکتا ۔ ہاں اگر بات کرنے والے سے اجازت لے لی جائے ، اور گفتگو سب کے ليے مفيد
ہو تو ايسی صورت ميں آواز کھولنے ميں کوئی حرج نہيں ۔ علامہ ڈاکٹر بکر ابوزيد رحمه
الله اپنی کتا ب ”ادب الھاتف “ ميں لکھتے ہيں: لايجوز
لمسلم يرعی الامانة ويبغض الخيانة ان يسجل کلام المتکلم دون اذنہ وعلمہ مھما يکن
نوع الکلام دينيا او دنيويا ”ايسامسلمان جوامانت کی رعايت کرتا ہو اور خيانت کو ناپسند کرتا ہو‘
اس کے ليے قطعاً جائز نہيں کہ گفتگو کرنے والے کی بات کو اس کی اجازت اوراسکے علم
کے بغير ريکارڈ کرلے خواہ گفتگو جس نوعيت کی ہو۔ دنيوی ہو يا دينی جيسے فتاوی اور
علمی مباحث وغيرہ “
محترم قارئين ! موبائل فون کے
آداب سے متعلق يہ تھيں چند باتيں !!! جنہيں سرسری طور پر ہم نے بيان کيا ہے ....
اخير ميں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہميں زندگی کے ہر معاملے ميں دينی بصيرت عطا
فرمائے آمين يا رب العالمين
0 تبصرہ:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔