اتوار, نومبر 17, 2013

صبر كا پهل ميٹها ہوتا ہے

صبر لغوی اعتبار سے نفس کو جزع فزع سے روک لينے کا نام ہے ، اور شريعت کی اصطلاح ميں نفس کو اطاعت کی پريشانيوں، آلام ومصائب، اور گناہ کے علاوہ ہر قسم کے ضررپرروک لينا ہے ۔ (امام راغبؒ لکھتے ہيں :
الصبرحبس النفس علی ما يقتضيہ العقل والشرع.
" شريعت اور عقل جس بات کی متقاضی ہے اس پر نفس کو روک لينا صبر ہے" ۔ لفظ صبر کا ذکر قرآن کريم ميں 99 جگہ پر آياہے اور اس کی طرف بے شمار خيروبھلائی اور درجات کی نسبت کی گئی ہے

صبر كى جامعيت:

صبرگوکہ تين حرفوں سے مل کربنا ہے اورہمارے ذہن ميں اس کا مفہوم بھی نہايت محدود ہوتا ہے تاہم صبر کا دائرہ نہايت وسيع ہے، لفظ صبر اپنے اندر بے پناہ معانی کو سموئے ہوا ہے بسا اوقات لفظ صبرکئی ايک معانی ميں استعمال ہوتا ہے ۔
  چنانچہ اگرحرام جنسی خواہشات پر صبرہوتواسے عفت کا نام ديا جاتا ہے،  اگر لڑائی کے ميدان ميں صبرہو تو اسے شجاعت کا نام ديا جاتا ہے،اگر سامان عيش وعشرت سے نفس کو لگام دے کرصبرکيا جائے تو اسے زہد کا نام ديا جاتا ہے، تھوڑے سے سامان دنيا پر نفس کو مطمئن کرليا جائے تواسے قناعت کا نام ديا جاتا ہے ۔ اگرغصے کو کنٹرول ميں کرليا جائے تو اسے بردباری کا نام ديا جاتا ہے، اگربدلہ لينے کی طاقت رکھتے ہوئے معاف کرديا جائے تواسے عفوودرگذر کا نام ديا جاتاہے۔ اگرہرجائز جگہ پر مال لٹايا جا رہا ہو تو اسے سخاوت کا نام ديا جاتا ہے ۔غرضيکہ عفت ، شجاعت، زہد، قناعت، بردباری، عفو درگذر،اور سخاوت سب ميں صبرکا معنی پايا جاتا ہے ۔

 صبر كے اقسام :

 شريعت اسلاميہ کی نظر ميں صبر يہ ہے کہ اللہ تعالی نے جن چيزوں کے کرنے کا حکم ديا ہے اور جن چيزوں سے روکا ہے دونوں کی تنفيذ ميں آنے والی پريشانيوں کو برداشت کيا جائے ،اسی کو اوامر اور نواہی کہا جاتا ہے ، يعنی احکامات کی انجام دہی ميں صبر اور منہيات سے رک جانے ميں صبر ، اسی طرح ديگر دنياوی آلام و مصائب پرصبرکرے اور نفس کو قابوميں رکھے ۔ اسی لئے علماء نے صبر کی تين قسميں بيان فرمائی ہے ٭اطاعت پر صبر٭معصيت پرصبر٭اور آلام ومصائب پر صبر
اطاعت پر صبر: کامطلب يہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسانوں کو جن احکامات کا مکلف بنايا ہے ان کی ادائيگی پر صبرکرنا،آپ جانتے ہيں کہ اطاعت کی انجام دہی نفس پر شاق گذرتی ہے ،اور ايسا اس وجہ سے کہ انسان کو اس کے بدلے جنت کی پرکيف نعمتيں ملنے والی ہيں جو کوئی گری پڑی چيز نہيں بلکہ اس  کے لئے قدم قدم پررياضت کی ضرورت ہے تب ہی تو فرماياگيا: وحفت الجنة بالمکارہ کيوں کہ جنت کو طبيعت پر گراں گذرنے والی چيزوں سے ڈھانپ ديا گيا ہے ، مثلاً فجر کی بيداری ہی کو ليجئے کہ اس وقت بيدار ہونا طبيعت پر نہايت گراں گذرتا ہے ليکن جو بيدار ہوتا ہے، نرم ونازک بستر کوچھوڑتاہے،اور وضو کرکے نماز فجر ادا کرتاہے وہ دراصل عبادت پر صبر کر رہا ہے ۔ اسی طرح زکاة ، روزے اورحج وجہاد کا معاملہ ہے ،جس ميں جان ومال کی قربانی مطلوب ہوتی ہے يہاں بندے کو صبر کی ضرورت ہے ،
اورتين حالات ميں اطاعت پر صبرکرنے کی ضرورت پڑتی ہے، اطاعت کی انجام دہی سے پہلے ،اطاعت کی انجام دہی کے درميان اور اطاعت کی انجام دہی کے بعد ، اطاعت کی انجام دہی سے پہلے صبر کی ضرورت ہے کہ ہمارا دل ريا ونمود سے خالی ہو اور اس ميں اخلاص وللہيت پائی جائے ، اطاعت کی انجام دہی کے بيچ صبر کی ضرورت ہے کہ اسے ارکان وواجبات اور سنن کی رعايت کرنے ہوئے ادا کيا جائے ۔ اور اطاعت کی انجام دہی کے بعد صبر کی ضرورت ہے کہ اسے پوشيدہ رکھا جائے اورنمود و نمائش کے چکرميں پھنس کر اسے دوسروں کے سامنے بيان کرتا نہ پھرے ۔
معصيت پر صبر: کا مطلب يہ ہے کہ اللہ تعالی نے جن چيزوں سے منع کيا ہے ان سے اپنے آپ کو روک لينے ميں صبرکرنا، يہ حقيقت ہے کہ منہيات کی طرف خواہشات کا ميلان ہوتا ہے ،انسانی طبيعت ميں ان کے ارتکاب کا داعيہ پيدا ہوتا ہے اور ايسا اس وجہ سے کہ جہنم کو شہوات سے گھيرديا گيا ہے،وحفت النار بالشہوات لہذا جب طبيعت ميں بُرائی کی تحريک پيدا ہو رہی ہو ايسے وقت ميں نفس کو لگام دينا اور خواہشات پرقابوپاليناہی صبر کا دامن تھامنا ہے۔
اور معصيت پر صبر اختيار کرنے ميں جو چيزيں معاون ثابت ہوتی ہيں ان ميں سرفہرست ہيں اللہ تعالی کی نگرانی کو ذہن ميں تازہ کرنا کہ وہ ہميں ديکھ رہاہے اور ہماری باتوں کو سن رہا ہے ،اسی طرح اللہ تعالی کی محبت کو دل ميں بيٹھانا،اس کی نعمتوں اور احسانات کو ذہن نشيں رکھنا،اس کے جلال و غضب کو ياد رکھنااور برے ساتھيوں سے کنارہ کشی اختيار کرنا يہ وہ اسباب ہيں جوايک بندے کے لئے ترک معصيت ميں معاون ثابت ہوتے ہيں ۔
مصائب پر صبر: صبر کی تيسری قسم آلام ومصائب پر صبر کا مطلب بالکل واضح ہے کہ دنيا ميں انسانوں کوجورنج وغم لاحق ہوتا ہے ،اُن پر جو مصيبتيں اور پريشانياں آتی ہيں انہيں انگيز کيا جائے‘ اور مصيبتيں مختلف طرح کی ہو سکتی ہيں فقروفاقہ، بيماری ، حادثے ،مال وجان کی تباہی،عزيزوقريب کی موت وغيرہ ان مصائب ميں انسان صبر کا دامن تھامے رکھے ۔
 صبر کے ان تينوں قسموں کی وصيت لقمان حکيم نے اپنے بيٹے کوکی تھی:
 يا بنی أقم الصلاة وامربالمعروف وانہ عن المنکرواصبرعلی ما أصابک إن ذلک من عزم الأمور (لقمان 17
"پيارے بيٹے ! تو نماز قائم رکھنا‘اچھے کاموں کی نصيحت کرتے رہنا‘برے کاموں سے منع کيا کرنا‘اورجومصيبت تم پرآجائے صبرکرنا يقين مان کہ يہ بڑی ہمت کے کام ميں سے ہے" ۔
اب سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ صبر کی ان تينوں قسموں اطاعت پر صبر ،معصيت پر صبر اور دنياوی آلام ومصائب پر صبر ميں افضل صبر کونسا ہے ؟ تو اس کا جواب يہ ہے کہ اوامر ونواہی پر صبر کرنا افضل ہے دنياوی مشکلات پر صبر کرنے سے کيوں کہ دنياوی مصائب پر صبر فاسق وفاجر اور مومن وکافر سب کر سکتا ہے جب کہ اوامر ونواہی کی تعميل پر صبر وہی بندہ مومن کر سکتا ہے جس کے اندرجنت کی طلب ہوگی اوراللہ تعالی کی نگرانی کا احساس ہوگا ۔
کيا آپ نے اس جماعت پر غور نہيں کيا جن کی بابت يہ بشارت آئی ہے کہ سات طرح کے لوگ بروز قيامت عرش الہی کے سايہ تلے ہوں گے جس دن اللہ تعالی کے سايہ کے علاوہ کوئی دوسرا سايہ نہ ہوگا ؟ اورايسا محض اس وجہ سے کہ وہ صبر وشکيب کا دامن تھامے رہے .... ظاہرہے کہ با اختيارحاکم کا تقسيم، اورفيصلے ميں عدل وانصاف کا دامن تھام کرصبرکرنا، نوجوان کا عبادت الہی اور اپنی خواہشات پرقابوپانے ميں صبرکرنا،ايک شخص کا مسجد ميں دل اٹکائے رکھنے ميں صبرکرنا،صدقہ کرنے والوں کا لوگوں کی نگاہوں سے مخفی رکھ کر صدقہ کرنا،اور جسے بدکاری کی طرف دعوت دی گئی اس کا دعوت دينے والی کے حسن وجمال اور منصب کی پرواہ کيے بغيراس کی دعوت پر لات مار کرصبرکرنا،اور دو آپس ميں اللہ کی خاطر محبت کرنے والوں کا حب الہی ميں صبر کرنا، اور اللہ تعالی کی خشيت سے گرنے والے آنسووں کوچھپاکررکھنے ميں صبرکرنا دراصل صبر کی نہايت پُرمشقت اورگراں ترين قسم ہے۔ (ابن قيمؒ)

 صبر کے ثمرات:

صبرايسا خزانہ ہے کہ جس نے اسے پاليا اس نے ہر بھلائی کی پيشانی تھام لی،ايسا لشکرہے جو کبھی شکست نہيں کھاتا،ايسا چشمہ ہے جوحقيقی معنوں ميں پياس کو بجھاتا ہے ۔ ايسی تلوار ہے جس کا نشانہ کبھی خطا نہيں ہوتا ،ايسی سواری ہے جو کبھی ٹھوکر نہيں کھاتی ، اور ايسا مضبوط قلعہ ہے جس ميں حفاظت يقينی ہے۔ صبر اور کاميابی دونوں سگے بھائی ہيں ،صبر کے بعد مددآتی ہے اور تنگی کے بعد کشادگی آتی ہے ۔
صبر کے ثمرات و فوائد لازوال اوربے مثال ہيں ،صبر کرنے والوں کے دونوں ہاتھ  ميں لڈو ہے، دنيا ميں اس کا اچھا بدلہ ملتا ہے اور آخرت کی کاميابی
 نصيب ہوتی ہے ۔ تو ليجئے صبر کے کچھ  فوائد  سماعت  فرمائيے!
صبر کرنے والوں کو اللہ تعالی کی معيت نصيب ہوتی ہے: ( ان اللہ مع الصابرين) (البقرہ 153) اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔
صبرکا اجروثواب انگنت ہے: انما يوفی الصابرون اجرھم بغير حساب ۔(الزمر10) صبر کرنے والوں کوان کا پورا پورا بے شمار اجر ديا جاتا ہے ۔
صبرمحبت الہی کے حصول کا سبب ہے : واللہ يحب الصابرين (آل عمران 126) اللہ تعالی صبر کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے ۔
صبر دين کی امامت وپيشوائی کا سبب ہے : وجعلنا منھم ائمة يھدون بامرنا لما صبروا (السجدہ 26) اور ہم نے ان ميں سے ايسے پيشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدايت کرتے تھے چوں کہ ان لوگوں نے صبر کيا تھا۔
 صبر کاميابی کے حصول کا سبب ہے: يا أيهالذين آمنوا اصبروا وصابروا ورابطوا واتقوا اللہ لعلکم تفلحون (آل عمران200 ) "اے ايمان والو! تم ثابت قدم رہو اور ايک دوسرے کو تھامے رکھواور جہاد کے لئے تيار رہو تاکہ تم مراد کو پہنچو"۔
 صبر مدد اور توشہ ہے: واستعينوا بالصبر والصلاة کہ نماز اور صبر کے ذريعہ مدد طلب کرو ۔ جس کے اند ر صبروشکيب نہيں اُسے مدد نہيں ملتی ۔
اللہ تعالی نے صبر کرنے والوں کواکٹھے تين انعامات کی بشارت دی ہے جس کی بشارت دوسروں کو نہيں دی گئی ‘وبشر الصابرين الذين اذٓ اصابتھم مصيبة قالوا انا للہ وانا اليہ راجعون ، اولئک عليھم صلوات من ربھم ورحمة واولئک ھم المھتدون (البقرہ 157-155) اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے ديجئے جنہيں‘جب کبھی کوئی مصيبت آتی ہے تو کہہ ديا کرتے ہيں کہ ہم تو خود اللہ تعالی کی ملکيت ہيں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہيں ، ان پر ان کے رب کی نوازشيں اور رحمتيں ہيں اور يہی لوگ ہدايت يافتہ ہيں ۔
کسی اللہ والے کو پيش آمدہ مصيبت ميں تسلی دی گئی توانہوں نے کہا :آخر ميں صبر کيوں نہ کروں جبکہ اللہ تعالی نے صبر کے بدلے ہم سے تين خصلتوں کا وعدہ کيا ہے جن ميں ہر خصلت دنيا ومافيہا سے بہتر ہے ۔ اور وہ تين ہيں اللہ تعالی کی نوازشيں، اس کی رحمتيں، اور اس کی ہدايت ۔
اللہ تعالی نے صبر کرنے والوں کے لئے دشمنوں پر مدد کی ضمانت لی ہے: بلی ان تصبروا وتتقوا ياتوکم من فورھم ھذا يمددکم ربکم بخمسة آلاف من الملائکة مسومين. (آل عمران 125) کيوں نہيں‘اگر تم صبر وپرہيزگاری کرواور يہ اسی وقت تمہارے پاس آجائيں تو تمہارا رب تمہاری امداد پانچ ہزار فرشتوں سے کرے گا
جنت ميں فرشتے صبر کرنے والوں کو سلام کريں گے: سلام عليکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار (الرعد 26) جنت ميں ان کے پاس فرشتے ہر ہر دروازے سے آئيں گے اور کہيں گے کہ تم پر سلامتی ہو اس صبر کے بدلے جو تم نے دنيا ميں کياتھا‘کيا ہی اچھا بدلہ ہے‘آخرت کا ۔

 مومن كى آزمائش ہوتى ہے :

دنيا ميں کون ايسا انسان ہے جسے تکليف نہ آتی ہو ؟ جسے رنج وغم لاحق نہ ہوتا ہو ؟ يہ تو دنيا کی ريتی ہے ، يہاں رہنا ہے تو کبھی خوشی تو کبھی غم ، کبھی پريشانی تو کبھی بدحالی ، کبھی سکھ تو کبھی چين يہ انسان کے ساتھ لازم ملزوم ہے 
گو سراپا عيش وعشرت ہے سراب زندگی
اشک بھی رکھتا ہے دامن ميں سحاب زندگی
 البتہ مومن اور کافر کے کردار ميں يہاں فرق يہ ظاہر ہوتا ہے کہ کافر رنج وغم کی تاب نہ لاکر ہوش وہواس کھو بيٹھتا ہے ، مايوسی کا شکار ہو جاتا ہے اور کبھی غم کی تاب نہ لاکر خودکشی کرليتا ہے جبکہ مومن بڑے بڑے مصائب پربھی چيں بجبيں نہيں ہوتا ،اور صبرکا دامن تھامے رہتا ہے وہ سوچتا ہے کہ جو کچھ ہوا اللہ تعالی کی حکمت ومصلحت سے ہوا اور اللہ تعالی اپنے بندہ کے لئے اچھا ہی کرتا ہے اس طرح اُسے غم کی چوٹ ميں بھی عجيب لذت آنے لگتی ہے۔
صحيح مسلم ميں اللہ کے رسول صلي الله عليه وسلم نے مومن کی اسی کيفيت کو بيان کيا ہے :
عجبا لأمرالمؤمن إن أمرہ کلہ لہ خير إن أصابتہ سراء شکر فکان خيرا لہ وإن أصابتہ ضراء صبرفکان خيرا لہ.
" مومن کا معاملہ کيا ہی خوب ہے وہ ہرحال ميں خيرہی سميٹتا ہے اگراسے خوشی پہنچتی ہے تو شکر کرتا ہے اور يہ خوشحالی اس کے لئے خير کا سبب بنتی ہے ۔اور اگر وہ دکھ ،بيماری ،اور تنگ دستی سے دوچارہوتاہے تو صبرکرتاہے چنانچہ يہ آزمائش اس کے حق ميں خيرثابت ہوتی ہے" ۔
  دنيا مسائل ہی کا نام ہے ، اس سرائے فانی ميں کون ايسا انسان ہے جو ہميشہ خوش وخرم رہتا ہو،کون ايسا گھر ہے جہاں ماتم نہ ہو، مصيبتيں، پريشانياں، آفتيں،آلام ومصائب زندگی کا اٹوٹ حصہ ہيں ۔اگر يہ مصيبتيں کسی فاسق وفاجر پر آتی ہيں تو يہ اس کے کالے کرتوت کا نتيجہ ہوتی ہيں ، اور اگر کسی بندہ مومن پر آتی ہيں تو يہ اس کے ايمان کی علامت ہوتی ہے ، اللہ تعالی بندے سے جس قدر محبت کرتا ہے اسی قدر اسے آزماتا ہے ۔ لہذا ہميں غور کرکے ديکھنا چاہيے کہ اگر ہم پر کسی طرح کی مصيبت آئی ہوئی ہے، ملازمت سے محروم ہيں، ياسالوں سے بيمار ہيں ،ياجسم وجان سے مجبور ہيں جبکہ ہمارا تعلق اپنے خالق ومالک سے مضبوط ہے تو ہميں سمجھ لينا چاہيے کہ اللہ تعالی ہم سے محبت کرتا ہے اور ہميں آزماکراپنا مقرب بنانا چاہتا ہے ۔ ذرا سنيے کچھ بشارتيں زبان نبوت سے
آپ صلي الله عليه وسلم نے فرمايا : من يرد اللہ بہ خيرا يصب منہ اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے مصيبت ميں گرفتا رکرديتا ہے ۔ گويا کہ بندہ مومن کامصيبت سے دوچار ہونا اس کے لئے نيک فال ہے ، حب الہی کی علامت ہے ، سزا يا عذاب نہيں ۔
آپ صلي الله عليه وسلم نے يہ بھی فرمايا:
 إذا أراد اللہ بعبدہ الخير عجل لہ العقوبة فی الدنيا وإذا أراد اللہ بعبدہ الشرأمسک عنہ بذنبہ حتی يوافی بہ يوم القيامة.
اللہ تعالی جب اپنے بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تواس کے گناہوں کی سزا دنيا ميں ہی دے ديتا ہے ‘ اور جب اللہ تعالی اپنے بندے کے ساتھ شرکا ارادہ فرماتاہے تواس کے گناہ کی سزا روک ليتا ہے ، اُس کا پورا پورا بدلہ قيامت کے دن دے گا ۔
اور ايک دوسری روايت ميں آپ صلي الله عليه وسلم نے فرمايا:
 إن عظم الجزاء مع عظم البلاء وأن اللہ اذا أحب قوما ابتلاھم فمن رضی فلہ الرضاء ومن سخط فلہ السخط ۔
 يعنی جتنی بڑی مصيبت ہوگی اُتنا ہی بڑا ثواب ملے گا ، اور اللہ تعالی جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو اسے مصيبتوں ميں ڈال ديتا ہے ۔ جو شخص اس سے راضی ہوا اور اپنا معاملہ اللہ کے حوالے کرديا تواس کے لئے رضامندی ہے اور جوناراض ہو اس کے لئے ناراضگی ہے۔
ايک مرتبہ حضرت سعدرضي الله عنه نے حضور پاک صلي الله عليه وسلم سے پوچھا : يا رسول اللہ وہ کون لوگ ہيں جن کی آزمائش سب سے زيادہ ہوتی ہے ؟ آپ نے جواباً فرمايا : الأنبياء، ثم الأمثل فالأمثل . "أنبياء کی آزمائش سب سے زيادہ ہوتی ہے پھرمقام ومرتبہ کے اعتبار سے جو جتنا زيادہ نيک اور اچھا ہوگا اسی اعتبار سے اس کی آزمائش ہوگی" ۔
اگرآدمی کا دين کمزور ہے تواسی اعتبار سے اس کی آزمائش ہوگی ،آدمی کو اس کے دين کے اعتبار سے آزمايا جائے گا ، اگر اس کا دين ٹھوس ہے تو اس کی آزمائش سخت ہوگی ، اور اگر اس کے دين ميں نرمی ہے تو اسی اعتبار سے اس کی آزمائش ہوگی ۔ پھر آپ نے فرمايا :
فما يبرح البلاءعلی العبد حتی يترکہ يمشی علی الأرض ما عليہ خطيئة.
مصيبت آدمی کے ساتھ لگی رہتی ہے يہاں تک کہ وہ زمين پر چلتا پھرتا ہے اور اس کے اوپر گناہ نہيں ہوتا يعنی صبر کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی اس کے گناہوں کو معاف کرديتا ہے ۔
ان آحاديث پر غور کيجيے اور اندازہ لگائيے کہ جو لوگ ايمان رکھتے ہوئے مصيبت سے دوچار ہيں وہ درحقيقت خوش نصيب ہيں، خوش بخت ہيں، وہ اللہ کے مقرب بندے ہيں، ہميں ان آحاديث سے يہ بھی معلوم ہواکہ بندہ جس قدر ايمان کا پکا ہوتا ہے اسی قدر اس کی آزمائش بھی ہوتی ہے ۔ کيوں کہ مصائب گناہوں  کومٹاتے ہيں اور بندہ مومن چوں کہ اللہ تعالی کا محبوب ہوتا ہے اسلئے اللہ تعالی چاہتا ہے کہ بندے کو گناہوں سے پاک و صاف کرديا جائے تاکہ وہ آخرت کی رسوائی سے بچ سکے ۔
يہ آحاديث ايسے لوگوں کے ليے تازيانہ عبرت ہيں جو مصيبت ميں پريشان ہوجاتے ہيں ، ہاتھ پير مارنے لگتے ہيں، اول فول بکنے لگتے ہيں ، اللہ تعالی سے شکوی شکايت کرنے لگتے ہيں ، بلکہ بسا اوقات کفر يہ کلمات تک بول جاتے ہيں ۔ حالاں کہ ہونا يہ چاہيے کہ مصيبت زدہ صبر سے کام لے ،پريشانيوں کو انگيز کرے، اللہ کے فيصلے پر راضی برضا رہے ، اور يہ يقين کرے کہ اللہ تعالی اپنے بندے کے لئے ہر حال ميں اچھا ہی چاہتا ہے۔
اور ہم نے ابھی عرض کيا ہے کہ مصيبتيں انسان کے گناہوں کو مٹا ديتی ہيں بلکہ انہيں جنت کا وارث بناتی ہيں ۔ اگر بندہ مومن کو حقيقی معنوں ميں اس کا احساس ہوجائے تو اس کی خواہش ہوگی کہ وہ ہميشہ مصيبتوں ميں گھرا رہے : صحيح بخاری کی روايت ہے:
حضرت عطاء بن رباح کہتے ہيں کہ ايک دن مجھ سے حضرت ابن عباس رضي الله عنهما  نے کہا : ألا أريک إمرأة من أھل الجنة کيا ميں تجھ کو جنت کی ايک عورت نہ دکھاوں؟ ميں نے کہا : کيوں نہيں ضرور دکھائيے ! کہا : ديکھو ! يہ جو کالی کلوٹی عورت ہے ‘ يہ ايک بار نبی اکرم صلي الله عليه وسلم کی خدمت ميں حاضر ہوئی اور بولی : يا رسول اللہ ! مجھے مرگی کا ايسا دوڑہ پڑتا ہے کہ تن بدن کا ہوش نہيں رہتا ، اور ميں اس حالت ميں بالکل ننگی ہو جاتی ہوں ، يا رسول اللہ ! ميرے لئے اللہ تعالی سے دعا کر ديجئے ! آپ صلي الله عليه وسلم نے اس خاتون سے فرمايا : اگر تم تکليف کو صبر کے ساتھ  برداشت کرتی رہو تو اللہ تعالی تمہيں جنت سے نوازے گا اور اگر چاہو تو ميں دعا کردوں کہ اللہ تعالی تمہيں اچھا کر دے گا ۔ يہ سنکر خاتون بولی : يا رسول اللہ ميں اس تکليف کو تو صبر کے ساتھ  برداشت کرتی رہوں گی البتہ يہ دعا فرماديجيے کہ ميں اس حالت ميں ننگی نہ ہوجايا کروں ۔ چنانچہ نبی اکرم صلي الله عليه وسلم نے اس کے لئے دعا فرمائی ۔
ذراغورکيجئے کہ حديث ميں مصيبت پر صبر کرنے کے بدلے جنت کی بشارت دی گئی ، جس سے معلوم ہوا کہ شدت پرعمل کرنا رخصت پر عمل کرنے سے بہتر ہے ليکن يہ اس شخص کے لئے ہے جس کے اندر عزيمت ہو ، قوت برداشت رکھتا ہو، اور شدت پر عمل کرنے ميں کمزور نہ پڑے ۔
 آل واولاد يا اعزہ واقارب کی موت پربھی شريعت کا حکم ہے کہ صبر وشکيبائی کا دامن تھامے رکھيں ، کيوں کہ جان اللہ تعالی کی امانت ہے جب چاہے وہ اسے اپنے پاس لوٹا سکتا ہے ۔
کہتے ہيں کہ ايک مولوی صاحب تھے ،ايک دن ان کی اہليہ کا انتقال ہو گيا ، انہيں اپنی بيوی کی موت کا اس قدر غم لاحق ہوا کہ انہوں نے گھر بند کر ليا اور سوگ منانے لگے ،ايک خاتون کو جب اس کی اطلاع ملی تو وہ ان کے دروازے پر آئی ، دستک ديا ، بہت اصرار کے بعد مولوی صاحب نے دروازہ کھولا ، اور جھنجھلا کر خاتون سے پوچھا کہ کہو کيا چاہئے ؟ خاتون نے کہا : ايک بہت ضروری مسئلہ ہے اسی سے متعلق معلومات لينے آئی ہوں مولوی صاحب نے کہا : بولو ! کيا مسئلہ ہے ؟ خاتون نے کہا : بات يہ ہے کہ ہمارے پاس ايک صاحب نے اپنی ايک امانت رکھ  چھوڑا تھا آج وہ اچانک ميرے پاس آئے اور اپنی امانت لے کر چلے گئے ۔ اسی کا مجھے بہت افسوس ہے ۔۔ مولوی صاحب نے کہا: بھئی ! اس ميں افسوس کرنے کی کيا بات ہے ؟ جب صاحب امانت اپنی امانت لے کر چلا گيا تو پھر تم افسوس کيوں کر رہی ہو ۔ خاتون نے ترکی بترکی جواب ديا : مولانا آپ کی بيوی بھی توآپ کے پاس اللہ تعالی کی امانت تھی اب جبکہ انہوں نے اپنی امانت واپس کر لی ہے تو آپ ماتم ميں کيو ں پڑے ہوئے ہيں ؟ تب جاکر مولوی صاحب کو احساس ہوا کہ واقعی ہميں صبر کرنا چاہئے تھا۔
ليکن اللہ رب العالمين کا کرم ديکھو کہ جب وہ ہميں دی ہوئی امانت اپنے پاس لوٹا ليتا ہے اور ہم اس پر صبر کرتے ہيں تو ہميں بے پناہ بشارتوں سے بھی نوازتا ہے ۔ حضرت ابوموسی اشعری رضي الله عنه کا بيان ہے کہ اللہ کے رسول صلي الله عليه وسلم نے فرمايا :
جب بندے کا لڑکا مر جاتا ہے تو اللہ تعالی فرشتوں سے کہتا ہے : کيا تم لوگوں نے ميرے بندے کے لخت جگر کو چھين ليا ؟ وہ کہتے ہيں : ہاں ‘ اللہ تعالی پوچھتا ہے : اس پر اس نے کيا کہا ؟ فرشتے کہتے ہيں کہ اس نے انا للہ وانا اليہ راجعون کہا اور تيری حمد وثنا کی ، اللہ تعالی کہتا ہے : ابنوا لہ بيتا فی الجنة وسموہ بيت الحمد اس کے ليے جنت ميں ايک گھر بنادو اور اس کا نام بيت الحمد يعنی تعريف کا گھر رکھو (ترمذی)
بلکہ يہی جگر گوشے جو آج آپ کی نظروں کے سامنے مر گيے ہيں اور آپ نے صبر کا دامن تھامے رکھاہے تو کل قيامت کے دن آپ کواپنے ساتھ جنت ميں لے جائيں گے ۔ آپ صلي الله عليه وسلم نے ايک مرتبہ انصار کی عورتوں کو نصيحت کرتے ہوئے فرمايا تھا : ما منکن امراة تقدم ثلاثا الا کانوا لھا حجابا من النار اگر کسی عورت کے تين بچے مر جائيں تو يہ اولاد ان کے لئے جہنم سے پردہ ہوجائے گی ، ايک عورت نے کہا : کسی کے دو مرگئے ہوں تب ، اے اللہ کے رسول ميرے تو دو بچے فوت ہوئے ہيں ، آپ نے فرمايا : ہاں دو بچے بھی جہنم سے پردہ ہوجائيں گے ۔ اور صحيح مسلم کی روايت ميں اللہ کے رسول صلي الله عليه وسلم نے فرمايا کہ
 يہ بچے جنت کے مکين ہوں گے ، جب اپنے والدين کو ديکھيں گے تو ان کے کپڑے کا چھوڑ پکڑ ليں گے اور اس وقت تک جدا نہ ہوں گے جب تک کہ اللہ تعالی اس کو اور اس کے والدين کو جنت ميں داخل نہ کردے ۔
سبحان اللہ ! کيا کيا بشارتيں ہيں صبر کرنے والوں کے لئے ۔ ليکن صبر کے چند آداب ہيں ان کا پاس و لحاظ ضروری ہے

صبر کےآداب:

پہلا ادب يہ کہ جب کسی طرح کے رنج وغم کی خبر سنيں يا کوئی دکھ اور تکليف پہنچے تو فورا انا للہ وانا اليہ راجعون کہيں کہ ہم اللہ تعالی ہی کے لئے ہيں اوراسی کی طرف ہميں لوٹ کرجاناہے اور صبر وشکيب کا دامن تھام ليں کيوں کہ اصل صبر وہی ہے جو مصيبت کے پہلے جھٹکے کے وقت ہو ورنہ مصيبت کے لمحات لمبے ہونے کے
 بعد خود بخود صبر آجاتا ہے بخاری ومسلم ميں حضرت انس رضي الله عنه  کا بيان ہے کہ:
 نبی اکرم صلي الله عليه وسلم کا گذر ايک عورت کے پاس سے ہوا جو قبر پر بيٹھ کر رو رہی تھی ،اللہ کے رسول صلي الله عليه وسلم نے اس سے کہا : اللہ سے ڈرو اور صبرکرو‘ عورت نے کہا : دفع ہوجاؤتم ميری جيسی مصيبت سے دوچا ر نہيں ہوئے ۔ جب اسے پتہ چلا کہ نصيحت کرنے والے اللہ کے رسول صلي الله عليه وسلم تھے تو گويا اس پر موت طاری ہوگئی ، دوڑی دوڑی دربار نبوت ميں آئی اور عرض گذار ہوئی : يا رسول اللہ ميں آپ کو پہچان نہ سکی ، آپ نے فرمايا انما الصبر عند الصدمة الاولی کہ صبر مصيبت کے پہلے جھٹکے کے وقت ہے ۔
 يعنی مصيبت نازل ہوتے ہی صبر کرنا ہے ‘ اور صبر کا جو بے پناہ اجر وثواب رکھا گيا ہے وہ اِسی پر ملے گا ۔
صبر کے آداب ميں سے ايک يہ بھی ہے کہ غم کی شدت ميں کوئی ايسی حرکت نہيں کرنی چاہئے جس سے نا شکری کا اظہار ہوتا ہو: چلاچلا کر رونا، گريبان چاک کرنا، گالوں پر طمانچے مارنا، سينہ پيٹنايہ سب جاہلی طريقہ ہے ۔ سنن ترمذی کی روايت ميں آپ صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: ليس منا من ضرب الخدود وشق الجيوب و دعا بدعوی الجاھلية جو شخص گريبان چاک کرتا، گالوں پر طمانچے مارتا، اور جاہليت کی طرح چينختا اور چلاتا ہے وہ ميری امت ميں سے نہيں ۔
البتہ آنکھوں سے آنسووں کا گرنا صبر کے منافی نہيں نبی اکرم صلي الله عليه وسلم کے صاحبزادے ابراہيم رضي الله عنه  نبی اكرم صلي الله عليه وسلم کی گود ميں تھے ،اور جان کنی کا عالم تھا ، يہ رقت آميز منظر ديکھ کر آپ صلي الله عليه وسلم کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے آپ نے فرمايا :
اے ابراہيم ! ہم تيری جدائی سے مغموم ہيں مگر زبان سے وہی نکلے گا جواللہ تعالی کی مرضی کے مطابق ہوگا ۔
صبر کے آداب ميں سے ايک يہ بھی ہے کہ کسی کی موت پر تين دن سے زيادہ غم نہ منايا جائے: سنن ترمذی کی روايت ہے اللہ کے رسول صلي الله عليه وسلم نے فرمايا :
کسی مومن کے لئے يہ جائز نہيں کہ تين دن سے زيادہ کسی کا سوگ منائے ، البتہ بيوہ کے سوگ کی مدت چار مہينے دس دن ہے ،۔ لہذا ہر شخص کو چاہيے کہ مصيبت پر صبر کا دامن تھامے رہے اور دوسروں کو بھی صبر کی تلقين کرے ۔ يہاں ہميں حضرت ام سليم رضي الله عنها کا قصہ يا د آرہا ہے جس ميں ہماری ماؤں اور بہنوں کے لئے عبرت کا سامان ہے ۔
ام سليم رضي الله عنها حضرت ابوطلحہ رضي الله عنه کی بيگم تھيں، ان کے پاس ايک بچہ تھا، ابوطلحہ اپنے بچے کوبيماری کی حالت ہی ميں چھوڑ کر کہيں کام پرچلے گئے تھے،ان کے جانے کے بعد بچے کا انتقال ہو گيا ۔ ابوطلحہ کی بيگم نے لوگوں سے کہہ ديا کہ ابوطلحہ کو اطلاع نہ ہونے پائے ۔ وہ شام کو اپنے کام سے گھر واپس آئے تو بيوی سے پوچھا: بچے کا کيا حال ہے ؟ بوليں ! پہلے سے زيادہ سکون ميں ہے ۔ يہ کہہ کر ابو طلحہ کے لئے کھانا لائيں ، انہوں نے اطمينان سے کھانا کھايا اور ليٹ گئے ۔ صبح ہوئی تو نيک بيوی نے حکيمانہ انداز ميں پوچھا : 
جان من ! ذرا بتائيے اگر کوئی کسی کو عارية کوئی چيز دے دے اور پھر واپس مانگے توکيا اس کو يہ حق حاصل ہے کہ وہ اس چيز کو روک لے ؟
 ابوطلحہ رضي الله عنه نے کہا : بھلا يہ حق اسے کيسے حاصل ہوگا ، جس کی چيز ہے اسے حق ہے کہ وہ اپنی چيز واپس جائے۔ تب صابرہ بيوی نے کہا : توپھر اپنے بيٹے پر بھی صبر کيجئے ۔ يعنی اللہ کی امانت تھی اللہ تعالی نے اسے واپس لے ليا ۔
سبحان اللہ ! قربان جائيے ام سليم رضي الله عنها کے اس حکيمانہ طرز عمل پر اگرچہ جگر گوشہ فوت پا چکا ہے ، دل مغموم رہاہوگا، ليکن شوہر دور سے تھک ہار کر آيا تھا، اس کے ساتھ دلداری کی ضرورت تھی، چنانچہ جب انہيں پوری طرح سکون حاصل ہوگيا تو نہايت حکمت بھرے انداز ميں راز کھولتی ہيں  کيا ہماری مائيں اور بہنيں اس سے عبرت حاصل کريں گی ؟  

بہرکيف صبروشکيب انبياء واوليا اور اللہ والوں کی بنيادی صفت ہے ، حضرت ايوب عليہ السلام جذام کی بيماری پر صبر کرتے ہيں، حضرت يعقوب عليہ السلام بيٹے کی جدائی پر صبر کرتے ہيں، حضرت يوسف عليہ السلام تاريک کنويں ميں صبر کرتے ہيں، زليخہ کے فتنہ پرصبرکرتے ہيں، اورقيد خانے کی مصيبت پر صبرکرتے ہيں، حضرت ابراہيم عليہ السلام آگ کی مشقت برداشت کرتے ہيں اور بحکم الہی لخت جگر کی گردن پر چھری پھير ديتے ہيں، موسی عليہ السلام فرعون اوراسکی قوم کے ظلم وستم کا سامنا کرتے ہيں۔ حضرت عيسی عليہ السلام کے لئے صحرا اور بيابان کے علاوہ کوئی جائے پناہ نہ تھی جس ميں انتہائی تنگی اور پريشانی کی زندگی گزارتے تھے۔
اور صبر کے باب ميں سرکاردوعالم صلي الله عليه وسلم کا اسوہ حسنہ بھی ہمارے سامنے ہے ،جن کے راستے ميں کانٹے بچھائے گيے، گردن پر اونٹ کی اوجھڑياں ڈالی گئيں، پاگل ، مجنون اور ديوانہ کہہ کرپکاراگيا، طائف ميں لہولہان کيا گيا، غزوہ احد ميں آپ کے رباعی شہيد کئے گئے ليکن ہر قدم پر صبروشکيبائی کا دامن تھامے رہے ۔

توپھرہميں بھی ان ہی نفوس قدسيہ کو اپنا اسوہ بناناچاہيے. اللہ تعالی ہميں صبرجميل کی توفيق بخشے ۔آمين يا رب العالمين 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔